حضرت ہوشؔ جونپوری کی نظم گوئی

حضرت ہوشؔ جونپوری کی نظم گوئی

(شعری مجموعہ ’ناگزیر‘ سے منتخب شدہ سات نظموں کا جائرہ)

وسیم حیدر ہاشمی 

اردو شاعری کے تعلق سے یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ ہر شاعر اپنی شعری زندگی کا آغاز غزل سے ہی کرتا ہے اور تھوڑی مسافت طے کر چکنے کے بعد اپنی پسندیدہ صنف سخن کے ساتھ ہو لیتا ہے۔ میر انیس، جسے دنیا صرف رثائی ادب کے تعلق جانتی ہے، ان کی شاعرانہ زندگی کا آغاز بھی غزل سے ہی ہوا تھا جب کہ بعد میں اپنی خاندانی روایت اور والد میر مستحسن خلیقؔ کی صلاح پر انھوں نے اپنے کمیت قلم کے عِنان بزم سے رزم کی جانب یوں پھیری کہ قاری کو محسوس بھی نہیں ہوتا کہ ان کا واسطہ کبھی غزل سے بھی رہا ہوگا۔ ان سب کے برعکس حضرت اصغر مہدی ہوشؔ نے اپنی شاعری کا آغاز غزل کے بجاے ایک شخصی اور تعزیتی نظم سے کیا تھا۔
ہوشؔ کے والد کا انتقال اس وقت ہوا جب ہوشؔ کی عمر کوئی چار سال رہی ہوگی۔ ان کے ناوقت انتقال کے بعد ہوشؔ کو اپنی والدہ اور خاص کر پھوپھی سے اتنا پیار ملا کہ وہ والد کو جلد ہی بھول گئے۔ وہ چوبیس گھنٹہ اپنی پھوپھی کے گرد ہی منڈلایا کرتے۔ انھیں نہلانا، ہاتھ منہ دھلانا اور کھانا وغیرہ، گو کہ ان کی ہر ضرورت کا خیال پھوپھی، ان کی ماں سے زیادہ رکھتی تھیں، چنانچہ وہ ماں سے زیادہ پھوپھی سے مانوس ہوگئے۔ہوشؔ کے اردو اور فارسی سے لگاو کو دیکھتے ہوئے اسکول کے بعد اردو، عربی، فارسی اور علم عروض اور علم بلاغت کی بنیادی تعلیم بھی انھیں ان کے نانا سے ملنے لگی۔ گیارہ برس کی قلیل عمر میں ہی انھوں نے علم عروض اور علم بلاغت پر حیرت انگیز طور پر دسترس حاصل کر لی۔ اسی عمر میں اچانک ان کی پھوپھی کا انتقال ہو گیا، جو ہوشؔ کے لیے دل دہلا دینے والے صدمے سے کسی صورت کم نہ تھا۔ گیارہ برس کی عمر میں ہی ہوشؔ کو باقاعدہ شعر کہنے کا سلیقہ آگیا تھا۔ ان کی اس عمر کی شاعری بھی محض قافیہ پیمائی، مصرع موضوع کر لینے یا تُک بندی پر منحصر نہ تھی۔ اپنی چاہنے والی پھوپھی کی موت پر جو تعزیتی نظم انھوں نے گیارہ برس کی عمر میں کہی تھی اس کے مطلع سے ہی ان کی صلاحیت کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے:
بلبلِ کنج قفس، آمادۂ پرواز ہوئی
ہاتھ سے جام گرا، جَھن سے اک آواز ہوئی
ہوشؔ نے مکمل طور پر شاعری کس عمر میں شروع کی، اس کا ثبوت تو راقم کے پاس نہیں ہے لیکن اپنی شروعاتی تحقیق میں مجھے ہوشؔ کے متفرق اشعار کے ساتھ جو پہلی مکمل نظم دریافت ہوئی، وہ یہی تعزیتی نظم ہے۔ یا تو اس سے قبل انھوں نے کوئی مکمل نظم کہی ہی نہیں یا پھر مجھے دستیاب نہ ہو سکی۔
ہوشؔ کی پھوپھی کے انتقال سے قبل تو ان کی والدہ، ہوشؔ کی طرف سے ایک دم بے فکر رہتی تھیں، مگر ان کے انتقال کے بعد انھوں نے اپنی تمام تر توجہ ہوشؔ کی تعلیم و تربیت کی طرف مبذول کر دی۔ ماں کی پذیرائی اور جون پور کا ادبی ماحول ہوشؔ کی طبیعت کو خوب راس آیا۔ ایک طرف جہاں ان کی والدہ نے شاعری کے تعلق سے ہوشؔ کی حوصلہ افزائی کی، وہیں دوسری طرف اسکولی تعلیم کی عنان بھی کسے رکھی۔ نتیجہ کے طور پر انھوں نے جون پور سے ہائی اسکول کا امتحان انھیں کی نگرانی میں پاس کیا۔ اسی دوران ہوشؔ کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ان کی زندگی ہی بدل کر رکھ دی۔ گرمیوں کی تعطیل کی وجہ سے ان کا داخلہ ابھی انٹر میں نہیں ہو پایا تھا، چنانچہ وہ ادھر ادھر گھوم پھر کر وقت گذاری کر رہے تھے۔ ایک روز ان کی قمیص دھوتے وقت ان کی والدہ کو ان کی جیب سے دوتین عدد بیڑیاں ملیں تو ان دماغ ٹھنکا۔ انھوں نے فوراً ہوشؔ کا جون پور چھڑا دینا مناسب سمجھا اور اعلا تعلیم کی غرض سے انھیں ان کے بھوپھی ذاد بھائی ریاض حسین کے پاس بنارس بھیج دیا۔ ریاض حسین، بنارس میں ایک سرکاری محکمے میں انجینیر تھے۔ ہوش نے پہلے تو ریاض حسین کی سرپرتی میں یہیں سے بی.کام. پاس کیا۔ اس کے بعد یہیں کے ایک کالج سے وکالت کی سند بھی حاصل کی۔ بی.کام. کے دوران ہی انھوں نے این.سی.سی. میں بھی داخلہ لے لیا تھا اور یہاں سے بھی ”سی“ سرٹی فیکٹ حاصل کیا، جو این.سی.سی. کے لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ صاف ستھری اور اعلا شاعرانہ ذہنیت رکھنے والے ہوش کو وکالت کا پیشہ ایک آنکھ نہ بھایا، چنانچہ ان کی تھوڑی سی کوششوں کے بعد ان کی تقرری یہیں سپلائی آفس میں ’سپلائی انسپکٹر‘ کے عہدے پر ہوگئی، مگر یہاں بھی ان کا دل زیادہ دنوں تک نہ لگ سکا۔ کچھ عرصہ بعد ہی موصوف اس عہدے سے مستعفی ہوکر بنارس ہندو یونی ورسٹی سے ١٩٧٢ء میں ایم.اے.(اردو) کی سند ’گولڈ میڈل‘ کے ساتھ حاصل کی اور بنارس میں ہی’یونین بینک‘ میں آفیسر ہو گئے۔ اس تقرری کے بعد وہ تقریباً یہیں کے ہو رہے، مگر رہے خالص جون پوری ہی، ثُمَّ بنارسی ہونا انھیں قطعی پسند نہ تھا۔بنارس میں حکیم کاظمؔ بنارسی، نذیرؔ بنارسی، مولانا سید ظفرالحسن، مولانا سید احمد حسن، ڈاکٹر مسیح الزماں، پروفیسر امرت لال یا عشرتؔ، پروفیسر حکم چند نیرؔ، پروفیسر سید حنیف احمد نقوی، پروفیسر قمر جہاں، ڈاکٹر علیم مسرورؔ، ڈاکٹر ناظم  جعفری، حفیظؔ بنارسی اور میکشؔ غازی پوری جیسے شعرا اور ادبا نے انھیں سر آنکھوں پر بٹھایا۔ ان لوگوں نے انھیں وہ عزت بخشی جس کے حقیقتاً وہ مستحق تھے۔ بنارس میں قیام کے دوران ہی ان کی کتابیں ”کاغذی ہے پیرہن، گرو نانک دیو اور سنہ ١٩٨٤ء میں ناگزیر“ (شعری مجموعہ) شائع ہوئیں۔
ہوشؔ بنیادی طور پر نظم گو ہی تھے، چنانچہ ”ناگزیر“ میں شائع شدہ ان کی چند نظموں پر بحث مقصود ہے۔ اس مجموعہ کلام میں ان کی پہلی نظم ’سوال‘ ہے جو کلیتاً حمد کی شکل میں ہے جس کے اخیر کے چند اشعار نے ہی اس نظم کو ایک سوال بنا دیا ہے، جو ذیل ہے:
اے خداے ذوالجلال و ذوالجمال
قادر مطلق، قدیر لایزال
باعثِ کونَین، ربُّ العالمیں
خالقِ تتظیمِ حُسنِ ما و طیں
مالکِ دیں، داورِ یوم الحساب
صاحبِ لَوح قلم، اُمّ الکتاب
تیری رحمت تیرے غفاری عظیم
تیری قدرت تیری رزاقی عمیم
تیری وسعت بے کراں و بے فصیل
تیری حکمت بے مثال و بے عدیل
تو مزاج دہر کا نباّض ہے
جانتا ہوں تو بڑا فیاض ہے
چاند کو دی چاندنی، سورج کو نور
بخش دی کہسار کو شانِ غرور
شور دریاؤں کو صحرا کو سکوت
شانِ رزّاقی، ز دامِ عنکبوت
آگ میں دے دی سمندر کو حیات
مور کو بخشا مزاج ممکنات
کر کے یخ بستہ ہوائے زمہریر
باد صرصر کو دیا سوز کثیر
کر دیا بادِ صبا کو تیز گام
ناز لے بیٹھی نسیم خوش خرام
نے کو نغمہ، ساز کو آواز دی
طائروں کو قوت پرواز دی
سرو کو موسم سے رکھا بے نیاز
کر دیا شمشاد کو، قمری نواز
زلف سنبل کو ملی، لالہ کو داغ
تتلیوں کو رنگ، جگنو کو چراغ
روشنی شیشے کو، پتھر کو شرر
لعل صحراؤں کو، دریا کو گہر
برق کو دی لذت سوز چمن
کر دیا شمعوں کو جانِ انجمن
برگ و گل اشجار کو سبزے کو خواب
مےَ کو نشہ اور مینا کو شراب
رقص کی توفیق پیمانے کو دی
چشم حیرت آئنہ خانے کو دی
کشتیوں کو کی عطا ساحل کی رات
کارواں کو بخش دی منزل کی رات
دے کے دوشِ باد پر حسنِ خَرام
ابر کو بخشا گیا رحمت کا نام
سینۂ گیتی میں دانے بھر دیئے
دانے دانے میں خزانے بھر دیے
خاک را افزائش صحرا سپرد
موج را پیمائش دریا سپرد
دل کشی دی، دل ربائی بخش دی
مہ جبینوں کو خدائی بخش دی
شک تری رحمت میں کرنا ہے گناہ
کیا کروں لیکن نکل جاتی ہے آہ
کیا کہوں، تجھ سے کوئی پردہ نہیں
یہ حقیقت ہے کوئی شکوہ نہیں
ظرف کم ظرفوں کا چھلکایا گیا
مجھ کو اک قطرے کو ترسایا گیا
کیا خزانوں میں ترے دولت نہ تھی؟
کیا تری سرکار میں شہرت نہ تھی؟
کیا تری عظمت سے عزت تھی بعید؟
کیا تری رحمت سے راحت تھی بعید؟
میرا حصہ بس دلِ بے تاب تھا؟
میں نے جو چاہا تھا، کیا وہ خواب تھا؟
کس کے بدلے تو نے گن گن کے لیے؟
کیا تراشا تھا اسی دن کے لیے؟
دے کے اک بے چین دل رسوا کیا
اے خدائے دو جہاں، یہ کیا کیا؟
حمد کی شکل میں ہوشؔ کی درج بالا نظم اردو میں لکھی گئی کسی بھی حمد کے مد مقابل ہر معنٰی میں مہتم باالشان نظر آتی ہے۔ ٣١/ اشعار پر مشتمل اس نظم میں ایک شعر بھی ہلکا یا کم زور نہیں، بلکہ نکات شاعری کے لحاظ سے تسلسل نے از خود وہ روانی پیدا کر دی ہے جو خصوصاً اعلا درجے کی شاعری میں ہی نظر آتی ہے۔ فصاحت اور بلاغت کے لحاظ سے بھی اس نظم کے کسی بھی شعر میں تلاش کے باوجود کجی نکال سکنا ممکن نہیں۔ اس نظم میں کم از کم دس ایسے مشکل الفاظ موجود ہیں جن کا استعمال عام بول چال کی زبان میں کم ہوتا ہے اور معنی کے لحاظ سے لغت کی ضرورت ناگزیر ہو جاتی ہے، مگر ہوشؔ نے ان لفظوں کا استعمال دوسرے لفظوں کے ایسے امتزاج کے ساتھ پیش کیا ہے کہ روانی بھی پیدا ہو گئی ہے اور ہر مصرعے کے مشکل الفاظ سے دوسرے مصرعے تک پہنچتے پہنچتے لغت کی ضرورت بے معنی ہو تی جاتی ہے اور قاری اسی روانی کے ساتھ آگے بڑھتا جاتا ہے۔ ہوشؔ کی نظم گوئی کی یہ وہ خوبی ہے جس کی مثال بالخصوص ہی ہو سکتی ہے۔ آخر کے آٹھ اشعار اس نظم میں وہی حیثیت رکھتے ہیں، جسے ایک مکمل افسانے کا کلائمیکس کہا جاتا ہے۔ اختتام ایسا کہ قاری کو کافی عرصہ تک غور و فکر کی دعوت دے۔ اصول شاعری، صنعتیں اور نکات شاعری کے نشیب و فراز پر جتنی باریکی سے غور کیا جاے، یہ نظم اتنی ہی بلند پایہ نظر آے گی۔ صنعتوں کے لحاظ سے ذوالجلال و ذوالجمال، قادر و قدیر لایزال، رب العالمیں اور ماء و طیں، غفاری عمیم تو رزاقی عظیم، وسعت بے کراں و بے فصیل تو رحمت بے مثال و بے عدیل کا امتزاج لاثانی ہے۔ شور و سکوت کے ساتھ رزاقی زدام عنکبوت، آتش میں سمندر جیسی مخلوق کو حیات تو چیونٹی کے مزاج ممکنات کی مثال۔ ہواے زمہریر کے ساتھ ہی باد صرصر کا امتزاج اور تیزگام باد صبا اور خوش خرام نسیم۔ نغمگیں کے ساتھ ساز تو طائروں کے ساتھ پرواز۔ موسم کے ساتھ سرو کی بے نیازی تو شمشاد کی قمری نوازی۔ یہی تمام کیفیات اس نظم کے ہر شعر میں شاعری کے حسن و خوبی کے ساتھ بہ درجہ اتم نظر آئیں گی جو بڑی بات ہے۔ ان تمام بلندیوں اور خوبیوں کے بعد اپنی ناکام زندگی (شاعر کی جانب سے رب العزت کی بے اعتنائی کی بنا پر) کا شکوہ بلا شبہ ایک بہترین کلائمیکس کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس قسم کی نظم میں ایسی روانی تو بس عام طور پر بڑے اور استاد کا ہی کام ہے۔ ان خواص کے علاوہ اس پوری نظم میں اضافتوں کا استعمال نہیں کے برابر ہے، جو اپنے آپ میں ایک بڑی خوبی ہے۔ استعمال شدہ تراکیب کے سلسلہ میں آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ اس نظم میں بہت سی نادر اور اچھوتی ترکیبوں کا استعمال بڑے حسن و خوبی سے کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ”لذت سوز چمن“ اور جان انجمن جیسی متغزلانہ ترکیب کے ساتھ ”افزائش صحرا“ اور پیمائش دریا“ اردو شاعری میں عنقا ہی ہیں۔ یہاں اس پوری نظم کی مثال داغؔ دہلوی کے درج ذیل ایک قطعہ سے کی جا سکتی ہے:
قسمت کیا قسامِ ازل نے ہر اک شے کو
جو شخص کہ جس چیز کے قابل نظر آیا
بلبل کو دیا رونا تو پروانے کو جلنا
غم ہم کو دیا، سب سے جو مشکل نظر آیا
اگر ہوشؔ کی اس نظم اور داغؔ کے بالا قطعہ پر غور کیا جاے تو جو بات سب سے زیادہ ابھر کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ داغؔ کے یہ چار مصرعے ہوشؔ کی پوری نظم کا ماحصل نظر آتا ہے جسے داغؔ کی استادی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جب کہ بادی النظر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہوشؔ کی یہ نظم داغؔ کے درج بالا قطعہ کی بے مثل وضاحت ہے جو کہ ہوشؔ کی نظم گوئی کی منزل عروج ہے۔ ہوشؔ نے اپنی تمام زندگی کِس کسمپرسی کے عالم میں گزاری، اس نظم کے اخیر کے چند اشعار میں اس کی وضاحت بہ خوبی ہو جاتی ہے، جس کا شکوہ انھوں نے اللہ سے کیا ہے۔
اسی کتاب (ناگزیر) کے صفحہ ١٠٣ سے ١٠٥ پر ایک مکمل نظم بہ عنوان ”ادراک“ ملے گی، جس میں ہوشؔ نے زندگی کے عقدہ بن جانے اور تمام عقدے آن کی آن میں کھل جانے کو جس طرح پیش کیا ہے وہ بھی دعوت فکر کے لیے ایک عظیم نقطہ ہے۔ ایک چھوٹی سی آزاد نظم میں کتنا بڑا پیغام پوشیدہ ہے، یہ صرف محسوسات سے تعلق رکھتا ہے:
مرے شعور کا پہلا ہی دن قیامت تھا
پلک جھپکتے ہی لاکھوں سوال ٹوٹ پڑے

میں کون ہوں؟
میں کہاں ہوں؟ کہاں سے آیا ہوں؟

زمین کیاہے؟
فلک کیا ہے؟
یہ خدا کیا ہے؟

یہ مہر و ماہ، یہ انجم، یہ ابروباد، یہ برق
بڑے حسین کھِلونے ہیں
خود آفریدہ ہیں یا کوئی ان کا خالق ہے؟
یہ لوگ کون ہیں؟
ہنستے ہیں اور روتے ہیں؟
اگر یہ ہنستے ہیں، سب ساتھ کیوں نہیں ہنستے؟
اگر یہ روتے ہیں، سب ساتھ کیوں نہیں روتے؟
میں پوچھتا بھی تو کس سے؟ کہ سب سوالی تھے
میں سوچتا رہا !
جلتا رہا !!
پگھلتا رہا !!!
طلسمِ فطرت ہستی کے دام سے بچ کر
اگر میں اپنے ہی اندر اتر گیا ہوتا
یہ روپ دھارے ہوئے حسرتیں، تمنائیں
اگر تلاش میں حائل نہ ہو گئی ہوتیں
مجھے یقین ہے میرا شعور ہی اک روز
مرے سوالوں کا مجھ کو جواب دے دیتا
ان آرزؤں کے دام فریب میں آکر
مرے شعور سے سارے سوال چھین لیے
مرے وجود سے بے گانہ کر دیا مجھ کو
نفس نفس سے مرے احتساب جاری ہے
مرے شعور کا ہر لمحہ اک قیامت ہے
اس نظم میں انسانی زندگی کے سب سے اہم پہلو کا بیان کیا گیا ہے۔ وہ پہلو جو انسانیت کا سب سے اہم پہلو ہونے کے باوجود سب سے زیادہ بے اعتنائی کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔ انسان نے اپنے وجود کو پہچانا کیوں نہیں؟ ہر انسان کے غم اور خوشیاں کیوں جدا جدا ہیں؟ صرف اس لیے کہ انسان نے خود کو خود میں کبھی تلاش نہیں کیا؟ نتیجتاً پوری انسانی زندگی ہر انسان کے سامنے ہمیشہ صرف معمعا بنی رہی۔ طرح طرح کا روپ دھارے ہمارے اندر پیدا حسرتوں اور تمناؤں نے ہی ہمیں اپنی پہچان سے ہمیشہ دور رکھا اور ہم میں زیادہ سے زیادہ انفرادیت اور مادیت پیدا کر دی۔ انسان سے انسان کی بے گانگی کا سبب اس کی آرزوئیں، تمنائیں ہی تو ہیں جس نے اس کے انسانی شعور کو اس سے جدا کر دیا۔ اگر انسان نے خود کو انفرادیت سے دور کر لیا ہوتا تو یقینا وہ خدا کے وجود سے کبھی بے گانہ نہ ہوتا اور آگہی، دیوانگی بن کر اس کے وجود پر ہرگز مسلط نہ ہوتی۔ جسے انسان شعور سمجھتا ہے حقیقتاً وہی اس کی بے گانگی ہے۔ حسرتوں اور تمناؤں کے جراثیم نے اگر انسانی ذہن میں اپنا گھر نہ بنالیا ہوتا تو خوشی کے موقع پر یہ ایک ساتھ خوش ہوتے اور غم و آلام میں یہ ایک ساتھ رنجیدہ ہوتے اور صحیح معنٰی میں انسان کہلانے کے مصداق ہوتے۔
ہوشؔ کی یہ چھوٹی سی نظم، صحیح معنٰی میں انسانیت کے لیے بڑا پیغام ہے۔ اس کا تعلق تمناؤں کی زنجیر اور احساسات کے بوجھ سے ہٹ کر ہے، ورنہ اس کا دنیاوی شعور آگہی اس کے لیے قیامت سے کم نہ ہوتا۔
انسان اس فریب میں نہ رہے کہ وہ کامل ہے یا عظیم ہے۔ یہ باتیں ہوشؔ نے اپنی سات مصرعوں پر مشتمل ایک آزاد نظم ”بیساکھی“ میں سمندروں کی وسعت کا ذکر کرتے ہوے اس کی ساحلوں کی بیساکھی کے ساتھ کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
اپنی ہی وسعتوں سے تنگ آکر
بھاگتا ہے کنارا لیتا ہے
یہ سمندر بھی کتنا ظالم ہے
پھر بھی اس خاک کے سفر کے لیے
بادلوں کا سہارا لیتا ہے
کوئی کامل نہیں!
عظیم نہیں!!
ہوشؔ سے بے انتہا محبت کرنے والی ان کی بیوی کے ناوقت انتقال نے انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ ایک دن میں فرصت نکال کر ان کی بیوی نجمہؔ مفتی کے مزار پر فاتحہ خوانی کی غرض سے شہر جون پور کے مرکزی قبرستان ”صدر امام باڑہ“ پر حاضر ہوا تو ان کی قبر کی  تعویز پر ’کل من علیہٰ فان‘ کے عنوان سے بے ثباتی عالم سے متعلق یہ نظم دیکھی، جو آج بھی مرے وجود پر مسلط ہے۔ ذکر بے ثباتی عالم کا ایک بہترین نمونہ:
کتنے شاداب پھولوں میں بس اک ہمیں
باد صرصر کے جھونکوں سے مرجھا گئے
اور اب
جلد ہی
شاخ سے ٹوٹ کر
سخت بے رحم مٹی پہ گر جائیں گے
چند لمحوں میں یکسر بکھر جائیں گے
لیکن ایسا نہیں
سارے پھولوں کا شاید یہی حشر ہے
مجھے ہوشؔ جون پوری کی جتنی بھی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ نظمیں دستیاب ہو سکی ہیں، ان میں سے بیشتر میں مجھے انسان کی مجازی کیفیت کے ساتھ ایک چونکا دینے والی وہ افسانوی کیفیت اور پیغام ضرور نظر آے ہیں جو عموماً انتظار حسین، احمد ندیم قاسمی، عصمت چغتائی، قرۃالعین حیدر جیسے صف اول کے افسانہ نگاروں کے افسانوں میں اکثر و بیشتر نظر آتی ہے۔ ایک عمدہ تھیم کے ساتھ بہترین کلائمیکس اور اختتام پر وہ چونکا دینے والی کیفیت جو انسانی ذہن کے تصور سے بھی بعید ہو اور غور و فکر کو دعوت دے۔اسی ضمن میں ان کی ایک نظم ”تصویریں“ ملاحظہ ہو جس میں شاعر نے چند مصرعوں کی مدد سے ایک پوری زندگی کی عکاسی کی ہے۔ سارے نشیب و فراز اور کلائمیکس کے بعد ایک بھرپور انجام:
ہوشؔ! کیا عرض کروں پہلی ملاقات کے بعد
میری قربت کے لیے
میری محبت کے لیے
کتنا بے چین تھے وہ کتنا پریشان تھے وہ
اپنے ماحول کی ہر شے سے گریزاں ہو کر
مجھ سے ملنے کے لیے خود ہی چلے آتے تھے
میرے حالات میں کھو جاتے تھے

میں نے سمجھا تھا یوں ہی عمر گذر جائے گی
میری دنیا بھی کسی روز سنور جائے گی
مگر ایسا نہ ہُوا، آہ! کچھ ایسا نہ ہُوا

رفتہ رفتہ نگہِ شوق کا رنگ اڑنے لگا
دھول جمنے لگی جذبات کی تصویروں پر
بات آ پہنچی ملاقات سے تحریروں پر

یعنی اب وہ تو نہیں، ان کے خطوط آنے لگے
دل کے بہلانے کو اتنا ہی بہت تھا لیکن
اُن کی مصروفیت ناز سے وہ بھی نہ رہا
دھول جمتی رہی جذبات کی تصویروں پر
گرد ہوتے رہے اوراق محبت کے نقوش
کچھ دنوں بعد زبانی ہی پیام آنے لگے

ایک تہہ اور جمی گرد کی تصویروں پر
اور دھندلے ہوے اوراق محبت کے نقوش
اور محتاط ہوئے
صرف سلام آنے لگے

پھر بھی امید کا ننہا سا دیا باقی تھا
وہ بھی بے رحم ہواؤں کو گوارہ نہ ہُوا
خشک پَتّوں کی طرح اُڑ گئے اوراق تمام
لڑکھڑاتے ہوئے مدہوش شرابی کی طرح
ساری تصویریں زمیں بوس ہوئیں
ٹوٹ گئیں

اور اب
وہ بھی نہیں!
خط بھی نہیں!!
کچھ بھی نہیں!!!
اب تو بس ان کا خیال آتا ہے
یاد آتی ہے
اس سے قبل میں نے عرض کیا تھا کہ ہوشؔ کی اکثر نظموں میں ایک مکمل افسانے کا لطف ملتا ہے۔ افسانے کے طرز پر ہی ان کے یہاں ایک مرکزی کردار بھی ہوتا ہے جس کے گرد تمام نظم محصور نظر آتی ہے اور آخر میں ایک مکمل افسانے کی ہی طرح نظم کا اختتام بھی بھرپور کلائمیکس کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ درج بالا نظم ”تصویریں“ میں بھی ہوشؔ نے خودنوشت کے طرز پر آغاز اپنے نام سے کرتے ہوے خود کو ہیرو کی طرح پیش کیا ہے۔ اس نظم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہوشؔ نے اس چھوٹی سی نظم میں ایک زندگی کے اہم ترین لمحات کے ایک episod کو بڑے حسن و خوبی سے سمویا ہے۔ پہلے دن کی ملاقات، معشوق کی خوشی، عاشق کے لیے اپنے سماج سے بغاوت کی حد تک بے گانگی اختیار کر لینا اور عاشق کی حالت میں کھوجانا۔ معشوق کی عاشق سے بہ درجہ اتم محبت اور پھر بتدریج رغبت کم ہونے کا ذکر کرنے کے لیے شروعات میں جن الفاظ کا استعمال کیا ہے وہ اردو شاعری میں کم ہی نظر آتا ہے۔ رفتہ رفتہ نگہہ شوق کا رنگ اڑنا؛ اس جملے نے جو تلذذ اور کیفیت پیدا کر دی ہے وہ کم نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ بتدریج ملاقات کم ہوتے جانا یا اس کی صورت میں تبدیلی کے لیے ”مصروفیت ناز“ جیسی ترکیب بھی ایک دم اچھوتی اور تغزل کے رنگ میں شرابور نظر آتی ہے۔ پھر افسانوی انداز میں اس کا اختتام یوں کہ ”اب تو بس، ان کا خیال آتا ہے……یاد آتی ہے۔“ اس قسم کی نظم کے اس سے بہتر اختتام کا تصور بھی محال ہے۔
اس آزاد نظم کے یہ چار مصرعے:
(۱) میں نے سمجھا تھا یونہی عمر گزر جائے گی
(۲) میری دنیا بھی کسی روز سنور جائے گی
(۳) مگر ایسا نہ ہوا
(۴) آہ کچھ ایسا نہ ہوا؛
”ناگزیر“ میں شامل نہیں ہیں بلکہ راقم کو یہ چاروں مصرعے ہوشؔ کی اس بیاض سے ملے ہیں جس پر وہ اکثر اپنی نظمیں لکھا کرتے تھے۔ ان کی یہ بیاض راقم کو ان کی صاحب زادی مریمؔ ہوش نے دستیاب کرائی تھی جس کے لیے راقم مریم  ہوش کا تہہ دل سے شکر گزار ہے۔
عام انسان، انسانی زندگی کے تحفظ کی ضرورتوں کو جس نگاہ سے چاہے دیکھے، وہ اس کے سوچنے کا ذاتی طریقہ ہے مگر ہوشؔ نے جس طرح اسے پیش کیا ہے کیا وہ قابل غور ہے؟ ”انار کرم“ کے عنوان سے شائع ہوشؔ کی یہ نظم قاری کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے:
غیر فطری تحفظ کی مجبوریاں
آدمی آج کیڑے مکوڑے کی مانند پھر رینگنے لگ گیا
جن میں جینے کی کچھ اہلیت ہی نہیں
وہ بھی زندہ ہیں اور زندہ رہنے کے حقدار لوگوں کا حق کھا رہے ہیں
بوجھ دھرتی کے سینے کا بڑھتا چلا جا رہا ہے
اٹھا دو یہ سارے قوانین بے جا، زمینوں کو آزاد کر دو
اصول ازل اور قانون فطرت، زمیں پر ازل ہی کی مانند چل جائیگا
زندہ رہنے کی طاقت، تمنا، ارادہ، سعی
جن میں ہوگی وہ زندہ رہیں گے
باقی ناکارہ مر جائیں گے
بوجھ دھرتی کے سینے کا ٹل جائے گا
اور پھر صاف ستھری، نئی، خوبصورت سی دنیا ابھر آئے گی۔
راقم عرض کر چکا ہے کہ ہوشؔ نے اپنی شاعرانہ زندگی کا آغاز اپنی بے انتہا چاہنے والی پھوپھی کے انتقال پر ایک شخصی و تعزیتی نظم سے کیا تھا۔ حقیقتاً ہوشؔ کو شخصی نظم لکھنے کا جو سلیقہ دستیاب تھا وہ بہت کم شاعروں کو نصیب ہوا ہے۔ مثال کے طور پر ہوشؔ کی ایک نظم بہ عنوان ”حسین“ پیش خدمت ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ حضرت امام حسینؑ، فرزند رسولؐ کو کہتے ہیں۔ یہ حضرت علیؑ اور فاطمہ زہراؐ کے بیٹے تھے مگر ہوشؔ نے حسین کا تعارف اس طرح کرانے کے بجاے ایک علامت کی صورت کرایا ہے۔ استعارہ ایسا کہ ایک لفظ بھی فرمے سے باہر نہیں ہونے دیا۔ اگر غور کیا جاے تو استعارے کی اس سے بہتر صورت علامت کی شکل میں کہیں اور ملنا دشوار ہے، جہاں ایک شخص کے کردار کو سامنے رکھ کر اس کے خواص پر روشنی ڈالتے ہوے کہا جاے کہ ”حسین صرف کسی اک بشر کا نام نہیں“۔ اس طرح ایک لفظ کو اس کے کردار کے ساتھ جس طرح ہوشؔ نے define کیا ہے اس کی مثال بھی عنقا ہے۔ نظم ملاحظہ ہو:
حسین، نام ہے اک روشنی کے پیکر کا
حسین، فکر بشر کی عظیم منزل ہے
حسین، سینۂ انساں میں جاگتا دل ہے
حسین، صرف کسی اک بشر کا نام نہیں
حسین، ایک علامت ہے زندگی کے لیے
حسین، عزم سفر ہے مسافروں کے لیے
حسین، زیست کے تپتے ہوئے بیاباں میں
ہے قافلوں کے لیے، اک گھنے درخت کا نام
ہے بے کسوں کے لیے، قوت عمل کی مثال
فسردہ پھولوں کے دامن پہ مثل شبنم ہے
حسین، زیست کا اک باوقار پرچم ہے۔
اب تک راقم نے ہوشؔ کی نظموں کے توسط سے ان کا جو تعارف کرایا اس کے لحاظ سے ان کے کلام میں جو تازگی، برجستگی، امتزاج اور نیاپن تھا اسے قارئین نے بہ خوبی محسوس کیا ہوگا۔ ان سب سے ہٹ کر اب میں ہوشؔ کی ایک ایسی نظم کا تعارف کرانا چاہتا ہوں جسے حقیقتاً ”از دل خیزد، بر دل ریزد“ جیسی کیفیت کا حامل کہا جا سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہوشؔ کی اپنی کوئی بہن نہیں تھی (اس وقت تک ان کی بیٹیاں بھی پیدا نہیں ہوئی تھیں) پھر بھی ”رخصتی“ کے عنوان سے شائع ان کی یہ نظم پڑھ کر کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ بہن یا بیٹی کی نعمت سے محروم ہوں گے۔ اس نظم کی اس سے بہتر تعریف اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہر وہ شخص جسے اردو شاعری سے ذرا بھی شغف ہو گا اور ساتھ ہی وہ کسی بہن کا بھائی یا بیٹی کا باپ ہوا تو اس کے دماغ میں یہ بات آنا فطری ہے کہ ”کاش یہ نظم میں نے کہی ہوتی“۔ اس دعوے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہوشؔ کے حلقہ احباب میں کم از کم ایسے دس افراد کو میں ضرور جانتا ہوں جن لوگوں نے اپنی بہن یا بیٹی کی شادی پر رخصتی کے وقت اس نظم کو پڑھوانے کے علاوہ اس کی کتابت کروا کر فریم میں آویزاں کر کے جہیز کے ساتھ دے دیا۔ اس نظم کا ایک لفظ بھی ایسا نہیں جو انسانی جذبات کو چھو نہ جاے اور شاید ہی ایسا کوئی سنگ دل ہو جو اس نظم کو سننے یا پڑھنے بعد اپنے آنسوؤں پر قابو رکھ سکے۔ نظم ملاحظہ ہو:
السلام اے سفر انداز رہِ منزلِ نو
تجھ کو ماحول کی مانوس فضاؤں کا سلام
الوداع، ان در و دیوار کی جانب سے تجھے
تجھ کو افسردہ و مغموم نگاہوں کا سلام
رنج تو ہوگا تجھے، ہم سے بچھڑنے کا بہت
بخدا ہم کو بھی فرقت تری منظور نہیں
عمر بھر دامن شفقت میں چھپا رکھیں مگر
موجب شرع نہیں، لائق دستور نہیں
تجھ کو بچپن کے کھلونوں کا خیال آئے گا
اجنبیت کے تقاضے بھی ستائیں گے ضرور
جب بھی ابھریں گے ترے ذہن پہ یادوں کے نقوش
ہم سمجھتے ہیں کہ وہ تجھ کو رلائیں گے ضرور
خود کو بہلانا محبت کے نئے گیتوں سے
دل تو اک کودکِ ناداں ہے بہل جائے گا
ہم ترے اپنے ہیں اور غیر ہیں سسرال کے لوگ
رفتہ رفتہ یہ تصور بھی بدل جائے گا
جا، بہرحال، خدا حافظ و ناصر تیرا
اپنے ہمراہ عزیزوں کی دعائیں لے لے
دل کے ٹوٹے ہوئے تاروں نے جو بکھرائی ہیں
اپنی تسکین کی خاطر وہ صدائیں لے لے
تیری خوابیدہ اُمنگوں کا مقدر جاگے
تیری معصوم تمناؤں کا پھولے گلشن
سازگار آئیں تِری زیست کے عنوان تجھے
یہ نیا ساتھ، نئے لوگ، نیا گھر آنگن
کہکشاں تیری گزر راہ کی تاریک نہ ہو
تجھ کو منزل کی ہر اک شام و سحر راس آئے
جشنِ ہنگامۂ نوخیز مبارک ہو تجھے
یہ نیا روپ، نیا عزم سفر راس آئے
رشکِ مہر و مہہ و انجم ہوں ترے نقش قدم
تری سیرت کے گلابوں سے چمن جھوم اٹھے
شمع اخلاق و محبت تری ضَوبار رہے
تیرے انداز تکلم سے سخن جھوم اٹھے
ان دعاؤں کے سوا کچھ بھی تجھے دے نہ سکا
کوئی سوغات بھی شائستہ و شایان نہیں
حوصلے دل کے کسی طرح سے پورے نہ ہوئے
تیری عظمت کے مطابق کوئی سامان نہیں
ہم سے کچھ بھی تِری دل جوئی و خاطر نہ ہوئی
جُرم ناقدریِ مہماں کے گنہگار ہیں ہم
ہم سے شکوہ ہو اگر تجھ کو تو اے راحت جاں
دیکھ نادِم ہیں، معافی کے طلبگار ہیں ہم
یہ نظم بابل کے جانب سے ہر بہن کی شادی پر اس کی رخصتی کا ایک انمول تحفہ ہے۔ کسی کو رخصت کرنے کے لیے ”السلام“ سے بہتر کوئی لفظ ہو ہی نہیں سکتا جب کہ چوتھے مصرعے کا اختتام بھی ”سلام“ پر ہی ہوتا ہے۔ یہی لفظ کسی سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے کے تصور کو ذہنوں پر مسلط کر دیتا ہے۔ ہوشؔ کے شاعرانہ مزاج کے ساتھ لفظوں کا وہ امتزاج عام طور پر فارسی ترکیبوں کے ساتھ نظر آتا ہے۔ ”رہ منزل نو،؛سفر اندازن“۔ مانوس فضاؤں کے محسوسات، در و دیوار اور افسردہ نگاہوں کی جانب سے الوداعی کلمات کا ذکر۔ ان لفظوں کے امتزاج نے جس خوب صورتی سے ایک سماں باندھ دیا ہے، وہاں کوئی بھی منظر نامہ نہیں بلکہ اس امتزاج نے تمام چیزوں کو متحرک بنا دیا ہے۔ سسرال میں اجنبیت کے تقاضوں کے ساتھ ذہن پر یادوں کے نقوش کا ابھرنا فطری ہے۔ ان لفظوں کے ساتھ دل کے ”کودکِ ناداں“ ہونے کے باعث بہل جانے کی تلقین بھی فطری امر ہے جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ مائکا اپنا اور لفظ سسرال کے ساتھ غیریت کا ہی تصور ہوتا ہے۔ یہاں شاعر نے شعری خصوصیات کے ساتھ صنعت تضاد سے کام لیتے ہوے اس تصور کے بدل جانے کو جس طرح چند لفظوں میں پیش کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ خدا کی حفاظت اور امان میں دینے کے ساتھ عزیزوں کی دعاؤں کا دل سوز انداز ’خوابیدہ امنگوں کے مقدر کا جاگنا، تمناؤں کا گلشن پھولنا، زیست کے عنوان کا سازگار ہونا، فطری چاہت رکھنے والوں کے دلوں کی ایسی خوب صورت آواز صرف محسوسات سے ہی تعلق رکھتی ہے۔ منزل مقصود کی شام و سحر کی راہ کی کہکشاں کے ہمیشہ روشن رہنے کو بھی بہترین استعارے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی مبارک موقع پر فارسی والوں کے ورد زبان ”جشن ہنگامۂ نو خیز مبارک باشد“ کو ہوشؔ نے جس طرح اس مقام پر تضمین کیا ہے، اردو میں اس سے بہتر شاید ہی کہیں ملے۔
کسی بھی لڑکی کے سسرال کی کامیاب ترین زندگی کا تصور اس کی سیرت پر مبنی ہوتا ہے جسے شاعر نے سیرت کے گلابوں کے ساتھ ایک دم نئے انداز سے پیش کیا ہے اور ساتھ ہی اخلاص و محبت کی شمع کو ضَوبار رہنے کی دعاؤں کے ساتھ تکلم وہ چاہا ہے جو سخن کی جان ہو۔ مہمان کی دل جوئی و خاطر نہ ہوسکنا، مہمان کی ناقدری کے مجرم ہونے کے ساتھ معافی کی طلب گاری۔ کسی رخصتی کا اس سے بہتر اختتامیہ ممکن ہی نہیں۔ گو کہ اردو ادب میں کوتاہ نظر راقم کو اب تک اس سے بہتر نظم ”رخصتی“ کے عنوان سے نہیں ملی۔ وسیع النظر قارئین سے گزارش ہے کہ اگر کسی نے اس عنوان پر اس سے بہتر یا اس کے برابر کی، کوئی نظم کہیں دیکھی ہو تو راقم کو آگاہ ضرور کریں تاکہ کوتاہ نظر راقم اپنے اس دعوے کو واپس لے لے۔
ویسے تو ”ناگزیر“ میں ہوشؔ کی کل بیس نظمیں شامل ہیں اور شاعری کے نکات سے ایک بھی ہلکی یا کمتر درجہ کی نہیں پھر بھی مضمون کی طوالت سے گریز کے پیش نظر راقم نے اس مضمون کے لیے صرف سات نظموں کا ہی انتخاب کیا۔ اگر زندگی نے وفا کی تو حضرت ہوشؔ جون پوری کی غزلوں، قطعات، سلام، نوحہ اور مراثی پر بھی جو کچھ ممکن ہو سکے گا قلم بند ضرور کرے گا۔
***
صاحب مقالہ کی گذشتہ نگارش : مشاہیرِ ادب کے کلام میں ذِکر بے ثباتی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے