مخفی دیوار

مخفی دیوار

جاوید اختر ذکی خان
یونیورسٹی میں وہ میری کلاس فیلو تھی. وہ بھی ایم ایس سی کر رہی تھی ۔جتنا پیارا نام تھا اتنی ہی پیاری وہ. نہ جانے کیسے وہ مجھ سے عشق کر بیٹھی. وہ پیاری تو تھی لیکن میرے دل میں اس کے لئے کوئی نرم گوشہ نہیں تھا. وہ مجھ سے محبت کرتی ہے اس بات کی خبر پہلے پہل میرے دوست پون کمار جھا نے دی ۔چوں کہ میرے دل میں اس کے لئے کوئی جگہ نہ تھی سو میں یہ سب ایک کان سنتا اور دوسرے کان سے اڑا دیتا تھا.
میں یہ جانتا تھا کہ ہم جیسے طالب علم چھوٹے شہروں سے ملک کی راجدھانی اور بڑے شہروں میں پڑھنے آتے ہیں عشق کرنے نہیں.۔اس وقت میری عمر قریب چوبیس سال رہی ہوگی ۔ایک دن سنٹرل لائیبریری سے نکلتے وقت وہ سامنے آگئ۔مجھے دیکھتے ہی بولی میں بھی تمہارے شہر کی رہنے والی ہوں۔
میں نے بے دلی سے پوچھا کہاں رہتی ہو؟
اس نے کہا ۔۔۔”آدم پور”
اور تمہارا گھر کہاں ہے؟
میں نے جواب دیا "۔تاتار پور”
یعنی ہمارا آبائی شہر بھاگلپور ہی تھا۔
میں تم سے کچھ کہنا چاہتی ہوں ۔اس نے جھجھکتے ہوئے کہا۔
میں نے کہا. کہو!
وہ انگوٹھے سے زمین کریدتے ہوئے بولی میں تم سے پیار کرتی ہوں۔
میں نے بے رخی سے کہا کرتی رہو۔میں نے منع نہیں کیا۔پر اس عشق کے بدلے میں تمہیں عشق نہیں کر سکتا میرا مطلب عشق نہیں دے سکتا۔
کیوں؟ اس نے بڑا سا سوال کرڈالا۔
میں دوسرے دھرم سے تعلق رکھتی ہوں اس لیے؟
نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔
تم نہیں جانتی میں بچپن سے ہی اپنے خاندان کی لڑکی سے منسوب ہوں۔
وہ راج پوت تھی اور میں پٹھان.
اس دن کے بعد بھی ہم ملتے رہے اس نے پھر کچھ بھی نہیں کہا۔وقت کا دریا بہتے بہتے دور نکل گیا. ہم نے ماسٹرز مکمل کرلیا۔پھر میں سول سروس کی تیاری میں لگ گیا اور اس نے قانون کی پڑھائی شروع کر دی. سب دوست جدا ہوگئے۔
دس سال کی طویل مدت کے بعد اس دن میں نے اسے اپنے شہر کے کورٹ میں دیکھا۔وہ مجھے دیکھتے ہی میری جانب بڑھتی چلی آئی ۔
تم ؟ اس نے پھر بڑا سا سوال کیا.
ہاں ۔”میں ” میں نے مختصر جواب دیا۔
تم وکیل بن گئ ہو؟
ہاں ! اور تم آئی پی ایس؟اس نے تجسس سے پوچھا۔
نہیں، میں ٹیچر بن کر رہ گیا ہوں۔
وہ مسکرائی. ہاں! تم ٹیچر ہی بہتر لگتے ہو؟ ملک کے بچوں کو اچھے سے تعلیم دینا. دیکھو نا میں فی الوقت دو مختلف مذہب کے بچوں کا مسئلہ دیکھ رہی ہوں، جن پہ ‘لو جہاد’ کے تعلق سے مقدمہ چل رہا ہے.
میں نے افسوس کا اظہار کیا.
اور بات کا رخ موڑ دیا. شادی کی تم نے؟ میں نے سوال پوچھا.
"نہیں، جس سے کرنا چاہتی تھی اس نے منع کر دیا ہے. اس لیے اب تک کنواری ہوں۔”
مجھ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی. جیسے کسی نے میرے سینے پہ زور کا مکا مارا ہو. میں بالکل خاموش رہا. نظریں جھکا لی.
اس نے پھر سوال کیا۔تم نے تو شادی کر لی ہوگی بتاؤ کتنے بچے ہیں تمہارے؟
میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے آہستگی سے مگر توانا آواز میں کہا "دو بیٹے ہیں۔دونوں سنٹرل اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔ پھر میں نے فون کی گیلری میں ان کی تصویریں کھوج کر نکالی اور اسے دکھانے لگا۔ وہ موبائل میں تصویریں دیکھ رہی تھی اور میں کنکھیوں سے اسے دیکھ رہا تھا. اس کی آنکھوں میں نمی اتر رہی تھی۔
میں نے جلدی سے فون پیچھے کھینچ لیا. وہ دوسری جانب دیکھنے لگی ۔ پھر وہ ایک لمبی سانس کھینچتے ہوئے بولی ۔ تمہارا فیصلہ درست تھا۔ اگر تم مجھ سے شادی کرلیتے تو ہم چین سے جی نہیں پاتے اور ہمارے بچے ان مذہبی ہبی جنونیوں کے بھینٹ چڑھ جاتے ۔ یا پھر ہمارا ہی آنر کلنگ ہو جاتا۔کیا ہوا جو ہم جدا ہو گئے۔کیا ہوا جو ہم نے شادی نہیں کی ؟
پر ابھی ہم دونوں زندہ ہیں ۔ملک میں اتنی نفرت کے باوجود بھی میں تم سے ہیار کرتی ہوں تمہیں ہی پوجتی ہوں۔
میں متحیر کھڑا خاموشی سے اسے دیکھتا رہ گیا۔ واقعی وہ راجپوت تھی ۔
جس نے خود اپنے وعدے کو تنہا نبھانے کی ٹھان رکھی ہے۔اور اب پیار کے درمیان مذہب کی ایک مخفی دیوار حائل ہو چکی تھی۔

شیئر کیجیے

One thought on “مخفی دیوار

  1. افسانے میں سماج میں در آئی مذہبی عصبیت سے پیدا شدہ درد کی ایک زیریں لہر چلتی ہے اور یہی اس افسانے کی جان ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے