بہار کے اردو اداروں کو آکسیجن کی شدید ضرورت

بہار کے اردو اداروں کو آکسیجن کی شدید ضرورت

بہار اردو اکادمی، انجمن ترقیِ اردو، اردو مشاورتی کمیٹی اور اقلیتی کمیشن مردہ جسم کے طور پر ہمارے سامنے نظر آ رہے ہیں. 

صفدر امام قادری
شعبہ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

جب سے بہار میں بھارتیہ جنتا پارٹی سے آزادی حاصل کرکے نیتش کمار نے راشٹریہ جنتا دل کے ساتھ مل کر نئی حکومت قایم کی، اُس وقت سے ہی یہ توقعات سر اُبھارنے لگیں کہ اقلیت کے بالعموم اور اردو کے حقوق بالخصوص اب مزید سلب نہ ہوں گے مگر جیسے جیسے نئی حکومت کی کار کردگی کے دن آگے بڑھتے جا رہے ہیں، یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ سابقہ سرد مہری اب بھی جاری ہے۔ پہلے تو یہ کہا جاتا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی ملی جلی حکومت ہونے کے سبب وزیرِ اعلا نتیش کمار اقلیتوں کے سلسلے سے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اُٹھا پا رہے ہیں کیوں کہ اُن کی حلیف جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی یہی چاہتی ہے مگر جیسے جیسے دن آگے بڑھتے جا رہے ہیں، یہ تشویش بھی بڑھتی جا رہی ہے کہ کہیں برسوں پرانا اندھیرا ہی قایم نہ رہ جائے۔
لوگوں کو یاد ہوگا کہ ٢٠١٨ء کے اگست مہینے میں بہار اردو اکادمی، اور اردو مشاورتی کمیٹی کی مدّتِ کار ختم ہو جانے کے بعد تقریباً ساڑھے چار برسوں سے اُن اداروں میں تالا بندی جیسا ماحول ہے۔ اخبار کے صفحات پر اور میمورینڈم در میمورینڈم پیش کرکے وزرا کی خوشنودی حاصل کرنے والی جماعت گذشتہ چار برسوں میں کبھی سُست نہ پڑی مگر وزیرِ اعلا کو اِن پیروی کاروں میں یا نام نہاد تحریک کاروں میں ایک بھی ایسا شخص نہ نصیب ہوا کہ اُسے اِن اداروں کی ذمّہ داری سپرد کریں اور یہ خاموشی اور سنّاٹا ختم ہو۔ اِس دوران بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی کمیٹی بھی ختم ہو گئی، وہاں بھی جزو وقتی افسروں کا راج بحال کر دیا گیا۔
جب اقلیت آبادی کے چھوٹے چھوٹے ادارے جب آزادانہ طور پر سماج کا کچھ کام سرکاری امداد سے کر پاتے تھے، اُنھیں اِس طرح مفلوج حالت میں رکھ چھوڑنا مناسب نہیں معلوم ہوتا ہے۔ ایک بڑی پریشانی یہ بھی ہے کہ نتیش کمار کو اپنے افسروں یا سابق افسروں اور سبک دوش افراد پر زیادہ اعتبار ہے اور اُنھیں جگہ جگہ کچھ ذمّہ داریاں بھی دی جاتی رہی ہیں مگر جسمانی تھکان اور عمر کی ڈھلان؛ اُن اداروں کو سر گرم کر پانے میں ہمیشہ سے ناکام ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ نتیش کمار جو خود تکنیکی تعلیم سے آراستہ ہیں اور اب تو اُنھیں صرف تیجسوی یادو ہی نہیں بلکہ عامر سبحانی اردو داں سنجیدہ نوکر شاہ بھی مخصوص مشوروں کے لیے موجود ہیں، ایسے میں حکومت اُن پروفیشنل اور بہتر تنظیمی صلاحیتوں کے ساتھ کام کرنے والوں کی پہچان کیوں نہیں کر پاتی ہے، اِس کے بغیر بہار کی بگڑی ہوئی روایتی شبیہ نہیں بدل سکتی ہے۔ یہ لازم ہے کہ نئے عہد کے تقاضوں اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر علم و ادب اور قوم کے مسائل کو سمجھنے والے حلقے کی پہچان کی جائے۔ اقتدار کے گلیاروں میں گھومنے والی، لین دین کے ماہرین اورخوش آمد پسند یا چاپلوس افراد سے اقلیت آبادی کے مسائل اور خاص طور سے اردو کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ آج اِس بات کی بھی ضرورت ہے کہ اقلیتی کمیشن، اردو مشاورتی کمیٹی، بہار اردو اکادمی اور انجمن ترقی اردو، بہار کے گذشتہ کاموں کا احتساب کیا جائے اور نئے زمانے کے چیلنجز کے مطابق اُن کی سر گرمیاں نئے سِرے سے متعین کی جائیں. اگر ایسا نہیں ہوا تو اِس کا مطلب یہی سمجھا جائے گا کہ ہم دیوار پر لکھی عبارتوں سے غفلت برت رہے ہیں۔
حکومت کو اِس بات پر ضرور نگاہ رکھنی چاہیے کہ اُس کی جانب سے جو پانچ روپے بھی دیے جاتے ہیں، اُس کا مصرف عوامی طور پر ٹھیک طریقے سے لیا جا رہا ہے یا نہیں۔ یہ رقم عوام کے گاڑھے خون پسینے کی ہے، اِس لیے جواب دہی بھی بڑی ہے۔ بہت زمانے تک ایسے عہدوں کا ایک مقصد سیاست دانوں کی باز آباد کاری تھی مگر اب ہر صوبے میں یہ صورت بدل رہی ہے۔ پروفیشنلزم کا تقاضا یہ ہے کہ اِن چیزوں سے سیکھا جائے اور اُس کا بہار میں فائدہ اُٹھایا جائے۔ اِن اداروں کی نئی ذہن سازی سب سے ضروری ہے اور اِس کے لیے اوّلاً ان کے بنے بنائے اور آزمائے ہوئے کاموں میں انقلاب آفریں تبدیلوں کی اشد ضرورت ہے۔ میں تمھیں انعام دوں، تم مجھے انعام دو؛ اِس سنہرے اصول پر اردو کا ادارہ ذلّت و رسوائی میں مبتلا ہے۔ سرکاری رقم کو کچھ افسروں اور کچھ جیوری کے ممبران کی مدد سے ہڑپنے کا یہ ایک جمہوری نظام کھڑا ہو گیا، اِسے روکنا اور زیادہ روشن خیالی کے ساتھ جانچ پرکھ کے بعد جاری کرنا مناسب ہوگا۔
بہار کے یہ اقلیتی ادارے تعلیم کی کسی مہم میں شامل نہیں ہوتے۔ امتیاز احمد کریمی جب اردو ڈائرکٹوریٹ کے ڈائریکٹر تھے، اُس زمانے میں یہ مہم شروع ہوئی تھی کہ اسکول اور کالج کی اسامیوں کی حقیقی تعداد کے اعداد و شمار جمع کیے جائیں مگر یہ سلسلہ رُک گیا۔ اردو اکادمی یا اقلیتی کمیشن یا اردو مشاورتی کمیٹی کو اِن موضوعات پر کبھی جھانکنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ہے۔
اردو کی درسی کتابوں کا حال بہت برا ہے اور مشکل حالات میں ہمارے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اسکول کی اردو میڈیم کی کتابیں یا تو چھپتی نہیں یا بچوں تک پہنچائی نہیں جاتیں۔ سرکاری بہانے الگ ہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہار ٹکسٹ پبلی شنگ کارپوریشن سے اردو داں اہل کار برسوں پہلے سبک دوش ہو چکے ہیں۔ کتابیں یا تو چھاپی نہیں جاتی یا اُنھیں طلبہ تک پہنچانے کے لیے کوئی معقول نظام نہیں بنایا گیا. جب کتابیں اسکول میں دستیاب نہیں ہوں گی تو آخر بچے کیسے اُن کا مطالعہ کریں گے۔ اِس سلسلے سے اسکول، کالج اور یو نی ورسٹی سارے ادارے خاموش تماشائی کی طرح ہیں۔ افسوس ہے کہ اِن بنیادی مسئلوں کی طرف کسی کی نگاہ جاتی ہی نہیں۔
حکومتِ بہار کے سامنے یہ بھی ایک بڑا چیلنج ہے کہ کس طرح وہ اردو داں آبادی کو بڑی بڑی نوکریوں کے دروازے تک لے جائیں۔ بڑی مشکلوں سے حج بھون میں ایک مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے کوچنگ سنٹر ہے مگر وہ بھی غیر پروفیشنل طریقے سے اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ چھوٹی چھوٹی نوکریوں کے لیے حکومت اور کچھ اداروں کو گرانٹ دے دیتی ہے مگر معاملہ وہیں ختم ہو جاتا ہے۔ ضرورت تو اِس بات کی تھی کہ بہار اردو اکادمی یا اقلیتی کمیشن یا کوئی دوسرا ادارہ پروفیشنل یا تجربہ کار اساتذہ کی معاونت سے ہر ضلعے میں کم از کم کمیشنری مرکز میں ایک ایسا ادارہ قایم کردیں جس سے مقابلہ جاتی رجحان اُبھر کر سامنے آئے اور اردو داں آبادی اُس کی طرف راغب ہو کر اُس کی نئی نسلیں پھل پھول سمیٹ سکیں مگر اِن بنیادی کاموں کی طرف اقلیتی اداروں کو توجہ دینے کی نہ مہلت ہے اور نہ ہی اُس سپردگی سے کام کرنے کا اُنھیں کوئی شوق ہے۔
جمہوری عہد میں یہ توقع ہوتی ہے کہ جب حکومت عوام کے ووٹوں سے چلتی ہے تو اُسے عوام کی فلاح کے لیے خود تیز قدم بڑھانے چاہئیں۔ ابھی بہار میں ایک ساز گار اور خوش گوار ماحول ہے اگر حکومت کی توجہ ہو جائے اور چاپلوس اور اقتدار کے گلیاروں میں عمر کھپا دینے والے خوش آمدیوں سے بچ کر اگر دس کروڑ کی آبادی سے چند سرگرم اور جان کھپا دینے والے لوگوں کو چننے کا موقع مل جائے تو ہمیں یقین ہے کہ بہار میں کم از کم اقلیتوں کے لیے ایک تعلیمی، ادبی اور ہمہ جہت انقلاب کی صورت پیدا ہو جائے گی۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں] 
safdarimamquadri@gmail.com
***
گذشتہ عرض داشت یہاں پڑھیں :اردو کی ابتداکے نظریات: تحقیقی کوتاہیاں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے