غالبؔ کے منفرد خیالات

غالبؔ کے منفرد خیالات

بی بی آبیناز جان علی
موریشس

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے
مرزا اسد اللہ خان غالبؔ اردو اور فارسی کے بہت بڑے شاعر ہیں۔ غالبؔ کی شاعری سے اردو ادب کا ایک نیا باب کھل گیا۔ مرزا غالبؔ کی شاعری عام فہم ہے اور سب کو لطف اندوز کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ غالبؔ کی شاعری میں علامہ اقبالؔ کی طرح کوئی مخصوص فلسفہ یا کوئی انوکھا پیغام نہیں ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ غالبؔ بہ قول مالک رام ’فلسفی دل و دماغ کا مالک ہے۔` غالبؔ کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ وہ اپنی شاعری میں زندگی اور زندگی کے مسائل پر تدبر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جس کی بدولت غالب کے کلام کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا ہے۔ غالبؔ کے کلام میں چند تصورات بار بار آتے ہیں۔ اس مقالے میں تمنا، حسن، ویرانی اور جنت پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ یہ تصورات غالبؔ کے ذہن، تعلیم و تربیت، مشاہدے، تجربے اور طویل غور و فکر کے دین ہیں۔
تصور کا مطلب خیال ہے۔ انگریزی مفکر اور فلسفی ایمرسن کے مطابق دنیا کا سب سے مشکل کام سوچنا ہے۔ غالبؔ کی شاعری سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ غالبؔ کے تخیل کی پرواز بہت اعلا ہے۔ وہ کسی بھی مسئلہ پر حقیقت کا پہلو نکال لیتے ہیں۔ ایک شعر میں غالبؔ اپنے تصورات کی وضاحت فرماتے ہیں: ؎
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے ادھر ہوتا کاش کے مکاں اپنا
غالبؔ کے حوصلے میں بڑی وسعت ہے اور ان کی فکر میں بلندی ہے۔ وہ انسان کی عظمت پر بلند رائے رکھتے ہیں۔ بہ قول محمد عزیز حسن، غالبؔ کے اردو اور فارسی کلام ’حالات، کیفیات، جذبات اور احساسات‘ سے پر ہیں۔ غالبؔ کے اشعار میں نفسیاتی تجزیہ، دنیا کا نظام، آدمی کی زندگی اور زندگی کی کشمکش سے پیدا ہونے والے اثرات پر غالبؔ نے شاعرانہ روایات کو قائم و برقرار رکھا ہے۔ غالبؔ مجموعی طور پر ایک رجائی ذہن رکھتے ہیں۔ ان کے کلام میں مایوسی کی کم نشانی ملتی ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں: ؎
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
درحقیقت غالبؔ کی شاعری زندگی کے نشیب و فراز کا اعتراف کرتی ہے۔ مرزا غالبؔ کی بذلہ سنجی، لطیفہ گوئی، ان کی شاعری اور نثر میں غیر معمولی شگفتگی پیدا کرتی ہے۔ ان کے اسلوب بیان میں دل آویزی اور طرز ادا میں جدت طرازی ہے۔ ان کے مضامین کی بلند پروازی ان کی ذہنی حالت کو ظاہر کر دیتی ہیں۔
غالبؔ کے یہاں زندگی ایک امتحان ہے۔ زندگی میں پیش آنے والی کشمکش کے متعلق غالبؔ کا یہ نظریہ ہے کہ ؎
نہ جانوں نیک ہوں یا بد ہوں پر صحبت مخالف ہے
جو گل ہوں تو ہوں گلخن میں، جو خس ہوں تو ہوں گلشن میں
یہ عام خیال ہے کہ جو نیک عمل کرتے ہیں ان کو آرام، خوش حالی، عزت اور عوام میں قبولیت ملتی ہے اور جو برے کام کرتے ہیں ان کو رسوائی ملتی ہے اور وہ تنگ دست رہتے ہیں۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو نیک لوگ پریشانیوں میں زیادہ مبتلا رہتے ہیں جب کہ بدکار خوب پھولتے پھلتے ہیں۔ غالبؔ کے مطابق زمین کی زیبائش آدمی کے لیے امتحان ہے۔ غالبؔ کی شاعری میں بتایا گیا ہے کہ آدمی کے اندر دنیا کی تمنا کے پیدا ہونے میں ہی اس کا امتحان ہے۔ ؎
بیدلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بیکسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
تمنا ہی ذات میں استحکام پیدا کرتی ہے۔ عاشق محبوب کے حسن و جمال کا پرستار ہے۔ محبوب کی موجودگی سے عاشق کے دل میں ولولے اور تمنائیں جاگ جاتی ہیں۔ عشق کی تمنا تمام تمناؤں اور آرزوؤں سے بڑی ہے۔ ایک شعر میں غالبؔ فرماتے ہیں ؎
جب وہ جمالِ دل فروز صورتِ مہرِ نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردہ میں منہ چھپائے کیوں
محبوب کو دیکھنے کی تمنا عاشق میں جوش، گرمی اور ولولہ پیدا ہونے کا سبب ہے، عاشق اپنے خیالوں میں محبوب سے ہم کلام ہوتا ہے۔ محبوب کی یاد میں سرور کی کیفیت پنہاں ہوتی ہے۔ تمنا عاشق کے دل میں ایک بے قراری پیدا کرتی ہے۔ تمنا میں ایک بیتابی ہے۔ تمنا فرد کو حوصلہ اور ہمت دیتی ہے۔ غالبؔ کے یہاں تمنا طلب کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ آدمی کے قلب و دماغ پر تمناؤں کا نظام حاوی ہے۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
آدمی کی حالت یہ ہے کہ ہر خواہش کے پورا ہونے کے بعد وہ اس میں مزید اضافہ چاہتا ہے اور کسی تمنا کے پورا ہونے پر مطمئن نہیں ہوتا۔ غالبؔ نے آرزو کا تاریک پہلو بھی بیان کیا ہے۔ آدمی پوری دنیا کو فتح کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور اپنی انسانیت کو بالائے طاق رکھ کرحد سے گذر جاتا ہے۔
مرزا غالبؔ کے تصور حسن میں وہ کسی شکل و صورت میں حسن کو محدود نہیں سمجھتے۔ وہ اپنی شاعری میں عشقِ حقیقی کو فوقیت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ فرماتے ہیں ؎
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دوچار ہوتا
غالبؔ خود کو دنیا اور دنیوی زندگی سے آگے لے جاتے ہیں۔ تلاشِ حسن میں بھی وہ اسی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ جو کچھ نظروں کے سامنے ہے وہی اصل حقیقت نہیں ہے۔ بلکہ ہر جگہ اور ہر چیز میں خدا کا جلوہ موجود ہے۔ مرزا غالبؔ چونکہ وحدت الوجود کے ماننے والے ہیں اور صوفیانہ مسلک رکھتے ہیں، اس لیے حسن و عشق کے بارے میں انھوں نے یہی نظریہ اختیار کیا۔ غالبؔ نہ صرف وحدت الوجود کے ماننے والے ہیں بلکہ اس کے مبلغ بھی ہیں۔ اس لیے سارے عالم میں وحدت کو پیش کرنے کے لیے مختلف دلائل لاتے ہیں۔ ؎
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
غالبؔ کائنات کو حسن ازل کا ایک جلوہ تسلیم کرتے ہیں اور حسن ازل لامحدود ہے۔ اپنے کلام میں عشق کی جن صفات اور مقامات کا ذکر کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ عشق کو ایک لطیفۂ روحانی اور لامحدود فضا میں پرواز قرار دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ تصورِ ویرانی بھی غالبؔ کی شاعری کی ایک نمایاں خاصیت ہے۔ ویرانی کی تلاش ایک تو خود ویرانے کے لیے ہوسکتی ہے اور دوسری وجہ یہ بھی ممکن ہے کہ در و دیوار سے رہائی مل جائے۔ ایک جگہ فرمایا گیا ہے: ؎
اگا ہے گھر میں ہر سو، سبزہ، ویرانی تماشا کر
مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے میرے درباں کا
شعر کا مطلب یوں ہے کہ جس مکان میں کوئی رہتا نہ ہو اور اس کی دیکھ بھال بھی نہ کی جائے، تو اس میں جابجا گھاس اگ آتی ہے۔ یہاں مکان کو ایسا ہی ویران دکھایا ہے جیسے اس کا کوئی مکیں نہ ہو، مگر اس ویرانی کے ساتھ یہ لطف بھی ہے کہ دربان خدمات انجام دینے کے بجائے گھر کی گھاس کھودا کرتا ہے۔
آدمی جس وجدانی عالم میں ہے اسی کے مناسب ماحول کی جستجو کرتا ہے۔ وہ جس قسم کی جائے سکونت کا متلاشی ہے اس نے تصویر خود ہی کھینچ دی ہے۔ مندرجہ اشعار میں غالبؔ نے صرف تنہائی کی تمنا کی ہے اور زندگی کے تمام لوازمات کو فنا کردیا گیا ہے۔
رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہئے
کوئی ہم سایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مرجائے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
غالبؔ ہم سخن اور ہم زباں سے رہائی پانا چاہتے ہیں۔ جائے سکونت کو درو دیوار سے آزاد کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سایے اور پاسباں سے دور جانا چاہتے ہیں تاکہ آخری حالت میں بیماری میں تیماردار اور موت پر نوحہ خواں تک نہ ہو۔ غالبؔ کی شاعری میں ماحول عاشق کے لیے طمانیت بخش نہیں رہا ہے۔ فرماتے ہیں ؎
ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
غالبؔ قنوطی فلسفے کے مخالف ہیں مگر اس کے باوجود تصوف کے اثرات کے تحت وہ وجود سے عدم کو بہتر بتاتے ہیں اور اس لیے دلیل قائم کرتے ہیں کہ ؎
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں توکیا ہوتا
اس کا جواب ہے: خدا ہی ہوتا۔ اس زندگی میں عاشق کے دل کو تسلی اور سکون نہیں مل سکتا۔ طمانیت اس وقت میسر ہوسکتی ہے جب آدمی دوبارہ اپنی اصل میں ضم ہوجائے یعنی ذاتِ احدیت میں مل جائے۔ ؎
قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہوجائے
کام اچھا ہے وہ جس کا کہ مآل اچھا ہے
عاشق کو جنت کا لالچ نہیں ہے۔ وہ تو بس اپنے رب کی ملاقات کے لیے ترستا ہے۔ ؎
ہوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ
سوائے حسرتِ تعمیر گھر میں خاک نہیں
نقصان نہیں جنوں میں، بلا سے ہو گھر خراب
سوگز زمین کے بدلے بیاباں گراں نہیں
عاشق سو گز زمین کے بدلے میں بیابان خریدنا چاہتا ہے۔ وہ اپنا گھر بیچ کر ویرانے کی خریداری پر تیار ہے۔ غالبؔ جنون کے لیے درودیوار کے تمام قیود سے آزادی کا نظریہ پیش کرتا ہے اور صحرا اس تصورِ آزادی کی نمائندگی کرتا ہے۔ جنون عشق کی انتہائی حالت ہے۔ عشق وہ لطیفۂ روحانی ہے کہ انسانیت کی بقا اور تہذیب اسی کے قیام پر منحصر ہے۔ غالبؔ اپنے دل فریب شاعرانہ انداز میں فرماتے ہیں؎
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کر گھر یاد آیا
یادگارِ غالبؔ میں مولانا حالیؔ اس شعر کی تشریح پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ جس دشت میں ہم ہیں وہ اسی قدر ویران ہے کہ اسے دیکھ کرگھر یاد آتا ہے، یعنی خوف معلوم ہوتا ہے، مگر ذرا غور کرنے کے بعد اس سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ ہم توسمجھتے تھے کہ اپنے گھر جیسی ویرانی کہیں نہیں ہوگی، مگر دشت بھی اس قدر ویران ہے کہ اسے دیکھ کر گھر کی ویرانی یاد آتی ہے۔
غالبؔ ویرانی کا تصور اپنے احوال کے مطابق پیش کرتے ہیں۔ ؎
گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانہ کی
درودیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا
جو ویرانی خود اس کے دل پر طاری ہے اور جس نے اسے انتہائی اداس بنا رکھا ہے، شاعر کو ہر جگہ وہی ویرانی محسوس ہوتی ہے اور اسے اپنے درو دیوار پر بھی یہی ویرانی چھائی ہوئی نظر آتی ہے۔ غمِ عشق میں عاشق اپنے مکان کی دیکھ بھال کرنا بھول جاتا ہے۔ ویرانی عاشق کا مقدر ہے۔ کثرتِ گریہ کے باعث، عاشق کے پاس ویرانی، غم اور آنسو ہیں۔ غالبؔ کی شاعری اس بات کی بھی نشان دہی کرتی ہے کہ غم کی عظمتیں آدمی کی روحانی ترقی کا باعث ہوتی ہیں۔ گویا غم اور ویرانی لازم و ملزوم ہیں۔ ؎
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی، تو ویراں ہوتا
بحر گر بحر نہ ہوتا، تو بیاباں ہوتا
مولانا حالیؔ نے یادگارِ غالبؔ میں لکھا ہے کہ شراب پینے کے علاوہ غالبؔ میں کوئی اخلاقی خرابی نہیں تھی۔ غالبؔ حشر و نشر، قبر میں نکیرین کی آمد اور جنت و جہنم سب کا اقرار کرتے ہیں۔ ؎
وائے گر میرا ترا انصاف محشر میں نہ ہو
اب تلک تو یہ توقع ہے کہ واں ہوجائے گا
ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں ؎
آتشِ دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوزِ غم ہائے نہانی اور ہے
اس شعر میں غالبؔ دوزخ میں جسمانی تکلیف کا اعتراف کرتے ہوئے ان تکالیف کا موازنہ اپنی موجودہ روحانی اور قلبی مصائب سے کرکے اپنی موجودہ حالات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ؎
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کو خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
غالبؔ کے مطابق جنت مومنین کو ایمان اور نیکی کی ترغیب دینے کے لیے کہہ دیا گیا ہے۔ عام عقیدہ ہے آدمی ساری عبادت و ریاضت نعائم کو حاصل کرنے کے لیے کرتا ہے۔ جنت کے متعلق جن تصورات میں عوام اور خواص تک گم ہیں، غالبؔ ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ غالبؔ کے نزدیک جنت کی حقیقت اللہ تعالیٰ پر ایمانِ خالص اور مخلصانہ عبادت کا صلہ ہے۔ اس لیے عبادات میں جنت پیشِ نظر نہیں ہونے چاہئے بلکہ رضائے الٰہی کا حصول رہنا لازمی ہے۔ جنت رضائے الٰہی کا صلہ ہے اس لیے اس کا ہی لحاظ رہنا ہر وقت ضروری ہے۔ غالبؔ وصلِ الٰہی کو مانتے ہیں۔
سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف سب درست
لیکن خدا کرے وہ تری جلوہ گاہ ہو
اہلِ جنت کے لیے سب سے بڑی نعمت وہاں اللہ جل شانہ کا دیدار ہوگا۔ دیدارِ الٰہی کا مستحق بن جانا سب سے بڑی کامیابی ہے۔
غرض کہ غالبؔ وحدت الوجود کے ماننے والے ہیں۔ اپنی شاعری میں سارے عالم کو صفاتِ ربانی تسلیم کرتے ہیں۔ وہ ظاہر کو نہیں بلکہ باطن کو حقیقت فرض کرتے ہیں۔ علیحدہ قطرہ میں نہ موج ہے نہ حباب۔ فنا ہونا آدمی کا مقدر ہے۔ ؎
ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسدؔ
عالم تمام حلقۂ رام خیال ہے
حوالہ
محمد عزیر حسن، ١٩٨٧، ’تصورات غالب‘، غالب اکیڈمی، نئی دہلی۔
***
بی بی آبیناز جان علی کی گذشتہ نگارش :جب میں بڑا ہوجاؤں گا تو کیا بنوں گا؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے