اور جب میرے تخلیقی سفر  پر آن لائن تقریب کا انعقاد ہوا…

اور جب میرے تخلیقی سفر پر آن لائن تقریب کا انعقاد ہوا…

حیدر قریشی (جرمنی)
پروفیسر عبدالرب استاد جب گلبرگہ یونی ورسٹی سے میرے ادبی کام پر پی ایچ ڈی کر رہے تھے تب ان کے توسط سے یونی ورسٹی کے بہت سے دیگر ریسرچ اسکالرز سے بھی رابطہ ہوا تھا۔ ان میں ڈاکٹر رمیشا قمر، ڈاکٹر عنبرین فاطمہ، مدثر احمد، سید محمد عارف، ڈاکٹر شکیلہ اور مہر افروز کے اسما شامل ہیں۔ ان میں سے بعض احباب کے ساتھ بعد تک بلکہ اب تک رابطہ رہا اور بعض کے نام بھی یاد نہ رہے۔ انھی ناموں میں ڈاکٹر شکیلہ اور مہر افروزہ بھی شامل ہیں۔ تب دونوں سے فون کال پر گفتگو ہوا کرتی تھی۔ اب مہر افروزہ بتا رہی تھیں کہ آپ کی بڑی بیٹی کے ساتھ بھی گفتگو ہوا کرتی تھی۔ یہ دو نام اس لیے یاد آگئے کہ پروفیسر عبدالرب استاد کے ذریعے ان دونوں کی طرف سے مجھے 13 نومبر کو ایک آن لائن تقریب میں شرکت کے لیے تاکید کی گئی۔یہ سات روزہ تقریب کرناٹک یونی ورسٹی دھار واڑ کے شعبہ اردو و فارسی کے زیر اہتمام آن لائن انٹرنیشنل ورکشاپ کے طور پر ہو رہی تھی. 15 نومبر کا دن ’’حیدرقریشی کا تخلیقی سفر‘‘ کے زیر عنوان طے کیا گیا تھا۔ کینیڈا سے سہیل اقبال مجھے ایک عرصہ سے آن لائن تقریبات میں شرکت کے لیے کہہ رہے تھے۔ وہ ساری ٹیکنیکل سہولتیں بھی فراہم کر رہے تھے لیکن مجھے مروّج آن لائن پروگراموں کی صورتِ حال سے بیزاری سی محسوس ہوتی تھی۔ بہر حال یہ دعوت ملی تو میں نے آمادگی ظاہر کر دی۔اس پروگرام کی روحِ رواں ڈاکٹر شکیلہ اور مہر افروزہ تھیں۔ تقریب میں یونی ورسٹی کے اور آس پاس کی اعلا درس گاہوں کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالرز شامل تھے۔ گلبرگہ یونی ورسٹی کے شعبہ اردو کے سربراہ اور پورے کرناٹک میں اردو کے واحد پروفیسر، پروفیسر عبدالرب استاد، پروفیسر مظہر مہدی جے این یو، دہلی، نصیر نالٹ واڑی ایسوسی ایٹ پروفیسر، ڈاکٹر ملا مشتاق پرنسپل ہبلی کالج، احمد رضا نائک، سید قدیر ناظم سارگیرو، ڈاکٹر رضینہ خان (دہلی)، پریما ہوگارکان، شکیلہ بہادر، احمد علی، محبہ ونٹموری، ڈاکٹر محمد نصراللہ خان، کے اسماے گرامی مجھے یاد ہیں۔ ڈاکٹر ریاض اکبر (آسٹریلیا)، اسحاق ساجد (جرمنی) کی شرکت سے اس تقریب کی رونق میں کافی اضافہ ہوا۔ فرحت نواز (رحیم یارخان) سے کچھ دیر کے لیے شریک ہوئیں۔ ڈاکٹر عامر سہیل پروگرام میں شمولیت کے لیے کوشش کرتے رہے لیکن کسی ٹیکنیکل فالٹ کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے۔ دو تین اور دوستوں نے بھی پاکستان سے شریک ہونا تھا لیکن شاید سبھی مصروف تھے۔ ایک خاتون ’’حرفِ آخر‘‘ کے نام سے شامل ہوئیں تو فوراََ ایسے لگا جیسے یہ وہ دوست ہیں جنھوں نے اپنی اہم مصروفیت کی وجہ سے شرکت سے معذرت کر لی تھی۔ لیکن شاید سرپرائز دینے کے لیے اب تھوڑا سا میک اپ کرکے کچھ کم عمر بن کرفرضی نام سے آگئی ہیں۔ لیکن پھر پتہ چلا وہ گلبرگہ سے ہیں اور ایم اے کی طالبہ ہیں۔ انھوں نے اپنا نام بتایا تھا لیکن افسوس نام یاد نہیں رہا۔ ’’حرفِ آخر‘‘ ہی یاد ہے۔
ڈاکٹر شکیلہ اورمہر افروزہ نے تقریب کا باضابطہ آغاز کیا۔ میری بہت زیادہ تعریف کی گئی اور میں شرمندہ شرمندہ سا سوچتا رہا کیا میں واقعی ایسا ہوں؟ میں اپنی مجموعی ادبی کارکردگی بیان کرنے کی بجائے ادب میں فیمنزم کے مسئلے کی طرف آگیا. فیمنزم کے موضوع پر جو بڑی بیگمات سرگرمِ عمل ہیں اور خواتین رائٹرز اس بنیاد پر اپنی اہمیت منوانے کے لیے کوشاں ہیں، ان سب کا موقف بھی ایک حد تک درست ہے۔ لیکن فیمنزم تحریک کا سب سے زیادہ فوکس تو دیہاتوں اور شہروں کی عام گھریلو خواتین کی طرف ہونا چاہئے جو اپنے معاشرے اور اپنے خاندانوں اور قبیلوں کے ظلم، جبر اور تشدد کا شکار ہیں۔ ایسی خواتین کے لیے صرف آواز اٹھانے کی نہیں بلکہ عملی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد میں نے بتایا کہ اسی تناظر میں میری اپنی اہلیہ مبارکہ حیدر بھی ایک عام سی گھریلو خاتون تھیں۔ ان کی زندگی میں میرے بچوں نے ان پر ایک کتاب مرتب کی تھی’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘۔ اہلیہ کی وفات کے بعد میں نے مزید دو کتابیں اپنی اہلیہ کے متعلق شائع کیں۔ ’’حیاتِ مبارکہ حیدر‘‘ اور ’’مبارکہ محل‘‘۔ گویا اب تک ان پر تین کتب چھپ چکی ہیں، جو انھیں ان کے شوہر اور ان کے بچوں کی طرف سے خراجِ تحسین ہے۔ پھر میں نے اسی برس مبارکہ کی تیسری برسی پر شائع ہونے والا اپنا مضمون پڑھ کر سنایا۔ اس مضمون کے دوران بعض حاضرین سچ مچ غم میں بھیگی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ آنکھوں سے آنسو بھی بہہ رہے تھے اور ہنس بھی رہے تھے۔ خود ڈاکٹر شکیلہ بھی ان میں شامل تھیں، پریما ہوگارکان، رمیشا قمر، مہرافروزہ سب کی ایسی ہی حالت تھی لیکن ڈاکٹر رضینہ خان اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بہت زیادہ جذباتی ہو گئیں، عجیب سا منظر بن گیا، خوشی سے روتے ہوئے وہ بالکل خاموش ہو گئیں اور ان کی یہ نمناک خاموشی ان کے بولے ہوئے الفاظ سے بھی زیادہ قیمتی ہو گئی تھی۔ رضینہ نے میرے افسانوں پر ایم فل کیا تھا۔ پروفیسر مظہر مہدی ان کے نگراں تھے۔ یہ سات آٹھ سال پرانی بات تھی۔ ہم اب بھی تھوڑا بہت رابطے میں تھے لیکن ان کے دل میں میرے لیے اتنا احترام اور اتنی عزت تھی، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ان کے علاوہ بھی دیگر بیشتر احباب نے محبت سے لبریز تعریفوں کے پُل باندھ دیے۔ پروفیسر مظہر مہدی، ڈاکٹر ریاض اکبر اور اسحاق ساجد نے بعض اہم نکات بھی پیش کیے۔ گفتگو کرنے والے سارے احباب کا شکر گزار ہوں لیکن شرمندہ ہوں کہ ان کے قیمتی الفاظ خود سے درج نہیں کر سکتا۔
میرے مضمون کے بعد پوچھا گیا کہ میں نے اپنی تحریروں میں بیوی کے علاوہ بھی فیملی کی دوسری خواتین کا ذکر کیا ہے یا سارا فیمنزم بیوی پر ہی نچھاور کر دیا؟ تب میں نے امی جی کے خاکے سے چند اقتباس سنائے۔ اور بتایا کہ بہنوں کا بھی ذکر کیا ہوا ہے۔ سوال ہوا بیٹیوں پر بھی کچھ لکھا ہے؟تب میں نے دونوں بیٹیوں پر لکھے گئے بعض اقتباس پڑھ کر سنا دیے۔ بار بار لکھنا اچھا نہیں لگتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہر بار بہت زیادہ تعریف کی گئی۔ تعریف کے دوران بیشتر احباب جذباتی بھی ہوجاتے رہے۔ آخر میں مجھ سے دو غزلیں سنی گئیں۔ یوں یہ دو گھنٹے سے کچھ زیادہ وقت کی تقریب اختتام پذیر ہوئی۔ ڈاکٹر شکیلہ نے کہا کہ یونی ورسٹی کے طریقِ کار کے مطابق وقت کو ملحوظ رکھنا مجبوری ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کسی کا بھی اٹھ کر جانے کو جی نہیں کر رہا۔ اور تب مجھے ایک لڑکی بہت یاد آئی جس نے ایک بار مجھے کہا تھا کہ مجھے آپ کا باتیں کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ جی چاہتا ہے آپ بولتے رہیں اور میں سنتی رہوں۔ تب میں بھی اس تقریب کے حاضرین جیسی کیفیت میں چلا گیا۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :انجانی راہوں کا مسافر کی تقریب پذیرائی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے