ایک خط، ہزار داستان

ایک خط، ہزار داستان

 

احسان قاسمی

نوری نگر ، خزانچی ہاٹ ، پورنیہ ( بہار ) انڈیا 854301
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مہشیلی

مورخہ 27 دسمبر 2015
میرے پیارے بیٹے
کل تمہاری برسی تھی – رات میں نے تمہیں دیکھا – لیکن وہ خواب نہ تھا ، حقیقت تھی – تم سورگ میں تخت طلائ پر براجمان ، سر پر ہیروں جڑا مکٹ پہنے ، اطلس و کمخواب کا لباس زیب تن کۓ راجہ اندر کی مانند دربار سجاۓ بیٹھے تھے – عود و عنبر کی خوشبو چہار جانب پھیلی تھی اور اپسرائیں تمہاری آرتی اتارنے میں سبقت حاصل کرنےکی آرزو دل میں لۓ ایک دوجے پر گری پڑتی تھیں – شراب طہور کے جام گردش میں تھے اور فرط مسرّت سے تم سرشار نظر آ رہے تھے – میں یہ خط تمہیں اس لیے نہیں لکھ رہا ہوں کہ یہ تم تک پہنچے ، مگر جانتا ہوں کہ پرمیشور سب کچھ دیکھتا ہے اس لۓ وہ میرا یہ خط بھی ضرور پڑھے گا. پرمیشور نےہمیں انسان بنا کر پیدا کیا – پھر ہم پر شودر کا ٹھپّہ لگا دیا گیا اور ہماری قسمت میں افلاس ، بھوک ، بیگاری ، ظلم و ستم اور استحصال لکھ دیا گیا – مذہب کے نام پر حیوانیت کی ساری حدیں توڑ ڈالی گئیں – ہمارے ساۓ تک کو اپوتر قرار دے دیا گیا اور مذہبی کتب کے اشلوک سننے کی پاداش میں ہمارے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جاتا رہا – ہماری فریاد سننے والا کوئ نہ تھا – اونچی ذات والے جن کے لۓ ہمارا سایہ تک ناپاک تھا ، ہماری عورتیں ناپاک نہ تھیں -پھر وہ دور بھی آیا جب ملک پر مسلمانوں نے قبضہ جمایا – حالات میں تھوڑی سی تبدیلی آئ لیکن مسلمانوں نے بھی اعلیٰ خاندان والوں سے ہی رشتہ داریاں کی ، کسی شودر کی بیٹی سے تو بیاہ نہ کیا اور نہ ہی شودر کو عملی طور پر مساوی درجہ دیا – گذرتے وقت کے ساتھ انگریزوں کا غلبہ ہوا – وہ بیوپاری تھے – انہیں اپنے دیش کے کل کارخانوں کے لیے خام مال درکار تھا – ہمارا علاقہ نیل کی کاشت کے لیے نہایت موزوں تھا لہٰذا پورے علاقہ میں اناج کی کاشت پر پابندی عائد کر دی گئ اورنیل کی کھیتی کے لیے کسانوں اور رعیتوں کو مجبور کر دیا گیا -بڑے بڑے نیل کے گودام بناۓ گیے جنہیں عرف عام میں نلہا کوٹھی کہا جاتا تھا – دلتوں اور کسانوں سے بیگار لیا جانے لگا – نیل کی لگاتار کھیتی سے زرخیز زمین بنجر ہونے لگی – لوگ دانے دانے کو محتاج ہو گئے – لاکھوں دلت ، کسان اور ان کے بچّے فاقہ کشی کی نذر ہو گئے -دلت پھر بھی ختم نہ ہوۓ – 1917ء میں مہاتما گاندھی نے چمپارن سے ستیاگرہ آندولن کی شروعات کی – نلہے انگریزوں کا آتنک کم ہوا تو مقامی زمین داروں کے ظلم و ستم کو عروج حاصل ہوا – بیگاری ، تشدد اور استحصال جاری رہا – زمین داروں نے انسانیت سوز مظالم ڈھانے میں کوئ کسر نہ چھوڑی – تاریخ نے وہ منظر بھی دیکھا ہے کہ کچّے بانس کے درمیان چیرا ڈال کر دلت عورتوں کے پستان پھنسا دۓ جاتے اور تب تک آزاد نہ کئے جاتے جب تک مال گذاری ، سود اور دیگر بقایہ جات من مانے ڈھنگ سے وصول نہ کر لئے جاتے یا عورت بیہوش یا جاں بحق نہ ہو جاتی – آزادی حاصل ہونے کے بعد حالات پہلے سے کچھ بہتر ضرور ہوۓ – دلتوں کو کچھ رعایات اور قانونی اختیارات بھی حاصل ہوۓ لیکن اونچی ذات ، اونچی پہنچ والوں کی آج تک ویسی ہی چلتی ہے – قانون کتابوں میں مقید اور انتظامیہ مفلوج ۔۔۔۔۔ اور اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا تمہیں انصاف نہ ملتا ؟ تمہارا قتل محض ایک اتفاقی حادثہ قرار دے کر معاملہ رفع دفع کر دیا جاتا ؟؟ ہر شخص جانتا ہے کہ تمہارا قتل زمین دار کے بیٹے نے ساتھیوں کی مدد سے کالج کے قریب واقع تالاب میں ڈبو کر کردیا کیوں کہ تم نے ریگنگ کی مخالفت کی تھی – اس واقعہ کا دوسرا سچ یہ بھی ہے کہ زمین دار کا مغرور بیٹا اس بات کو برداشت کرنے کے لئے قطعی تیار نہ تھا کہ اسی کے گاؤں کے ایک غریب دلت کمپاؤنڈر کا بیٹا اسکے ساتھ کالج میں پڑھ کر انجینئر کہلاۓ اور اس کی برابری کرے – تمہارے قتل کی گونج صوبائی اسمبلی تک پہنچی مگر لا حاصل – لیکن انسان یہ بھول جاتا ہے کہ پرمیشور سب کچھ دیکھ رہا ہے- اس کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں اور اس کی لاٹھی میں آواز نہیں – کل زمین دار کا وہی مغرور بیٹا جو دوستوں کے ساتھ چھٹیاں منانے گاؤں آیا ہوا تھا اور خود کو گبّر سنگھ کہلوانا پسند کرتا تھا ، نے جب کھیتوں میں گھوم رہے بد مست سرکاری سانڈ کے ساتھ چھیڑخانی کرنے کی کوشش کی تو سانڈ نے اس کے پیٹ میں اپنا سینگ گھسیڑ دیا -سارے ساتھی اسے زخمی حالت میں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوۓ – دلتوں نے اس کی جان بچائی – اٹھاکر گاؤں کے ہیلتھ سینٹر میں لاۓ لیکن تب تک خون کافی مقدار میں بہہ چکا تھا ، اتنا کہ بغیر خون چڑھاۓ شہر کے بڑے اسپتال تک لے جانا ممکن نہ تھا – زمین دار ، اسکے رشتہ دار اور لاٹھی بردار کسی کا بھی خون اس کے خون سے میچ نہ کرتا تھا – زمیندار کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور زمیندارن اکلوتے بیٹے کے غم میں پچھاڑیں کھا رہی تھی –
بیٹے ! میں کیا بتاؤں میرے لئے وہ کیسا خوش کن منظر تھا اور میرے کلیجے میں کیسی ٹھنڈک پڑ رہی تھی – قدرت اپنا انتقام لے رہی تھی – یکایک میرے دل میں یہ خیال آیا کہ پرمیشور تو شکتی شالی ہے – وہ سزا دینے پر قادر ہے لیکن ایک دلت جو ہزارہاسالوں سے شکتی ہین ہے ، اپنا انتقام کس طرح لے سکتا ہے ؟ اور پھر میں نے ایک بہت بڑا فیصلہ کر ڈالا – میں نے ڈاکٹر کو بتایا کہ میرا بلڈ گروپ ، آر ایچ فیکٹر وہی ہے جو سامنے پڑے مریض کا ہے – اگر زمین دار صاحب کو اعتراض نہ ہو تو میں مریض کو اپنے خون کا عطیہ دینے کو تیّار ہوں – زمین دار تھوڑی دیر کے لئے پس و پیش میں پڑ گیا لیکن بالآخر بیٹے کی محبت کے آگے سرنگوں ہو گیا – جانچ کے بعد میں نے اپنے بیٹے کے قاتل کو خون دیا تاکہ وہ شہر تک کا سفر طے کر سکے –
بیٹے ! مجھے نہیں معلوم کہ وہ اس وقت تک زندہ ہے یا نہیں ؟ اگر مر چکا تو اپوتر ہوکر مرا اور اگر زندہ ہے تو اسے وہ کام کرنا پڑےگا جو تمہیں کرنا تھا ۔۔۔۔۔ دلت نسل کو آگے بڑھانے کا کام !!
تمہارے پتا

شیئر کیجیے

One thought on “ایک خط، ہزار داستان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے