رہ نماؤں میں انسانیت کے لیے ہمدردی کا جذبہ اورروزمحشر جواب دہی کا خوف ہونا ضروری

رہ نماؤں میں انسانیت کے لیے ہمدردی کا جذبہ اورروزمحشر جواب دہی کا خوف ہونا ضروری


محمد انجم راہی۔کانکی، اسلام پور، مغربی بنگال
حکمرانوں یا لیڈروں کو جو چیزدیرپا قائم رکھتی ہے وہ اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی ہے۔ اللہ کی یہ رضا اور خوشنودی احسان و نیک اعمال میں مضمر رہتی ہے۔ اس کے حصول کا ذریعہ اور وسیلہ عدل اور انصاف پرستی کوسماج میں قائم کرنے کیلئے جدوجہد کرنا ہے۔اس کیلئے انسانیت سے ہمیشہ نیک سلوک کرنا ہوگا اور ان پر ظلم وستم نہ کیا جائے اور نہ ہی کرنے دیا جائے گا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ عوام‘ اس طرح کے منصف حکمرانوں یا لیڈروں کیلئے دعائے خیر کریں گے۔ یہی دعائیں حکومت کے استحکام کے ساتھ عام عوام کی ترقی کاموجب ہوگا، ساتھ ہی حکمراں یا لیڈروں کے تئیں دنیاوی ااعتبار سے نیک نامی اور اچھی شہرت کے ساتھ حشر کے دن محاسبہ میں بھی باعث افتخار کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ایک قول جو کافی مشہور ہے ”کفر کے باوجود ملک باقی رہ سکتا ہے لیکن ظلم وجبر کے ساتھ ملک باقی نہیں رہ سکتا۔“ اس کا مفہوم یہی ہے کہ ظلم وستم، کفر سے زیادہ ہلاکت آفرین ہوتے ہیں اور ان سے ملکی نظام دربرہم ہونے کے ساتھ انسانیت آپسی خلفشار میں گرفتار ہو کر ملک کے ملک تباہ وبرباد ہونے کاذریعہ بن جاتے ہیں۔ جب عوام یا سیاسی لیڈروں میں خوف خدا، اور منصفانہ و عادلانہ کردار کا خاتمہ ہوجائے تو اس معاشرے یا ملک سے خدائی احکام کے لحاظ سے عدل وانصاف کا خاتمہ کردیاجاتا ہے جس کی وجہ سے اس معاشرے یا ملک کے لوگوں میں باہمی اختلاف اور نزاع کی تلواریں بے نیام ہوجاتی ہیں۔انسانیت کا آپسی بغض وعناد کے ذریعہ آپس میں خون بہایا جاتا ہے اور پھر وہ معاملہ درپیش آتا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ اس لئے لیڈروں میں اگر کسی شخص سے کوئی بے انصافی یا حماقت سرزد ہوتو اُسے تنبیہ کرنی چاہئے، اگر یہ شخص تنبیہ کا اثر قبول کرلے تو اُسے اس کی جگہ قائم رہنے دیا جائے، اگر اس تنبیہ کا اثر نہ لے تو اسے اس کی جگہ سے ہٹا دیا جانا چاہئے اور اس کا منصب کسی دوسرے کو سونپ دینا چاہئے۔ عام عوام میں بھی اگر کچھ لوگ امن وآسائش کی ناقدری کرتے ہوئے سرکشی پر آمادہ ہوجائیں یا ان کے دلوں میں کھوٹ پیدا ہوجائے اور وہ اپنی حدوں سے تجاوز کرنے لگیں تو ان لوگوں کو ان کے افعال کی مناسبت سے سزا دینی چاہئے۔ اس کے علاوہ بنیادی سطح کے کاموں میں سرفہرست کام عوامی لیڈروں کو عوام کیلئے پینے کیلئے پانی انتظام، گاؤں دیہاتوں میں ندی و نالوں کا قیام، زمین کی سینچائی کیلئے مفید نہروں کا قیام، بہتے ہوئے دریاؤں میں عام عوام کی روز مرہ زندگی کی سہولت کیلئے پل بندھوانے کاکام، کچی سڑکوں کو پختہ کرنے کا کام، گاؤں دیہاتوں میں عام عوام کیلئے اچھی اور بہترین اسپتالوں کا قیام، انسانیت کی قابل بقا ترقی کو فروغ وپروان چڑھانے والے نصاب تعلیم کے ساتھ تمام گاؤں دیہاتوں میں اسکولوں کا منظم انتظام۔ ان مذکورہ بالاتعمیری کاموں میں دلچسپی لینے کا زمینی سطح پر اثر یہ ہوگا کہ ایسے لیڈروں کا نام ہمیشہ زندہ اور باقی رہے گا اور آخرت میں اسے ان کاموں کا اجر وثواب بھی ملے گا اور مستقل طورپر لوگ اسے دعائے خیر میں یاد کریں گے۔ اسلامی تاریخ کے مطابق: حضرت یوسف علیہ السلام نے اس عالم فانی سے رحلت کے وقت وصیت فرمائی تھا کہ ان کوان کے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مزار کے قریب سپرد خاک کیا جائے، اسی پر عمل کرتے ہوئے جب یوسفی تابوت کو مقبرہ براہیمی کے قریب لایا گیا، تو حضرت جبرئیل امین نے اس دفن پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یوسف علیہ السلام نے پیغمبری کے علاوہ بادشاہت کے فرائض بھی انجام دے ہیں اور یوسف علیہ السلام کو روزِ قیامت مملکت داری کا حساب وکتاب بھی چکانا ہے، لہٰذا یوسف علیہ السلام کوروضہ ء براہیمی کے قریب جگہ نہیں دی جاسکتی۔۔
عالم انسانیت کی دیرپاقابل بقا ترقی کے علمبردار محسن انسانیت پیغمبر محمد ؐ نے کہا ہے کہ روزحشر ہر اس نفس کو اس کے کئے کا حساب دینا ہوگا۔ سب کے ساتھ یکساں برتاؤ نہ ہوگا۔ جن حکمرانوں کے بارے میں ثابت ہوجائے گا کہ یہ اس دنیا میں عادل اور منصف رہ چکے ہیں ان کو انعام واکرام سے نوازا جائے گا۔ لیکن جن شورہ بختوں پر عدل وانصاف سے گریز ثابت ہوگا ان کو اس گناہ عظیم کا اجر گردن بستہ جہنم میں داخلے کے ذریعہ دیا جائے گا۔
حضرت عمر بن الخطابؓ پر جب نزع کا وقت قریب آیا تو عبداللہ بن عمرؓ نے اپنے پدرِ بزرگوار سے پوچھا کہ اب باپ بیٹے کی ملاقات کہاں اور کب ہوسکے گی؟ باپ نے جواب دیا”بیٹے اب تو دوسری دنیا ہی میں ملاقات ہوگی“۔ اس پر ابن عمرؓ نے کہا: ”میں تو اتنی تاخیر برداشت نہ کرسکوں گا، ملاقات جلد ہونی چاہئے“۔ تو باپ نے کہا: ’پہلی یا دوسری یا تیسری شب کو مجھے خواب میں دیکھو گے“۔ اس کے بعدابن عمرؓ نے دیدار پدر کا انتظار کرنا شروع کردیا۔ دوشب، تین شب گزر تے ہوئے تقریباً بارہ سال گزر گئے، مگر بیٹے کو باپ کی زیارت نہ نصیب ہوئی۔ بارہ سال بعد شرف دیدار حاصل ہوا توبیٹے نے شکایت کرتے ہوئے کہا: ”آپ نے تو فرمایا تھا کہ دوسرے یا تیسرے دن دیدار بخشیں گے، یہاں بارہ سال بیت گئے اور آپ اتنے سالوں کے بعد نظر آئے؟“۔ حضرت عمرؓ نے اس وقت جو جواب دیا وہ تمام عالم انسانیت کے حکمرانوں کے لئے دل دہلادینے والے ایک سبق سے کم نہیں ہے: حضرت عمرؓ نے کہا: ”بیٹے مت پوچھو کہ اس مدت میں مجھ پر کیا گزری۔ واقعہ یہ تھا کہ میرے دورِ حکمرانی میں بغداد میں ایک پل گر گیا تھا، لیکن اس سلسلہ میں ذرا بے احتیاطی برتی گئی تھی۔ چنانچہ ایک بکری کے بچہ کی ٹانگ اس ویران شدہ پل کے ایک سوراخ میں پھنس کر ٹوٹ گئی تھی، گویا یہ ظلم اس بے زبان پر اس لئے ہوا کہ پل کی مرمت کے سلسلے میں مقامی ارباب اقتدار نے غفلت برتی۔ میں اسی غفلت کا آج تک خمیازہ بھگت رہا ہوں۔ اس سرزد ہوئی گناہ کا اب تک جواب دے رہا ہوں“۔
بحیثیت حکمراں یا لیڈر انہوں نے عام عوام کے حق میں جو بھی حق تلفی، ناانصافی کی ہیں ان تمام واقعات سے سبق لینا ضروری ہے کہ روز قیامت انہیں اپنی تمام کارگزاریوں کی تفصیل بتانے کے ساتھ اس کے مواخذے کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ یہ بات حکمرانوں اور لیڈروں کو ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ یہ تمام تر حساب وکتاب براہ راست انہی سے ہوگا کسی اور سے نہیں۔ ان سب واقعات کو پیش کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ دورِ حاضر کے حکمراں یا لیڈر انسانیت کیلئے خیرخواہ کا کردار ادا کرتے ہوئے انسانیت کی فلاح وبہبودگی کیلئے کام کریں۔ عدل وانصاف کو اپنے اندر قائم کرتے ہوئے معاشرے میں بھی اس کے قیام کیلئے کوشاں رہیں۔ حکمراں یا لیڈروں کیلئے لازمی ہے کہ وہ ہفتے میں کم از کم دو دن ضرور عوام کی فریادیں اور ملت کے افراد کی التجا ئیں سننے کیلئے دربار منعقد کرے اور مظلوموں پر ہوئے مظالم کا ظالم سے مواخذہ کرے۔ مظلوموں کا حق اُنہیں واپس دلوائے۔ اور بنفس نفیس اور براہِ راست قوم کا دُکھ درد سنے۔ ان سب کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ظالم لوگ اور غریبوں و لاچاروں کو ستانے والے لوگ خوف زدہ ہوں گے اور انہیں ظلم وستم کی جرأت نہ ہوگی۔


کچھ مضمون نگار کے بارے میں :
محمد انجم راہی اتر دینا پور، مغربی بنگال میں رہتے ہیں .انھوں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے ایم اے بی ایڈ کیا ہے . پیشے سے گرافک ڈیزائنر ہیں. مختلف موضوعات پہ مضامین لکھتے رہتے ہیں جو بنگال کے اخبار و رسائل میں شائع ہوتے ہیں.
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے