مکتوب اور مراسلہ نگاری کی روایت

مکتوب اور مراسلہ نگاری کی روایت

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ، بہار

مکتوب اور مراسلہ نگاری کا رواج زمانۂ قدیم سے رہا ہے، عراق میں کھدائی کے دوران Tel Alsamarna کے مقام پر تین سو مٹی کی تختیاں ملیں۔ آثار قدیمہ والوں نے اسے فراعنۂ مصر کے نام لکھے خطوط قرار دیا، یہ خط تین ہزار سال قبل کا لکھا ہوا ہے۔ قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا ملکۂ صبا یمن کے نام خطوط کا ذکر ہے۔ یقینی طور پر ہم اسے معلوم تاریخ کا پہلا خط مانتے ہیں۔ بعض تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ یونان میں خط لکھنے کا رواج حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے قبل بھی موجود تھا۔ رومن شاعر سیسرو (Sissroo) کے مکاتب کا بھی لاطینی زبان میں پتا چلتا ہے۔ اسی دور میں ہیورلیس(Hurales) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے پہلا منظوم خط لکھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے عہد کے بعض حواریین کے خطوط بھی یونانی زبان میں ملتے ہیں۔ عربوں کے یہاں بھی مکتوب نگاری کا فن موجود تھا، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلاطین کے نام خطوط جو دعوتی نقطۂ نظر سے لکھے گئے عربی مکتوب نگاری کی بہترین مثال ہیں، حضرت عمرؓ کے مکاتیب گورنروں کے نام اور حضرت علیؓ کے بعض مکاتیب جو نہج البلاغۃ میں شامل ہیں، عربی خطوط نگاری کے ترقی پذیر نمونے ہیں۔
فارسی زبان میں مکتوب نگاری کی بات کریں تو سامانی بادشاہ نوشیرواں کے خطوط کا مجموعہ ’’توقیعات نوشیرواں‘‘ اور مولانا جامی کے خطوط کا مجموعہ رقعات جامی اس کے علاوہ رقعات عالمگیری مشہور و مقبول ہے۔ اس فن کی ترقی کا بڑا سبب ’’دارالانشاء‘‘ کا قیام اور ایرانی حکمرانوں کے ذریعہ اس کام کے لیے منشی یا دبیر کے عہدے تھے۔ جن کا کام حکمرانوں کے احکام و ہدایات کو لکھ کر متعلقہ شخصیات تک بھجوانا ہوا کرتا تھا۔
ہندستان میں فارسی مکتوب نگاری نے صوفیۂ کرام کے ذریعہ رواج پایا، اس کا بہترین نمونہ مکتوبات مجدد الف ثانی اور حضرت مخدوم شرف الدین یحییٰ منیری کی مکتوبات صدی اور مکتوبات دو صدی ہے جن کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے، چک مجاہد ویشالی واقع دادا پیر شاہ عماد الدین باطن کے پیر و مرشد سید شاہ حسن علی منعمی کے خطوط کا بھی فارسی زبان کے مکتوبات میں ایک مقام ہے۔ اس مجموعہ میں کئی خطوط شاہ عماد الدین باطن کے نام ہیں اور میں نے پی اچ ڈی کا مقالہ اسی پر لکھا تھا اور اس کا ایڈیشن ورک بھی کیا تھا۔ فارسی زبان میں ابو الفضل کے مکتوبات کی بھی اہمیت رہی ہے اور اس کے کچھ خطوط یونی ورسٹیوں میں فارسی نصاب کا حصہ رہے ہیں۔
فارسی میں مکتوب نگاری کی مقبولیت کی وجہ سے مکتوب نگاری کے فن پر کئی کتابیں بھی لکھی گئیں، ان میں منیر لاہوری کی انشائے منیری، چندر بھان برہمن کی چہار چمن اور مادھو راؤ کی انشاء مادھوراؤ کا خاص طور سے ذکر کیا جاسکتا ہے۔
انگریزی میں جیم ہال (Jame Hall) کے مکتوب کو پہلا نمونہ قرار دیا جاتا ہے. Ferry Queen اور Kids, Charles Lane, Edmand Spencer اور Shally مختلف ادوار میں انگریزی مکتوب نگاری کے لیے جانے جاتے رہے ہیں، ایک نام Browny کا بھی ہے، جس کے مکتوب کو انگریزی میں خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ اردو میں مکتوب نگاری کا آغاز فورٹ ولیم کالج سے قبل ہوچکا تھا، عموماً رجب علی بیگ سرور اور غلام غوث بے خبر کو پہلا مکتوب نگار قرار دیا جاتا ہے لیکن ڈاکٹر عبد اللطیف اعظمی، گیان چند جین اور عنوان چشتی نے 6 دسمبر 1822ء کو حسام الملک بہادر کے اس مکتوب کو پہلا قرار دیا ہے جو انھوں نے اپنی بڑی بھابھی نواب بیگم کے نام لکھا تھا۔ حسام الملک کرناٹک کے آرکاٹ کے رہنے والے تھے اور نواب والا جاہ کے چھوٹے صاحبزادہ تھے۔ خلیق انجم نے جان طپش اور راسخ عظیم آبادی کی باہمی مراسلت کا تذکرہ کیا ہے. جان طپش 1814ء میں اور راسخ عظیم آبادی نے 1822ء میں دنیا سے رخت سفر باندھا، گارساں دتاسی نے اردو کے اٹھارہ خطوط کو جمع کیا، جن میں قدیم خط 1810ء کا ہے۔ شعری مکتوبات کا رخ کریں تو شیر محمد خاں ایمان کی کلیات میں منظوم خط 1806ء میں شائع ہوا، ان سے بہت پہلے 1861ء میں مرزا یار علی بیگ سرور اور میر ابراہیم حیوان کے ایک دوسرے کے نام منظوم خطوط ملتے ہیں، اس طرح اب بھی یہ مسئلہ تحقیق طلب ہے کہ اردو کا پہلا خط کس نے لکھا، کس کو لکھا اور مکتوب کے مندرجات کیا تھے۔ ان امور سے قطع نظر دیکھیں تو غالب نے اسے فن بنادیا، ان کے مجموعے عود ہندی، اردوئے معلی، مکاتیبِ غالب، مہر غالب میں ان کے مکتوب نگاری کے فن کو دیکھا جا سکتا ہے۔
غالب کے بعد جو مکاتیب کے مجموعے شائع ہوئے ان میں مکاتیب سرسید، مکاتیب حالی، مکاتیب شبلی، مرزا رجب علی بیگ سرور کا انشائے سرور، صفیہ اختر کے خطوط زیر لب، مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد کے ’’مکاتیب سجاد‘‘ مولانا عبد الماجد دریا آبادی کے ’’مکتوبات ماجدی‘‘ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے غبار خاطر میں مکتوب نگاری کو نئے رنگ و آہنگ سے روشناش کرایا، ادب عالیہ کے طور پر ان مکاتیب کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ان کے علاوہ مولانا ابوالکلام آزاد کے دوسرے مجموعۂ مکاتیب بھی ہیں، جن میں مکاتیب ابو الکلام آزاد، نقشِ آزاد اور کاروان خیال کا ذکر آتا ہے، ڈاکٹر غلام شبیر رانا کی ’’مشاہیر ادب کے خطوط‘‘ بھی اس موضوع پر پیش بہا اضافہ ہیں، جن میں درجنوں ادبا کے خطوط شامل ہیں۔ قاضی جلال ہری پوری کے مکاتیب کا مجموعہ، آئینۂ خیال، اس کے علاوہ ’’اوراق جاوداں‘‘، جواہر لال نہرو کے خطوط بیٹی کے نام، بہادر یار جنگ کے خطوط مشاہیر کے نام، مولانا مناظر احسن گیلانی کا مجموعہ مکاتیب گیلانی مرتبہ حضرت امیر شریعت رابع ؒ اور خود امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی کے خطوط کی چار جلدیں مسمی’’مکتوبات رحمانی‘‘ اور ڈاکٹر امام اعظم کے نام خطوط کا مجموعہ چٹھی آئی ہے بھی مکتوب اور مراسلہ نگاری کی ترقی پذیر شکل ہے۔
جاں نثار اختر کے صفیہ کے نام لکھے گئے خالص رومانی خطوط کو بھی ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔ خطوط چاہے کسی زبان میں لکھے گئے ہوں، ان کے اقسام تقریباً یکساں ہوتے ہیں، نجی خطوط، سرکاری خطوط، رسمی خطوط، عمومی خطوط وغیرہ۔ خطوط کے سارے اقسام ان میں سما جاتے ہیں، البتہ ان خطوط کے لکھنے کے طریقے موضوعاتی اور زبان کے اعتبار سے الگ الگ ہوتے ہیں اور ان میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ ان تمام حالات و ادوار سے گزر کر جب مکتوب نگاری ہمارے عہد میں پہنچی تو ہم جیسوں کے خطوط بھی ’’آدھی ملاقات‘‘ اور دوسروں کے بھیجے ہوئے خطوط ’’نامے میرے نام ‘‘اور انوار الحسن وسطوی کے اخباری مراسلے بھی سامنے آئے جو چھپ کر مقبول ہوچکے ہیں۔
***
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش:احمد سعید ملیح آبادی- دید و شنید

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے