انسان کو ہمہ وقت خوش مزاج ہی رہنا چاہیے: خلیل الدین تماندار

انسان کو ہمہ وقت خوش مزاج ہی رہنا چاہیے: خلیل الدین تماندار

حرم مکی کے سابق فزیشین ڈاکٹر خلیل الدین تماندار سے  خصوصی انٹرویو

انٹرویو نگار: علیزےنجف

ڈاکٹر خلیل الدین تماندار یہ نام جتنا بارعب ہے اپنی ذات میں ان کی شخصیت اتنی ہی حلیم الطبع ہے، علم و فضل کی طلب و جستجو میں یہ پایۂ کمال کو پہنچے ہوئے ہیں، تواضع اور انکساری ان کی ذات میں ایسے جزو لازم کی طرح شامل ہے کہ جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سمندر کی لہروں کی طرح انھوں نے اپنے سفر حیات کے راستے خود بنائے، ہر لمحہ آگے بڑھنے کی جدوجہد کرتے رہے، تنگیِ حالات پہ شکوہ کناں ہونے کے بجائے خود وسائل مہیا کرتے ہوئے اپنے شوق کو مہمیز دیتے رہے، اللہ نے ان کے سینے میں وہ دل رکھا ہے جو کہ ذکر خداوندی میں ہی عافیت تلاشتا ہے۔ معرفت الٰہی کی تجلی ان کے دل کو روشن کیے ہوئے ہے جس کی کرنوں کی آب و تاب ان کے چہرے سے بھی عیاں ہے۔
ڈاکٹر خلیل الدین تماندار نے حرم مکی مکہ شریف میں فزیشین کی حیثیت سے سترہ سال خدمات انجام دیں۔ ان کا شمار ان خوش نصیب لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی زندگی کے سترہ سال میں شب و روز کعبۃ اللہ کی  زیارت کرتے ہوئے گزارے، اور برسوں زائرین کو طبی خدمات و سہولیات فراہم کرتے ہوئے خدمت خلق کا فریضہ ادا کیا، اس دورانیے میں انھیں عرب و عجم کے علماے کبار، اپنے دور کے کئی مشاہیر، معروف علمی، ادبی، سیاسی و سماجی شخصیات، کئی ممالک کے وزرا و صدور اور شہزادوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا. وہ کہتے ہیں کہ میں صدور اور شہزادوں کے مقابلے میں ہمہ وقت وارث الانبیاء علماے کرام ہی سے ملاقاتوں کو اولین ترجیح دیتا رہا، انھیں اس دوران مولانا محمد عثمانی، مولانا سلمان الحسینی، حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رح، مرحوم سید حامد، مولانا ڈاکٹر عبدالرشید ندوی مدنی، انیس چشتی جیسی متعدد علمی شخصیات سے ملنے اور ان سے علمی استفادہ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ ڈاکٹر خلیل الدین تماندار ایک بہترین مقرر اور اہل قلم بھی ہیں. ان کی زبان رواں اور اثر انگیز ہے، انھیں اپنے لطیف احساسات کو رقت انگیز انداز میں لکھنے پہ ملکہ حاصل ہے، ان کے قلم میں علمیت پسندی کے ساتھ بصیرت بھی پوری شان کے ساتھ پائی جاتی ہے. ان کی ایک کتاب نقوش حرم کے نام سے شائع ہو کر منصۂ شہود پہ آ چکی ہے. اس میں انھوں نے اپنی زندگی بھر کے تجربات و مشاہدات کو اور شخصیات سے حاصل ہونے والے استفادے کو اپنا موضوع بنایا ہے. ان کی یہ کتاب نقوش حرم ریختہ کی ویب سائٹ پہ موجود ہے. وہاں سےکوئی بھی قاری اسے بآسانی حاصل کر سکتا ہے۔ جس کا لنک یہ ہے
https://www.rekhta.org/ebooks/detail/nuqoosh-e-haram-dr-khaliluddin-tumandar-ebooks?lang=ur
ڈاکٹر خلیل الدین تماندار کی شخصیت کے سارے پہلو اپنے آپ میں شعور کا ایک باب ہے، ان کے افکار و خیالات میں مذہب پسندی کا عنصر غالب ہے، ان سے استفادہ کرنا ہم سبھی کے لیے باعث شرف ہے، اس وقت وہ میرے سامنے ہیں، میرے دل میں تجسس کا دریا ٹھاٹھیں مار رہا ہے، میں انھیں سوالات میں ڈھال کر ان کے سامنے پیش کرنے کی جتن میں مصروف ہوں تاکہ اپنے شعور کو مہمیز دے سکوں۔
علیزے نجف: سب سے پہلے میں آپ سے آپ کا تعارف چاہتی ہوں اور یہ بھی جاننا چاہتی ہوں کہ آپ کا تعلق ہندستان کے کس خطے سے ہے اور اس وقت آپ کہاں مقیم ہیں؟
خلیل الدین تماندار: راقم تحریر اپنا تعارف خود اپنی زباں سے کس طرح کر سکتا ہے؟
سچ پوچھئے تو یہ پیکر خاکی اور مشت خاک سے بنا انسان اپنا تعارف کر بھی کیا سکتا ہے؟
یہ تو رب العالمین، خالق و مالک کل اللہ سبحانه قدوس کا جود و کرم ہے کہ اللہ ذوالجلال نے انسان کو خلیفة الارض بنا کر اس دنیا میں بھیجا اور قرآن کریم میں اس کی ابتدا و انتہا کو بیان کرتے ہوئے ایک واضح اعلان بھی کر دیا ہے کہ
منھا خلقنکم و فیھا نعیدکم و منھا نخرجکم تارة اخری (سورہ طه، آیت 55) کہ انسان مٹی سے پیدا کیا گیا ہے، ایک دن اسی مٹی تلے اسے دفن کر دیا جائے گا اور پھر اسی زمین سے اللہ کے حکم سے دوبارہ اسے اٹھایا جائے گا، لہذا اس کی ابتدا بھی مٹی، انتہا بھی مٹی اور آخرت میں واپسی پر ساری زندگی کا حساب و کتاب، نامۂ اعمال اگر دائیں ہاتھ میں ملا تو جنت اور خدانخواستہ بائیں ہاتھ میں تھما دیا گیا تو جھنم، اللہ کی پناہ الحفیظ والامان اس مٹی کے تودے کا آخر تعارف ہو ہی کیا سکتا ہے؟ لیکن دنیائے ادنی میں یکم جنوری 1959ء کو ہندستان کے صوبۂ مہاراشٹر کے ضلع جلگاؤں کے تعلقہ بھڑگاؤں میں آنکھیں کھولیں، خاندان میں سب سے چھوٹا ہونے اور والدین کا دین سے ایک فطری لگاؤ کی نسبت پر ناچیز کا نام خلیل الدین تجویز کیا گیا، زمانۂ طفولیت کے ابتدائی چند برس وطن مالوف ہی میں گزرے، بعد ازیں عروس البلاد ممبئی سے پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک صنعتی شہر بھیونڈی جسے مانچسٹر آف انڈیا کے خطاب سے بھی نوازا گیا تھا، میں 1963ء میں آمد ہوئی لہذا ابتدائی تعلیم میونسپل پرائمری اسکول انجمن معین الاسلام، ثانوی تعلیم مادر علمی رئیس ہائی اسکول و شاد آدم شیخ ٹیکنیکل ہائی اسکول بھیونڈی، ممبئی یونی ورسٹی سے منسلک بی این این کالج بھیونڈی سے تکمیل کرتے ہوئے ممبئی یونی ورسٹی ہی سے وابستہ ٹی این میڈیکل کالج نائر اسپتال ممبئی سے ایم بی بی ایس کی تکمیل ہوئی، میڈیسن سے فراغت کے بعد شہر ممبئی و قرب و جوار میں تقریباً دس برس اور حرم مکی شریف کی کلینک مکہ مکرمہ میں مستقل سترہ برس 1997ء تا 2014ء تک طبی خدمات انجام دینے کی سعادت نصیب ہوئی، نیز 2014ء تا دم تحریر اور کینیڈا کی شہریت ملنے کے بعد کینیڈا ہی میں مستقل مقیم ہوں. 
علیزے نجف: آپ کی زندگی کے ابتدائی ایام کس طرح کے ماحول میں گذرے اور اس وقت کے ماحول کی سب سے بڑی خصوصیت کیا تھی، جس نے آپ کی شخصیت سازی میں ایک نمایاں کردار ادا کیا؟
خلیل الدین تماندار: زندگی کے ابتدائی ایام پر روشنی ڈالنے سے قبل ناچیز اپنے والد مرحوم شجاع الدین شیخ کے خاندانی پس منظر کے چند اہم نکات کو واضح کر دینا چاہتا ہے کہ والد مرحوم کا تعلق ایک زمین دار، خوش حال و آسودہ گھرانے سے تھا، 1912ء میں والد بزرگوار کی جب ولادت ہوئی اسی شب آپ کے والد گرامی یعنی ہمارے دادا جان اس دار فانی سے کوچ کرگئے، 19 برس کی عمر میں دادی اماں بیوہ ہو چکی تھیں اور ایک دن کی عمر کے نومولود کے ساتھ حیات مستعار کے بقیہ ایام اسی گھر میں گزارنا تھا. 
والد صاحب جب عالم شباب کو پہنچے، ملازمت اور ازدواجی زندگی کا آغاز کیا تو والد محترم کے چچا نے خنجر کی نوک پر والد محترم سے جائیداد کی تمام دستاویزات پر جبراً دستخط کروا لیے کہ میں اپنی جائیداد اپنی مرضی سے، اپنے چچا کے حوالے کیے دیتا ہوں، بعد ازاں آپ کے چچا نے والد صاحب کو گھر سے بے دخل کردیا اور اپنے تمام تر سیاسی و سماجی اثر و رسوخ کا بے جا استعمال کرتے ہوئے والد صاحب کو ملازمت سے بھی برطرف کروا دیا، بہرحال ایسے ناسازگار حالات میں محض اللہ کی ذات پر یقین کامل رکھتے ہوئے ہمارے بڑے بھائیوں کے ساتھ کئی دہائیوں تک والد مرحوم زندگی کی تگ و دو میں مصروف رہے، بالآخر 1955ء -1960ء کے آس پاس ممبئی سے قریب معروف صنعتی شہر بھیونڈی میں ہجرت فرمائی، جہاں بڑے بھائی محی الدین شجاع الدین درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوچکے تھے، الحمدللہ گھر پر نمازوں کی پابندی کا باقاعدہ اہتمام ہوا کرتا تھا اور جماعت اسلامی ہند شاخ بھیونڈی کا ایک قائم کردہ مکتب بنام "درس گاہ اسلامی" میں ابتدائی چند برس قرآن و بنیادی تعلیم کا نظم ہوا، اس طرح ایک خداترس ماحول میں تعلیم و اسلامی تربیت کے ساتھ ساتھ قلب و ذہن پر سچائی، دیانت داری، حسن اخلاق، دنیا کی بے ثباتی، دولت کی حصولیابی میں آخرت فراموشی سے اجتناب جیسے حقائق اور اہل بصپرت کے درمیان اللہ کے فضل و کرم سے پروان چڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی، لہذا اللہ کا خصوصی فضل و کرم اور بڑوں کی صحیح تربیت ہی وہ عوامل ( Factors) ہوا کرتے ہیں جو کسی بھی انسان کی زندگی پر اثر انداز نیز اس کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں. 
علیزے نجف: ہمیں اپنے خاندان کے بارے میں بھی بتائیں آپ کے نام کے ساتھ تماندار کا لفظ جڑا ہوا ہے، کیا یہ آپ کے خاندان کی پہچان ہے، اس کا مطلب و پس منظر کیا ہے؟
خلیل الدین تماندار: والد مرحوم شیخ شجاع الدین کے توسط سے جو تفصیلات حاصل ہوئی تھیں اس کے مطابق 1903ء میں صوبۂ مہاراشٹر کے ضلع جلگاؤں میں ڈسٹرکٹ کلکٹر شمکاک کے ہاتھوں جد محترم کو عوام الناس اور اس علاقے کے بیشتر حضرات کی بے لوث خدمات کے تئیں انھیں "تماندار" نامی خطاب اور زمین کا ایک قطعۂ اراضی وغیرہ  تفویض کیا گیا تھا، زمین کا وہ حصہ کئی برسوں تک ان کے مصرف میں بھی رہا لیکن چوں کہ 1912ء میں جس روز والد صاحب کی ولادت ہوئی تھی اسی دن دادا مرحوم کا انتقال ہوگیا تھا لہذا، والد صاحب کے چچا کو یہ خدشہ لاحق ہوگیا تھا کہ کہیں جائیداد بھتیجے کے نام منتقل نہ ہوجائے اور وہ چاہتے تھےکہ کسی بھی طرح وہ ساری جاگیر ان ہی کے قبضۂ قدرت میں رہے، اسی منصوبے کے تحت والد صاحب کے چچا نے خنجر کی نوک پر والد مرحوم سے دستخط بھی حاصل کر لیے تھے، 1985ء میں جب والد محترم اس دنیا سے کوچ کرنے لگے تو زندگی کے آخری لمحات میں والدہ صاحبہ اور مجھ سے بڑے بھائیوں کو بہ طور گواہ بنا کر، موت سے ایک دن قبل اپنا یہ آخری بیان بھی دے دیا کہ میرے چچا نے خنجر کی نوک پر مجھ سے ساری جائیداد چھین لی تھی اور مجھے اپنے گھر و وراثت سے بے دخل کردیا تھا لیکن اب چوں کہ وہ خود بھی اس فانی دنیا سے آخرت کی طرف اپنے ساتھ ایک گز زمین بھی نہیں لے جا سکے اور آخرت کی جانب سفر کر چکے ہیں، عن قریب میں بھی اللہ کے پاس جارہا ہوں لہذا آپ لوگ گواہ رہنا، میں نے اپنے چچا کو معاف کر دیا ہے اور تم لوگوں کو میری آخری نصیحت و وصیت ہے کہ اس جائیداد کی طرف کبھی پلٹ کر نہیں دیکھنا، اللہ کو حاضر و ناظر جان کر رزق حلال حاصل کرتے رہنا اور ہر لمحہ دنیا پر آخرت ہی کو ترجیح دینا. 
والد صاحب کا خاندانی لقب شیخ تھا، اس لیے سب بھائیوں کے نام کے ساتھ شیخ ہی لگایا گیا البتہ ناچیز چوں کہ گھر میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے والد صاحب کے حکم پر ناچیز کے نام کے ساتھ شیخ کی جگہ جد محترم کو دیا گیا خطاب اور ماضی کی اس تاریخ کو یاد رکھنے کی نیت سے تماندار کا لفظ جوڑ دیا گیا جس کا علم مجھے میٹرک کے امتحان کا فارم بھرتے وقت ہوا کہ میرے نام کے ساتھ تماندار لفظ کا اضافہ کیا گیا ہے، اس لیے والد مرحوم کی خواہش و حکم کا احترام کرتے ہوئے تماندار کا لفظ ناچیز کے ساتھ چل پڑا اور اب تمام اسناد و دستاویزات وغیرہ میں یہی نام جاری ہے. 
علیزے نجف: آپ کی تعلیمی قابلیت کیا ہے، آپ نے اس سفر کو کس طرح طے کیا اور کن اساتذہ نے آپ کو موجودہ مقام تک پہنچانے میں ایک اہم کردار ادا کیا؟
خلیل الدین تماندار: آپ کے اس سوال میں مزید کئی سوالات نظر آتے ہیں، عموماً تعلیمی قابلیت سے مراد مختلف ڈگریاں، ہائی کوالیفیکیشن، ہائی کیلیبر، ہائی ٹاسک، اعلا عہدوں و مناصب کی حصولیابی اور شان دار کامیابی و کامرانی اور بہترین ذریعۂ آمدنی وغیرہ سے لیا جاتا ہے، لیکن ناچیز کے ناقص علم میں تعلیم کے معنی محض یونی ورسٹییز و کالجز کی اعلا ڈگریاں، پھر اعلا عہدوں پر تقرر اور اعلا تنخواہ کی حصولیابی حاصلِ کل نہیں ہیں بلکہ تعلیم میں شب و روز کے اسباب کی تلاش کے ساتھ ساتھ زندگی کی اعلا قدریں بھی شامل ہوا کرتی ہیں. 
بے شک
وہ علم نہیں، زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کفِ جو
یہ واقعہ ہے کہ زندگی میں علم کا مقصد صرف دو وقت کی روٹی حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تو بنیادی چیزوں میں سے ہیں لیکن اس کے ہمراہ انسان صرف اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی اپنے آپ کو نافع ثابت کرے کیوں کہ ہمیں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ سبق دیا گیا ہے کہ:
خیر الناس من ینفع الناس یعنی لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو دوسروں کو نفع یا فائدہ پہنچائے. 
حضرت علامہ اقبال نے انہی جذبات کی کیا خوب ترجمانی کی ہے کہ:
ہیں لوگ جہاں میں وہی اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
خواجہ میر درد نے اسی نسبت انسانیت کے درد کا کچھ اس طرح سے اظہار فرمایا ہے کہ:
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں 
اور الطاف حسین حالی نے بھی ہمیں یہی سبق سکھایا ہے کہ:
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر
لہذا محض اپنی ذاتی فکر کے ساتھ ساتھ اپنے اطراف اور قریبی متعلقین میں بھی خیر و بھلائی کا کام کرتے ہوئے انسان خود بھی صالح زندگی گزارے اور دوسروں کے لیے حتی المقدور نافع بنے. 
لہذا خدمت خلق کو ہمہ وقت اپنی زندگی میں اولین درجہ دیں، کیوں کہ خدمت سے خدا بھی ملتا ہے کے مصداق اسی نسبت سے بچپن ہی سے فن طب میں داخلہ لے کر ایک ڈاکٹر بننے کی خواہش تھی، اللہ کا فضل و کرم، والدین کی دعائیں، قابل اساتذہ کرام کی بروقت رہ نمائی اور پھر اللہ کی ذات پر مکمل توکل کرتے ہوئے صحیح سمت میں محنت شاقہ؛ یہ وہ تمام عوامل تھے جو ناچیز کو ممبئی یونی ورسٹی سے ایم بی بی ایس کی تکمیل اور اس کے بعد کئی دہائیوں تک اللہ کا احسان رہا کہ انتہائی دیانت داری سے اس پروفیشن کو انجام دینے کی سعادت و توفیق بخشی، ایسے موقع سعید پر ناچیز کی زبان سے صرف یہ الفاظ ادا ہوسکتے ہیں کہ الحمدللہ، الحمدللہ، الحمدللہ
علیزے نجف: ہمارے یہاں جب بھی کسی بچے کے لیے کیرئر انتخاب کے حوالے سے بات کی جاتی ہے، اس میں میڈیکل اور انجینئرنگ پہ زیادہ زور دیا جاتا ہے، اگر چہ یہ رویہ اب پہلے سے کہیں کم ہو گیا، میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ تعلیمی شعبے میں میڈیکل کا ہی انتخاب کیوں کیا، یہ آپ کے والدین کی خواہش تھی یا آپ کا اپنا فیصلہ تھا، اس کے لیے آپ کو انسپریشن کہاں سے ملی؟
خلیل الدین تماندار: اسلامی تاریخ کے ابتدائی ایام کا اگر غائرانہ مطالعہ کیا جائے تو ایک طالب علم کی حیثیت سے بہت جلد یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کے بعد، مسجد نبوی کو ایک اہم مقام حاصل رہا ہے، مسجد نبوی محض ایک عبادت گاہ ہی نہیں بلکہ تربیت گاہ اور ایک عظیم دانش گاہ بھی تھی، یہاں دین کی تعلیم بھی دی جاتی تھی اور دنیا کے اہم فیصلے بھی کیے جاتے تھے، یہیں سے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کو کسی وفد کے ساتھ بہ طور معلم بھیجا جاتا تھا تو یہیں سے کسی خطے کا والی/ گورنر بھی بنا کر بھیجا جاتا تھا. غرض کہ اس دور میں دین اور دنیا کے دو علاحدہ علوم کا تصور ہی نہیں تھا، ایک ہی وقت میں ایک ہی شخص عالم دین و محدث، خطیب و امام، مدبر و مفکر، فقیہ و مفسر، قاضی و حاکم، منصف و تاجر غرض کہ ہر فن کا ماہر ہوا کرتا تھا. بعض دفعہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی گہری سازش کے تحت علوم اسلامیہ کو دنیاوی علوم سے الگ کردیا گیا ہے اور رفتہ رفتہ دنیاوی علوم کو ملازمت، تجارت اور شب و روز کے اسباب کے ساتھ وابستہ کردیا گیا کہ انسان پیٹ بھرنے کے لیے اور دو روٹی کمانے کے لیے اتنا پڑھ لے کہ اسے زندگی گزر بسر کرنے کا کچھ سہارا مل جائے اور وہ دنیاوی علوم ہی کو اپنا ملجا و ماوی سمجھ لے، یقیناً یہ سب کچھ کسی گہری سازش ہی کے تحت ہوتا رہا، پھر آہستہ آہستہ علوم اسلامیہ اور دنیاوی علوم کے درمیان شرق و غرب کا فاصلہ ہوتا چلا گیا-
ہمارے بچپن میں کرئیر انتخاب کا دور تقریباً 1975ء یعنی نصف صدی قبل کا دور تھا. یقیناً ان دنوں شعبۂ آئی ٹی اور کمپیوٹر وغیرہ کی ایجادات نہیں ہوئی تھیں لہذا ان ایام میں جو علوم اسلامیہ میں دل چسپی رکھتے تھے وہ مدارس، مساجد اور دینی درس گاہوں سے وابستہ ہوجاتے تھے، جو زندگی میں دولت و ثروت کے خواہاں تھے وہ انجنئیر و ڈاکٹر بننا پسند کرتے تھے اور بقیہ افراد پروفیسر یا درس و تدریس جیسے مہذب شعبے کو اختیار کرلیتے تھے. 
ظاہر سی بات ہے اس دور میں شب و روز کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھنا تھا، اس لیے ذاتی طور پر کسی کرئیر کا انتخاب کرنا اپنی بساط سے نہ صرف باہر تھا بلکہ اس کا تصور بھی محال تھا، اس لیے اپنا کرئیر نہ تو ہم خود طے کر سکتے تھے اور نہ ہی والدین کا اس میں کچھ عمل دخل تھا، البتہ والدین کی ہمہ وقت یہی تلقین رہا کرتی تھی کہ زندگی کو راہ راست پر رکھا جائے، دیانت داری کے ساتھ زندگی گزاری جائے، خیانت، رشوت اور دھوکا دہی وغیرہ جیسی چیزوں سے کوسوں دور رہا جائے، ہر حالت میں رزق حلال ہی کو ترجیح دی جائے اور ہرممکن طرح سے حرام سے اجتناب کیا جائے، چاہے اس سے بچنے میں اپنی جان ہی کیوں نہ چلی جائے لیکن حرام کو ہر گز ہر گز ہاتھ تک نہ لگایا جائے. 
الحمدللہ ایسے ماحول اور ایسی تربیت کے ساتھ طالب علمی کا دور گزر رہا تھا، غالباً 1975ء کا وہ زمانہ تھا، ناچیز ممبئی یونی ورسٹی میں انٹر سائنس کا طالب علم تھا اور انتہائی کروشیل، اہم و نازک لمحات سے گزر ہو رہا تھا کیوں کہ اسی سال زندگی کا ایک اہم فیصلہ لینا تھا کہ اگر امتیازی نمبرات حاصل ہو جائیں تو میڈیسن کا انتخاب کیا جا سکتا ہے یا پھر ممبئی یونی ورسٹی میں بی ایس سی کی تکمیل کرنا ہوگی، یونی ورسٹی فائنل امتحان کو صرف تین ماہ باقی تھے کہ اچانک راقم تحریر کی طبیعت ناساز ہو جاتی ہے، شہر کے ایک معروف ایم بی بی ایس ڈاکٹر کے مطب پر جانے کا اتفاق ہوتا ہے، گھنٹوں قطار میں بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنا تھا، ڈاکٹر کے پاس اپنا نمبر آنے سے قبل ایک مریض کی ڈاکٹر سے براہ راست گفتگو سماعت کرنے کا اتفاق ہوا، نصف صدی قبل ایم بی بی ایس ڈاکٹر کی فیس بہ مشکل تمام پانچ سے سات روپیوں کے درمیان ہوا کرتی تھی (جب کہ آج کل کم از کم پانچ سو کے قریب ہو گئی ہے)، مجھ سے قبل مسجد کے ایک مؤذن اس ڈاکٹر کے سامنے انتہائی عاجزی سے اپنا مدعا عرض کر رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب آج مجھے دوا دے دیجئے گا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں، لیکن اس ڈاکٹر کے چہرے پر جھنجھلاہٹ و بیزاری کے آثار نمایاں طور پر ظاہر ہو رہے تھے، اس ڈاکٹر کا چہرہ آج بھی میری نگاہوں میں ہے کہ کس طرح انھوں نے اس مؤذن کو ڈانٹتے ہوئے کچھ دوا دی تھی اور آئندہ مکمل فیس لانے کے لیے کہا تھا، بس شاید بارگاہ رب العزت میں گویا وہ قبولیت کی گھڑی تھی اور وہی لمحات تھے جب ناچیز کے قلب و ذہن میں یہ بات سما گئی کہ ان شاءاللہ اب زندگی میں آگے کچھ پڑھنا ہے تو ایم بی بی ایس ہی کرنا اور خدمت خلق کے شعبے کو اپنانا ہے. 
اللہ کا احسان رہا کہ ایک عزم و حوصلہ سے اللہ نے ناچیز کو اٹھایا اور ایسا اٹھایا کہ اپنے گھر بیت اللہ شریف کی چوکھٹ پر ڈاکٹر بنا کر لا بٹھایا، ماضی کی اس ساری روداد کو یاد کرتے ہوئے ناچیز اس ڈاکٹر کے حق میں دعاگو بھی رہتا ہے کہ اس مؤذن کے ساتھ اس ڈاکٹر کی ناگواری ہی ناچیز کے لیے ایم بی بی ایس میں داخلے کا موجب بنی اور ماضی کی ان یادوں کو سمیٹ کر اللہ کا شکر بھی بجا لاتا ہوں. 
علیزے نجف: تعلیم کسی بھی قوم یا ملک کے مستقبل کے تعین میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، ہمارے یہاں شرح خواندگی تو پہلے سےضرور بہتر ہوئی ہے لیکن معیار تعلیم کمتر ہوتا جارہا ہے، جس کی وجہ سے کئی طرح کے مسائل سر اٹھانے لگے ہیں، ان میں سے ایک شعور کا فقدان بھی شامل ہے، آپ اس پورے منظر نامے کو کس طرح دیکھتے ہیں اور اس کے لیے کیا سد باب کی کوئی صورت آپ کے ذہن میں ہے؟
خلیل الدین تماندار: بے شک اس میں ہر گز دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ تعلیم کسی بھی قوم و ملک کے مستقبل کو سنوارنے اور مزید نکھار پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، علم و عقل ہی کی وجہ سے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے اور علم و خرد ہی رب العالمین کا وہ عطا کردہ زیور ہے، جس کی بنیاد پر انسان و حیوان میں ایک خط امتیاز (line of demarcation)
کھینچا جا سکتا ہے. 
معلم انسانیت خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم پر پہلی وحی علم ہی کی نسبت پر
"اقراء باسم ربك الذی خلق" نازل ہوئی کہ پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تجھے پیدا کیا ہے. 
"طلب العلم فریضة علی کل مسلم" یعنی ہر مسلمان مرد و عورت پر علم حاصل کرنا فرض کیا گیا ہے. 
خلاصۂ کل:
لو جان بیچ کر جو بھی علم و ہنر ملے
جس سے ملے، جہاں سے ملے، جس قدر ملے
لہذا علم نافع کی حصولیابی میں تگ و دو گویا کہ حیات مستعار کا جزو لازم ہے، لہذا علم کی فضیلت، اہمیت و افادیت اپنی جگہ قائم ہے اور رہے گی، نیز اس سے روگردانی ہر گز نہیں کی جا سکتی. 
اور یہ بھی کہنا درست ہے کہ ہمارے معاشرے میں شرح خواندگی (Literacy Rate ) میں یقیناً اضافہ ہی ہوا ہے، علم کے توسط سے ہم کیا نتائج اخذ کر رہے ہیں اور ہمارا رحجان کس سمت رواں دواں ہورہا ہے، یہ وہ پیمانہ ہوگا جس کی بنیاد پر تعلیمی معیار کو بھی پرکھا جا سکتا ہے کہ وہ عروج کی منازل طے کر رہا ہے یا رو بہ تنزل ہے؟
رہی بات شعور کے فقدان کی کہ تعلیمی شعور، سیاسی شعور، حالات حاضرہ کے مسائل اور ان کا حل کرنے کا شعور، آخرت کا شعور، خدا کے پاس جواب دہی کا شعور، معاشرے میں دوست و دشمن کے درمیان امتیاز کرنے کا شعور، آنے والی نسلوں کی صحیح تربیت و رہ نمائی کا شعور، ماضی کی غلطیوں سے درس و عبرت حاصل کرنے کا شعور، مستقبل میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا شعور، مومن ایک ہی سوراخ سے دو بار ڈسا نہیں جاتا، حدیث شریف کے اس اہم نکتے کو سمجھنے کا شعور، 
غرض کہ مختلف سمتوں میں اور ماضی کے تجربات و مشاہدات سے درس و نصیحت حاصل کرتے ہوئے، حال کے لمحات کا بہترین تصرف کرتے ہوئے اور مستقبل کو خوب سے خوب تر سنوارنے کے فن اور شعور کو اپنانا ضروری ہے. 
"الحذر من فقد الشعور و اتباع رأي العامة"
یعنی شعور کے فقدان کے باعث رائے عامہ کی پیروی سے بچنے کا حکم کیا گیا ہے، لہذا اھدنا الصراط المستقیم کو اپناتے ہوئے اور لقد کان لکم فی رسول اللہ أسوة حسنه کے مصداق یہ سمجھنا لازمی ہے کہ اسوۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہی کو اپنا طرز حیات بنانے میں دنیا و آخرت دونوں جہاں کی کامیابی ہے اور یہی تمام مسائل کا اصل حل اور سد باب بھی ہے۔
علیزے نجف: ہمارے معاشرے میں قابلیت کو ڈگری سے جوڑ کر دیکھنے کا رویہ پایا جاتا ہے، جس کے اپنے جواز ہیں. تعلیمی معیار کے کمتر ہونے کی وجہ سے اب ڈگری کے ہوتے ہوئے لوگ قابلیت سے محروم نظر آتے ہیں. اس سے معاشرتی سطح پہ انتشار کی دھند پیدا ہوتی دیکھی جا سکتی ہے. آپ کو کیا لگتا ہے، کیا قابلیت کو ڈگری سے مربوط کرنے کا رویہ صحیح ہے، اس سے پیدا ہونے والے منفی عناصر سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے، جیسے محض ڈگری نہ ہونے کی وجہ سے کسی کی صلاحیت کو چنداں اہمیت نہ دینا اپنے علم کی روشنی میں بتائیں؟
خلیل الدین تماندار: معاشرے میں قابلیت ، ڈگری اور تعلیمی معیار کے مابین ربط و تعلق کو جاننے کے لیے ایک مثال کو سمجھنا ضروری ہے کہ تین ستونوں پر مشتمل اگر کوئی عظیم الشان عمارت تعمیر کی جائے گی تو اس کا ایک ستون قابلیت، صلاحیت، استعداد و اوصاف پر مبنی ہوگا، دوسرا ستون اس فن و ہنر کی نسبت لازمی و ضروری درکار ڈگری یا سند کو شمار کیا جائے گا اور تیسرا اہم ستون تعلیمی معیار ہی قرار دیا جائے گا، لہذا اس عمارت کا اگر کوئی بھی ایک ستون کمزور و ناتواں ثابت ہو جائے تو ظاہر سی بات ہے مکمل عمارت اس سے متاثر ہوگی. 
یہ واقعہ ہے کہ ہر شخص کی زندگی میں ایک ہدف یا ٹارگٹ ( Target) ہوا کرتا ہے، اپنی منزل تک رسائی حاصل کرنے کے لیے، اپنا ہدف حیات پانے کے لیے یا کسی مخصوص فن میں اختصاص یا مہارت حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے اس معیار تک پہنچنا لازمی ہوگا، مستقل جانفشانی اور محنت شاقہ کے بعد ہی اس فن کی ڈگری یا سند حاصل کی جائے گی. بعد ازیں اس فن کے ماہرین کی صحبت، تجربات و مشاہدات سے مزید اس میں نکھار یا صلاحیتیں پیدا ہوں گی. لہذا ان تینوں عوامل (Factors) کی بنیادوں میں اگر دیانت داری، اخلاص، ایمان داری، مروت، درد آشنائی، خدا ترسی، آخرت کی جواب دہی، اسوۂ حسنہ و سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اصول و ضوابط اور خوف الہی کی آمیزش کر دی جائے گی تو ان شاءاللہ پھر اس بھٹی سے گزرنے والا ہر فرد ایک کندن ہی بن کر نکلے گا اور ایسے ہی ایمان دار و دیانت دار افراد پر مشتمل جو معاشرہ وجود میں آئے گا، ایسے ہی معاشرے کی الحمدللہ دنیا کو آج ضرورت ہے اور ان شاءاللہ تا قیامت ضرورت باقی رہے گی!
علیزے نجف: سیکھنا ایک ایسا عمل ہے جو گود سے گور تک جاری رہتا ہے، اس عمل کے شعوری طور پہ جاری رہنے سے ہی شخصیت کا ارتقا ہوتا ہے، لیکن ہمارے یہاں اکثر و بیشتر جگہوں پہ اسے محض تعلیمی اداروں سے موسوم کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے انسانی ذہن ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح تعفن زدہ ہونے لگتا ہے، اس رویے کے پیچھے کون سی ذہنیت کارفرما ہے، اس حوالے سے ہمارے معاشرے کو کیسے بیدار اور خود آگاہ بنایا جا سکتا ہے؟
خلیل الدین تماندار: حدیث شریف "اطلبوا العلم من المھد الی اللحد" کے مصداق ماں کی گود سےقبر کی گود تک علم حاصل کرنا ہے اور یقیناً علم حاصل کرتے رہنا ایک مستقل جہد مسلسل ہے، اس مشن میں جس قدر محنت و ریاضت برتی جائے گی اسی قدر علم میں پختگی، اعتماد، استعداد اور نکھار پیدا ہوتا چلا جائے گا، یہ واقعہ ہے کہ درس و تدریس کے سلسلے کو تعلیمی اداروں تک محدود کردیا گیا ہے، لیکن یہ انفرادی و اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہر شخص ذاتی طور پر، اپنی بساط بھر اور اپنے لیے دستیاب محدود وسائل کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنے اپنے دائرہ کار میں مزید علوم کو حاصل کرنے کی کاوشوں میں لگا رہے، کیوں کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں، کے مصداق مستقل عزم و حوصلے کے ساتھ آگے بڑھتے رہنا چاہیے، نیز اس کار خیر میں معاشرے کی اجتماعی قوتیں بھی شامل ہوجائیں تو ان شاءاللہ خوب سے خوب کے نتائج حاصل ہو سکتے ہیں اور جس سے سارا معاشرہ بھی مستفیض ہو سکتا ہے. 
علیزے نجف: آپ نے عملی زندگی میں میڈیکل کی پریکٹس کا آغاز کب اور کہاں سے کیا اور اس وقت آپ کہاں پہ مسیحائی کے فرائض انجام دے رہے ہیں، اس فیلڈ سے وابستہ کوئی یادگار واقعہ کیا ہم سے شیئر کرنا چاہیں گے؟
خلیل الدین تماندار: الحمدللہ گزشتہ چار دہائیوں سے راقم السطور کا تعلق فن طب سے رہا ہے، کسی اسلامی دانش گاہ میں چند لمحات گزارنے کی سعادت اگر کسی کو میسر ہو جائے تو اسے قال اللہ و قال الرسول، تلاوت قرآن کریم، فقہ و تفسیر، علوم القرآن، علوم حدیث، عربی زبان و ادب، عقیدہ، فلسفہ، بحث و تحقیق وغیرہ جیسے مختلف موضوعات اس کی نگاہوں میں سماتے چلے جائیں گے، اسی طرح فن طب کے گہرے سمندر میں جب کوئی داخل ہوتا ہے تو مرض، مریض، انفیکشن، تفتیش اور کشمکش حیات و موت کے درمیان ایک ڈاکٹر ہر سمت سے گھرا ہوا رہتا ہے، دنیا کے کسی بھی اسپتال کے ایمرجنسی سیکشن جسے عربی میں طواری، ہندی میں اپگھات اور انگریزی میں کیجویلٹی (Casualty) کہتے ہیں، میں صرف چند گھنٹوں کے لیے بھی کوئی چلا جائے تو آپ کو ایمبولینس و اسٹریچر، ڈاکٹرز و نرسیز، انجکشن و آئی ویز، آکسیجن و امبو بیگ، بلڈ سیمپل و ڈریسنگز، آپریشن تھیٹر و وارڈز میں داخل ہوتے ہوئے اور نکلتے ہوئے مریضوں کا ایک ہجوم، درد میں کراہتے ہوئے اور خون سے لت پت افراد، مختلف حادثات کے شکار ہاتھ پیر میں فریکچر اور بسا اوقات سفید چادروں میں ڈھکی ہوئی لاشیں غرض کہ یہی سب کچھ آنکھوں میں، سانسوں میں اور دل کی دھڑکنوں میں رچ بس جاتا ہے اور مرض و مریض ہی گویا اوڑھنا و بچھونا بن جاتے ہیں!
چار دہائی قبل ممبئی یونی ورسٹی سے ایم بی بی ایس کی تکمیل کے بعد نائر اسپتال ممبئی اور باندرہ بھابھا اسپتال باندرہ ممبئی میں صبح تا ظہر تک انٹرن شپ کی مصروفیات، دوپہر تا عشاء تک انٹرن شپ کے دوران ہی اعزازی طور پر ممبئی کی گنجان مسلم آبادی والے علاقے مدن پورہ و سانکلی اسٹریٹ بائیکلہ کے دو اہم طبی و فلاحی ادارے ایک پی ایس ایف میڈیکل سینٹر مدن پورہ اور دوسرا بالڈی والا چیریٹیبل ڈسپنسری بائیکلہ ممبئی، اس کے بعد ممبئی میونسپل کارپوریشن کے مختلف اسپتالوں جیسے کستوربا انفیکشن اسپتال آرتھر روڈ سات رستہ ممبئی، وی این دیسائی میونسپل جنرل اسپتال، سانتا کروز ممبئی اور بھگوتی میونسپل جنرل اسپتال بوریولی ممبئی میں شعبۂ میڈیسن میں ریسیڈنٹ میڈیکل آفیسر، اندرا گاندھی میموریل میونسپل جنرل اسپتال بھیونڈی میں میڈیکل آفیسر، لیکچرار فارمیسی کالج و شعبۂ میڈیکل لیبارٹری ٹیکنالوجی وغیرہ میں کل تقریبا ایک دہائی طبی خدمات کے مواقع نصیب ہوئے، اس کے بعد اللہ کے فضل و کرم سے مستقل سترہ برس حرم مکی شریف مکہ مکرمہ کے مطب/ کلینک میں طبی خدمات کی سعادت نصیب ہوئی لہذا گزشتہ کئی دہائیوں پہ مشتمل ان برسہا برس کے دوران ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں ایسے اہم واقعات ہیں جن پر مبنی ایک کتاب مرتب کی جا سکتی ہے، قصہ مختصر فن طب ایک ایسا نوبل پروفیشن ہے جسے انسان اخلاص کے ساتھ اور اللہ کو حاضر و ناظر جان کر دل جمعی سے انجام دے تو اس شعبے میں اللہ کی خوشنودی بھی حاصل کی جا سکتی ہے اور محض مادی نقطۂ نگاہ سے کیا جائے تو ڈھیر ساری دنیا بھی بٹوری جا سکتی ہے!
اب یہ تو ہرانسان کا اپنا ذاتی فیصلہ اور توفیق الہی پر منحصر ہے کہ وہ دنیا یا آخرت میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے؟
علیزے نجف: آپ کو حرم مکی شریف میں بھی طبی خدمات  انجام دینے کا شرف حاصل ہے، اس دوران آپ نے دنیا کی عظیم ترین علمی ہستیوں سے ملاقات کی سعادت بھی حاصل کی، میں چاہتی ہوں کہ آپ ان میں سے کسی دو یادگار ملاقات کو ہمارے قارئین سے شیئر کریں؟
خلیل الدین تماندار: الحمدللہ یہ محض اللہ کا فضل و کرم ہی تھا کہ اس ناکارہ کو رب العالمین نے بیت اللہ شریف کے مطب/ کلینک میں مستقل سترہ برس کے ایک طویل عرصے تک طبی خدمات کا موقع عنایت فرمایا. 
اس نسبت پر برصغیر کے ایک معروف و بین الاقوامی سطح کے خطاط مصلح و صاحب دل شاعر شاہ نفیس رقم الحسینی رح کے اشعار راقم تحریر کے جذب دروں کی کیا خوب ترجمانی کر رہے ہیں. 
تو نے اپنے گھر بلایا میں تو اس قابل نہ تھا
گرد کعبے کے پھرایا، میں تو اس قابل نہ تھا
جام زم زم کا پلایا، میں تو اس قابل نہ تھا
بھا گیا میری زبان کو ذکر الا اللہ کا
یہ سبق کس نے پڑھایا، میں تو اس قابل نہ تھا
خاص اپنے در کا رکھا تو نے اے مولا
یوں نہیں در در پھرایا، میں تو اس قابل نہ تھا
کے مصداق سترہ برس 1997ء تا 2014ء، طبی خدمات کی سعادت بخشی، ابتدائی برسوں میں ناچیز کا مطب، حرم کلینک باب الفتح کے بالائی حصے پر واقع تھا جہاں کلینک میں راقم الحروف کی کرسی سے بیت اللہ شریف اور مطاف کے روح پرور مناظر کو براہ راست دیکھا جا سکتا تھا، الحمدللہ جب بھی طبیعت چاہتی کہ نگاہ اٹھائی اور کعبۂ معظمہ کو دیکھ لیا، واللہ یہ ایک ایسی عظیم نعمت تھی کہ جس کے مقابل ساری دنیا ہیچ نظر آتی ہے!
اللہ کا شکر و احسان رہا کہ یہاں عرب و عجم کے علماے کبار، اپنے دور کے کئی مشاہیر، معروف علمی، ادبی، سیاسی و سماجی شخصیات، کئی ممالک کے وزرا و صدور اور شہزادوں سے بھی ملاقاتوں کے نقوش ہنوز تازہ ہیں لیکن اللہ کے فضل و کرم سے راقم ہمہ وقت وارث الانبیاء علماے کرام ہی سے ملاقاتوں کو اولین ترجیح دیتا رہا ہے، لہذا اس نسبت پر عالم اسلام کے دو اہم اکابرین سے ملاقاتوں کا تذکرہ یہاں قارئین کرام کی خدمات میں شئیر کر رہا ہوں:
غالباً ستمبر 1998ء کے ایام رہے ہوں گے، حرم مکی شریف کے باب شاہ عبدالعزیز سے مطاف کی جانب راقم السطور داخل ہورہا تھا کہ سامنے سے شاہ فیصل ایوارڈ یافتہ، سابق رئیس عالمی رابطۂ ادب اسلامی، سابق رکن رابطۂ عالم اسلامی مکہ مکرمہ، سابق ناطم دارالعلوم ندوة العلماء لکھنئو، سابق صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، سابق صدر اسلامک اسٹدیز سینٹر آکسفورڈ اور گزشتہ صدی میں عالم اسلام کی ایک عظیم شخصیت مفکر اسلام سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رح حرم شریف سے باہر کی جانب وہیل چئیر پر اپنے چند قریبی احباب کے ہمراہ تشریف لارہے تھے، حرم شریف کی اس ملاقات سے پیشتر ہندستان میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی رح سے الحمدللہ ناچیز کو بارہا ملاقاتوں کی سعادت نصیب ہو چکی تھی، ممبئی یونی ورسٹی سے ایم بی بی ایس کی تعلیم کے دوران آشیانہ اپارٹمنٹ ناگپاڑہ جنکشن ممبئی، سہاگ پیلیس بائیکلہ ممبئی سینٹرل، جامع مسجد واشی نیو ممبئی کی سنگ بنیاد کے موقع پر، مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس میں، ممبئی میں مسلم ڈاکٹر برادری کو سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے خطاب کے موقع پر، برادر مرحوم امین الدین شجاع الدین کے ہمراہ دارالعلوم ندوة العلماء لکھنئو کے مہمان خانے، نیز رائے بریلی کے سفر میں تکیہ دائرہ شاہ علم اللہ پر، مقصد حیات کے عنوان سے آپ کا اہم و قیمتی جواب حاصل کرنے کا ایک تحریری سلسلہ وغیرہ جیسے کئی موقعوں پر حضرت مولانا رح سے بیشتر شرف ملاقات اور گفت و شنید کا اعزاز حاصل ہو چکا تھا، لیکن حرم مکی شریف مکہ مکرمہ میں آج آپ سے پہلی بار ملاقات کا اتفاق ہورہا تھا، آپ رح وہیل چئیر پر تشریف فرما تھے، ناچیز نے بڑھ کر سلام کرتے ہوئے مصافحہ کیا، حضرت رح نے الحمدللہ پہچان لیا، بہت ساری دعائیں دیں اور کہا کہ حرم مکی شریف میں انتہائی دل جمعی سے طبی خدمات انجام دیتے رہو، اپنی نگاہ تنخواہ پر کبھی نہ رکھو بلکہ حرم شریف کی نمازیں، عبادات اور انسانی خدمات پر رکھو، اللہ اس کا بہترین اجر عطا فرمائے گا، چند ماہ قبل ہی ناچیز کو صفا و مروہ کے مقابل مکتبہ مکہ مکرمہ کے اس مخصوص کمرے میں اندر جانے کا شرف بھی حاصل ہوا تھا جسے مولد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کہا جاتا تھا اور اس مخصوص کمرے میں ناچیز نے اپنی آنکھوں سے مفکر اسلام سید ابوالحسن الندوی رح کی علامہ اقبال رح پر تحریر کردہ عربی زبان میں ایک اہم تصنیف "روائع اقبال" کو دیکھنےکا اتفاق ہوا تھا جس کا اردو ترجمہ "نقوش اقبال" کے نام سے دستیاب ہے، حرم مکی شریف میں حضرت مولانا رح کی موجودگی پر راقم نے مولد النبی صلی اللہ علیہ و سلم میں باصرہ نواز آپ کی تصنیف "روائع اقبال" کا بھی تذکرہ کیا، حضرت مولانا رح کے چہرے پر ناچیز ابتسام اور تشکر کی جھلکیاں محسوس کررہا تھا کہ ہر آن انسان کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہر نعمت و عمل کی تکمیل توفیق الہی ہی سے ہوا کرتی ہے، اس گفت و شنید میں تقریباً دس منٹ کا وقفہ گزر چکا تھا آپ رح کے ساتھ اس وقت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی حفطہ اللہ تعالی، حضرت مولانا سید محمد واضح رشید ندوی رح، جامعہ ام القری میں انگریزی ادب کے پروفیسر ڈاکٹر عباد الرحمن نشاط رح اور مدینہ منورہ میں ربع صدی سے زائد مقیم مرحوم طارق حسن عسکری تمام صاحبان بھی تشریف فرما تھے. 
مفکر اسلام سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رح سے ناچیز کی یہ آخری یادگار ملاقات تھی کہ اس کے ایک سال بعد 31 دسمبر 1999ء میں ماہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں بروز جمعہ سورہ یسن کی آیت نمبر (11):
انما تنذر من اتبع الذکر و خشی الرحمن بالغیب فبشرہ بمغفرة و اجر کریم
کی تلاوت کرتے ہوئے آپ نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی تھی. 
ان للہ وانا الیہ راجعون
حرم مکی شریف میں باب عبدالعزیز سے ناچیز جب بھی اس جگہ سے گزرتا، حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رح کی قابل رشک موت اور قابل رشک حیات کی یادیں تازہ ہو جایا کرتی تھیں. 
دوسری یاد گار ملاقاتوں میں سے عالم اسلام میں ایک مرکزی و عمودی حیثیت رکھنے والے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ تعالی سے رہی، تمام تفصیلات کچھ اس طرح سے ہیں کہ غالباً دس بارہ برس قبل کا وہ واقعہ ہوگا کہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ تھا، حرم مکی شریف میں لاکھوں کا ہجوم تھا، حرم میں موجود مطب کلینک کے دائیں جانب 84 نمبر کا الیکٹریکل اسکیلیٹر تھا اور اب بھی پے، حرم شریف میں ظہر کی نماز باجماعت ادا کرنے کی غرض سے اقامت کہی جارہی تھی، دریں اثنا ناچیز کی نگاہ عالم اسلام کے ایک جید و ممتاز عالم دین مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ تعالی پر پڑی، آپ کی نگاہیں نماز باجماعت ادا کرنے کی غرض سے حرم شریف کے دور اول میں جگہ تلاش کر رہی تھیں لیکن لاکھوں کے اس ازدحام میں کہیں کوئی خالی جگہ نظر نہیں آرہی تھی، حرم شریف کے ہمارے اس مطب میں الحمدللہ آٹھ دس افراد آسانی سے نماز ادا کرسکتے تھے، راقم تحریر نے فوری طور پر حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مد ظلہ العالی کو ہاتھوں سے اشارہ کیا کہ حضرت آپ اندر مطب میں تشریف لے آئیں، چوں کہ ہمارا مطب داخل حرم اور قبلہ رخ کی سمت ہی میں واقع تھا اس لیے آپ صف میں شریک ہوگئے، ظہر کی فرض نماز باجماعت ادا کی گئی، نماز بعد مطب کے برقی قمقموں/ لائٹس کو آن کیا گیا، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ تعالی نے استفسار فرمایا کہ حرم کا یہ کون سا شعبہ ہے؟ ناچیز نے حرم کلینک اور پھر اپنا تعارف کیا اور آپ سے درخواست کی حضرت آپ حرم شریف کے اس مطب/ کلینک میں ڈاکٹر کی کرسی پر تشریف فرما ہوکر، آپ کی آمد پر عز و شرف اور سعادت حاصل کرنے کا ہمیں موقع عنایت فرمائیں، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے ناچیز کی اس درخواست کو بہ خوشی قبول بھی فرمایا. 
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے حرم مکی شریف میں ناچیز کی یہ پہلی یادگار ملاقات تھی، اس ملاقات سے کئی برس قبل، آپ کے برادر خورد اور مفتیِ اعظم پاکستان حضرت مولانا محمد رفیع عثمانی رح اور آپ کے فرزند محترم مولانا زبیر محمد ابن مفتی محمد رفیع عثمانی سے بھی روابط تھے، البتہ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مد ظلہ العالی سے ناچیز کا خط و کتابت کا سلسلہ قائم تھا، مزید حسن اتفاق کہ چند ہفتوں پہلے ہی حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کے دست قلم سے تحریر کردہ ایک خط ناچیز کو موصول ہوچکا تھا، فوری طور پر اس کا ایک عکس ناچیز نے آپ کے دست مبارک میں دیا، آپ حرم مکی شریف کے مطب پر ناچیز کی کرسی پر تشریف فرما تھے، آپ کے ہاتھوں میں آپ ہی کا تحریر کردہ خط تھا اور ناچیز ادب و احترام سے عالم اسلام کے ایک عظیم اسکالر سے دعاؤں کی درخواست کررہا تھا، الحمدللہ واقعی وہ ایک قابل دید منظر تھا، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی حفظ اللہ تعالی سے حرم مکی شریف سے پہلی یاد گار ملاقات کے وہ مبارک لمحات آج بھی نگاہوں میں گویا سمائے ہوئے ہیں!
علیزے نجف: آپ نے ایشیائی، عرب اور یوروپی ممالک میں رہ کر ان کی قدروں اور تہذیبوں کو بہت قریب سے دیکھا اور برتا بھی ہے، ان تینوں خطوں کی کنہیں دو دو خوبیوں کو بیان کرنا ہوا تو وہ کیا ہوں گی؟
خلیل الدین تماندار: قل سیروا فی الارض فانظروا کیف بدا الخلق ثم اللہ ینشئ انشاة الاخرة ان اللہ علی کل شئی قدیر ( سورہ العنکبوت ، آیت نمبر 20)
ترجمہ : کہہ دو ملک میں چلو، پھرو پھر دیکھو کہ اس نے کس طرح مخلوق کو پہلی دفعہ پیدا کیا، پھر اللہ آخری دفعہ بھی پیدا کرے گا، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے. 
آیت کریمہ کے مصداق دنیائے فانی کو درس و عبرت کی نگاہ سے بھی دیکھنا چاہیے. 
اللہ کا احسان رہا کہ سر زمین ہند میں زندگی کے کل 37 برس، حجاز مقدس میں خصوصاً مکہ مکرمہ میں کل سترہ برس اور 2014ء سے تادم تحریر کل نو برس کینیڈا میں قیام و سکونت کا اللہ پاک نے موقع عنایت فرمایا، علاوہ ازیں دوبئی، ابو ظہبی، دیار غیر میں ہالینڈ، جرمنی، فرانس و امریکا کے اسفار کو بھی رب العالمین نے آسان فرمایا، علاوہ ازیں اپنے گھر بیت اللہ شریف میں طبی خدمات کے دوران تقریباً دنیا کے ہر ملک کے باشندوں سے ملاقات کی سعادت بخشی، اس طرح مختلف ممالک کے افراد میں مختلف زبانوں، مختلف تہذیب و ثقافت، مختلف مزاج اور مختلف عادات و اطوار کے افراد ربط و تعلق رہا، قصہ مختصر، ایشیا کے لوگوں میں وسائل کے بغیر بھی عروج کی منازل طے کرنے کا جذبہ اور جہد مسلسل، اہل عرب میں سخاوت و فیاضی اور مہمان نوازی اور کینیڈا و یورپ کے حضرات میں اپنی منزل تک پہنچنے کی دھن و تڑپ اور اپنے فرائض میں دیانت داری کا احساس جیسی مختلف صفات کو واضح و نمایاں طور پر دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے-
علیزے نجف: حرم مکی شریف میں 1997ء تا 2014ء کے، سترہ برس کے اس طویل عرصے میں وہ کون سے ایسے دو ناقابل فراموش لمحات یا مواقع ہیں جنھیں آپ ساری عمر یاد رکھیں گے ؟
خلیل الدین تماندار: حرم مکی شریف میں طبی خدمات کے ایک طویل عرصے 1997ء تا 2014ء کے درمیان ناچیز کو الحمدللہ بیشتر ایسے ناقابل فراموش لمحات نصیب ہوئے ہیں جن کی یادوں کو تا دم اخیر اپنے سینے میں محفوظ رکھنا، راقم السطور باعث عز و شرف اور سعادت سمجھتا ہے. 
ایک یکم شعبان 1420 ہجری کو غسل کعبة اللہ شریف کے دوران، اندرون کعبہ معظمہ میں داخل ہونے اور تقریباً 45 منٹ کا قیام، دل کی ایک عجیب سی کیفیت تھی جسے زباں بیان کرنے سے قاصر ہے، جس کا اظہار صرف آنسوؤں ہی سے کیا جاسکتا ہے کہ رب العالمین نے اپنے اس بندۂ عاجز کو یہ سعادت بخشی اور اپنے گھر بیت اللہ شریف میں اندر آنے اور ذکر و فکر، استغفار و نوافل ادا کرنے کا اعزاز بخشا. 
بے شک ذالك فضل الله یوتیه من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم کے علاوہ اور کوئی الفاظ ہی نہیں ہیں کہ ناچیز اللہ سبحانہ قدوس کا شکر ادا کر سکے. 
اسی طرح الحمدللہ ایک مرتبہ 9 ذی الحجہ 1419 ہجری یوم العرفہ کو کعبة اللہ شریف کی چھت پر بعد نماز ظہر تا قبل نماز عصر کا درمیانی وقفہ، تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا قیام رہا اور یہ لمحات راقم تحریر کی حیات مستعار کے وہ قیمتی لمحات ہیں جن پر جس قدر رشک و شکر ادا کیا جائے کم ہوگا، کعبہ معظمہ کی چھت پر اس وقت جو رقت و ہیبت کی کیفیت طاری تھی اسے بھی الفاظ کا پیرہن نہیں دیا جاسکتا. 
بے شک کعبہ شریف کے اندر 45 منٹ اور کعبة اللہ کی چھت پر ڈیڑھ گھنٹے کے وہ ایسے گراں مایہ لمحات ہیں جس کا موازنہ دنیا کی کسی بھی نعمت سے نہیں کیا جاسکتا!
بس، سبحان اللہ بحمدہ، سبحان اللہ العظیم کے مبارک الفاظ ہی زبان سے ادا کیے جا سکتے ہیں۔
علیزے نجف: مکہ میں مقیم ہوتے ہوئے آپ نے پوری دنیا کی معتبر اسلامی شخصیات سے ملنے کا شرف حاصل کیا ہے اور ان سے ہر پہلو پہ تبادلۂ خیال بھی کیا ہے، میرا سوال یہ ہے کہ موجودہ وقت میں عالمی سطح پہ مسلمانوں کو کس طرح کے چیلنجز درپیش ہیں اور دیگر اقوام کے مقابلے میں ان کی حالت زار کیسی ہے؟
خلیل الدین تماندار: عصر حاضر میں عالمی سطح پر مسلمانوں کو جو چیلنجز و مسائل درپیش ہیں وہ اظہر من الشمس ہیں، ان مسائل و چیلنجز کا تجزیہ ہمیں انفرادی و اجتماعی دونوں حیثیت سے کرنا لازمی ہے، کائنات کی مختلف کہکشاؤں میں موجود سیاروں کا اپنا اپنا ایک مدار و محور ہوا کرتا ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک اس سیارے کی گردش اپنے مدار میں ہوتی ہے وہ حالت توازن میں ہی رہتا ہے لیکن جب وہ اپنے محور سے ہٹ جائے گا تو نہ صرف اس کا توازن بگڑے گا بلکہ وہ اپنے اطراف کے لیے بھی باعث خطر ثابت ہوگا، اسی بنیادی بات کا سمجھنا ضروری ہے کہ اس کائنات کا خالق و مالک رب العالمین وحدہ لا شریک لہ ہے، ان الدین عند اللہ الاسلام اس کا طے شدہ دین فطرت ہے اور وہی تمام عالمین کا پالن ہار ہے. 
وما ارسلنك الا رحمة للعالمین کے مصداق خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نبیِ رحمت بنا کر مبعوث کیے گئے ہیں اور انسان کو اشرف المخلوقات کا خطاب دے کر کرۂ ارض پر خلیفة الارض بنا کر بھیجا گیا ہے کہ وہ اس زمین پر امن و امان کو قائم کرے اور شر و فساد سے باز آجائے، اسی مقصد کے تحت اسے سیارۂ زمین کے عارضی مستقر پر ایک مدت معینہ کے لیے بھیجا گیا ہے، اسوۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے خطوط پر جب تک اس کی حیات مستعار کے لمحات صرف ہوں گے تو خوشنودیِ الہی کے عین مطابق فیصلے صادر ہوتے رہیں گے ورنہ بہ صورت دیگر انفرادی و اجتماعی دونوں صورتوں میں مختلف چیلنجز و مسائل میں انسان گھرا ہوا ہی رہے گا اور مزید گھرتا جائے گا، یہ چیلنجز کبھی آپسی اتحاد ختم ہونے پر نااتفاقی کی شکل میں ظاہر ہوگی تو کبھی مخالفین کے نرغے میں وہ پھنسا ہوا دکھائی دے گا، کبھی وہ معاشی بحران کا شکار ہوگا تو کبھی اخلاقی پامالی کا رونا روتے ہوئے نظر آئے گا، کبھی اس پر کوئی ظالم حکمراں مسلط کر دیا جائے گا تو کبھی اسے مادی وسائل کی کم یابی کا احساس ہوگا، کبھی اسے دہشت گردی جیسے مختلف الزامات میں ملوث کیا جائے گا تو کبھی وہ عدل و انصاف کا طلب گار دکھائی دے گا، کبھی وہ اپنے بنیادی حقوق نہ ملنے کی شکایت کرےگا تو کبھی سکون کی تلاش میں مارا مارا پھرتا نظر آئے گا. 
حالات حاضرہ پر اگر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو تقریباً یہی کیفیات ہر فرد واحد کو انفرادی اور سارے معاشرے کو اجتماعی طور پر محیط کیے ہوئے ہیں۔حاصل کل یہی ہے کہ جب تک ہم اپنے محور اور دین فطرت سے وابستگی اختیار نہیں کریں گے اور واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا (سورہ آل عمران، آیت 103) پر عمل پیرا نہیں ہوں گے تب تک یہ مسائل و چیلنجز حل نہیں ہو سکتے اور دیگر اقوام کے مقابلے میں یقیناً ہماری حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جائے گی اور یہ اسی وقت بہتر ہوسکتی ہے جب تک اپنے رب سے ہم اپنا تعلق استوار نہ کر لیں. 
قصہ مختصر عالمی سطح پر مسلمانوں کو اسلاموفوبیا، اسلام کے خلاف مختلف غیر ضروری اعتراضات کے مدلل جوابات، باہمی اتحاد و اتفاق، اغیار تک دین فطرت کا صحیح تعارف، نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کی رحمتوں سے بھرا پیغام، توحید کی امانت کو دوسروں تک پہنچانا، عالمی سطح پر امن و سلامتی کا قیام، سودی نظام کے خلاف جنگ، فکر آخرت و خدا ترسی جیسے بیش بہا موضوعات ہیں جن پر غور و فکر اور عملی طور پر پیش قدمی لازم امور میں سے ہیں. 
علیزے نجف: آپ کو فن طب کے علاوہ تحریر و تقریر سے بھی ایک جذباتی لگاؤ ہے، مختلف رسائل و جرائد میں آپ لکھتے رہتے ہیں، انھی مضامین کا مجموعہ آپ کی کتاب نقوش حرم ہے. میرا سوال یہ ہے کہ لکھنے کے اس سفر کا آغاز کہاں سے اور کیسے ہوا اور آپ کے وہ بنیادی افکار کیا ہیں جو آپ کی بیشتر تحریروں میں مرکزیت کا مقام رکھتے ہیں؟
خلیل الدین تماندار: یہ واقعہ ہے کہ فن طب دراصل ناچیز کی حیات مستعار میں خدمت انسانی اور رزق حلال حاصل کرنے کا ایک ذریعۂ معاش رہا ہے لیکن فن طب کے ساتھ ساتھ تحریر و تقریر سے بھی گذشتہ کئی دہائیوں سے راقم تحریر کی وابستگی رہی ہے. 
بہ قول ریاض خیر آبادی (1853ء تا 1932ء)
ہم نے اپنے آشیانے کے لیے—– جو چبھے دل میں وہی تنکے لیے—– کے مصداق زندگی کے ابتدائی مراحل ہی سے دل پہ جو بات اثر کرتی تھی وہ بہ شکل تقریر زبان سے نکلتی تھی لیکن چوں کہ کسی بھی خطاب کا اثر مؤقت و محدود ہی ہوا کرتا ہے، لہذا آنے والی نسلوں تک اپنے جذب دروں کو منتقل کرنے کی غرض سے تحریر سے بہتر اور کوئی شکل نہیں ہوسکتی، لہذا تین دہائیوں سے اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کے لیے تحریر انتہائی مؤثر ثابت ہوتی چلی گئی اور دل پر اثر انداز ہونے والے یہی وہ افکار ہیں جو رفتہ رفتہ حرم مکی شریف کے سترہ برس کےطویل قیام کے دوران ہند و پاک، سعودی عرب و نیپال کے مؤقر جرائد و اخبارات میں نہ صرف زیور طبع سے اراستہ ہوئے بلکہ اللہ کے فضل و کرم سے وہ وقت بھی آیا جب حرم مکی شریف، مکہ مکرمہ میں تحریر کردہ ناچیز کے ایک مضمون کا گیارہ زبانوں میں ترجمہ ہوا اور ایک دوسرا مضمون ایک ہی وقت میں چار ممالک میں کل چودہ مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوا، جس پر ناچیز اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے الحمدللہ کے مبارک کلمات ادا کرتا ہے، راقم السطور کی مختلف تحریروں میں دنیاوی معاملات سے آخرت کے نتائج، فکر آخرت، توحید کا پیغام، دنیا کی بے ثباتی، آخرت میں اصل انعام و اعزاز اور کامیابی کا ایک ہی راستہ اخلاص کے ساتھ اسوۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر سختی سے عمل تقریباً یہی بنیادی افکار ناچیز کے مضامین میں گویا ایک محور اور مرکزیت کا مقام رکھتے ہیں۔
علیزے نجف: آپ کی کتاب ‘نقوش حرم` ایک ضخیم اور جامع کتاب ہے جو آپ کے مشاہدات و مطالعات اور تجربات کی آئینہ دار ہے. آپ نے اس میں مختلف شخصیات سے ملاقات کی روداد کو بھی بہ حسن و خوبی  بیان کیا ہے، میرا سوال یہ ہے کہ جب بھی آپ کسی سے ملتے ہیں تو اس کی کن خوبیوں پہ آپ کی گہری نگاہ ہوتی ہے اور ان سے استفادہ کس طرح کرتے ہیں؟
خلیل الدین تماندار: الحمدللہ گذشتہ چھ دہائیوں میں بچپن تا پچپن کے عرصے میں بے شمار دانشوان، بزرگان اور علماے کبار سے ملاقاتیں جن کا تذکرہ "نقوش حرم" میں کیا گیا ہے، وہ تمام ملاقاتیں ناچیز کے لیے گویا ایک
"گنج ہائے گراں مایہ" کی حیثیت رکھتی ہیں، اپنے بڑوں سے ملاقاتیں دراصل چھوٹوں کے لیے ایک درس گاہ کی مانند ہوتی ہیں کہ ان بزرگوں کے تجربات و مشاہدات سے ساری زندگی کے "حاصل کل" کا اظہار ہوتا ہے، ان کا ایک ایک عمل کئی کئی دہائیوں سے حاصل شدہ نتائج پر مبنی ہوتا ہے اور ان اسلاف کی زباں سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ گوہر نایاب کی حیثیت رکھتا ہے، جو کسی درسی و نصاب کی کتابوں اور دور حاضر کے گوگل میں بھی ہزار کوششوں کے باوجود حاصل نہیں ہو سکتا-
زندگی کے اس طویل سفر میں مختلف بزرگوں سے ملاقاتوں پر ناچیز کی نگاہیں کن اہم نکات اور گوشوں کو اخذ کرتی تھیں یہاں اس کی چند مثالیں محض فیض عام کی خاطر پیش کی جارہی ہیں:
مثلاً اپنے دور کے ایک اہل اللہ، ہمہ وقت فکر آخرت میں ڈوبے ہوئے، توحید پر سختی سے عمل پیرا، عربی زبان میں سنن الکبری( تین جلدوں میں) اور تحفة الاشراف (تیرہ جلدوں) میں مرتب کرنے والے اور فن حدیث میں ایک اہم کارنامہ انجام دینے والے اہل حدیث عالم دین و محدث حضرت مولانا عبدالصمد شرف الدین رح (1901ء تا 1996ء) جو رابطۂ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے سابق سیکریٹری جنرل اور نائب صدر مجلس شوری سعودی عربیہ عبداللہ عمر نصیف حفظہ اللہ تعالی کے حقیقی ماموں تھے، سے ناچیز کے 1970ء تا 1995ء کے درمیان تقریبا” ربع صدی کے روابط رہے اور اکثر و بیشتر عصر، مغرب و عشاء کی نمازیں آپ کی اقتدا ہی میں ادا کرنے کی سعادتیں حاصل ہوتی رہیں، خصوصاً نماز عصر کی چار رکعت آپ چالیس منٹ میں مکمل کرتے تھے، اکثر ناچیز اور مولانا رح دونوں ہی نماز عصر کی جماعت میں شریک ہوتے، نیز مقامی حضرات شارٹ کٹ کا استعمال کرتے ہوئے آخری چوتھی رکعت یا رکوع میں شریک ہوجاتے اور اپنی نماز مکمل کرلیتے تھے، ایک دن مولانا سے ناچیز نے کہا کہ حضرت آپ ایسا کوئی زریں پیام ( گولڈن ورڈز) تحریر فرما دیجیے جسے تا حیات یاد رکھا جا سکے، اس درخواست پر محترم مولانا عبدالصمد شرف الدین رح نے درج ذیل حدیث شریف عنایت فرمائی:
عن ابی ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ قال، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: اذا قمت فی صلاتك، فصل صلاة مودع، ای کن کانه آخر صلواتك، و ھذا الوقت آخر حیاتك"
ترجمہ: حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص سے جس نے آپ سے نصیحت طلب کی کہ جب تو اپنی نماز میں کھڑا ہو جائے تو الوداع کہنے والے کی نماز پڑھ یعنی گویا یہ تیری آخری نماز ہے اور یہ وقت تیری آخری گھڑی ہے."
(بحوالہ: ناچیز کی تصنیف "نقوش حرم" صفحہ نمبر 288)
اسی طرح مکہ مکرمہ، دارالعلوم ندوة العلماء لکھنؤ، رائے بریلی تکیہ اور ممبئی میں مختلف موقعوں پر مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رح (1914ء تا 1999ء) سے ملاقاتیں نصیب ہوئیں لیکن 18 ستمبر 1996ء کو مہمان خانے لکھنؤ میں مفکر اسلام رح کی دی گئی ایک نصیحت کا ایک ایک لفظ آج بھی یاد آرہا ہے:
” کارخانۂ قدرت پر کل اختیار اللہ وحدہ لا شریک لہ ہی کا ہے، وہی خالق و مالک کل ہے، اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت ہی میں آخرت کی نجات و فلاح ہے، سچی توبہ کر کے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کا عہد کریں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ کبھی کسی کا حق نہ ماریں اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کا مطالعہ پابندی سے کریں."
(بحوالہ: ناچیز کی تصنیف "نقوش حرم" صفحات نمبر 242 و 243)
اسی طرح مکہ مکرمہ میں واقع مدرسہ صولتیہ میں شاہ عبدالقادر رائے پوری رح کے خلیفۂ مجاز، بر صغیر کے ایک نامور خطاط، مصلح و صاحب دل شاعر حضرت شاہ نفیس رقم الحسینی رح (1933ء تا 2008ء) کی ایک نصیحت درج ذیل حدیث شریف:
لا یزال لسانك رطبا بذکر اللہ"
ترجمہ : اللہ کے ذکر سے اپنی زبان کو تر رکھو
پر سختی سے عمل کرنے کی تاکید کے نقوش، ہنوز تازہ ہیں. 
(بحوالہ: ناچیز کی تصنیف "نقوش حرم" صفحہ نمبر 275)
اسی طرح مکہ مکرمہ میں سابق ناطم مدرسة الاصلاح سرائے میر یوپی و سابق صدر دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ (1937ء تا 2008ء) کو مکہ مکرمہ میں ان کی قیام گاہ پر ایک نو مسلم ڈاکٹر سنجے پانڈے (موجودہ نام صالح کریم) کو ملاقات کرانے کی غرض سے ناچیز جب پہنچا تو اس وقت آپ نے اس نومسلم کو قبول اسلام پر مبارکباد دیتے ہوئے جو تلقین فرمائی تھی اس کا ایک ایک لفظ آج بھی کانوں میں گونج رہا ہے. 
"دنیا حق کی تلاش میں ہے اور ہمارا فرض اولین ہے کہ دوسروں تک ہم حق کی دعوت اور توحید کا پیغام پہنچانے رہیں."
(بحوالہ ناچیز کی تصنیف "نقوش حرم" صفحہ نمبر 279)
غرض کہ اس طرح کی درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، لیکن یہاں محض افادۂ عام کی نیت سے چند ناموں کا اظہار کیا گیا ہے اور یہی وہ سب دروس و نصائح ہیں جو ہمیں اپنے بڑوں سے حاصل کرتے رہنا چاہیے. 
علیزے نجف: زندگی حادثات و واقعات کا مجموعہ ہے، یہ انسانی فکر کو مہمیز دینے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں. آپ اپنی زندگی کے اب تک کے واقعات کو کس طرح دیکھتے ہیں اور ان سے اب تک کیا کیا سبق سیکھے ہیں؟
خلیل الدین تماندار: حرم مکی شریف میں طبی خدمات کے سترہ برس کے اس طویل عرصے میں دو بار ناچیز کے ساتھ مکہ ٹو جدہ ایکسپریس ہائی وے اور جدہ ٹو مدینہ منورہ ہائی وے پر دو مرتبہ خطرناک قسم کے کار حادثات پیش آئے اور دونوں مرتبہ اللہ نے اپنا خصوصی فضل و کرم فرمایا. 
02 فروری 2002ء بہ مطابق آٹھ ذی الحجہ 1422 ہجری کیلنڈر، یوم العرفہ کی شب اور مکہ ٹو جدہ ایکسپریس ہائی وے پر ایک امریکن GMC ٹرک انتہائی برق رفتار سے تعاقب کرتے ہوئے نظر آئی، اس کی ہیڈ لائٹ سے نکلتی ہوئی تیز روشنی میں اپنی کار کو قابو میں ہی کر رہا تھا کہ مہلت نہ مل سکی اور محض چند سیکنڈز میں خطرناک قسم کا حادثہ یا تصادم وقوع پذیر ہو گیا، ناچیز کی کار بالکل ختم ہوچکی تھی، ناچیز اس ایکسپریس ہائی وے پر اپنے آپ کو موت کے منہ میں جاتا دیکھ کر کلمۂ طیبہ لا اله الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھ چکا تھا کہ گویا یہ زندگی کی  آخری گھڑی ہے لیکن اللہ کے فضل و کرم سے بالکل صحیح و سالم بچ کر نکلنا ایک ایسی حقیقت تھی جس پر جذبۂ تشکر کا اظہار لازمی ہے کہ اللہ نے ایک نئی زندگی عطا فرمائی، اس حادثے کی تمام تفصیلات بہ عنوان: "سبحان تیری قدرت! اللہ کیسے بچاتا ہے" سے سپرد قلم کیا گیا ہے (بحوالہ ناچیز کی تصنیف: نقوش حرم صفحہ نمبر 96)
اسی طرح 29 اگست 2002ء کو جدہ سے مدینہ منورہ ایکسپریس ہائی وے پر، نیند کی غنودگی میں کار چلاتے ہوئے ایک حادثہ پیش آیا اور تقریباً پندرہ فٹ کار روڈ سے نیچے اتر چکی تھی لیکن اللہ کے فضل سے نہ کار کو دھکا لگا اور نہ ہی کسی کو ہلکی سی خراش بھی آئی، گھر کے تمام افراد اس وقت حالت نیند میں تھے اور ناچیز نسیم سحری کے خوش گوار جھونکوں سے محظوظ ہوتا ہوا نیند کی غنودگی میں کار چلا رہا تھا اور کار کی اسٹیرنگ سے ہاتھوں کی گرفت چھوٹ چکی تھی، خاندان کے کل افراد میں ان لمحات میں صرف پچاس دنوں کا ایک شیر خوار بچہ اسمعیل سلمہ بھی شریک سفر تھا اور الحمدللہ اب اس تحریر کو قلم بند کرتے وقت وہی اسمعیل سلمہ نے الحمدللہ کینیڈا سے تحفیظ القرآن کی تکمیل کی سعادت حاصل کر لی ہے. 
لہذا ایسے حادثات سے انسان کو صرف یہی نتیجہ اخذ کرنا چاہیے کہ سفر کا آغاز ہمیشہ رات کے آخری حصے کی بجائے فجر بعد کرنا بہتر ہوگا، نیز دعوت الی اللہ کی اسٹیرنگ ( steering) کو اگر سیدھے رخ پر مضبوطی سے پکڑا جائے، امربالمعروف کے ایکسیلریٹر (Accelerator) کو صحیح رفتار دی جائے اور نہی عن المنکر کے بریک ( Brake) کو بروقت قابو میں رکھا جائے اور اللہ کی جانب سے ہدایت و نصرت شامل حال رہی تو جہنم کی گھاٹی میں گرتی ہوئی ساری انسانیت کو روکا جا سکتا ہے. 
(بحوالہ: ناچیز کی تصنیف "نقوش حرم" صفحہ نمبر 100)
علیزے نجف: ایک کامیاب زندگی گذارنے میں کئی عناصر کا اہم کردار ہوتا ہے، ان کے ساتھ تعامل کر کے ہی زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے. آپ ایک کامیاب زندگی گزارنے کے لیے کن اصولوں کے ہونے کو لازمی سمجھتے ہیں اور کیوں؟
خلیل الدین تماندار: بنیادی طور پر ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ زندگی میں کامیاب ترین شخص کون ہے؟ یا کامیابی کسے کہتے ہے؟
ظاہر سی بات ہے کہ اس دنیا میں آنے میں نہ ہماری مرضی شامل ہے اور نہ ہی اس دار فانی سے کوچ کر جانے میں ہمارا کچھ عمل دخل ہے، لہذا رب العالمین ہی کے حکم پر آنے و جانے کا انحصار ہے، تو زندگی کے یہ عارضی لمحات گزارنے میں بھی اسی خالق و مالک کی اطاعت کیوں نہ کی جائے؟
ایام طفولیت ہی سے قرآن کریم سے ماخوذ یہ دعا ہم ہر روز مانگتے ہیں:
"ربنا آتنا فی الدنیا حسنة و فی الآخرة حسنة و قنا عذاب النار"
(سورہ البقرہ: آیت نمبر 201)
ترجمہ: اے ہمارے پروردگار، ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی (سے نواز) اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھ (آمین)
لہذا ایک کامیاب زندگی گزارنے کے لیے جن بنیادی اصول و ضوابط کا ہونا لازمی ہیں، ان میں سے ایک تو ہمارا ظاہر و باطن دونوں، مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند کے مصداق، اللہ کے حکم کے تابع ہوجائے اور ہماری نگاہیں (قوت بصارت) ہمارے کان (قوت سماعت) اور زبان (قوت گویائی)، تمام اعضا بھی قرآن کریم کی اس آیت کی عملی تفسیر بن جائیں تو دنیا کی کوئی طاغوتی طاقت اس دنیا میں ہمیں زیر نہیں کر سکتی اور ان شاءاللہ آخرت میں بھی اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل ہوگی:
ومن اعرض عن ذکری فان له معیشة ضنکا و نحشر یوم القیامة اعمی
(سورہ طه، آیت نمبر 124)
ترجمہ: اور جو میرے ذکر سے منہ پھیرے گا تو اس کی زندگی بھی تنگ ہوگی اور اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے. 
لہذا فلاح دارین اسی میں مضمر ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کے ساتھ مستقل حیات مستعار گزاری جائے اور اسی خالق کی رضا کا پروانہ اپنے ساتھ لیتے ہوئے اس دنیا کو خیر باد کہا جائے. 
علیزے نجف،: اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بھی کچھ بتائیں، کس طرح کا مزاج رکھتے ہیں اور پروفیشنل سرگرمیوں کے علاوہ اور کن مشاغل میں دل چسپی رکھتے ہیں، فیملی کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے کس شغل کا ہمیشہ اہتمام کرتے ہیں؟
خلیل الدین تماندار: اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں کیا بتائیں کہ جس شخص کے شب و روز خدمت خلق اور سماجی خدمت گزاری میں بسر ہوتے ہیں، جس کا نصب العین "کرو مہربانی تم اہل زمیں پر—-خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر اور ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے—آتے ہیں جو کام دوسروں کے" ہمیشہ سے رہا ہے، ایسے افراد کی اپنی کوئی ذاتی زندگی نہیں ہوا کرتی. 
یاد آتا ہے زمانۂ طالب علمی میں، میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کے دوران، علاج کی غرض سے اپنے شہر سے آنے والے مریضوں کو پہلے دن استقبال سے ان کی مکمل صحت و شفا یابی تک یا ان مریضوں کا جنازہ اٹھنے تک تمام کاموں میں اول تا آخر مکمل تعاون، میڈیکل پریکٹس کے دوران رات دن مریضوں کی خدمات دل جوئی و مزاج پرسی، حرم مکی کے مطب میں مریضوں کا ہجوم و ضیوف الرحمن کا پرتپاک استقبال اور اب کینیڈا میں برصغیر سے جاننے والے قریبی احباب و متعلقین کے فون پر پیغامات کہ کینیڈا آنے کے لیے ہمیں کیا کیا کرنا ہوگا؟
اللہ کا احسان رہا کہ الحمدللہ ناچیز کی زندگی کے لیل و نہار صرف اپنی ذات تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ اوروں کے بھی لیے کسی نہ کسی کار خیر میں اللہ پاک نے ناچیز کو ہمیشہ مصروف ہی رکھا، جس پر اللہ کا شکر بجا لانا لازمی ہے اور راقم تحریر دعاگو بھی ہے کہ اللہ ان ٹوٹی پھوٹی کاوشوں کو قبول فرمائے اور ذخیرۂ آخرت بھی بنائے (آمین)-
رہا مزاج کا معاملہ تو انسان کو ہمہ وقت خوش مزاج ہی رہنا چاہیے، کہ کسی سے کوئی ایک بار ملاقات ہو تو اس شخص سے اس قدر حسن سلوک سے پیش آیا جائے کہ وہ دوبارہ ملاقات کی خواہش رکھے، اللہ کا فضل و کرم رہا کہ برصغیر سے آنے والے زائرین ناچیز کا نمبر اپنے اپنے قریبی عزیز و اقارب کو دے دیا کرتے تھے جس کا یہ فیض حاصل ہوا کہ ایام حج میں مدینہ جانے والے قافلوں میں سے اکثر حضرات ناچیز کا سلام سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے روضۂ اطہر پر پہنچا دیا کرتے تھے اور مکہ مکرمہ میں بیشتر افراد طواف میں ناچیز کے حق میں دعا بھی فرماتے تھے، راقم السطور کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ ہر شخص سے تعلق خالص اللہ واسطے رکھا جائے، نہ کوئی ذاتی غرض و طلب اور نہ ہی ستائس کی تمنا اور نہ صلے کی پرواہ!
پروفیشنل سرگرمیوں کے علاوہ گذشتہ کئی دہائیوں سے تحریر و تقریر، عوامی خطابات، مختلف اخبارات و جرائد میں دل پر آمد جذب دروں کا اظہار، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے مصداق حق کی دعوت، اغیار تک توحید کا پیغام، غرض کہ اسی فکر میں شب و روز گزرتے رہتے ہیں. موجودہ سرگرمیوں اور مشاغل میں میرے مخدومی و مربی حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی حفطہ اللہ تعالی کے حکم پر انگریزی میں جمعہ کے خطابات کا سلسلہ گذشتہ کئی برسوں تک الحمدللہ قائم رہا، علاوہ ازیں حرم مکی شریف میں تحریر کردہ مضامین کا مجموعہ "نقوش حرم" کے بعد گذشتہ نو برسوں سے کینیڈا میں قیام کے دوران سپرد قلم کیے گئے رشحات قلم بہ عنوان "نقوش کینیڈا" اور انگریزی میں دیے گئے جمعہ کے خطابات و دیگر مختلف آرٹیکلز کو ایک کتابی شکل میں مستقبل قریب میں مرتب کرنے کا ارادہ ہے، بشرطیکہ اللہ پاک مزید زندگی عطا فرمائے اور تحریر و تقریر کی صلاحیتوں کو قائم و دائم رکھے. (آمین)
فیملی کے ساتھ وقت گزارنا واقعی ایک مشکل مرحلہ ہوا کرتا ہے کہ ایک انسان جو خود اپنے لیے نہیں جیتا اس کے لیے اپنے گھر والوں کے لیے وقت نکالنا قدرے مشکل ہوجاتا ہے، اللہ اجر عظیم عطا فرمائے ناچیز کی اہلیہ محترمہ ڈاکٹر طلعت صاحبہ (ایم ڈی پیڈیاٹرکس، ڈی سی ایچ، ایم بی بی ایس) کو جو بذات خود ایک مصروف ماہر اطفال کے ساتھ ساتھ الحمدللہ میرے تین بیٹوں کی تربیت میں اہم رول ادا کرتی رہیں، اس طرح کہ بڑے بیٹے ابراہیم نے ایم بی بی ایس کی تکمیل کے ساتھ تیرہ جزو قرآن، دوسرے بیٹے یوسف نے کینیڈا میں لاجسٹک کی تعلیم کے ساتھ چار جزو قرآن اور سب سے چھوٹے بیٹے اسمعیل میاں سلمہ نے اپنے ثانوی درجات و یونی ورسٹی کے سال اول کے ساتھ ساتھ مکمل تحفیط القرآن الکریم کی تکمیل بھی کی ہے اور یہ واقعہ ہے کہ ان تمام کاوشوں میں ام ابراہیم کا اہم رول و کردار رہا ہے، اللہ پاک ام ابراہیم کو ان کی ان تمام تر کاوشوں پر اجر عظیم عطا فرمائے. (آمین ثم آمین)
علیزے نجف: آپ کے نزدیک جاگتی آنکھوں سے دیکھے ہوئے خواب کی حقیقت و ماہیت کیا ہے؟ کیا زندگی میں خواب کا ہونا ضروری ہے؟ کیا آپ نے بھی اوائل زندگی میں موجودہ مقام تک پہنچنے کے خواب دیکھے تھے یا اب بھی آپ کی آنکھوں میں ایسا کوئی خواب ہے جو شرمندۂ تعبیر ہونے کا منتظر ہے؟
خلیل الدین تماندار: حالت نیند میں نظر آنے والے خواب کے متعلق مشہور سائنس داں ولیم فرائڈ ( William Freud) نے خواب کی تعریف کچھ اس طرح سے کی ہے
” Unfulfilled desires which reflect as a dream”
یعنی ایسی خواہشات جن کی تکمیل نہیں ہوپاتی وہ خواب کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں"
محققین کا کہنا ہے خواب (PGOS)
Ponto -geniculate -occipital spikes
سے شروع ہوتا ہے، خواب دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک عام قسم کا خواب جو Unfulfilled desires/ غیر تکمیل شدہ خواہشات کی وجہ سے ہوتا ہے اور دوسرا سچا خواب جو رویۂ صادقہ کہلاتا ہے، قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر خواب کے متعلق تذکرہ بھی کیا گیا ہے، ملاحظہ فرمائیں:
سورہ الصفات آیت نمبر(102)  ترجمہ:
” تو (ابراہیم علیہ السلام ) نے کہا میرے پیارے بچے، میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، اب تو بتا تیری کیا رائے ہے؟"
اور اسی طرح سورہ یوسف کی آیت نمبر 04: ترجمہ: "جب کہ یوسف علیہ السلام نے اپنے والد سے ذکر کیا کہ ابا جان میں نے گیارہ ستاروں کو اور سورج و چاند کو دیکھا کہ وہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں."
(بحوالہ ناچیز کی تصنیف "نقوش حرم" صفحات نمبر 148-149)
لیکن جیتی جاگتی آنکھوں سے خواب کا تعلق انسان کے تخیلاتی منصوبہ بندی اور خواہشات کی ایک طویل فہرست پر منحصر ہوتا ہے، اور یہ واقعہ ہے، بہ قول نصیر احمد ناصر:
خواب اور خواہش میں فاصلہ نہیں ہوتا
عکس اور پانی کے درمیان
آنکھوں میں آئینہ نہیں ہوتا
لیکن جیتی جاگتی آنکھوں کے خوابوں اور مقاصد جلیلہ کی تکمیل کے لئے جہد مسلسل، عمل پیہم اور مستقل عزم لازمی عوامل (Factors) ہیں کہ مستقل عزم گر حیات میں ہے تو ناممکن بھی ممکنات میں سے ہیں اور عمر کے اس پڑاؤ میں محض ایک خواب شرمندۂ تعبیر ہونے کا منتظر ہے کہ ساری زمین اللہ کی ہے اور اس میں آباد تقریباً آٹھ بلین بندگان خدا وحدہ لا شریک له کے سامنے سر بہ سجود ہوجائیں!
عربی میں "العاقل تکفیه الاشارہ" اور فارسی میں عاقلان را اشارہ کافی أست یا عقل مندوں کو اشارہ کافی ہے، اللہ کرے کہ یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوجائے. 
(آمین، یا رب العالمین)
علیزے نجف: یہ انٹرویو دیتے ہوئے آپ کے احساسات کیا تھے اور اس کے سوالات سے کس حد تک مطمئن تھے، کیا کچھ کہنے کی تشنگی اب بھی باقی ہے؟
خلیل الدین تماندار: کل بیس سوالات پر مشتمل اس انٹرویو میں زندگی کی کھلی کتاب کے سارے اوراق یکے بعد دیگرے کھلتے چلے گئے، نیز ان بیس سوالات کے جوابات دیتے دیتے ذہن بے ساختہ منکر نکیر کے ان تین سوالات کی جانب بھی مبذول ہوگیا جو صندوق قبر میں پوچھے جائیں گے، ربی یسر ولا تعسر و تمم بالخیر کے مصداق اللہ منکر نکیر کے ان سوالات کے جوابات کو آسان فرمائے، کیوں کہ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے، اللہ پاک اس منزل کو ہم سب پر آسان فرمائے، (آمین) آپ کے سوالات ماشاءاللہ انتہائی پختہ قسم کے تھے جن سے ساری زندگی پر ایک نگاہ طائرانہ پڑ جاتی ہے اور الحمدللہ آپ کی ذہنی و فکری صلاحیتوں کا بھی بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اللہ پاک آپ کو مزید عروج کے مدارات پہنچائے (آمین)
اس سوال کا آخری جملہ
"کیا کچھ کہنے کی تشنگی اب بھی باقی ہے؟"
اس جملے کو دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا تھا کہ گویا دم واپسیں ہے یا کسی سے اس کی زندگی کے آخری لمحات میں یہ پوچھا جائے کہ آپ کی اخری خواہش کیا ہے؟
اگر اس کا اظہار کر نے کے لیے کہا جارہا ہے تو راقم السطور بس یہی کہنا چاہے گا کہ:
بہشت کی حوریں دل نہ بہلا سکیں گی
یا الہی ہم تو پیاسے ہیں تیرے دیدار کے
یا فرقان حمید میں سورۃ الملک کی آیت نمبر (12)
ان الذین یخشون ربھم بالغیب لھم مغفرة و اجر کبیر
ترجمہ: بے شک جو لوگ اپنے رب سے بن دیکھے ڈرتے ہیں ان کے لیے بخشش اور بڑا اجر ہے. 
اور اللہ کا دیدار ہی ایک مومن کے لیے کامیابی کی معراج ہے. 
اللہ پاک ہم تمام اہل ایمان کو اپنا دیدار نصیب فرماوے (آمین) بس انہی الفاظ پر اس انٹرویو کو اختتام کیے دیتا ہوں
وما علینا الا البلاغ
***
علیزے نجف کی یہ گفتگو بھی ملاحظہ فرمائیں:تعلیم کا نام صرف دستخط کر لینا نہیں: ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے