ضرورت کے وقت مدد حاصل کرنے سے ہرگز گریز نہ کریں : سنیعہ ڈار

ضرورت کے وقت مدد حاصل کرنے سے ہرگز گریز نہ کریں : سنیعہ ڈار

ماہر نفسیات سنیعہ ڈار سے علیزے نجف کا خصوصی انٹرویو

علم نفسیات ایک ایسا شعبہ ہے جس کا تعلق ہر انسان کی ذاتی زندگی سے ہے. اس کے ذریعے جذبات و احساسات کو متوازن بنایا جا سکتا ہے۔ انسان احساسات و جذبات کا مرکب ہے. اس کے ہر رویے و ہر عمل کے پس پشت اسی کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ایشیائی ممالک میں علم نفسیات کے حوالے سے پائی جانے والی آگہی آبادی کے تناسب کے مقابلے میں تشفی بخش نہیں اور نفسیاتی بیماریوں کے بڑھنے کا تناسب وقت کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے. ماہرین کی رائے کے مطابق ہم میں سے ہر چوتھا انسان کسی نہ کسی طرح کے نفسیاتی عارضے کا شکار ہے. اس کی وجہ سے اس کی عائلی، خاندانی، معاشرتی زندگی کے متاثر ہونے کا اندیشہ بڑھ رہا ہے۔ مادی آسائشوں کے ہوتے ہوئے بھی وہ دلی سکون سے محروم ہے۔ علم نفسیات کی اسی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں نے ماہر نفسیات سنیعہ ڈار سے نفسیات کے حوالے سے گفتگو کی اور اس پہلو سے جڑے ہوئے کئی سارے موضوعات پہ سوال کیا، ان سے ان کی ذاتی زندگی و تجربات و نظریات کے متعلق بھی جاننے کی کوشش کی۔ اس سے پہلے کہ میں اس گفتگو کی تفصیل آپ سے شیئر کروں آپ کو سنیعہ ڈار سے مختصراً متعارف کروا دیتی ہوں۔
سنیعہ ڈار ایک کنسلٹنٹ ماہر نفسیات ہیں. ان کا تعلق پاکستان کے معروف شہر لاہور سے ہے. یہ سائیکو تھراپی کی طالب علم بھی ہیں۔ سوشل اینٹر پرینئیور کے میدان میں بھی سرگرم ہیں2017 سے.  اس کے علاوہ اپنی ایک آرگنائزیشن کے تحت مینٹل ہیلتھ اور ایجوکیشن کی فیلڈ میں مختلف پراجیکٹس پر کام کر رہی ہیں۔ ان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں.کتب بینی، جرنلنگ اور لرننگ ایکٹیویٹیز وغیرہ۔ عملی طور پہ نفسیات سے جڑے ہوتے ہوئے مذہبیات بھی ان کی دل چسپی کا مرکز ہے. یہ تجزیاتی ذہن کی مالک ہیں۔ وہ اتفاق کرنے کے ساتھ اختلاف کرنے کا ہنر بھی رکھتی ہیں. وہ اختلاف جو جذباتیت سے پرے ہو، جو انسان کو انسان ہونے کا مارجن دیتا ہو، یہیں سے سیکھنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
ان کے خیال کے مطابق زندگی کی اصل سمجھ زندگی گزار کر ہی حاصل کی جا سکتی ہے. کتابیں راہ میں نصب سائن بورڈ کی طرح آپ کو راستہ دکھاتی ہیں. زندگی گزارنے کے لیے سیکھتے رہنے کی اہمیت کو فراموش نہیں کر سکتے. اس لیے کامیاب زندگی گزارنے کے لیے ان کے درمیان توازن کا ہونا ضروری ہے۔ یہ نفسیاتی اور جسمانی صحت کو یکساں اہمیت دینے کی قائل ہیں. یہی وجہ ہے کہ وہ یوگا پریکٹیشنر اور ڈائٹ کانشئز کے حوالے سے اپنی ایک نمایاں پہچان رکھتی ہیں۔ سنیعہ ڈار ایک ماں کی ذمےداریوں کو بہ خوبی نبھاتے ہوئے سماجی ذمےداریوں کو بھی نبھانے کا ہنر رکھتی ہیں. اب آئیے مزید ان کے بارے میں انھی کی زبانی جانتے ہیں. 
علیزے نجف : میں روایتی طرز پہ اس گفتگو کا آغاز کرتی ہوں. اس لیے سب سے پہلے میں چاہتی ہوں کہ آپ اپنا تعارف کروائیں اور یہ بھی کہ آپ کہاں سے تعلق رکھتی ہیں اور اس وقت خود کو کہاں دیکھتی ہیں؟
سنیعہ ڈار: جی میرا تعلق لاہور سے ہے اور پیدائش سے لے کر اب تک یہیں پر زندگی گزر رہی ہے. باقی پیشے کے لحاظ سے ماہر نفسیات ہوں اور سائیکو تھراپی کی طالب علم بھی ہوں۔ سوشل اینٹر پرینئیور ہوں 2017 سے اور اپنی ایک آرگنائزیشن کے تحت مینٹل ہیلتھ اور ایجوکیشن کی فیلڈ میں مختلف پراجیکٹس پر کام کرتی ہوں۔ اس کے علاوہ ایک ماں بھی ہوں جس کے حوالے سے مختلف ذمے داریوں میں مصروفیت رہتی ہوں اور اس جدو جہد میں ہوں کہ اپنی ذات کو قائم رکھتے ہوئے یہ سارے سوشل رولز نبھاؤں۔ شاعری، کتاب بینی، لکھنے پڑھنے سے ہمیشہ کسی نہ کسی صورت وابستہ رہی ہوں اور یہ شوق کے ایریاز ہیں، لیکن اب زیادہ فوکس پوٹینشئیلی کچھ کرنے پر مرکوز رہتا ہے۔ مستقل سیکھتے رہنے کا بچپن سے شوق ہے تو تعلیم اکثر و بیشتر روایتی و غیر روایتی طرز پر جاری و ساری رہتی ہے اور اسی ضمن میں مختلف تعلیمی حلقوں سے جڑے رہنے کا شوق بھی پال رکھا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف اسکلز سیکھنے اور پریکٹس کرنے کا شوق ہے تو تقریباً پچھلے پانچ سال سے یوگا پریکٹیشنر ہوں، جسمانی سرگرمیوں، نیوٹریشن اور ہیلتھ کی فیلڈ میں کچھ نہ کچھ سیکھنے کرنے میں بھی دل چسپی ہے۔ اس وقت خود کو زندگی کے اس مقام پر سمجھتی ہوں جہاں ہم اپنی زندگی کے سوال نامے کو سمجھتے اور قبول کرتے ہوئے کسی نہ کسی حد تک اپنے لیے درست جوابات کا تعین کر لیتے ہیں۔ یعنی زندگی کے مقاصد اور ذمے داریوں کی فہم و ادراک سے پوری طرح جڑ کر اس راستے سے اپنی گروتھ، ہیلنگ اور اسی کے ذریعے دنیا کی گروتھ میں اسے سپورٹ کرنے کی مسافت پر نکلنے کے لیے اپنا زاد راہ سمیٹے پوری طرح خود کو تیار محسوس کرتے ہیں۔
علیزے نجف: دوسرا سوال میرا آپ سے یہ ہے کہ آپ کی تعلیمی قابلیت کیا ہے اور تعلیم کے حصول میں وہ کون سے پہلو ہیں جسے عمومی طور پہ نظر انداز کر دیا جاتا ہے؟
سنیعہ ڈار: میری تعلیمی قابلیت پاکستان کے رسمی تعلیمی نظام پر نفسیات میں ماسٹرز ہے اور سائیکو تھراپی میں میری ایک سال کی اسپیشلائزیشن UK کے اسکول آف کاونسلنگ اینڈ سائیکو تھراپی سے ہیومنسٹک سائیکو تھراپی میں ہے اور انٹیگریٹیو سائیکو تھراپی میں میری پڑھائی برٹش ایسوسیشن آف سائیکو تھراپی سے منسلک ادارے CPPD Pakistan سے جاری ہے جو کہ کراچی میں ہے۔ باقی کچھ ٹرینینگز ٹراما کی ہیلنگ میں ہیں جو کچھ دیگر اداروں سے لی گئی ہیں جن کا تعلق انٹرنیشنل اداروں سے ہے۔ EMDR Trauma Therapy میں مہارت کی سرٹیفیکیشن میں نے EMDR Pakistan سے حاصل کی ہے۔ آپ کے سوال کے دوسرے حصے کے ضمن میں بتاتی چلوں کہ میں نے اپنے ملک کی رسمی تعلیم کو اس لیے ابھی تک ایم فل یا پی ایچ ڈی وغیرہ کے لیول پر جوائن نہیں کیا کہ یہاں تعلیم کے حصول میں جن بنیادی پہلوؤں کو نظر انداز کیا جاتا ہے وہ یہ تعلیمی نظام نہ صرف تخلیقی صلاحیتوں کی قربانی پر مبنی ہے بلکہ جو پڑھایا جاتا ہے اس کی پریکٹیکل ایپلیکیشن سکھانے یعنی کہ اسکل بلڈنگ سے  تقریباً یا تو خالی ہے اور یا پھر اس حوالے سے ناقص حکمت عملی پر مبنی ہے۔ دوسرا زیادہ تر تعلیمی اداروں کا نظام بزنس مینز کے ہاتھوں میں ہے نہ کہ حقیقی ایجوکیشنسٹس کے ہاتھوں میں جن کا تعلیم کے فروغ سے کوئی مقصد وابستہ ہو، سوائے پیسہ بنانے کے. اکثریت کی بنا پر یہ راے ہے جس میں یقیناً exceptions موجود ہوں گے۔ تعلیمی اداروں میں خود اساتذہ کی اپنی ذاتی ہیلنگ اور گروتھ پر کام کرنے کا کوئی رحجان نہیں، اس سے پہلے کہ وہ طالب علموں کے ساتھ انٹریکشن میں آئیں. چنانچہ طلبہ کو بہت سے ایسے مشکل چیلنجز کا سامنا ہے جس سے ان کی جذباتی و نفسیاتی صحت شدید متاثر ہوتی ہے۔ کسی بھی قوم کے لیے دو ادارے ہوتے ہیں. تربیت کے ضمن میں ایک پیرنٹنگ اور دوسرا تعلیمی نظام اور تعلیم مہیا کرنے والے ادارے، تو دونوں نظاموں میں ہمارے یہاں شدید چیلنجز درپیش ہیں. چنانچہ تعلیمی نظام کے مسائل کی بنا پر اور اس کی وجہ سے اپنی فیلڈ میں موجود کمیوں سے نبرد آزمائی کی خاطر میں نے اپنی اسپیشلائزیشن کے لیے ویسٹرن تعلیمی نظام کو منتخب کیا ہے. گو کہ یہ میرے لیے بہت مہنگا اور محنت طلب ہے لیکن اس میں ریسرچ، کریٹیویٹی، پریکٹیکل اپلیکشن سکھانا، ذات کی گروتھ پر کام کرنا یہ سب عناصر موجود ہیں اور اپنے تعلیمی و معاشرتی مسائل میں اپنی ذات کے ذریعے کچھ تبدیلی لانے کا یہی زاد راہ مجھے مناسب لگتا ہے۔
علیزے نجف: آپ کی نظر میں اکتساب علم کے موثر طریقۂ کار کیا ہیں؟ جب خود طالب علم تھیں تو آپ نے کن تکنیکوں کو مؤثر پایا؟ بہ طور استاد آپ کا شاگردوں کے ساتھ کیسا تجربہ رہا؟
سنیعہ ڈار: سب سے موثر طریقہ کار یہ ہے کہ آپ تحقیق و تنقیدی مطالعہ کا دامن تھامیں اور دوسرا تجرباتی تعلیم اور تعلیم کے ذریعے اپنی اسکل بلڈنگ پر کام کریں۔ بہ طور استاد میں سمجھتی ہوں کہ اپنے طلبہ کو بھی اپنے تھراپیوٹک رشتے کے اندر رکھ کر تجربات، تخلیقیت، تحقیق و تنقید، ذات کی تعمیر اور اسکل بلڈنگ میں سپورٹ کرنا چاہیے اور میرے بچوں کے لیے کچھ پراجیکٹس، ٹیچر ٹریننگ پروگرام، گروپ کوچنگ پروگرامز، عام طور پر ایسی ہی تکنیکوں پر مبنی ہوتے ہیں جن سے اس سب میں سپورٹ فراہم ہو۔
علیزے نجف: آپ ماشاءاللہ certified life coach ہیں اور یقیناً آپ کا زندگی کے تئیں نظریہ منظم و مستحکم ہو گا. میرا سوال یہ ہے کہ زندگی کے بارے میں آپ کی مجموعی رائے کیا ہے؟
سنیعہ ڈار: میری رائے یہ ہے کہ مجموعی طور پر زندگی میں چیلنجز نا گزیر ہیں. خواہ وہ آپ کے سوشل ایریا میں ہوں، جذباتی زندگی کے بارے میں ہوں، ذہنی یا جسمانی زندگی سے وابستہ ہوں لیکن ان چیلنجز میں ہی آپ کی گروتھ کا سب سے زیادہ سامان ہوتا ہے. اگر آپ زندگی کو اپنا استاد مان کر اس کی شاگردی اختیار کر لیں اور اپنی تلاش کے سفر پر نکل کھڑے ہوں۔ اپنی ذات کی پہچان، اس کی تلاش اور خود آگہی کے بغیر زندگی بے معنی ہے. کیونکہ اپنے لیے درست طرز زندگی کا انتخاب، درست مقاصد کا تعین، اپنے طرز فکر کو دریافت یا تخلیق کرنا سب اسی پر منحصر ہے۔ زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے ذات کی دریافت اور آگہی کے راستے سے ہوتے ہوئے اگلا قدم لائف اسکلز کو سیکھنا ہے اور انھیں زندگی میں درپیش ہر صورت حال سے نمٹنے کے لیے استعمال کرنا ہے۔ مختصراً یہی اپنی دنیا آپ پیدا کر کے بھر پور طریقے سے درد کے ہوتے ہوئے، تلخ حقائق کو گلے لگاتے ہوئے؛ اس سب کی قبولیت کے ساتھ بھر پور انداز میں اپنی زندگی جینے کی چند چابیاں ہیں۔
علیزے نجف: انسانی زندگی میں بےشمار شعبہ ہائے حیات ہیں اور اکیسویں صدی نے اس میں مزید وسعت پیدا کر دی ہے. میرے ذہن میں سوال یہ ہے کہ آپ نے life coaching کے شعبے کا کیوں انتخاب کیا؟ اس کے پیچھے آپ کا ذاتی رجحان تھا یا معاشرتی ضرورت کے تحت اس طرف متوجہ ہوئیں؟
سنیعہ ڈار : جی ذاتی رحجان رہا، زندگی کے سوال نامے میں موجود سوالات کے جوابات دریافت یا تخلیق کرنے کا سفر، اپنے چیلنجز سے اپنے وجود کی گروتھ کا سامان نکالنے کی ریاضت اور ظاہر ہے کہ جس معاشرے نے مجھے پروان چڑھایا اس معاشرے کے زخموں کی اپنے وجود کے ذریعے مرہم کا سد باب کرنے کا خواب، اسی سب نے مجھے نفسیات اور لائف کوچنگ کے شعبے سے منسلک کیا۔
علیزے نجف: آپ ایک سوشل ایکٹیوسٹ ہیں. معاشرے کے ہر پہلو پہ آپ کی گہری نظر ہے اور آپ معاشرے کو درپیش مسائل کا حل بھی رکھتی ہیں. میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے وہ کون سے مسائل ہیں جنھوں نے انسانی ذہن کی تربیت پہ سب سے زیادہ منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور اس مشکل سے نمٹنے کے لیے ہمیں کن تین ابتدائی باتوں پہ دھیان دینے کی ضرورت ہے؟
سنیعہ ڈار: معاشرے کے ہر پہلو پر تو شاید نظر نہ ہو لیکن مجموعی طور پر اپنے محدود علم کی بنا پر مجھے لگتا ہے کہ پیرنٹنگ پیٹرنز اور تعلیمی نظام پر کام کرنا تبدیلی کے لیے بہت ضروری ہے. دوسرے معاشی و سیاسی پہلو جس کے حوالے سے بہت زیادہ گہری نظر کی ابھی حامل نہیں ہوں البتہ معاشی پہلو میں مجھے غربت کے پیچھے بہت زیادہ رول پاور پلے کا لگتا ہے. کیونکہ یہاں سب مواقع اور کنٹرول عمومی طور پر elite class کے لیے ہیں اور اس کی جڑیں بہت گہری ہیں. جنھیں اکھاڑنا اس وقت کا سب سے بڑا چیلنج لگتا ہے. البتہ باقی وجوہات پر تو ان شعبوں کے ماہرین ہی روشنی ڈال سکتے ہیں۔ چنانچہ اس ضمن میں تین باتیں ہیں. جب آپ پیرنٹ کے رول میں ہیں تو کتنا زیادہ اپنے وراثتی ٹراماز، پیٹرنز پر کام کرتے ہیں اور جہاں جہاں مسائل موجود ہیں، اپنی ذات میں وہاں اپنے بچوں کو اپنا آپ آفر کرتے وقت اپنی تبدیلی پر کتنا متنبہ رہتے ہیں اور شعوری کام کرتے ہیں۔
دوسرا تعلیمی نظام، معاشرے کی معاشیات وغیرہ سے جہاں جہاں آپ نبرد آزما ہوتے ہیں کتنے شعور، ایمان داری اور مسائل کی قبولیت کے ساتھ اپنے رولز ادا کرتے ہیں۔
تیسرا اپنی ذاتی یا معاشرتی زندگی میں جہاں جہاں آپ لوگوں سے انٹریکٹ کرتے ہیں، کتنا زیادہ آپ اپنی ذات کے ساتھ اپنے تعلق پر کام کر کے، اپنی ہیلنگ، گروتھ پر متوجہ رہ کر جذباتی ذہانت اور لائف اسکلز کے ساتھ شعوری طور پر معاملات کرتے ہیں۔ انسانی ذہن کی گروتھ پر سب سے زیادہ جو چیز متاثر کن ہوتی ہے وہ یہی انٹرایکشنز ہوتے ہیں۔۔والدین کا اولاد سے، استاد کا شاگرد سے ۔۔ اپنے دوستوں، کمیونٹی کے لوگوں کا ایک دوسرے سے، باس کا ایمپلائز سے اور ایمپلائز کا باس سے وغیرہ وغیرہ. 
علیزے نجف: آپ ایک ماہر نفسیات ہیں. بہ حیثیت ماہر نفسیات کے آپ کے کریئر کا آغاز کس ادارے سے ہوا اور آپ نے اب تک معاشرے میں کس نفسیاتی مسئلے کا تناسب سب سے زیادہ دیکھا اور اس مسئلے کے بڑھتے تناسب کے پیچھے آپ کن عوامل کو دیکھتی ہیں؟
سنیعہ ڈار: بہ حیثیت ماہرِ نفسیات تو میرے کیرئیر کا آغاز میرے اپنے ادارے سے ہی ہوا. کہیں جاب نہیں کی سواۓ پڑھائی کے دوران یونی ورسٹی کی طرف سے انٹرن شپ پروگرام کے تحت ہونے والی جاب کے۔ ایجوکشنسٹ کی حیثیت سے ایک نان پرافٹ اورگنائزیشنز میں چند سال ایز اے والنٹیئر کام کیا ہے جس کے بعد ہمیشہ اپنے ذاتی پراجیکٹ ہی کیے۔ قریب مستقبل میں ارادہ ہے برٹش ایسوسیشن سے وابستہ ادارے کے ساتھ کام کرنے کا لیکن زیادہ فوکس پرسنل پریکٹس پر ہی رہا ہے ہمیشہ۔ نفسیاتی مسائل کے تناسب کی بات کریں تو کون سا ایسا مسئلہ ہے جو ہمارے معاشرے میں موجود نہیں. جہاں ہر ادارہ پیرنٹنگ سے لے کر تعلیم و سیاست وغیرہ سب تقریباً کرپٹ اور ٹرامٹائزڈ ہیں. لیکن ٹراما سائیکلز کا نسلوں میں چلتے رہنا اس مسئلے کی وجہ سے ہے کہ ہمارے ہاں ابھی نہ تو ان مسائل کی اتنی آگہی ہے نہ ہی قبولیت اور نہ ہی نفسیاتی علاج کے جدید طرز و ذرائع موجود ہیں۔ ایک جملے میں کہوں تو بڑھتے تناسب کی وجہ ہمارے معاشرتی پیٹرنز اور ان کی عقیدت ہے جن پر معاشرے کے افراد پروان چڑھتے ہیں اور سب سے بنیادی مسئلہ اس ضمن میں معاشرے کا مجموعی طور پر ٹراما انفارمڈ معاشرہ نہ ہونا ہے اور عقیدت کو عبادت، نفسیاتی مسائل کی suppression کو صبر سے تعبیر کرنا، pseudo spiritually, علماے دین کا نفسیاتی مسائل اور علاج کو دین و ایمان سے جوڑنا، نفسیاتی و جذباتی پہلوؤں کو ذات کا حصہ consider نہ کرتے ہوئے اظہار کرنے والے انسانوں کو کیٹگرائز کر دینا، ان مسائل کا ٹیبوز ہونا وغیرہ وغیرہ ہے۔ انٹرنیشنل ورلڈ میں ہر فیملی کا ایک فیملی تھراپسٹ یوں ہی موجود ہوتا ہے جیسے فیملی ڈاکٹر. کیونکہ وہاں زندگی اور ذات کے حقائق اب ٹیبو consider نہیں کیے جاتے، تعلیمی و دیگر آرگنائزیشن میں ماہر نفسیات ہائر کرنا قوانین میں لازمی قرار دیا گیا ہے. جب کہ ہم ابھی اس حوالے سے بہت پیچھے ہیں اور یہی چند ایک بڑی وجوہات ہیں بڑھتے ہوئے نفسیاتی مسائل اور اس suffering سے نہ نکل پانے کی۔
علیزے نجف: نفسیاتی امراض اب بھی اکثر لوگوں کے لیے ایک اجنبی شئے ہے. علم کی ترقی نے علم نفسیات کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے. لیکن اب بھی خاطر خواہ بیداری نہیں پیدا کی جا سکی ہے. وہیں دوسرا مسئلہ نفسیاتی امراض کے شکار لوگوں کے مقابلے میں ماہر نفسیات کا تناسب بھی بہت کم دیکھا گیا ہے. آپ ان دونوں مسائل کو کس طرح دیکھتی ہیں؟ اس کی ذمےداری کس کے سر عائد ہوتی ہے؟ اس ضمن میں اب تک آپ نے کیا نمایاں کوشش انجام دی ہے؟
سنیعہ ڈار : سوال کے پہلے حصے پر پچھلے سوال میں ہی خاطر خواہ بات ہوئی ہے. جہاں تک ماہرین نفسیات کے تناسب کی بات ہے تو میرے ملک میں میرے مشاہدے پر ایسا نہیں ہے. ماہرین نفسیات اب کافی سارے موجود ہیں،، لیکن ہمارے تعلیمی نظام میں اس حوالے سے جو deficiency یا مسائل ہیں، ان کی وجہ سے ماہرین کی اسکل بلڈنگ، نفسیات کی جدید ریسرچز اور مختلف قسم کے طریقہ علاج کو نصاب اور پریکٹس میں شامل کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کی ذمہ داری میرے خیال سے نظام کے سرپرستوں کے ساتھ ساتھ طلبہ پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی فکسڈ اکیڈیمکس کے دائرے میں رہنے کی بجائے خود کمفرٹ زون سے نکلیں، انٹرنیشنل ورلڈ میں ہونے والی جدید ریسرچز، نفسیات کے دوسرے اسکولز آف تھاٹس پر اکیڈیمکس کے علاوہ ریسرچ، مطالعہ، ہر طرح کی تھراپیز میں انٹر نیشنل ٹرینینگز حاصل کریں اور علاج کے معاملے میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کے ساتھ ساتھ بروے کار لانا سیکھیں۔ ہر کلائنٹ کا مسئلہ ایک جیسا نہیں ہوتا کہ آپ ایک ہی فکسڈ طریقہ علاج اور تھراپیز کو سب پر تھوپتے جائیں۔ بہت سے کلائنٹس میرے پاس تھراپی سے یاسیت لے کر آتے ہیں کہ ہم نے اتنے اتنے سیشنز لیے لیکن ہمیں لانگ ٹرم کوئی فایدہ نہیں ہوا. وہی ڈائگناسسز، سی بی ٹی کی شیٹس، وغیرہ وغیرہ یا پھر سائکاٹرسٹس کی دوائیاں جو بغیر پراپر تھراپیز کے زندگی اجیرن کیے رکھتی ہیں، ان پر لگے ہیں۔ تو اس سیٹ پیٹرنز سے نکلیے اور مختلف انٹروینشنز سیکھیے جو کلائنٹس کے مسئلے کے مطابق ہو. پھر کریٹیولی چوز کر کے اس سے سپورٹ فراہم کیجے۔ تو زمہ داری دونوں پر برابر عائد ہوتی ہے. البتہ طالب علم کے لیے یہ بہت بڑا چیلنج بن جاتا ہے کہ ایک طرف ڈگری بھگتنا اور دوسری طرف اسکل بلڈنگ کو الگ سے seek out کرنا. چنانچہ تعلیمی نظام کے بانیوں کو یہ سہولت تعلیم کے اندر ہی مہیا کرنی چاہیے۔
میرا contribution یہ ہے کہ ابھی تک small scale پر ہی لیکن آگہی ۔۔۔سائیکو ایجوکیشن پر ٹرینینگز، لوگوں کی پرسنل ہیلنگ میں اپنی بتائی گئی اپروچ پر اپنی سروس مہیا کرنے کی جدو جہد کی ہے. نیز سب سے بڑھ کر درست سروس آفر کرنے کے لیے اپنی ذاتی ہیلنگ، اسکل بلڈنگ پر مستقل کام، محنت جاری ہے۔
علیزے نجف: زندگی اصولوں سے مرکب ہے. کامیاب زندگی میں اصولوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے. آپ کی نظر میں ایک کامیاب اور باشعور زندگی گذارنے کے لیے بنیادی اصول کیا ہیں اور اس کو کس طرح سیکھا جا سکتا ہے؟
سنیعہ ڈار: اصولوں کی زندگی میں بہت اہمیت ہے اور یقیناً لائف اسکلز کا ایک بڑا حصہ ان اصولوں کو سیکھنے پر مبنی ہوتا ہے. لیکن چونکہ فطری طور پر ہر کسی کی زندگی کا اسکرپٹ ایک سا نہیں ہو سکتا تو اصولوں کے لیے بھی کوئی ایک نسخہ مرتب نہیں کیا جا سکتا اور اگر مرتب کر بھی لیا جائے تو ضروری نہیں کہ ہر انسان کی کامیابی انھی اصولوں پر مبنی ہو یا اگر ہو تو وہ ان کو عملی طور پر اپنانے کی کنڈیشن میں بھی ہو۔ سیلف ہیلپ کی کتابوں، ٹرینینگز کو اٹینڈ کرنے میں ایک وقت گزارا ہے اور میرے تجربے و علم کی بنیاد پر کامیابی کے اصولوں کے جو نسخے فراہم کیے جاتے ہیں وہ زیادہ تر آئیڈیلائزڈ اور بائیسڈ ہوتے ہیں اور لوگ کم و بیش ہی اس کو پریکٹیکلی اپلائی کر کے کامیابی حاصل کرنے کی کنڈیشن میں ہوتے ہیں۔ میں شعوری طور پر اپنی ذات اور زندگی کی دریافت پر اپنے اصول وضع کرنے کی قائل ہوں۔ معاشرے کے مرتب کیے ہوئے لاشعوری اصولوں سے ہمیشہ میرا تضاد رہا ہے اور کامیابی کے نسخے اور اپنے لائف اسکرپٹ کو وضع کرنے کے ضمن میں سب سے زیادہ جس چیز نے مجھے سپورٹ کیا وہ اپنی ذات کی ہیلنگ، سیکھتے رہنے، اس ذریعے سے ارتقا پر میرے شعوری انتخابات ہیں اور سائیکو تھراپی میرے لیے اس معاملے میں لائف سیونگ سورس رہا ہے۔ اپنی ذات سے شعوری تعلق، خدا کی ذات سے تعلق؛ ان دونوں کے مطابق اپنی کامیابی کے اصول طے کرتی ہوں اور میرے خیال میں ہر کسی کو اپنے اصول طے کرنے کے لیے یہ ذرائع اور نسخہ بہت کار آمد ہے۔ باقی جو جو ان کے علاوہ ہوں مجھے بھی ضرور سکھائیے۔
علیزے نجف: آپ ایک قلم کار بھی ہیں. نظم و نثر دونوں ہی اصناف میں آپ نے طبع آزمائی کی ہے. میرا سوال یہ ہے کہ آپ کے اندر لکھنے کا رجحان کیسے پیدا ہوا؟ آپ نے اب تک سب سے زیادہ کن موضوعات پہ لکھا ہے؟
سنیعہ ڈار: ویسے تو میرے مشاہدے پر تقریباً مطالعہ سے شغف رکھنے والے ہر انسان میں کسی نا کسی حد تک یہ مادہ موجود ہوتا ہے۔ لیکن اسکول کے بہت ابتدائی دنوں سے ہی ڈائریز لکھنے کا رحجان رہا ہے۔ اور رائٹنگ سے میرے بنیادی تعلق کی ترجمان میرے پسندیدہ رائٹر، ڈاکٹر، تھراپسٹ گیبر میٹے کی یہ کوٹ ہے:
I needed to write, to express myself through written language not only so that others might hear me but so that I could hear myself.
Gabor Maté, In the Realm of Hungry
تو میں جرنلنگ بہت کرتی ہوں. اپنی ذات کو ایکسپلور کرنے کے لیے اور مجھے تخلیقی ایکسپریشن سے شدید لگاؤ ہے، تو میرے لیے لکھنا ہمیشہ سے اس اظہار کا بہترین ذریعہ رہا ہے۔ پیغام رسانی کے لیے بھی کبھی کبھار، شروع میں کچھ میگزینز میں اصلاحی تحاریر بھی لکھا کرتی تھی لیکن ذات کے ارتقا کے بعد اپنی ہی تحاریر پر اپنی ہی تنقید کے پیدا ہو جانے پر اس سلسلے میں کچھ تبدیلی واقع ہوئی، شاعری لکھ لیتی ہوں کبھی کبھار اور نفسیات کے موضوعات پر۔۔۔ کبھی کوئی نالج شئیر کرنے کو دل کرے اس پر، لیکن سب سے زیادہ اپنی ذات کے تخلیقی اظہار کے ضمن میں لکھنے کو انجوائے کرتی ہوں۔ حال ہی میں فکشن رائٹنگ کو سیکھا ہے تو ایک ناول تخلیق کرنے کا سفر جاری و ساری ہے جو کام اور تعلیمی مصروفیات کے باعث ذرا سست ہے۔ بنیادی طور پر یہ ناول بھی ذات کے عناصر کے تخلیقی اظہار پر ہی مبنی دکھائی دیتا ہے۔
علیزے نجف: اپنی اب تک کی گزری ہوئی زندگی کو اگر آپ کو کوئی عنوان دینا پڑے تو وہ کیا ہوگا؟
سنیعہ ڈار: بہت عنوان ہو سکتے ہیں ویسے تو، لیکن شاید "صداۓ باز گشت" یعنی ذات کی طرف واپسی کا ترانہ. 
علیزے نجف: ایک بچے کو اپنے ارد گرد کے ماحول اور خاندان سے جو صلاحیتیں اور طرز زندگی ملی ہوئی ہوتی ہیں، موجودہ وقت کی اس برق رفتار دنیا میں کیا اسے بہ طور life skills کافی سمجھا جا سکتا ہے یا مطلوبہ life skills کو باقاعدہ کسی trainer سے سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے؟
سنیعہ ڈار: زندگی میں سیکھنے کی ضرورت نا گزیر ہے، مینٹورز کی اس حوالے سے اپنی اہمیت ہے۔ صلاحیتیں اور طرز زندگی یقیناً ماحول خاندان وغیرہ سے ملتا ہے. لیکن سوال یہ ہے کہ جو ملا ہے اور اس سے تخلیق ہونے والے پیٹرنز کیا درست اور وقت کی ضرورت کے مطابق ہیں، آپ کی گروتھ ان پیٹرنز پر stuck ہے یا ہو رہی ہے، یہ سب وضع کرتے ہوئے شعوری انتخابات پر زندگی گزارنے کے لیے سیکھنا پڑتا ہے۔
علیزے نجف: انسانی زندگی میں خاندان کا ادارہ غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے لیکن وقت کے ساتھ جہاں تعلیم عام ہوتی جا رہی ہے، وہیں تربیت عنقا ہوتی جا رہی ہے. اس تربیتی خلا کو پر کرنے کے لیے ایک خاندان کو کن کن نکات کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے؟
سنیعہ ڈار: تعلیم کے ساتھ تربیتی خلا کو پر کرنے کے بہت سے حل سوشل سائنٹسٹ وضع کر سکتے اور کرتے رہتے ہیں۔ یہ حل خاندان کے ادارے میں پیرنٹٹنگ سے منسلک ہیں، پری میریٹل کاؤنسلنگ، شعور کی مکمل ڈویلپمنٹ کے بعد دو لوگوں کو اس ادارے میں داخل ہونے کا رواج تخلیق کرنا، کانشئیس میرجز اور تعلیمی اداروں میں تعلیمی نظام کے اندر اکیڈیمکس کے ساتھ ساتھ لائف اسکلز سکھانے وغیرہ جیسے ہو سکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جس معاشرے میں اصل مسئلے اور وجوہات کو تسلیم کرنے کا پیٹرن ہی موجود نہ ہو، وہاں حل کے لیے خاندانوں یا معاشرے کے دوسرے اداروں میں اسٹریٹجیز وضع کرنا فی الحال صرف ایک خواب ہے۔ خدا کرے ہم اس کی تعبیر بھی دیکھیں۔
علیزے نجف: آپ کی شخصیت کے وہ کون سے تین پہلو ہیں جو نہ صرف بہت واضح ہیں بلکہ آپ کی پہچان بھی ہیں؟
سنیعہ ڈار: 1.اپنی ذات اور حقوق پر استقامت سے کھڑے ہونے کی ہمت. 
2. چیلنجز کے بالمقابل انتہائیresiliency خواہ وہ اندرونی چیلنجز ہوں یا خارجی حالات میں. 
3. شدید خوف کے باوجود بھی زیادہ تر صورت حال میں وہ کر گزرنے کی صلاحیت جو مطلوب ہو. 
علیزے نجف: وہ کون سے عوامل ہیں جو انسانی نفسیات کو سب سے زیادہ متاثر کرتے ہیں؟
سنیعہ ڈار: پیرنٹل چائلڈ ہڈ ٹراماز، بچپن کے بد ترین تجربات، بچے/انسان کی ذات کی اس کے tribe کے ہاتھوں عدم قبولیت اور سیف اٹیچمنٹ یا تعلق کا میسر نہ آنا۔
علیزے نجف: معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے کیا آپ نے کوئی واضح لائحۂ عمل تیار کیا ہے؟ اگر ہاں تو وہ کیا ہے اور اس کا طرز اطلاق کیا ہوگا؟
سنیعہ ڈار: پہلا لائحہ عمل تو اپنے پیرنٹٹنگ کے رول کے ضمن میں طے کیا ہے اور وہ ہے اپنی ذات کی ری پیرنٹٹنگ تاکہ وراثتی ٹراما پیٹرنز کو no کہہ کر بچوں کی ذات میں انھیں قبول کرتے ہوئے، ان پر اپنا آپ نہ تھوپتے ہوئے ان کو سیف تعلق میں پروان چڑھا سکوں اور ابھی تک اس میں بہت ترقی کی ہے الحمد للہ۔ دوسرا اس ضمن میں میرے پراجیکٹس اور میری آرگنائزیشن کا کام جس کے تحت اب تک 13 تربیتی گروپ کوچنگ پروگرامز ہو چکے ہیں، اسکولز کے لیے پروگرامز وضع کیے جا چکے ہیں اور بچوں کے لیے پراجیکٹ ڈیزائنڈ ہے جس کا انعقاد بھی کافی دفعہ فزیکل یا آن لائن سیٹنگز میں ہو چکا ہے اور ادارے کا فزیکل آفس بھی کچھ مہینوں میں تیار ہو جائے گا۔ ماؤں کی ری پیرنٹٹنگ میں انھیں سپورٹ کرنے اور نفسیاتی طور پر suffer کرنے والے لوگوں کے لیے باقاعدہ پرسنل سیشنز کی آپشن موجود ہے۔ non profit organizations کے کلائنٹس کے لیے وقتاً فوقتاً فری نان پیڈ پروگرامز بھی آفر کیے جا چکے ہیں۔ کافی کچھ لسٹ میں ہے جس پر ابھی کام کرنا جاری و ساری رہے گا، ان شاء اللہ. 
علیزے نجف: غیر متوازن نفسیات کو متوازن بنانے میں کیا مذہب کا بھی کردار ہوتا ہے؟ اگر ہاں تو کتنا اور کس طرح سے مذہب سے بے بہرہ انسان کو مذہب کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے؟ 
سنیعہ ڈار: نفسیات کے کچھ ماہرین جیسے کارل یونگ اور وکٹر فرینکل کی ریسرچز کے مطابق genuine religiosity نفسیاتی صحت میں معاون ہوتی ہے۔ اور اگر میرا فہم درست ہے تو یہ دونوں انسان کے روحانی پارٹ کا ایک حصہ خدا سے تعلق کو کسی نہ کسی حد تک سمجھتے ہیں۔ البتہ وکٹر فرینکل اپنی کتاب Man’s search for ultimate meaning of life میں خدا کے تصور اور مذہب کے نمائندوں کا پیش کردہ تصور خدا؛ ان دونوں میں تخصیص کرتے ہیں اور مذہب کو ہر انسان کا ذاتی معاملہ سمجھتے ہیں. جب کہ یونگ کی سائیکالوجی کو spiritual psychology بھی کہا جاتا ہے، جس کا براہ راست تعلق تو مذہب سے نہیں ہے، البتہ اس میں مذہب کے پیش کردہ تزکیہ نفس کے تصور سے مماثل ورک انسانی نفس یا ذات کے پارٹس پر کام کرنے کے لیے کمال تھراپی shadow work کی صورت میں موجود ہے، جسے یونگیئن سائیکو تھراپی بھی کہتے ہیں۔ اس انٹروینشن کے ذریعے نفس کی تربیت پر کام کیا جاتا ہے لیکن نفسیات میں روحانیت کو بنیادی طور پر انسان کی ذات کا ایک پہلو تصور کیا جاتا ہے اور اس پارٹ، اس کے تقاضوں سے صحت مند کنکشن، انسان کی روحانی صحت کے لیے ضروری مانا جاتا ہے۔ بہرحال مذہب اور نفسیات دو الگ ڈومیننز ہیں. البتہ ویسٹرن سائیکو تھراپی کو ہمارے ہاں پریکٹس کرنے کے لیےreligiously , culturally اور faith sensitive way میں پریکٹس کیا جانا چاہیے جو کہ بہت سے مسلم تھراپسٹ کرتے ہیں۔ ویسٹ میں بھی اس کو باقاعدہ ایکنالج کیا جاتا ہے اور یو-کے میں ہمارے ادارے کے ٹرینڈ تھراپسٹ نے اسلامک سائیکو تھراپی سینٹرز بنائے ہیں جنھیں باقاعدہ ادارے کی طرف سے ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے. اس کی تفصیل CPCAB کی آفیشل ویب سائٹ پر بھی پبلش ہو چکی ہے۔ جہاں تک مذہب سے انسانوں کے بے بہرہ ہونے کی بات ہے تو اس کے پیچھے یقیناً بہت سے نفسیاتی پہلو کار فرما ہو سکتے ہیں. جیسے مذہبی شدت پسندی سے ملنے والے ٹراماز کا ایک جذباتی ری ایکشن ہوتا ہے جس سے بغاوت پیدا ہوتی ہے۔ کلچرل ریلیجن، مختلف انتہا پسند یا انسانی فطرت کے منافی انٹر پریٹیشنز سے انسانوں کے جذبات اور عقلی تقاضے مجروح ہوتے ہیں اور ان کے انتہائی ردعمل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ میری ذاتی زندگی میں مذہبی انتہا پسندی اور پدر سری نظریات کی تائید کے لیے مذہب کے استعمال سے ایسے بہت سے تجربات موجود ہیں جن کے باعث خدا اور بندے کے ذاتی تعلق میں خلل پیدا ہوتا ہے اور انسان کی نفسیات پر ان کا گہرا اثر وارد ہوتا ہے. البتہ جیسے جیسے انسان کی نفسیاتی و جذباتی ہیلنگ ہوتی ہے اور اپنی ذات سے محبت و نرمی کا تعلق استوار ہوتا ہے ویسے ویسے خدا سے ذاتی تعلق اور حقائق کا فہم اور قبولیت ہونے لگتی ہے۔
علیزے نجف: یوں تو ایک فرد کی زندگی میں کئی سارے رشتے ہوتے ہیں جو پیدائشی ہوتے ہیں لیکن ایک رشتہ ایسا ہے جس کے لیے ہر انسان کو حق انتخاب حاصل ہے. وہ ہے شریک حیات کا رشتہ. میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ شریک سفر کے انتخاب کے وقت کن کن باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہئے؟
سنیعہ ڈار: میرے ایک اور پسندیدہ رائٹر اور سائکاٹرسٹ، سائیکو تھراپسٹ ڈاکٹر آئرون یلوم اپنی کتاب میں اس پر لکھتے ہیں کہ:
"I should have become I before I become we”
جتنا زیادہ آپ اپنی ذات کے عناصر سے آگاہ ہوں گے اپنی زندگی کے سوال نامے سے کنیکٹ ہوں گے اور آپ کا تعلق خود سے استوار ہو گا اتنا زیادہ آپ سمجھ سکیں گے کہ کس طرح کے پارٹنر کا انتخاب کرنا ہے۔ دوسری چیز محبت اور بہترین تعلق کے لیے اپنی ہیلنگ پر کام کرنا، خود کے پیٹرنز اور پارٹنر کے پیٹرنز کی شعوری انڈرسٹینڈنگ رکھتے ہوئے اس لیول سے معاملات کو ہینڈل کرنا سیکھنا، جذباتی ذہانت پر کام کرنا اور نفسیاتی و جذباتی طور پر اسٹیبلٹی یا میچورٹی کے لیول سے زندگی کے اس فیز میں جانا بہت ضروری ہے۔ البتہ پارٹنر کے شعوری انتخاب کے معاملے میں ہمارے ہاں بہت سے معاشرتی مسائل کو عبور کر پانا ایک الگ مسئلہ ہے، خاص کر خواتین کے حوالے سے۔ البتہ رشتے کبھی بھی چیلنجز سے مبرا نہیں ہوتے اور زندگی کی داخلی حقیقت over whelming ہے تو اس سب کے باوجود بھی آپ کو سماجی، معاشی، معاشرتی، جذباتی، نفسیاتی ہر طرح کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہئے اور اس سب کے بیچ و بیچ بھر پور طریقے سے جینا سیکھنا چاہیے۔
علیزے نجف: ڈپریشن اور اینگزائٹی دو ایسی نفسیاتی اصطلاح ہیں جس کے شکار ہم میں سے ہر کوئی کبھی نہ کبھی ہوتا ہے. چونکہ زندگی نشیب و فراز کا مجموعہ ہے، اس لیے جذبات میں اتار چڑھاؤ کا آنا بھی فطری ہے. لیکن یہ مشکل اس وقت سنگین ہو جاتی ہے جب ڈپریشن اور اینگزائٹی ہمیں اپنی گرفت میں لینا شروع کر دیتی ہے. میرا سوال یہ تھا کہ اس مائلڈ ڈپریشن اور اینگزائٹی کو overcome کرنے کے لیے ہمیں کیا مشورہ دینا چاہیں گی؟
سنیعہ ڈار: اپنے جینے اور اندرونی سکون حاصل کرنے  کے ریسورسز تلاش کریں اور ان کے ساتھ کنیکٹ رہیں اور ضرورت کے وقت مدد حاصل کرنے سے ہر گز گریز نہ کریں، یہاں تک کہ مسائل choronic stage پر پہنچ جائیں۔
علیزے نجف: آپ ایک ٹرینر بھی ہیں. ایک ٹرینر معاشرے کے حساس موضوعات کو نہ صرف موضوع بحث بناتا ہے بلکہ اس کے سد باب  کے لیے مناسب حکمت عملی بھی اختیار کرتا ہے. میرا سوال یہ ہے کہ بہ طور ٹرینر آپ نے سب سے زیادہ کس پہلوئے حیات کو discuss کیا ہے اور اس کی اثرپزیری کیا تسلی بخش رہی ہے؟
سنیعہ ڈار: بہ طور ٹرینر میں سب سے زیادہ ذات کی ہیلنگ، خود آگہی، سلف ریگیولیشن، اپنی ذات کا ڈرائیور بن کر اپنی دنیا آپ پیدا کرنے اور اپنی suffering سے اپنی گروتھ کا سامان اخذ کر کے بھرپور طریقے سے جینے نیز اسی سب کے ذرائع و وسائل پر اکثر بات کرتی ہوں، تھراپی کے اندر کلائنٹ سپورٹ کے لیے انھی اسکولز آف تھاٹس کی انٹروینشنز استعمال کرتی ہوں اور اس سے اپنے کلائنٹس کی زندگیوں میں جب پوٹینشل تبدیلی واقع ہوتی دیکھتی ہوں تو اس لمحے اپنے اندر صحیح معنوں میں زندہ ہونے کا احساس پاتی ہوں۔ الحمد للہ نتائج کے لحاظ سے ابھی تک شاذ ہی کبھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے، خواہ وہ گروپ کوچنگ پروگرامز ہوں یا پرسنل سیشنز کے۔
علیزے نجف: آپ نے بہ حیثیت ایک ماہر نفسیات و سوشل ایکٹیوسٹ کے اب تک لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنے والے بےشمار اقدامات کیے ہیں. اسی مقصد سے آپ نے SELP نامی آرگنائزیشن کی بنیاد بھی رکھی. میں چاہتی ہوں کہ اس آرگنائزیشن سے متعلق آپ ہمارے قارئین کو بتائیں اور اس کا طریقۂ کار کیا ہے؟
سنیعہ ڈار : پہلے تو آپ کی دل چسپی کے لیے شکر گزار ہوں۔ Selp Pakistan اس کا تعارف، میرا انٹروڈکشن، پراجیکٹس اور سروسز کی کافی تفصیلات میری آفیشل ویب سائٹselpclub.com پر موجود ہیں. البتہ مختصراً میرے ادارے کی سروسز کے تین ایریاز ہیں۔ پہلا ایریا مینٹل ہیلتھ کیئر سے منسلک کام، جیسے سائیکو ایجوکیشن پر مبنی گروپ کو چنگ پروگرامز، آویرنس ٹرینیینگز، پرسنل سیشنز وغیرہ. 
دوسرا تعلیم اور تعلیمی اداروں سے منسلک کام، مثلا ٹیچر ٹریننگ پروگرامز، بچوں کے لیے کلوبریٹیو اکیڈیمک سوشل اینڈ ایموشنل لرننگ سیشنز اور کورسز پروگرامز۔
تیسرا ایریا سوشل پراجیکٹس سے وابستہ ہے جس میں نان پرافٹ سوشل آرگنائزیشنز کے ساتھ کولبوریشن سے انھیں سوشل سروسز میں سپورٹ فراہم کرنا ہے۔ اور حال ہی میں ان underprivileged women کے لیے انھیں چھوٹے چھوٹے بزنسز میں سپورٹ فراہم کرنے کا پراجیکٹ شروع کیا ہے، جو معاشی طور پرsuffer کر رہی ہیں۔
علیزے نجف: موجودہ وقت میں ہمارے یہاں ایک نفسا نفسی کا ماحول پایا جا رہا ہے. تعلقات کی بنیادیں بوسیدہ ہوتی جا رہی ہیں. وہیں انسان خود سے بھی کٹ کر رہ گیا ہے. اس مسئلے کو آپ کس طرح دیکھتی ہیں اور اس کو کس طرح بہتری کی طرف لایا جا سکتا ہے؟
سنیعہ ڈار: خود سے تعلق منقطع ہونے کا مطلب ہے لا شعوری ری ایکشنز، طرز فکر اور اندر کی بے اطمینانی پر زندگی گزارنا۔ اکثر و بیشتر نفسیاتی مسائل اور ہماری suffering زندگی کی بھیڑ میں یا معاشرے کے لا شعوری پیٹرنز کو فوکس کرنے کی دوڑ میں خود کو کھو دینے سے ہی جنم لیتی ہے۔ ہیومنسٹک سائیکو تھراپی کی بنیادی پریکٹس اسی انر ورک پر مبنی ہے جو خود کی تلاش، خود آگہی، سیلف ریگیولیشن، ذات کی گروتھ پر مبنی ہے۔ یہ سیکھنا اور اس کے ماہرین کے ساتھ اپنا انر ورک کرنا میرے لیے اسی ضمن میں بہترین سورس رہا ہے۔ باقی فلسفے میں existential philosophy سے شغف، اس سے سیکھنا اور اس کا مطالعہ کرنا نیز دین کے معاملات میں شعوری تحقیق سے تعلق جوڑ لینے نے ہمیشہ بہتری کے ضمن میں بہت ہیلپ کیا ہے۔
علیزے نجف: اکیسویں صدی تک آتے آتے دنیا کی تصویر کافی حد تک بدل چکی ہے. اس تبدیلی میں عورت کے دائرۂ کار کی آزادی بھی شامل ہے. اب وہ ہر شعبے میں اپنی صلاحیت کے جوہر دکھا رہی ہے، جو کہ بہت اچھی بات ہے، لیکن ایک عورت پہ کچھ بنیادی ذمے داریاں ایسی ہیں، جو اس سے کبھی ساقط نہیں ہوتیں. وہ ہے ایک ماں اور بیوی کا کردار. میرا سوال یہ ہے کہ ایک عورت کس طرح اپنی معاشرتی اور خاندانی ذمے داریوں کے درمیان توازن پیدا کرے؟
سنیعہ ڈار: میرا خیال ہے کہ یہ سوال عورت اور مرد دونوں پر لاگو ہوتا ہے اور اپنی جنریشنز کو اپنے لیے خود شعوری فیصلے لینا سیکھانا چاہیے. جس سے وہ ہر فیز کے لحاظ سے اپنی استعداد کے مطابق اپنی زمہ داریوں کا تعین کر پائیں۔ اس بیلنس کو قائم کرنے کے لیے جذباتی طور پر میچور، resilient اور ذہین ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر آپ اس طرح کی ذمہ داریوں میں پڑ چکے ہیں اور بیلنس کے معاملے میں چیلنج سے گزر رہے ہیں تو یہ صلاحیتیںbuild up کرنے کے لیے اپنا انر ورک یا ہیلنگ پر کام کیجیے اور اگر ان زمہ داریوں میں نہیں پڑے تو پڑنے سے پہلے اس کا انتظام کر لیجیے. کسی نہ  کسی حد تک تبدیلی پیدا کرنے اور زندگی کو بیلنس پر استوار کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ پرفیکشن ایک واہمہ ہے اور بیلنس اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے. چیلنجز کا سامنا رہے گا. بس آپ کو ان کا درست طریقے سے سامنا کرنے کے لیے اپنے شعور اور کریٹیویٹی سے مضبوط رشتہ استوار کرنا ہے۔
علیزے نجف: ایک ماہر نفسیات اوروں کے ساتھ ساتھ خود کو بھی بہتر طریقے سے سمجھتا ہے، جس کو خودشناسی کہتے ہیں. میں چاہتی ہوں کہ آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں، آپ انٹروورٹڈ ہیں یا اکسٹرورٹڈ؟ آپ کی طبیعت میں کون سا مزاج غالب ہے؟ مثلا باتونی ہیں، شرارتیں کرنا پسند ہے، سنجیدہ طبع قسم کی ہیں؟
سنیعہ ڈار: اس اسکیل پر میرا مزاج زیادہ انٹروورٹڈ ہے، البتہ حقیقت یہ ہے کہ میں ذات کو ایک فکسڈ entity نہیں سمجھتی۔ انسان کے اپنی ذات کا کانشئیس ڈرائیور ہونے پر یقین رکھتی ہوں. سو انٹروورٹڈ ہونے کے باوجود بھی اب سوشل سرکلز اور اپنے سے مختلف لوگوں کے ساتھ گھلنا ملنا، بہترین تعلقات استوار کرنا، اپنی ذات کی پہچان، ہیلنگ اور ارتقا کے سفر میں سیکھ لیا ہے. اور انسان کی شخصیت پر زیادہ تر اس کے ماحول، اندرونی و بیرونی تجربات، کئیر گئیورز کے ساتھ ابتدائی زندگی میں تعلق کا تاثر غالب ہوتا ہے، جس پر یقیناً شعور کی بالیدگی کے ساتھ کام کیا جا سکتا ہے اور طرز زندگی کے معاملے میں اپنی ذات کو کیٹیگریز سے آزاد رکھتے ہوئے شعوری انتخابات پر حال میں رہتے ہوئے بھر پور زندگی گزارنا، کیٹیگریز کے ساتھ اٹیچمنٹ والی زندگی سے کہیں زیادہ بہتر چوائس ہے۔
علیزے نجف: اس انٹرویو دینے کے دوران آپ کے احساسات کیسے رہے؟ اور کیا سوالات سے مطمئن تھیں؟ کوئی ایک پیغام جو آپ ہمارے قارئین تک اس انٹرویو کے ذریعے پہنچانا چاہتی ہیں؟
سنیعہ ڈار: جرنلنگ بہت کرتی ہوں۔ سوالات اور ان کے جوابات ڈھونڈنا تو میرا ہمیشہ سے بہترین مشغلہ رہا ہے، چنانچہ اس انٹرویو کی اپنی دل چسپی سے مطابقت پر اسے بہت انجوائے کیا۔ سوال بہت دل چسپ اور بہترین تھے۔ Holistically جوابات دینے میں اپنی ذات کا اظہار ایک الگ باعث فرحت کام تھا اور میرا خیال ہے کہ کافی پیغامات پہلے سے ہی سوال و جواب کے اس سلسلے کے تحت لکھے جا چکے ہیں تو پیغام یہی ہے کہ ان پر غور و فکر فرمائیں اور اگر کچھ اخذ کرتے ہیں تو دعاؤں میں یاد رکھیں۔
***
 علیزے نجف کی یہ گفتگو بھی پڑھیں: اَپنے نہ جاننے کو جاننا سب سے بڑا علم ہے: شاہ عمران حسن

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے