استعارہ و اسلوب جریدہ کا اشہر ہاشمی نمبر

استعارہ و اسلوب جریدہ کا اشہر ہاشمی نمبر

ایم آئی ظاہر
رابطہ: 8112236339

اشہر ہاشمی ہندستان کے مایہ ناز دانشوروں میں سے ایک ہیں، جنھوں نے عصری حسیات کے معنوی پیرایہ سے اسلوب کی نئی جہت دریافت کر کے شعری سفر کے لیے نئے راستے ہموار کیے ہیں۔ گلبرگہ سے شائع معیاری رسالہ اسلوب و استعارہ کے اشہر ہاشمی نمبر میں راجہ اسحاق کا مضمون کچھ ایسے ہی جملوں سے اشہر ہاشمی کی شاعری کی عکاسی کرتا ہے۔
مغربی بنگال کی دھڑکن شہر نشاط کلکتہ سے تعلق رکھنے والے اشہر ہاشمی کی صحافت اور شاعری منفرد انداز میں نمایاں ہے۔ اس شمارے میں صحافت اور ادب کے حوالے سے شب و روز مشینی زندگی کی طرح تیز رفتار سے دوڑنے والے اشہر ہاشمی کی ہر عمر، دور اور رنگ کے قلم کا احاطہ کرنے کی سعی کی گئی ہے. اس شمارہ میں امیر کے موہوی کا مضمون’نمایاں ہوتا ہوا رنگ و رویہ` اس خاصیت کو خوش اسلوبی سے بیان کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اشہر ہاشمی کا سخن نئے سنگ میل قائم کر رہا ہے۔
فرحت احساس نے’تہذیب یافتہ وحشت` عنوان سے تحریر کردہ اپنے کلاسیکل مضمون میں ان کے بارے میں کہا ہے: ان سے مل کر کوئی سلگتے ہوئے الاؤ کی تپش محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا. یہ الاؤ ایک نہیں دو ہیں۔ بے پناہ غصہ اور بے پناہ محبت. اور دل چسپ بات یہ ہے کہ محبت کی آگ ان کے ہاں غصہ کی آگ پر بارش کا کام کرتی ہے۔ اسی طرح "ایک ہتھیلی پر پھول، ایک پر آگ"، مضمون میں خورشید اکرم کہتے ہیں ”اشہر ہاشمی کے یہاں خواب اور شکستہ خواب ایک دوسرے میں اس طرح مدغم ہوگئے ہیں کہ انھیں آسانی سے الگ نہیں کیا جا سکتا.` اس شمارہ میں عشرت ظہیر نے ‘شعری کاینات میں تجسّس` مضمون میں کیا بے پناہ جملہ کہا ہے’اشہر ہاشمی کی شاعری ان کے تخلیقی اور انانیت پسند کرب سے ابھرتی ہے اور حیات انسان کی تپش اور وحدت کائنات کی جانی بوجھی حقیقتوں کو شعر کی صورت مجسم کرتی ہے۔۔ اشہر ہاشمی بہترین صحافی اور شاعر ہیں اور ان کی ان دونوں خوبیوں کو ظفر انور نے ‘ممتاز شاعر اور معتبر صحافی` مضمون میں خوب صورتی سے پرویا ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے مولا بخش کے حوالے سے فرحت احساس اور اشہر ہاشمی کی خوبیوں کو یک جا کیا ہے۔ وہیں برطانیہ کے جمیل الرحمٰن ‘انوکھآ مگر باغی داستان گو` مضمون میں کہتے ہیں: وہ ایک منجھا ہوا صحافی اور پختہ نظر قلم کار ہے۔` اسی طرح محمد اعظم بانکپن اور کج کلاہی مضمون میں کہتے ہیں ‘بدلتے موسم کی آہٹ: مغربی بنگال کے نوجوان شاعر اشہر ہاشمی کی غزلوں کا پہلا مجموعہ اس لحاظ سے قابل قدر ہے کہ اس میں شاعر کے فکری رویوں کے خد و خال بہ خوبی نمایاں ہیں۔ وہیں پروفیسر نصر غزالی نے انھیں منفرد لب و لہجہ کا شاعر بتایا ہے. جب کہ شاہ نواز قریشی کی نظر میں وہ نیا اسلوب و نیا لہجہ رکھنے والا شاعر بتاتے ہوئے انھیں اپنی اساس کا اپنا تجربہ مانا ہے۔. ‘غصہ کی تہذیب کا شاعرانہ اظہار` مضمون میں اشہر ہاشمی کے لیے نثار انجم کہتے ہیں’نئے تلازمات اور علایم`  کے ساتھ ساتھ ان کے یہاں فکر و احساس کی ‌‌‌ندرت بھی ہے اور جرأت اظہار بھی. کہیں کہیں غزل کے اشعار گل قند کی طرح گھل کر اپنی تربیت بکھیرتے ہیں‌`۔۔ اشہر ہاشمی بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں اردو شاعری کے افق پر نمودار ہونے والے ان شاعروں میں ہیں، جنھوں نے غزلوں کے ساتھ ساتھ نظموں کو بھی اپنے شعری اظہار کا وسیلہ بنایا۔ ‘زیاں کدے کا نوحہ گر` مضمون میں ڈاکٹر عبدالحلیم انصاری (محمد حلیم) نے اس انداز میں اشہر ہاشمی کی شعری خدمات کا اعتراف کیا ہے. وہ یہ کہتے ہیں کہ  اشہر ہاشمی کی غزلوں میں متصوفانہ اشہار کرتے ہیں [کذا] کہ ان کے اندر ایک صوفی سانس لیتا ہے. اسی طرح اس شمارے میں فیروز مرزا نے اشہر ہاشمی کی شاعری میں رومانیت کے پہلو کو نئی غزلوں کی فرہادیت کی تشبیہ دی ہے۔ وہیں صحافت کے مختلف موضوعات پر قلم چلانے والے اشہر ہاشمی کی شاعری میں بھی معاشرہ کا آئینہ نظر آتا ہے۔ عبدالمعید ظہری نے ان کی اس خوبی کو ‘انسانی سماجی و سیاسی فکر مندی کا امین شاعر` قرار دیا ہے۔اس شمارہ کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس میں اشہر ہاشمی کے غیر مطبوعہ کلام کو شامل  کیا گیا ہے۔ جو قاری کے لیے تازگی اور تابندگی کی زندہ مثال ہے. بہرحال استعارہ و اسلوب جریدہ کا اشہر ہاشمی نمبر نہ صرف اشہر ہاشمی کی شخصیت، شاعری اور صحافت کے مختلف دروازے وا کرتا ہے، بلکہ قاری کے سامنے ان کے کارہائے نمایاں کی مکمل تصویر پیش کرتا ہے، جس میں قاری ان کے فن کی ٹھنڈی اور تازہ ہوا کا جھونکا محسوس کرتا ہے۔ اس کے لیے ادارتی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے. کل ملا کر ناہید اختر، علیم احمد اور رشیدہ منصوری اور عالیہ خان کا یہ مجموعی تخلیقی شاہکار ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ مانو قاری ان کے اس شعر کے ساتھ ان کی تخلیقات اور اس نمبر کا مطالعہ کرنے کے لیے توجہ مبزول کر رہا ہے:‌‌ کچھ وقت میسر تھا اسے کام میں لاتے، جو دل کی لگی تھی اسے پیغام میں لاتے 
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:صحافی ایم آئی ظاہر کا دورۂ حیدرآباد

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے