ہوا ویران کاشانہ جلیل احمد کے جانے سے

ہوا ویران کاشانہ جلیل احمد کے جانے سے

ڈاکٹر رمیشا قمر کے قبلہ و کعبہ جنت مکانی جلیل احمد جاگیردار کے سانحۂ الم انگیز پر اظہار تاسف

غضنفر (علی گڑھ)

ابھی کچھ دیر پہلے
کیسا موسم تھا
خوشی کا ہُن برستا تھا
ہر اک کا دل اچھلتا تھا
ہوا میں جھمجھماہٹ تھی
فضا میں کھنکھناہٹ تھی
کہیں پر مسکراہٹ تھی
کہیں پر کھلکھلاہٹ تھی
دلوں میں چہچہاہٹ تھی
نظر میں جگمگاہٹ تھی
خوشی کے بول تھے لب پر
سرور و کیف کا سُر تھا
لب و لہجہ نشاط و لطف سے پُر تھا
کھلا تھا پھول ہر رخ پر
جبیں پر چاند روشن تھا
در و دیوار سے خوشبو نکلتی تھی
ہر اک جانب بکھرتی تھی
معطّر سب کو کرتی تھی
ہر اک گوشہ مہکتا تھا
ہر اک چپّہ چہکتا تھا
مکاں کیا تھا،
خوشی کا اک خزانہ تھا
چہکتے تھے جہاں طائر
اک ایسا آشیانہ تھا
مگر اک گرم جھونکے نے
نشیمن کو جھلس ڈالا
ہر اک منظر بدل ڈالا
ہرے کو زرد کر ڈالا
اندھیرا بھر گیا گھر میں
اجالا چھن گیا در سے
ہوا ویران کاشانہ جلیل احمد کے جانے سے
اندھیرا چھا گیا ہر سو جلیل احمد کے جانے سے
ہوا ساکت محبت کا جو منظر رقص کرتا تھا
رکا دریا جو شفقت کا مسلسل بہتا رہتا تھا
قناعت، انکساری، بردباری کا جو چشمہ
گھر میں جاری تھا
سماں جس کی بدولت پرسکوں تھا
ذہن و دل پر کیف طاری تھا
یکایک رک گیا پل میں
اچانک پڑ گئی اک بے کلی کل میں
مکیں اک اک ہراساں ہے
ہر اک سینے میں طوفاں ہے
سبھی آنکھوں میں آنسو ہیں
سبھی ہونٹوں پہ گریہ ہے
کسی کا ہوش غائب ہے
کوئی دہشت سے خائف ہے
کسی کی ایسی حالت ہے
کہ جیسے دم نہیں اس میں
کوئی تو مرغِ بسمل ہے
سبھی ڈوبے ہوئے ہیں غم کے دریا میں
تھپیڑے کھا رہے ہیں سب تلاطم کے
خدا بس ایک تو ہی آسرا سب کا
نکالے گا بھنور سے ایک تو ہی نا خدا سب کو
ترے ہی فضل سے حالات سنبھلیں گے
تری ہی مہربانی سے
برے دن رات بدلیں گے
خدایا سب کو ہمّت دے
خدایا سب کو طاقت دے
خدا یا سب کو یارا دے
ہر اک دل کو سہارا دے
عطا کر حوصلہ ایسا رمیشا کو
کہ درد و کرب کی یلغار سے
خود کو بچا پائے
اندھیروں کے بھیانک غار سے
باہر نکل آئے
وہ اپنے گھر کے لوگوں کو بھی کچھ
ڈھارس بندھا پائے
دماغوں کے دھندلکے میں کوئی دیپک جلا پائے
اداسی کے منڈیروں پر کوئی جگنو بٹھا پائے
***
غضنفر کی گذشتہ تخلیق :فضائے سر سید کے تخلیقی و تحقیقی رنگ و آہنگ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے