خزاں رسیدہ عصمت

خزاں رسیدہ عصمت

*کاشف شکیل*

مریم جوان تھی، بھر پور جوان۔ اس کے زرخیز دل پر آرزوؤں کا ساون برس رہا تھا۔ سلونی رنگت، بھرے اعضاء، شربتی نگاہ، مضبوط بدن مگر نزاکت سے لبریز۔ عمر کا پچیسواں سال اور قیامت خیز ادائیں۔
کریم بخش کو مریم کی جوانی کسی سانپ کی طرح محسوس ہوتی جو اس کے سینے پر لوٹ رہا ہو۔ آخر کریم‌ بخش اس کا باپ تھا وہ کب تک اپنی‌ اس بن بیاہی بٹیا کا بار اپنے کندھے پر اٹھائے پھرتا۔ محلے والوں کے طعنے اس کو چھلنی کر رہے تھے۔ وہ بھی اپنی پری کے ہاتھ حناء عروسی سے رنگین‌ دیکھنا چاہتا تھا۔ مریم کے لیے دو تین رشتے آئے۔ کریم بخش نے ہر امیدوار کو بلا چون و چرا اپنا داماد بنانے پر رضامندی ظاہر کی۔ مگر وہ تو ٹھہرا دوسرے کی زمین پر کاشت کرنے والا معمولی مزدور۔ وہ جہیز میں موٹر سائیکل کہاں سے دیتا۔
آج پھر پڑوس کے گاؤں سے ایک رشتہ آیا۔ لڑکا خوش شکل جوان تھا۔ کریم‌ بخش نے دل و جان سے ان کی ضیافت کی اور ان کو لڑکی پسند بھی آگئی۔
جاتے وقت لڑکے کے والد نے بتایا کہ ان کا بیٹا کوئی چھوٹی موٹی بزنس کرنا چاہتا ہے۔ اگر جہیز میں کم از کم پچاس ہزار کی رقم مل‌ جائے تو کوئی اچھی دوکان ڈال لے گا۔
یہ سن کر کریم بخش کو زوردار دھچکا لگا۔ اس کا دل تو چاہ رہا تھا کہ وہ ان بھکاریوں کو دھکے دے کر گھر سے بھگا دے۔ مگر وہ اس رشتے کو گنوانا نہیں چاہتا تھا اس لیے اس نے ہامی بھر لی۔
شادی کا دن قریب آتا گیا۔
مگر پیسوں کا معاملہ لاینحل بنا رہا۔
مریم سوچتی تھی کہ اس کا باپ سال بھر مزدوری کرے گا تب بھی پچاس ہزار نہیں کما سکتا۔ اس نے اپنے باپ کو بتایے بغیر گاؤں کے لالہ ساہوکار سے بات کی۔ لالہ پچاس سالہ تنومند انسان نما حیوان تھا جو مزدوروں کو قرض‌ دے کر بھاری شرح میں ان سے سود وصول کرتا تھا۔
لالہ نے مریم کو قرض دینے سے پہلے زیور یا زمین کا کاغذ طلب کیا۔ مگر مریم کے پاس تو کچھ نہیں تھا۔ لالہ صورت حال کی نزاکت سمجھنے کے بعد مریم کی نزاکت کی جانب متوجہ ہوا۔ اور جب اسے معلوم ہوا کہ مریم کو پیسوں کی سخت ضرورت ہے تو اس نے مریم کے جسم پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: "مگر تمھارے پاس عزت کا زیور اور جسم کی زمین تو ہے۔”
مریم نے ایک لمحے کے لیے اس کا ہاتھ جھٹکنا چاہا۔ اس نے سوچا کہ وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہے کہ اس کا نام مریم ہے یعنی تقدس کی دیوی، مرکز عصمت اور عفت مآب۔ مگر اگلے ہی لمحے اسے اپنے بوڑھے باپ کا مایوس چہرہ نظر آیا اور اس نے طے کیا کہ وہ اپنی روح پر ایک بھاری بوجھ اٹھا کر ہی سہی مگر اپنے باپ کے گراں بار کندھے کو راحت پہنچائے گی۔ اس نے نگاہیں جھکا کر خودسپردگی کر دی۔ پھر اسے وہ سب کچھ کرنا پڑا جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ لالہ کسی بھوکے بھیڑیے کی طرح اس پر ٹوٹ پڑا۔ شادی کے دن تک کئی بار مریم کا تقدس پامال ہوا۔ پچاس ہزار کے لیے اسے اپنی آبرو کی کئی قسطیں چکانی پڑیں۔
مریم کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔ محلے میں اس کی شادی کا چرچا تھا مگر یہ بات صرف مریم کو معلوم تھی کہ اس بہار کے لیے کتنی مرتبہ اس کی عصمت خزاں رسیدہ ہوئی تھی۔

 

کاشف شکیل غزلیں بھی خوب کہتے ہیں. ان کی غزلوں کے لیے ذیل کی لنک کھولیں.

 
غزل (اضطراب دل ناداں)

شیئر کیجیے