سلیم فگار: فن اور شخصیت

سلیم فگار: فن اور شخصیت

ستارہ سی کوئی شام کی دہلیز پہ بیٹھے
ہم دل کے سلگنے کا سبب سوچ رہے ہیں
(ترمیم کے لیے معذرت کے ساتھ بہ شکریہ شکیب جلالی)

ناہید اختر
گیلیکسی اپارٹمنٹ
قاضی پاڑہ ہوڑہ شب پور ہوڑہ، مغربی بنگال، ہند

کسی بھی شاعری کی تشریح و تعبیر میں ذی مرتبہ معیارات ملحوظ نہ ہوں تو لازمی طور پر اس کے نقائص اور خوبیوں کی تفتیش و تحقیق سطحی ہوگی۔ شاعری کو پرکھنے کی کسوٹی اس کے اجزاے ترکیبی، تخلیقی کوائف کی خاکہ کشی پر منحصر ہے۔ بنیادی طور پر لفظوں کی بندشوں، ترکیبوں کی عمدگی، تمثیلی و علامتی پیرایے، استعارات کا نرالا پن، شعری جزویات و لوازمات، احساسات و خیالات اور جذبات کی صحیح ترجمانی کو شاعری کے محاسن سمجھا گیا ہے۔ موجودہ دور تک بھی اردو شاعری اور نقدونظر کا بجنس یہی قاعدہ رہا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا ان پہلوؤں کے بغیر اعلا و ارفع شعری ادب خلق نہیں ہوا ہے یا شاعری حقیقت ادب کے زاویہِ نگاہ سے باہر ہوگئی ہے۔ یہ بحث لاحاصل نہ صحیح وقت طلب ضرور ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ شاعری یا اس کی معنویت مختلف النوع ادوار کے معیارات و اقدار، سوچ و فکر اور شعور و احساس کی بنیادی تفصیلات کے اثرات کو ظاہر کرتی ہے۔ اچھی اور پُر اثر شاعری ایک ایسی قوت متخیلہ کی پیداوار ہوتی ہے، جس میں مفرح قلبی خیالات کے ساتھ ساتھ تخلیقی شعور اتنا وسیع و بلیغ اور گہرا ہوتا ہے کہ زندگی کے تجربات و مشاہدات کی افہام و تفہیم کی اعلا اور مسرور عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ حالانکہ فن کار موجودہ زندگی کی مشکلات، تصادم، انتشار، تضادات اور سماج اور فرد کی کشاکش کے احساس کی صورت گری کو استعارہ یا اشارہ و کنایہ کے تئیں بیانیہ اسلوب میں پیش کرتا ہے۔ شعری حسن و قبح یا اس کے معیارات کا تعین ہی اعلا اور ارفع مقام کو اجاگر کرتا ہے۔ کسی بھی فن پارے کی خصوصیات یہ ہوتی ہیں کہ فن پارہ تخلیقی محاصل سے بھرپور، احساسات و خیالات کی نقاشی سے مرصع ہوتا ہے۔ شعری اعلا قدریں اور نادر جمالیاتی پہلو مضمر ہوتے ہیں۔ جب کہ نیرنگی جذبات و تخیلات کا یک رنگی جلوہ تخلیقی حسن کی عمیق و بسیط صفات کے فہم و ادراک کے معقول وسیلے ہوتے ہیں۔ صرف ہلکے سے فرق کی وجہ سے فن کار کی محسوسات و تصورات کا اثر شعری رموز میں نسبتاً کم وقوع پذیر ہو تو مکمل حظ کلام کے امکانات موہوم ہوجاتے ہیں۔ شاعری محض جذبات کی نمائندگی کا نام نہیں ہے۔ یہ ایک فنی و صناعت کی وساطت سے فن کار اپنے تجربات زندگی کی حسیات و خیالات، خواہشوں اور امنگوں کے جوش کو عملی صورت میں پیش کرتا ہے.
الغرض شعری نقد و نقائص اور اس کی تمیز کا علمی تعلق در آنا ابدی ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ شاعری کے بار ثقیل سے فوری طور پر کوئی نتائج اخذ نہیں ہوتے۔ انہماک شعری نکات، تجدیدی خیالات، کشف جذبات، ناگفتہ احساسات یاغیت [؟] کی بلیغ کوشش ہوتی ہے۔ شاعری کی تکریم کئی عیوب، مصنوعی ماحول کی حقیقت اور مجازی کیوں نہ ہو زندگی کے داخلی و خارجی احوال کے اظہار کا مایہ ناز وطیرہ ہے۔ ذخیرہ شاعری کی کلید فن کار کی استعداد، تشریح و توضیح، ابلاغ و ترسیل ہی نشان امتیاز ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شاعری کے اوصاف و کلیات کی بنیاد پر ہی ادبی مسئلوں سے واقفیت، منطقی استدلالی معیارات زیر بحث رہے ہیں ۔
"ستارہ سی کوئی شام" سلیم فگار کا شعری مجموعہ بہ ظاہر سرسری خواص و خصائص کا حامل نظر آتا ہے۔ اس اعتبار سے سلیم فگار کے مجموعۂ کلام پر رسمیہ اظہار خیال شاعری کی حق تلفی ہوگی۔ جس کسی کو شاعری کا شغف ہے، ان کے لیے تمثیلات و تشریحات سے جامع کلام موجود ہے۔ حالانکہ اس پر فروعی بحث کرکے بھی تشفی کرلی جاسکتی تھی۔ لیکن واجب الاصول یا شاعری کی نقل و حرکت پر پابندی لگانے کے مترادف ہوگا۔ مقتضائے انصاف یہ ہے کہ سلیم فگار کا شعری قافلہ اپنی ساری وضاحت، صراحت، قطعیت اور میزان تلازمہ کی آب و تاب سے رواں ہے۔ یعنی گول مول یا پچیدہ کوئی طرزِ تحریر نہیں ہے۔ نہ ہی ژولیدہ بیانی ان کی نگہ شوق کا حصہ ہے۔ بہ قول فگار:
لباس نیلگوں سجتا نہیں ہے جسم پر میرے
زمیں کو اوڑھ کے اپنا لبادہ کر رہا ہوں میں
سلیم فگار کی سمجھ یا رائے میں ادب اور غیر ادب کے افتراق کا کوئی تصور نہیں ہے۔
” مارا چہ ازیں قصہ کہ گاؤ آمد و خر رفت۔"
سلیم فگار کی خود نوشت شاعری خوبیوں کے مضبوط دلائل پر قانع ہے۔ حتی کہ سخت گیر حالات سے نبرد آزمائی کے لیے انھوں نے غزل جیسی صنف کو مسلح کیا ہے۔
واقف نہیں ہے میری ابھی تشنگی سے تو
دریا کو پی کے بحر کی جانب رواں ہوں میں
میں ہی بجھا ہوا ہوں سرخاک مجھ کو دیکھ
سر پر تنا ہوا بھی کوئی آسماں ہوں میں
جلتے ہوئے چراغ میں تھا میں ہی روشنی
اڑتا ہوا ہواؤں میں اب اک دھواں ہوں میں
میں جانتا ہوں کہ وہ عہد بھی زیادہ دور نہیں
جب ہمیں کوئی نسل موہنجوڈارو اور ہڑپہ کی طرح دریافت کرے گی.
سلیم فگار کی شاعری کا حق خاص یہ ہے کہ ادب برائے ادب نہیں بلکہ ادب سراپا زندگی ہے۔ جس کا مقصد فرد کی اصلاح ہو۔ قوم کی اصلاح ہو۔ اور اصلاح سوسائٹی ہو جس میں سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ اس کا حل مقصود ہو۔ ادب برائے حرفت نہ رہے۔ بلکہ شعری اجزاے ترکیبی سے تخلیقی موضوعاتی جہتیں قائم ہوں۔ ابہام، استعارہ و علامت سے خلق ہونے والی جہتیں جانبین مابعد الطبیعی تضادات اور معاشرتی قوتوں کے باہمی تصادم پر، مناصحت پر بحثیں منطبق ہوں۔
ہم روز ہی دفناتے ہیں بجھتا ہوا سورج
پھر ڈھونڈتے جاتے ہیں سہارا سی کوئی شام
رہتا ہے میری آنکھ کے دریا میں ہمیشہ
ڈوبا نہیں احساس کا تیراک ستارہ
کتاب عمر سے یوں استفادہ کر رہا ہوں میں
زمین و آسماں اپنے کشادہ کر رہا ہوں میں
ہمارا راستہ تو منزلوں سے دور جاتا ہے
نجانے کیا سمجھ کر تو سفر میں ساتھ نکلا ہے
بڑے ہی پیار سے مجھ کو بلا رہی تھی زمیں
کچھ ایسا درد اٹھا آسمان چھوڑ دیا
اندھیرے کو نگلتا جا رہا ہوں
دیا ہوں اور جلتا جا رہا ہوں
سلیم فگار کا تخلیقی عمل ایک خاص قسم کے موضوع کی تخصیص پر منحصر ہے۔ ان کی زندگی کے اکثر و بیشتر مشاہدات و تجربات آلام اور مصائب سے وابستہ ہیں۔ ان کی شاعری کے بیشتر پہلو زندگی اور حیات کائنات کے مسائل کی آسودگی کی تلاش و جستجو کا طویل تخلیقی سفر ہے۔ ان کا طرز بیان سادہ اور سلیس ہے مگر اپنے قاری کو دعوتِ فکر بھی دیتی ہے۔ ان کی تقریباً [کل] شاعری بدرجہ معانی آسان مفاہیم میں صف بند نظر آتی ہے۔ فن پارے کی معنویت تک رسائی میں مزید غور و فکر کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جہاں تک شعری تلازموں کی بات ہے جو خاصیتیں درکار ہونی چاہیے وہ بنیادی طور پر موجود ہیں. البتہ ابہام، شعری آہنگ، علامت و استعارے سے جو پیکر ابھرتے ہیں ان کے طرزِ اسلوب میں سماج سے خفگی اور سماجی مقدورات کو للکارنے کے پہلو بہ طور خاص نمایاں ہیں۔
سہمے نحیف دریا کے دھارے کی بات کر
اب دشت بے کراں کے کنارے کی بات کر
دنیا کے مسئلوں میں مجھے بھی شریک رکھ
میرے دریدہ دل کے بھی چارےکی بات کر
رہنے دے ذکرِ سود کسی اور وقت پر
راہ وفا میں میرے خسارے کی بات کر
اب آسمان سارا مری دسترس میں ہے
انگلی اٹھا کسی بھی ستارے کی بات کر
دوران مطالعہ قاری کو بعض مصرعوں پر تلمیحات کا بھی گمان ہوتا ہے۔ جوں ہی شعر کا مفہوم مکمل واضح ہو جاتا ہے۔ قاری اطمینان سے آگے بڑھ جاتا ہے۔ملاحظہ فرمائیں:
1) چاہے جسے وہ آگ سے زندہ نکال لے
2) بحر رواں کو کاٹ کے رستہ نکال دے
3) بے جان پتھروں سے کرے زندگی کشید
ان مصرعوں کو پڑھنے کے بعد یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ تاریخی واقعات جو قلم کار کے لا شعور میں محفوظ تھے، کسی طرح سے ظاہر ہوگئے۔ ایسے واقعات یا ایسی باتیں جو خیالِ عام میں ہوتی ہیں، لاشعور میں جاچھپتی ہیں۔ اور کسی خاص موقع پر نتیجے کے طور پر یکایک ظہور پذیر ہوتی ہیں۔
یہ صحیح ہے کہ زمانی اثرات کسی بھی فن پارے پر جا بہ جا اثر انداز ہوتے ہیں۔ حالانکہ فن کار تخیلات کی رو سے ایک غیر مادی جوہر کو جو ادراک بالحواس سے حاصل کرتا ہے، اس کی تنظیم یا نظم و نسق کو کسی بھی ادبی صنف کے تحت قائم کرتا ہے۔ لیکن زمانی اثریت از خود پنہاں ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے ہم کلاسیکی ادب، ترقی پسند ادب، جدید ادب، جیسے ادبی ادوار انقسام کے قائل ہوگئے ہیں۔ بہر سو سلیم فگار کا شعری مجموعہ ایسے وقت سامنے آیا ہے۔ جب کہ شاعری کی گرم بازاری کا دور ختم ہورہا ہے۔ ہند و پاک میں بھی اردو ادب قریب قریب سبک دوش ہونے کو ہے۔
سلیم فگار کا شعری تنفس فی زمانہ ضرور ہے۔ لیکن زیر سخن اسلوب، لب و لہجے میں ترقی پسند اور جدید ادب کے زمانی پرتو کا احساس ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اب یہ اسالیب متروک ہو چکے ہیں۔ یا اچھوت ہوگئے ہیں. محض لب و لہجہ کا اتصاف وجہ نہیں ہے بلکہ سلیقۂ مضامین بھی متصف ہیں۔ سلیم فگار کا انداز بیان متقدمین شعرا کے حوالے سے درج کئے جا سکتے ہیں۔
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی ( فیض)
گردن کی طوق پاؤں کی زنجیر کاٹ دے ( جوش)
شب سیاہ میں گم ہو گئی ہے راہ حیات (فراق)
نشیمن سینکڑوں بنا کر پھونک ڈالے ہیں (علامہ اقبال)
فلک سے اب تو نیا جسم ہی اچھال کوئی (سلیم فگار)
میرے سوا بھی میرا ہدف کون تھا فگار (سلیم فگار)
سلیم فگار کے کڑے و تلخ تجربات شرق سے غرب تک شاعری کی طبع آزمائی میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ شاعری اپنے وقت کی تہذیب، تصور کائنات، معاشرتی ثقافتی اقدار، صحیح اور غلط کی آخرالامر مسند الیہ و مسند ہوتی ہے۔ لیکن تہذیب و ثقافت کے بیچوں بیچ فن کار حزن و حظ کے نتائج برآمد کر لیتا ہے۔ گو کہ یہ مجازی ہوتے ہیں لیکن شعری و فنی وقعت کو سمجھنے کے لیے ہمیں فن کار کے پیچھے پاؤں پاؤں بڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
سلیم فگار سیدھے سادے اسلوب میں اپنی بات کہتے ہیں جو اپنے اندر فکری گہرائی رکھتی ہے، مگر وہ چیستان کہن کے قائل نہیں ہیں۔ اور ان کی فکری اساس ہم اور سماجی رویے کے ارد گرد مجتمع ہے۔ اس ضمن میں ترقی پسند مصنفین کا منصوبہ بند عمل رہا ہے۔ البتہ علامہ اقبال کے کچھ مضامین کے اثرات ان کی نگارشات کی متن فہمی میں محسوس ہوتے ہیں۔
صریر نوک قلم فکر ملتمس ہے مری
یقین بخش دے میرے خیال و معنی کو
فلک پہ کس کو طلب ہے کہ اس خرابے میں
جلا کے دیپ کوئی روز ڈھونڈتا ہے مجھے
میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ سلیم فگار کو اساتذہ پر ترجیح دیں۔ نہ ہی اس میں کوئی جانب داری ہے۔ علامہ اقبال کی مثال سے قطعاً سلیم فگار کی توقیر مقصد نہیں ہے۔ بلکہ فگار نے اپنا تعاقب خود کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انھیں کیا ملا۔ عروض و بیان، قافیہ ردیف کے علاوہ ان کی شاعری میں objective ہیں۔ جو ان کی فن و شخصیت کے متنوع پہلوؤں اور گوشوں کی روشن تفصیل ہے۔ ان کے ہاں زندگی کی فعالیت کا تصور بے حد پختہ ہے۔ سارا کلام زندگی کے اہداف کی فہمائش و تضمین کا بین ثبوت ہے۔ غزلوں کا بہاؤ، روانی، شعری طرز طریق کسی موضوع کا نثری لائحہ عمل معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ان کے قول و فعل کا احتسابی جذبہ من حیث المجموعی شعری مضامین میں عیاں ہے۔
ہنسی خوشی سے میں بکھروں گا ٹوٹ کر لیکن
مری شکست کا کوئی جواز ہونے دو
یہ کیسا وقت کا دریا ہے لمحہ لمحہ کوئی
مجھے خبر بھی نہیں اور بہا رہا ہے مجھے
کیسے شفیق پیڑ تھےکٹنے کے بعد بھی
ان کے مرے وجود سے سایہ نہیں گیا
سلیم فگار کی موضوعاتی خصوصیات سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن شاعری کا انصرام موضوعات کا صاف ستھرا برتاؤ غزل کی معنویت سے مبرا ہے۔ جس طرح سے ترقی پسند یا جدید شعرا فیض، فراق، جوش، مجاز، منیر نیازی، ناصر کاظمی، مظہر امام، بانی، زیب غوری، محمد علوی، احمد فراز وغیرہ نے غزل کے تمام پہلوؤں کی جامعیت اور دیگر موضوعات کے ساتھ غزل کی معنوی صفت کو وسعت دی ہے۔ سارے مجموعہ کلام میں کہیں ایک آدھ جگہ سلیم فگار کا مہذب و شائستہ پر اسرار جذبہ چھلکتا ہے۔
ہمارا دل کہاں دیکھا کسی نے
حسین جذبے جہاں رکھے ہوئے ہیں
ستارہ سی کوئی شام کی اکملیت بغیر نثری نظم کے ذکر کے نری پری بات ہوگی۔ نثری نظم اردو ادب میں بے اعتماد ہوگئی ہے۔ نثری نظم اور آزاد نظم کی ناپائیداری کے اسباب مبینہ ہیں۔ جب کہ بودلیر اور الیٹ کو اس وجہ سے رد کیا گیا کہ اردو ادب میں نثری نظم کا چلن کوئی نیا نہیں ہے۔ بعینہ سبب نثری نظم کے التزام کے لیے مختلف الوزن رباعی کے مصرعوں کی ہم آہنگی کو دستاویز کیا گیا۔ اگرچہ کہ محمد عبد الرحمن نے انشا لطیف اور وزیر آغا نے نثر لطیف کہہ کر مکرم و محترم کیا۔ دریں چہ شک. قلم کاروں نے ہر زمانے کے ادب کو ہمنوا بنانے کی کوشش کی ہے۔ نیاز فتح پوری، سجاد ظہیر ( پگھلا نیلم) جوش (روح ادب) میر ناصر علی ( خیالات پریشاں) حتی کہ تصدیق حسین خالد، ن م راشد، سلام مچھلی شہری، احمد ندیم قاسمی، اختر ہوشیارپوری نے سانیٹ جیسی صنف کو تختۂ مشق بنایا۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر محمد حسن، احمد ہمیش، افتخار جالب، انیس ناگی، بلراج کومل، کشور ناہید، خلیل مامون، صادق نے نثری نظم کی ترویج میں بے حد اہم کردار ادا کیا ہے۔
ستارہ سی کوئی شام میں شامل نثری نظمیں ایک تجزیاتی مضمون کی متقاضی ہیں۔ لہذا نثری نظم پر تسمیہ تمہید پر ہی اکتفا مناسب ہے۔ کیوں کہ سلیم فگار کی نظموں میں جدلیاتی مکتب فکر کے علاوہ ادبی اصطلاحات کے عمیق پہلو مخفی ہیں۔ اس پر کلام کی تمنا ہے۔ ان شاءاللہ بہ قول سلیم فگار
بانٹوں گا میں بستی میں بھی کرنیں ذرا پہلے
کھیتوں میں مرے اگنے دو بویا ہوا سورج
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :دھیمے سروں کی شاعری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے