فلسطینی سیاست کے چند حقائق اور ممکنات

فلسطینی سیاست کے چند حقائق اور ممکنات

محمد شمشاد 
جب بھی اسرائیل اور فلسطین کے تعلق سے کوئی بات کی جاتی ہے تو یہ صرف مغربی کنارے میں موجود فلسطینی تنظیم پی ایل او (PLO) سے شروع ہو کر غزہ میں حماس تک جاتی ہے اور ان کے درمیان جاری چپقلش پر ختم ہو جاتی ہے، لیکن آج میں اپنی بات اسرائیل میں موجود ان مسلمانوں کے ذکر سے شروع کرتا ہوں جو کہ اسرائیل کی کل آبادی کا 21% اکیس فی صد ہیں یعنی ہر پانچ اسرائیلی شہریوں میں سے ایک فلسطینی مسلمان ہے لیکن میڈیا میں ان کا ذکر تک نہیں ہوتا ہے. علاوہ ازیں بیت المقدس (Jerusalem) بالخصوص اس کے مشرقی حصہ میں آباد فلسطینی مسلمانوں کی آئینی حیثیت اور فلسطینی سیاسی تصویر میں ان کے حصے کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کروں گا۔
آج میں فلسطینی سیاست کے مختلف پہلووں کو زیر بحث لانے کو کوشش کروں گا۔اسرائیل کی نوے لاکھ کی آبادی ہے. 2020 کی مردم شماری کے مطابق کل یہودی 73.9% فی صد ہیں. عام طور سے یہودیوں کا تعلق چار فرقوں سے ہے جن میں اسرائیل میں بسنے والے یہودیوں میں ہیلونی یہودی 38% فی صد ہیں اور مسورتی یہودی 21% فی صد، دتی یہودی 8% فی صد اور ہریدی یہودی 7% فی صدہیں جب کہ مسلمانوں کی آبادی 21.1% فی صد، 2% فی صد دروز اور 2% فی صد عیسائی ہیں. اسرائیل کی نوے لاکھ کی آبادی میں (19) انیس لاکھ افراد کی آبادی غیر یہودیوں کی ہے. ان میں سب سے زیادہ تعداد عربی مسلمانوں کی ہے جن میں سے تقریباً 83% فی صد مسلمان اور باقی دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسرائیلی کنیسٹ میں ان کی پندرہ نشستیں محفوظ ہیں اور پچھلے تین الیکشن جن میں کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت نہیں مل سکی ہے اس وجہ کر ان پندرہ نشستوں کی اہمیت کافی بڑھ جاتی ہے اور ان کے بغیر کسی بھی پارٹی کے لئے حکومت بنانا ممکن نہیں ہو سکتا ہے ان میں ”یو نائٹیڈ عرب لسٹ“ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرتی رہی ہے اور اس طرح اسے نئی اسرائیلی مخلوط حکومت کا حصہ داربننا طے ماناجاتاہے۔
یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ اسرائلی شہری ایک دوسرے کے خلاف کیوں صف آرا ہو جاتے ہیں. اگر اسرائیلی عرب کمیونٹی کا بغور مطالعہ کیا جائے تو آئینہ کی طرح صاف ہوجاتا ہے کہ اسرائیل کی مسلسل دو روخی اور غلط پالیسیوں کے وجہ کر انھیں کم زور کیا جاتا رہا ہے بل کہ وہاں کے مسلمانوں کو اس ملک میں دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے تسلیم کیا جاتا ہے اوراب یہ ساری باتیں بالخصوص سوشل میڈیا کے ذریعہ دنیا کے سامنے آنے لگی ہیں اور انہی سب امتیازی سلوک کی بنا پر ان کے درمیان یعنی اسرائیلی شہریوں میں اس کے یہودی اور عرب شہریوں میں پر تشدد جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں جو جنگل کی آگ کی سی تیزی سے شہروں اور قصبوں میں پھیل جاتی ہیں. 
اگر اسے کسی اور تناظر میں دیکھیں تو اسرائیل میں رہنے والے مسلمان امریکی سیاہ فام لوگوں جیسا ہی احساس کم تری کے شکار ہیں. مسلمانوں کے یہ دونوں ہی گروپ اپنی اپنی قوم سے شناخت میں مشکل پاتے ہیں اور سماجی، سیاسی اور اقتصادی سطح پر پس ماندگی کا شکار ہو نے کے ساتھ ساتھ اس احساس کم تری کے بھی شکار ہیں کہ قومی سطح پر ان کی آواز کی کوئی حیثیت نہیں۔ لیکن اس اقتصادی اور سماجی پس ماندگی کی بڑی وجہ ان کی سیاسی بے بسی بھی ہے۔(Israel Democracy Institute) کی 2015 کی رپورٹ) Democratic Legislation Kenessent ) کے مطابق اسرائیل کی گزشتہ حکومت میں ایسے قوانین پاس ہوئے جن کا اثر اسرائیلی مسلمانوں اور اقلیت پر براہ راست پڑنا لازمی ہے. اس کے ذریعہ 2018 کو ایک نیا قانون عمل لایا گیا جسے ”Nation State Law“ کا نام دیا گیا تھا جس کے مطابق اسرائیل میں حق خود ارادیت ”Self Determination“ کا اختیار صرف یہودیوں کے پاس ہوگا۔ اس قا نون کا ایک براہ راست اثر عرب اسرائیلی قضیہ کے دو ریاستی حل Two State Solution“ پر بھی پڑا ہے۔ اس قا نون کی بین الاقوامی سطح پر مذمت بھی ہوئی اور اس کو ”Aparthied“ سے بھی تشبیہ دی گئی لیکن ان سب کے باوجود اسرائیلی پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں آیا. حال آں کہ اسرائیل میں یہودی شہریوں اور فلسطینی شہریوں میں شدت اختیار کرتی ہوئی ان تصادم و جھڑپوں پرعرب ممالک اور بین الاقوامی تجزیہ نگاروں نے حیرا نی کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیلی شہریوں میں موجود بقائے باہمی (Coexistence) کے اصولوں کو بکھرنے پر دکھ کا اظہار کیا. 
اسرائلی شہریوں میں باہمی امن و محبت کی فضا کے لیے ضروری ہے کہ وہاں مساوی حقوق، آزادی اور باہمی احترام کے اصول رائج ہوں۔ اسرائیل کی حد تک (Coexistance) تو صرف ایک افسا نے کی حیثیت رکھتی ہے جس نے علاحدہ اور غیر مساوی ز ندگی کو اپنی سطح کے نیچے چھپایا ہوا ہے۔ اسرائیلی یہودی اور عرب شہریوں میں موجود تفریق زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی نظر آتی ہے، یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل کا سیاسی اور قانونی نظام بنیادی طور پر غیر مساوی اور غیر بنیادی ہے ، جو کہ بنیادی انسا نی حقوق پر ہی اپنے شہریوں میں تفریق کرتا ہے اور جہاں کی عدالتیں ان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود یہودی شہریوں کو فلسطینیوں پر ترجیح دیتی ہیں جو کئی دہائیوں پر محیط عرصے میں،  آہستہ آہستہ فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ ہو یا ا نکے گھر گرانے ہوں، ان کو قید کی سزا سنا نی ہو یہ تعلیم، ملازمت اور دوسرے مواقع کی غیر فراہمی ہو، فلسطینی آبادیوں کی حیثیت دوسرے درجہ کے شہریوں جیسی بن چکی ہے۔
اسرائلی مسلمانوں کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار نے پر مجبور ہوچکی ہے۔ اگر چہ فلسطینی مسلمان اسرائیل کی آبادی کا اکیس فی صد ہیں لیکن جیلوں میں ان کا تناسب پچاس فی صد سے بھی زیادہ ہے۔ فلسطینی مسلمانوں کے استحصال کی یہ کہانی طویل ہے اور اس کے خلاف ان کا احتجاج بھی اتنا ہی پرا نا ہے لیکن یاد رہے کہ ہر ایسا احتجاج ریاستی جبر کی نئی کہا نی بھی رقم کرتا ہے جو کہ آج سے پہلے اٹر نیشنل میڈیا پر نہیں آتی تھیں لیکن سوشل میڈیا کے اس دور میں اسرائیلی شہروں سے ایسی بہت سی وڈیوز منظر عام پر آ گئی ہیں جو اسرائیل کی حکومتی پروپیگنڈا سے بالکل مختلف تصویر دکھاتی ہیں۔ ان میں اسرائلی پولیس اور یہودی آباد کاروں کا دن دہاڑے تشدد صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح فلسطین کی مسلم شہریوں کے لیے ان آباد کاروں کے ”عربوں کے لیے موت“ کا نعرہ کوئی نئی چیز نہیں کیوں کہ یہ تو اسرائیلی فٹبال اسٹیڈیمز میں ایک عام حقیقت کا درجہ رکھتا ہے۔ اس تناظر میں مشرقی یروشلم کے علا قے شیخ جارہ میں اسرائیلی پالیسیوں اور غزہ میں اس کی وحشیا نہ بمباری پر اسرائیلی فلسطینی شہریوں کا احتجاج دراصل اس بات کا اظہار ہے کہ وہ فلسطینیوں پر مسلط استعماری نظام کی مختلف شکلوں میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے لیکن یاد رہے کہ پی ایل او (PLO) جو کسی زما نے میں تمام فلسطینیوں کی نمائندگی کا دعوی کرتی تھی اب ان فلسطینیوں کی حالت زار سے بالکل لاتعلق ہوچکی ہے. 
مغربی کنارے میں آباد فلسطینی عوام اور ان کی جد وجہد اور سیاسی اداروں کی جا نب، یہ علاقہ 1948 کی لڑائی میں اردن میں شامل کر لیا گیا تھا جس نے اس کو اپنی ریاست میں ضم کر لیا لیکن 1967 کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے اس پر قبضہ کر لیا۔ 1990 کی دہائی میں اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان ہو نے والے اوسلو معاہدے کے تحت اس علاقے کو ایسے گنجلک انتظامی اضلاع میں تقسیم کر دیا گیا کہ ساٹھ فی صد سے زیادہ علاقے پر اسرائیل کا براہ راست انتظامی اور فوجی کنٹرول تسلیم کر لیا گیا. اس معاہدہ کے مطابق اس علاقے کو ایریا سی بھی کہتے ہیں۔مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی آبادی چھبیس اور ستائیس لاکھ کے آس پاس تسلیم کی جاتی ہے، اس کے علاوہ چار لاکھ سے زائد یہودی آباد کار نئی آباد کردہ بستیوں میں رہتے ہیں. اگرچہ بین الاقوامی قا نون کے تحت یہ بستیاں غیر قا نو نی ہیں۔لیکن مسلمانوں کی بڑی آبادی ہونے کے باوجود اس علاقے کے زیادہ حصے پر اسرائیل کا براہ راست کنٹرول ہے اور صرف 42 فی صد پر کچھ حد تک الفتح کے زیر اثر فلسطینی اتھارٹی کا اختیار ہے جو کہ اپنے علاقے میں امن اور دوسری شہری سہولیات کی ذمہ دار ہے۔
اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی اتھارٹی کی حد مغربی کنارے کے علاوہ غزہ تک پھیل گئی جب اسرائیل نے 2005 میں وہاں سے اپنے فوجی واپس بلا لیے۔ اوسلو معاہدے کا بنیادی نقطہ ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام تھا لیکن موجودہ صورت حال میں تو اب یہ ایک خواب ہی نظر آتا ہے۔ یاد رہے کہ اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی اتھارٹی کا قیام ایک عبوری عمل تھا لیکن گزشتہ تیس سال کے عرصے میں پی ایل او (PLO) جو کبھی تمام فلسطینی عوام کی ترجمان سمجھی جاتی تھی اب مغربی کنارے کے چند شہروں اور قصبوں پر اسرائیلی سرپرستی میں ایک مقامی حکومت بن کر رہ گئی ہے جس کی ایک بڑی ذمہ داری اپنے زیر انتظام علاقوں میں امن و اماں قائم رکھنا ہے جب کہ اس دوران بتدریج اسرائیلی شکنجہ آہستہ آہستہ اس کے گرد تنگ ہوتا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پی ایل او اور فلسطینی عوام کے درمیا ن تعلق، جو کبھی بہت گہرا اور قریبی مانا جاتاتھا، اب اس میں ایک خلیج نظر آنے لگا ہے۔
پی ایل او کے قومی چارٹر کے آرٹیکل 11 کے مطابق فلسطین کے تین نعرے تھے،(1) قومی وحدت (National Unity)، (2) قومی تحریک (National Mobilisation)، جب کہ تیسرا نعرہ(3) آزادی (Libration) کا تھا لیکن ان بنیادی اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے 1988 میں پالیسی کا رخ ”دو ریاست“ کے قیام (Two Nation Solution) کی طرف ہو گیا۔ پالیسی میں اس تبدیلی کے تحت توجہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر مرکوز ہو گئی اور اس کا تعلق فلسطینی مہاجرین اور دوسرے ممالک میں آباد فلسطینیوں سے کم زور پڑنا شروع ہو گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ اگرچہ فلسطینی اتھارٹی کی ملکیت بھی اس کو مل گئی لیکن اس کے اندر فیصلہ سازی کا طریقہ کار وہی پرانے انداز کا ہی رہا اور پی ایل او میں پہلے سے حاوی الفتح اور دوسری تنظیموں میں اختیارات کے لیے رساکشی شروع ہو گئی. اس صورت حال کو 2005 میں قاہرہ میں بارہ دھڑوں میں ہو نے والے سمجھوتے کو ”اعلان قاہرہ“ کے ذریعے حل کر نے کی کوشش کی گئی تھی۔ پالیسی میں تبدیلی کا تیسرا بڑا اثر یہ ہوا کہ قومی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کے لیے فلسطینی عوام کو متحرک رکھنے کی کوششیں ترک کر کے ریاست کی فیاضی پر توجہ مرکوز کر دی گئی۔ فلسطینی انتخابات کی غیر معینہ مدت کے لیے معطلی کا اعلان جو 29 اپریل کو 85 سالہ فلسطینی صدر محمود عباس نے کیا۔ یہ الیکشن 22 مئی کو ہو اتھا۔ یاد رہے کہ آخری بار الیکشن سنہ 2006 میں کرائے گئے تھے جس کہ نتیجے میں حماس غزہ میں برسر اقتدار آ گئی تھی۔ اس دوران فلسطینی اتھارٹی کے کسی ادارے یا فلسطینی قومی تحریک کی دعویدار تنظیموں میں گزشتہ 15 سال سے کوئی الیکشن نہیں ہوئے ہیں. اس کے نتیجے میں ان سیاسی ادارے کی شخصیات کی باہمی رسہ کشی اور گٹ بندیاں کھل کر سامنے آنے لگیں اور ان گٹ بندیوں اور خود پرستیوں کے نتیجے میں زمینی حقائق عوام بالخصوص نوجوان نسل کے سامنے آنے کے بعد وہ بے معنی ہونے لگے. 
غزہ کی پٹی جس کو دنیا میں سب سے بڑی کھلی جیل (Open Prison) کے نام سے بھی جا نا جاتا ہے، پہلے اس کے بارے میں چند بنیادی معلومات جان لیں تاکہ قارئین کو موجودہ صورت حال سمجھنے میں آسانی ہو۔ تاریخ کی تفصیل میں جائے بغیر یہ سمجھ لیں کہ غزہ کی پٹی کے نام سے معروف یہ علاقہ درحقیقت  ایک زمینی پٹی ہی ہے جو تقریباً 40 کلومیٹر لمبی اور 4۔ 6 کلومیٹر چوڑی زمینی پٹی پر مشتمل علاقہ ہے اور اس کی موجودہ حد بندی 24جنوری 1948 کو مصر اور اسرائیل کے درمیان ہو نے والے معاہدے میں طے پائی تھی اور یہ علاقہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ تک مصر کے فوجی کنٹرول میں رہی (سوائے کچھ عرصہ1956 میں جب اسرائیل نے قبضہ کر لیا)۔اگرچہ اس علاقہ میں زیادہ تر آبادی ان فلسطینی مہاجرین پر مشتمل تھی جنھیں 1948 میں اسرائیل کے قیام پر اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا تھا لیکن نہ تو مصری حکومت نے ان کو اپنی شہریت کے قابل سمجھا اور نہ ہی ان کو اس بات کی اجازت ملی تھی کہ وہ کسی اور عرب ملک میں پناہ لے سکیں۔ اسرائیل نے بھی ان کو واپس اپنے گھر آنے کی اجازت سے ا نکار کر دیا اور نہ ان کو اس سلسلے میں کوئی معاوضہ ملا کہ وہ ا پنی ز ندگی کو بہتر طور پر گزار سکیں۔ 1957 کی عرب اسرائیل جنگ میں اس علاقے پر اسرائیل کا قبضہ ہو گیا جو کہ اگلی ایک چوتھائی صدی تک جاری رہا اور صرف 1994 میں اوسلو معاہدے کے تحت اس کا ا نتظام قائم ہو نے والی فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کر دیا گیا تھا. اگرچہ یہاں پر اسرائلی فوجی موجودگی برقرار رکھی گئی تھی اور صرف 2005 میں اسرائیل نے اس علاقے سے اپنا فوجی ا نخلاء مکمل کیا لیکن سرحدی اور فضائی کنٹرول اپنے ہاتھ میں ہی رکھا۔
اسی دوران انتہائی خراب معیشت کی وجہ سے اسرائیل سے مذاکرات میں کسی پیش رفت میں ناکامی نے مقامی آبادی ہی میں سے نئی مزاحمت کار تنظیمیں پیدا کرنے کا کام کیا جو حماس اور اسلامک جہاد کے نام سے جا نی جاتی ہیں۔ ا نھوں نے جہاں ایک طرف اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کی پالیسی اپنائی وہیں متحدہ فلسطینی جدوجہد کے حوالے سے پی ایل او کے دعوے کو شدید نقصان پہنچانا شروع کردیا اور جب 2006 میں انتخاب ہوا تو پہلے ہی فلسطینی انتخابات میں غزہ کے تمام علاقے میں اکثریت حاصل کر لی۔اس الیکشن کے نتائج کو ما نتے ہوئے صورت حال کا کوئی سیاسی حل نکالا جاسکتا تھا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بل کہ اسرائیل، امریکہ اور یورپین یونین نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔ اس طرح ایک متحدہ فلسطینی قیادت جو اب تک سارے علاقے اور عوام کی نمائندگی کرتی تھی اب تقسیم ہوگئی. الفتح مغربی کنارے تک محدود ہو کر رہ گئی اور غزہ پر حماس کا کنٹرول مستحکم ہو گیا. اس صورت حال کو بہتر بنانے کی مسلسل فلسطینی کوششیں ابھی تک بار آور نہ ہوسکی. 
ان ساری کش مکش کی قیمت غزہ میں رہنے والے مسلمان ادا کر رہے ہیں، کیوں کہ 2007 سے اب تک جہاں ایک طرف اسرائیل نے سرحدی محاصرہ ا نتہائی سخت کر دیا ہے وہیں مصر نے بھی اپنی تقریباً گیارہ کلومیٹر طویل سر حد بند کر دی جو کہ کبھی کبھار عوامی دباؤ کے تحت  کھلتی اور بند ہوتی رہتی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کی زمینی، فضائی اور بحری ناکابندی نے ان مسلم شہریوں کی بنیادی انسا نی ضرورتوں تک رسائی کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے، مثلاً یہاں کی 95 فی صد آبادی کو پینے کا صاف پا نی مہیا نہیں ہے، بجلی کی سپلائی جس پر اسرائیل کا کنٹرول ہے اور تقریباً 5000 سے زائد آبادی فی کلومیٹر کے حساب سے دنیا کے اس گنجان ترین علاقہ میں بے روزگاری کی شرح ا نتہائی زیادہ ہو نے کی وجہ سے تقریباً اسی فی صد سے زیادہ آبادی کی بنیادی ضروریات کا انحصار بین الاقوامی امداد پر منحصرہے۔ اب آپ غزہ کی جیل سے تشبیہ کی حقیقت سے واقف ہو گئے ہوں گے۔
ان سب باتوں کے تناظر میں ایک اور اہم حقیقت کو ذہن نشیں رکھنا ہو گا اور وہ فلسطینی علاقوں میں قدرتی وسائل بالخصوص پانی اور تیل اور گیس کی فراوانی ہے۔ مغربی کنارے میں کی گئی علاقائی تقسیم میں پانی کی فراہمی ایک بنیادی عنصر ہے اور غزہ کے حوالے سے یہ بات ذہن میں رہے کہ اس کی ساحلی پٹی اور پا نیوں میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہو چکے ہیں جن پر اسرائیلی قبضہ تو ہے ہی لیکن حالیہ رپورٹوں کے مطابق علاقائی عرب ممالک اس میں حصہ وصول کر نے کے لیے کسی حد تک بھی جا نے کو تیار نظر آتے ہیں۔ ان ذخائر سے حاصل ہو نے والی گیس اور تیل کو یورپی منڈیوں تک پہنچا نے کے لئے پائپ لائن بچھا نے کے لیے بات چیت کے ادوار پہلے ہی شروع ہو چکے ہیں۔
اگرچہ فلسطینی سیاست اور اس پر اثرا نداز ہو نے والے اندرونی اور بیرونی عوامل، موجودہ منقسم فلسطینی قیادت کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے لیکن اپنی بہتر سالہ جدوجہد میں فلسطینی لوگوں کی بہت سی روشن مثالیں موجود ہیں جو ان کی ہمت و حوصلے کی شاہد ہیں، مثلاً 1936 – 39 کے درمیان برٹش مین ڈیٹ کے خلاف تحریک، بے سروساما نی میں پی ایل او کا قیام اور بین الاقوامی سطح پر اپنے آپ کو منوانا، 1978 میں پہلا ا نتفاضہ وغیرہ۔ یہ مثالیں ان فلسطینی عوام بالخصوص نئی نسل کے لیے مشعل راہ کا کام دے سکتی ہیں لیکن ان کو اپنے تخیل کو بلند کر نا ہوگا تاکہ وہ ان استعماری ہتھکنڈوں کو سمجھ سکیں جس نے ان کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔

صاحب تحریر کا یہ مضمون بھی ملاحظہ فرمائیں : زنا کیا ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے