سید محمد اشرف کا افسانہ "یک بیاباں"

سید محمد اشرف کا افسانہ "یک بیاباں"

افسانہ: یک بیاباں
افسانہ نگار: سید محمد اشرف
تبصرہ نگار: غضنفر

بعض تحریریں ایسی ہوتی ہیں جنھیں پڑھتے وقت بہت اچھا لگتا ہے۔ دل جھوم جھوم اٹھتا ہے۔ طبیعت باغ باغ ہو جاتی ہے. لبوں سے بار بار واہ نکلتی ہے اور کبھی کبھی تو سینے سے آہ بھی نکل پڑتی ہے۔
واہ واہ! مرحبا! کیا کہنے! کیا خوب صورت زبان ہے! کیسا عمدہ بیان ہے! الفاظ کا کیا خوب صورت استعمال ہے! زباں و بیان کی کیسی جادوگری ہے! کیسی غصب کی منظر نگاری ہے! نہایت پر اثر اور دل میں اتر جانے والی تحریر! آنکھیں نم کر دینے والا افسانہ! کیا لا جواب اسلوب ہے! صورت حال کے بیانیہ نے کمال کر دیا ہے! احساس کو کتنا پر اثر انداز میں پیش کیا گیاہے! کیا جاذبیت ہے! کیا معنویت ہے! تعریف و توصیف میں تحسینی جملوں کی ہم جھڑی بھی لگا دیتے ہیں مگر ہم سے کوئی پوچھے کہ یہ واہ اور آہ کیوں؟ تحسینی فقروں اور جملوں کی یہ جھڑی کس لیے تو اس کیوں اور کس کا جواب ہم نہیں دے پاتے۔ اس لیے کہ کوئی معقول جواب ہمارے پاس نہیں ہوتا۔ جواب اس لیے نہیں ہوتا کہ ہم سطح سمندر ادب پر تیرنے کے عادی ہو چکے ہیں. اوپری ہلکوروں کے مزے لے کر واپس آجاتے ہیں. سطح کے لمس سے ملنے والی جھرجھری کو ہی کافی سمجھ لیتے ہیں۔ اندرون میں اترتے ہی نہیں۔ تہہ تک پہنچتے ہی نہیں جہاں تخلیقی لولو و مروارید ہوتے ہیں۔
گوہر آب دار سیپیوں میں بند ہوتے ہیں۔
سید محمد اشرف کی اس کہانی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ جب یہ بزم افسانہ میں پیش کی گئی تو پڑھتے وقت اور پڑھنے کے بعد بھی میرے لبوں پر بھی خوب واہ واہ سجی۔ منہ سے کلمۂ تحسین اچھلا۔ زبان رطب اللسان ہوئی اور دل سے آہ بھی نکلی مگر ذرا دیر بعد ذہن میں سوال ابھرا: اس داد اور ان آفرینی کلمات کے کچھ اسباب بھی ہیں یا یوں ہی؟ تھوڑی دیر بعد جواب بھی ابھرا:
اس عہد کے ممتاز اور صاحب اسلوب افسانہ نگار سید محمد اشرف نے حسب معمول شگفتہ، شائستہ، برجستہ اور چاشنی میں ڈوبی پر اثر زبان استعمال کی ہے اور لفظوں سے جو دل کش منظر بنایا ہے اور صوت و صدا کا جو سر سجایا ہے اسے پڑھ کر یا سن کر کوئی کیسے چپ رہ سکتا ہے۔ اشرف نے اپنے اس "یک بیاباں" میں ایسی جان دار فضا آفرینی کی ہے اور لفظوں سے وہ وہ منظر بنائے ہیں کہ بیاباں میں بھی بہار آگئی ہے، مگر ذہن اس جواب سے پوری طرح مطمئن نہیں ہوا۔ اس لیے کہ سینے سے جو آہ نکلی اس آہ کا جواب اسے نہیں ملا۔
میں نے جب آہ پر غور کیا تو میری نظریں یک لخت افسانے کے عنوان "یک بیاباں" پر مرکوز ہو گئیں اور کہانی کے پلاٹ میں دور تک پھیلا ہوا بیاباں یک دم سے میرے دیدوں میں سمٹ آیا۔ پتلیاں پھیلائیں تو غول بیاباں ابھرنے لگے۔ وحشتوں کے جھکڑ اٹھنے لگے۔ ویرانیاں بھائیں بھائیں اور صرصری صحرائی ہوائیں سماعت میں سائیں سائیں کرنے لگیں۔
"بہ رنگ صوت جرس" میر کا "یک بیاباں" بھی ابھر آیا اور میر کے مصرع ثانی میں موجود لفظ تنہائی کا معنی بھی وا ہو گیا اور راز بے کسی سربستہ بھی کھل گیا۔
کہانی کا یہ بیاباں پہلے کیوں نہیں ابھرا اس کے سبب پر غور کیا تو جواب یہ ملا کہ فن کار نے اس پر اپنے فن کا دبیز پردہ ڈال دیا تھا جس کو ہٹانے کے لیے عمل استغراق کرنا تھا جو نہیں کیا گیا. اس لیے وہ دکھائی تو نہ دے سکا مگر اپنا عمل بیابانی اندر اندر ضرور کرتا رہا اور تب جا کر یہ نکتہ سمجھ میں آیا کہ بیاباں میں پہنچ کر جہاں باد صرصر کے جھونکے چلتے ہیں، دل و دماغ میں چبھنے والے ریت کے جھکڑ اٹھتے ہیں، دور دور تک ویرانیوں کا ڈیرا ہوتا ہے، قدم قدم پر دبوچ لینے والا اندھیرا ہوتا ہے، خار دار جھاڑیاں ہوتی ہیں، جھاڑیوں میں خطرناک کھاڑیاں ہوتی ہیں، کھاڑیوں میں خونیں پنجوں اور خنجر نما نکیلے ناخنوں والے درندے چھپے ہوتے ہیں، چاروں طرف سائیں سائیں کرتی ہوئی گرم ہوا ہوتی ہے، ہر وقت بے امانی کی فضا ہوتی ہے، ہر گھڑی طوفان کے آنے کا اندیشہ اور ہر لمحہ جان جانے کا خطرہ ہوتا ہے، آہ نہیں نکلے گی تو اور کیا نکلے گا؟
غور کرنے پر یہ بھی پتا چلا کہ پختہ اور پردہ پوش قلم کار نے اپنی کہانی میں دو دو بیاباں بسا دیے ہیں. ایک باہری بیاباں اور دوسرا باطنی بیاباں۔
باہری بیاباں کی ویرانی اور بڑھ جاتی ہے جب کردار آٹھ سال بعد اس ویرانے میں آتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ کچن گارڈن خشک ہو چکا ہے۔ اور اب تو یہاں ہرن بھی نہیں پھٹکتے۔ اور جب وہ یہ بیان کرتا ہے:
"کچن گارڈن میں ایک دھندلا سا بلب تھا اور بے ترتیب جنگلی گھاس ادھر ادھر اگی ہوئی تھی۔ بانس کا ٹٹر وہاں سے غائب تھا۔ ایک بانس بھی وہاں نہیں تھا. "
کسی کچن گارڈن یا پھلواری میں جنگلی گھاس وہ بھی بے ترتیبی سے اس وقت اگتی ہے جب سبزیوں اور پھولوں و پھلوں کے پودوں پر توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ کیاریوں کی گوڑائی اور نرائی چھوڑ دی جاتی ہے. آب پاشی بند کر دی جاتی ہے۔ اور یہ سب کام اس لیے نہیں ہوتے یا ٹھپ پڑ جاتے ہیں کہ من اداس ہوتا ہے یا دل میں خوشی نہیں ہوتی ہے. اور اداسی اس لیے ہوتی ہے یا خوشی اس لیے نہیں ہوتی کہ تن من میں کوئی نہ کوئی پیڑا ہوتی ہے.
خاتون کے اندر کی پیڑا آٹھ سالوں میں اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اندر باہر، دائیں بائیں ہر طرف سے اجڑ جاتی ہیں۔ اشرف کو ان کا یہ اجاڑ دکھانا بھی ہے اور چھپانا بھی. اسی لیے وہ سفاک اور شفاف حقیقتوں پر بھی اپنے فن کا پردہ ڈال دیتے ہیں۔
اور باطنی بیاباں اس خاتون کے اندرون میں ہے جو اس باہری بیاباں میں تنہا رہتی ہے۔ اپنے سینے میں اپنے شوہر کی دائمی جدائی کا درد اور اس کی اپنے شریک حیات کے ساتھ کی گئی بے وفائی کا کرب لیے۔ ناموس ماحول اور احساس اجنبیت کا جبر لیے۔ اوپر سے اکلوتی اولاد کی خود غرضی اور اس کی جانب سے روا رکھے گئے رویے کی ضرب کاری جس کی پرورش میں اس نے اپنے وجود کو مٹا دیا تھا، کی ٹیس لیے۔
معمر خاتون کے اندرون والا بیاباں اگرچہ دکھائی نہیں دیتا کہ فن کار نے اسے فن کے سنہرے پردے میں چھپا دیا ہے مگر اس میں درد و کرب کا اٹھنے والا طوفان اپنا اثر دکھاتا رہتا ہے۔ اس کے زور آور جھکڑ ضرب لگاتے رہتے ہیں. اسی اثر اور جھکڑ کا زور ہے کہ پڑھتے وقت قاری یا سامع کے سینے سے بھی کراہ اٹھتی ہے اور لبوں سے آہ نکل آتی ہے۔
اشرف نے یہ بھی دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ ایسے بیاباں میں نرم ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا بھی کتنا فرحت بخش اور روح پرور ہوتا ہے۔ یہ نرم جھونکا اس کہانی میں کئی جگہوں پر محسوس ہوتا ہے۔ فن کار نے یہ جھونکا کہیں مکالموں سے، کہیں لب و لہجے سے اور کہیں رویوں سے پیدا کیا ہے۔ اشرف کی فن کاری کے کچھ اور نمونے دیکھیے:
"..اب زندگی کا مقصد صرف بیٹی کی خوشیاں ہیں۔ وہ پڑھ لکھ کر مہذب بنے اور اپنے گھر کی ہو جائے. "
مگر بیٹی نافرمانی اور من مانی کر بیٹھتی ہے اور جس کے اس عمل سے ماں کو اتنا شدید رنج پہنچتا ہے کہ بیٹی جب ملنے آتی ہے تو ماں اس پر گھر کے دروازے بند کر لیتی ہے اور اسے کسی اور کے گھر رہنا پڑتا ہے. ظاہر ہے کوئی بڑا فن کار بیٹی کی یہ روداد کسی غیر کے سامنے ایک تہذیب یافتہ ماں کے منہ سے براہ راست نہیں کہلوا سکتا اس لیے وہ پڑوس میں ایک اور کردار کو بسا دیتا ہے اور بیٹی کی کرتوت اور ماں کے ردعمل کو اس پڑوسی کردار سے بیان کروا دیتا ہے۔
امریکی پڑوسی کو اپنی شریک حیات کے ساتھ سیر کرتے ہوئے دکھانا اور بار بار اس کے مکان میں جگمگاتی ہوئی روشنی کا ذکر کرنا اور اس خاتون کردار کے مکان کی تاریکی اور ویرانی کی طرف اشارہ کرنا بھی فن کار کی فن کاری کا ثبوت ہے۔ یہ تضاد خاتون کے باہری اور باطنی دونوں بیابانوں کی وحشت کو بڑھا دیتا ہے۔ اسی طرح ہرنوں کے آئے بنا بھی خاتون کا بار بار الارم بجانا بھی اشرف کے فنی کمالات کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ شدید تنہائی کے عالم میں الارم کی آواز ایک عجیب طرح کی معنویت پیدا کر دیتی ہے۔
اشرف خاتون کی تنہائی کی شدت کو کئی کئی طرح سے دکھاتے ہیں اور محسوس بھی کراتے ہیں۔مثلا ہرن آتے تھے اور سبزیوں کو تہس نہس کر کے چلے جاتے تھے۔ بہ ظاہر وہ آ کر نقصان کر جاتے تھے مگر خاتون کے بیان سے صاف لگتا ہے کہ ان کے آنے اور نقصان پہنچانے سے ان کو دکھ نہیں پہنچتا تھا. اس کے لیے ان کی آمد احساس دلاتی تھی کہ ان کے آس پاس ابھی ہریالی باقی ہے۔ اس لیے کہ ہرنوں کا باگڑ وہیں پہنچتا ہے جہاں کچھ ہوتا ہے اور یہ کچھ ہرنوں کو اپنے پاس بلا کر انھیں بلکہ اس خاتون کو بھی بہت کچھ دے جاتا ہے. ایک سوال:
"ارے آپ تو ایسے بتا رہی ہیں جیسے یہ بہت عزیز ہوں آپ کو" کے جواب میں وہ کہتی بھی ہیں:
"عزیز ہی سمجھ لیں. جب یہ آتے ہیں تو اتنی دیر کو یہاں کی تنہائی ختم ہو جاتی ہے-"
یعنی ہرنوں کے آنے سے وہ اپنے آس پاس رونق اور اپنے اندر زندگی کی رمق محسوس کرتی ہیں اور ان کی دھما چوکڑی سے ان کا احساس تنہائی کچھ دیر کے لیے کم ہوجاتا ہے۔ ان کا آنا اس حد تک ضروری سمجھتی ہیں کہ جب ہرن کا ایک بچہ بانس کے ٹٹر میں پھنستا ہے تو وہ دکھ سے تڑپ اٹھتی ہیں اور بغیر یہ سوچے کہ وہ انھیں گزند بھی پہنچا سکتا ہے، اسے پھندے سے الگ کرکے دم لیتی ہیں۔ دشمن کو بچانے میں بھی ان کی خود غرضی شامل ہے کہ اس کے باعث ان کی تنہائی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچن گارڈن کے سوکھ جانے پر ہرنوں کے آنے کا سلسلہ تو بند ہو جاتا ہے مگر ان کے الارم بجانے کا سلسلہ بند نہیں ہوتا۔ وہ وقفے وقفے سے بجتا رہتا ہے۔ الارم وہ اس لیے بجاتی ہیں کہ انھیں کچھ چہل پہل کا احساس ہوتا رہے اور کچھ لمحے کے لیے ہی سہی وہ شدید تنہائی کی اذیت سے چھٹکارا پا جائیں۔ یہ وہ فن کارانہ عمل ہے جسے بڑا فن کار بنا بیان کیے بیان کرتا ہے اور اپنے ذہین اور حساس قاری کو بڑی خوب صورتی سے احساس دلا دیتا ہے. مگر یہ فن، یہ گر، یہ تخلیقی سر ہوں ہی نہیں آتا۔ اس کے لیے عالم کشف سے گزرنا پڑتا ہے۔ مراقبے میں بیٹھ کر چلہ کھینچنا ہوتا ہے. پتلیوں میں پیڑا پالنا پڑتا ہے۔
سبھی اشرف کی زبان کا گن گان کرتے ہیں۔ اشرف کی زبان بڑی پیاری ہے. ان کا بیان بہت عمدہ ہوتا ہے. ان کی نگارش میں شگفتگی، شائستگی، برجستگی اور خوش آہنگی پائی جاتی ہیں مگر کوئی یہ بتانے کی زحمت گوارہ نہیں کرتا کہ ان اوصاف کی ماہیئت کیا ہے اور یہ اوصاف کیوں کر پیدا ہوتے ہیں؟
میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کے سامنے اسی کہانی سے کچھ اقتباسات رکھ دوں جن میں سید محمد اشرف کے زبان و بیان کی خوبیوں کو دیکھ سکیں اور خوب صورتی کو محسوس کر سکیں:
"شام ہو رہی ہے ہمیں کسی ریستوران میں جانا ہے جہاں حلال ملے۔"

"ارے آپ تو ہماری طرف کی لگتی ہیں." بیوی نے مسکرا کر خوش دلی سے کہا۔

” میں اسٹور سے جانے ہی والی تھی. افطار کا وقت قریب ہے۔ میرے گھر چل کر کچھ قبول کر لیتے. "

تینوں کرداروں میں سے کسی نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کس قوم یا مذہب سے تعلق رکھتے ہیں مگر صرف دو لفظوں”حلال" اور "افطار" نے دونوں کی پہچان بتا دی بلکہ ان لفظوں نے انھیں اتنا قریب کر دیا کہ خاتون انھیں اپنے گھر لے کر چلی گئیں۔
گھر لے جانے میں صرف ہم مذہب ہونے کے جذبے نے ہی کام نہیں کیا بلکہ ہم زباں ہونے کے رشتے نے بھی ایک اہم کردار نبھایا اور اس فیصلے میں اس احساس تنہائی نے بھی زور لگایا جس سے وہ ایک اجنبی ملک کے ایک غیر آباد گوشے میں بری طرح دوچار تھیں ۔
اشرف کے صرف دو لفظوں نے وہ کمال دکھا دیا جو بہتوں کے یہاں دو صفحات بلکہ دو سے زیادہ صفحات بھی اس طرح کے کمالات نہیں دکھا پاتے۔
اب ذرا ان دو اور لفظوں کو بھی دیکھیے:
” بیوی نے اپنی مٹھی کھولی۔ اندھیرے میں سچے موتیوں کا ہار چمک رہا تھا۔ بیوی نے میٹھی بند کر لی۔"
لفظ "کھولی" اور "بند کر لی" پر غور کیجیے:
مٹھی کھلی تو سچے موتیوں کا ہار چمک اٹھا۔ یہ وہ ہار تھا جسے اس خاتون نے راوی کی بیوی کو دیا تھا۔ یہ سچے موتیوں کا ہار در اصل اس خاتون کی شخصیت تھی جو کبھی سچے موتیوں کی مانند چمچمایا کرتی تھی مگر بعد میں وہ وقت کی مٹھی میں بند ہو کر ماند پڑ گئی بلکہ بند مٹھی کے اندھیرے میں ڈوب گئی. جس طرح کھلی مٹھی سے نکلا ہوا سچے موتیوں کا ہار بند مٹھی میں جا کر اپنی چمک دمک کھو بیٹھا۔
اب ذرا ان جملوں پر بھی غور کیجیے:
"وہاں" اس نے تھوڑی دور پر اشارہ کیا جہاں خوب روشنیاں تھیں ۔"

” انھوں نے ایک بار پھر اپنے مکان کی طرف اشارہ کیا جہاں خوب روشنی ہو رہی تھی."

"ہم وہاں کچھ دیر کھڑے رہے۔ دور اس نیم تاریک مکان میں ایک سایہ کوریڈور میں چل رہا تھا۔"
امریکی جوڑے کے مکان کے ذکر کے وقت اس کی روشنی کا دوبار ذکر کیا گیا۔ وہیں خاتون کے مکان کی تاریکی کا بھی بیان موجود ہے۔ ایک کی تاریکی اور دوسرے کی روشنی کا خصوصی طور سے ذکر اور وہ بھی ایک بار نہیں بلکہ دو دوبار۔ یہ یوں ہی نہیں ہوا ہے بلکہ اس تضاد سے خاتون کی زندگی کے اندھیرے پن اور ان کی تنہائی کی شدت کو ابھارا گیا ہے۔
خاتون کے مکان کا جغرافیہ بھی ان کی تنہائی کی شدت میں اضافہ کر رہا ہے۔
ٹیلے پر اکلوتا مکان، آس پاس میں کسی مکان کا نہ ہونا، سنسان مقام، روشنی کا فقدان اور گھنا گہرا اندھیرا، یہ سچویشن ہی کسی کی تنہائی کی ترجمانی کے لیے کافی ہے مگر اشرف اس خاتون کو کسی ٹیلے پر کیوں بساتے ہیں کسی ہموار زمین پر آباد علاقے میں کیوں نہیں، یہ سوال کسی کے ذہن میں بھی اٹھ سکتا ہے تو فن کار کا ذہن اس بات سے اچھی واقف ہے کہ ٹیلے پر بسنے والا خاندان اس ملک میں باہر سے آیا ہے اور باہر سے آنے والے کے پاس سر مائے کی کمی ہوتی ہے اور وہ بھی ایسا کنبہ جس کا مکھیا ہی ہمیشہ کے لیے ساتھ چھوڑ چکا ہو۔ ظاہر ہے کم پونجی والے لوگ جو با رونق رہائشی علاقے کو ایفورڈ نہیں کر سکتے وہ ویرانے کے علاوہ بھلا اور کہاں جا سکتے ہیں؟ اس کہانی کی خاتون اگر کسی آباد اور پر رونق علاقے میں بسی ہوئی ہوتیں تو ممکن ہے ان کی تنہائی میں کچھ کمی آ جاتی اور تنہائی کا کرب شاید اتنا شدید نہیں ہوتا جیسا کہ راوی اور اس کی بیوی کو محسوس ہوا اور اس کہانی کو پڑھتے ہوئے قاری کو بھی محسوس ہوتا ہے۔
تو آبادی سے دور ویرانے میں اس ٹیلے پر بنا مکان جو کم مائگی کے باعث تعمیر ہوا ہے، تنہائی کی شدت کو اور بڑھا دیتا ہے اور فن کار کی فن کارانہ باریکیوں کی جھلکیاں بھی دکھا دیتا ہے۔
خاتون کی اداسی اور ان کی تنہائی کی شدت کو اشرف نے ان جملوں سے بھی ابھارا ہے:
” ہم لوگ وہاں کئی گھنٹے رہے۔ ہم جب اٹھنا چاہتے تو وہ چائے یا کافی کا حوالہ دے کر ہمیں روک لیتی ہیں."
خاتون کا طرح طرح کے بہانے سے روکنا اس بات کا ثبوت ہے کہ تنہائی کی اذیت اب ان کے لیے ناقابل برداشت ہو رہی تھی۔ بار بار ان کا الارم بجانا بھی یہ جانتے ہوئے کہ ہرنوں کا باگڑ اب نہیں آتا ان کی اسی احساس تنہائی کا نتیجہ ہے۔ اسی اذیت ناک تنہائی اور شدید محرومی کا زور ہے کہ سید محمد اشرف کو میر کا یہ شعر یاد آیا:
یک بیاباں برنگ صوت جرس
مجھ کو ہے بے کسی و تنہائی
اور اس شعر کا پہلا مرکب "یک بیاباں" اس افسانے کا سفرنامہ بن گیا ۔
***
غضنفر کی یہ نگارش بھی پڑھیں:ہوا ویران کاشانہ جلیل احمد کے جانے سے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے