نام کتاب: زمین اداس ہے (کہانیاں)

نام کتاب: زمین اداس ہے (کہانیاں)

مرتب کردہ: تسنیم جعفری
تبصرہ: ادیبہ انور (یونان)
ناشر: پریس فار پیس فاؤنڈیشن، یو.کے
قیمت : پاکستان( چار سو روپے)۔ یو.کے اور دیگر (دو پاؤنڈ)

”زمین اداس ہے“ ایک ایسی منفرد کتاب ہے، جس میں بہت حساس موضوع پر قلم کاروں نے اپنی اپنی نوک قلم سے بہتریں پیغام تحریر کیا ہے۔
کیا موضوع ہے؟ اور کیا پیغام؟
اس کا اندازہ کتاب کے نام اور اس کے کور پر تحریر اس جملے سے ہی ہو جاتا ہے:
”دھرتی ماں کے دکھ بانٹتی”
دھرتی جو ہزاروں انسانوں کو دکھی دیکھتی ہے، ان کے دکھ بانٹتی ہے۔ ان کو آرام، عیاشی دینے کے لیے ہمہ تن مصروف رہتی ہے۔ اور جب ہزاروں کروڑوں انسان جسم کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے تھک کر سفر اجل پر نکلتے ہیں تو خاموشی سے اپنے اندر سمو لیتی ہے۔
کیا اس دھرتی ماں کا اپنا بھی کوئی دکھ ہوتا ہے؟ ہاں ہوتا ہے، ضرور ہوتا ہے۔ اس دھرتی ماں کا دکھ یہ ہے کہ یہ مر رہی ہے، اس کی جوانی بڑھاپے میں اور خوب صورتی بد صورتی اور اس کے رنگ پژمردگی میں بدل رہے ہیں۔ اور اس کی وجہ ہے اس کی اپنی اولاد۔ جس اولاد کو یہ اپنے جسم سے پال رہی ہے وہی اولاد اس سے بے اعتنائی برت رہی ہے۔
اس دھرتی ماں کا دکھ ماحولیاتی آلودگی ہے۔ جینیاتی تبدیلی، بڑھتا ہوا درجہ حرارت، گندگی، شور، کیماتی دھواں، ریڈیائی لہروں کا خطرناک حد تک استعمال، فیکٹریوں سے نکلتا خطرناک مادہ، درختوں کا کٹنا، یہ سب پرندوں، چرندوں حتی کہ انسانوں تک کو دن بدن بیماریوں اور موت کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ زمین کو بنجر کررہا ہے۔ مگر ہم انسان اس سب سے غفلت برتنے، اپنے اپنے فوائد اور وسائل کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ یہ دھرتی ماں کا دکھ ہے۔
ماؤں نے اپنے دکھ کب بتائے ہیں؟ اور کب مائیں اپنے بوجھ اولادوں پر ڈالا کرتی ہیں؟ اس لیے زمین خاموشی سے سہتی گئی۔ مگر بعض اولادیں ہوتی ہی اتنی حساس اور ماں کے دل کے قریب کہ اس کے دکھوں تک اپو آپ ہی رسائی ہو جاتی ہے۔ اور پھر یہ اولادیں ان دکھوں کا مداوا کرنے کا ٹھان لیتی ہیں۔
ہر شعبے میں ماحولیاتی آلودگی پر کام کرنے والے بہت سارے لوگ ایسی اولادیں ہیں، جو اپنے اپنے طریقے سے ماحولیاتی آلودگی کی آگاہی پھیلا رہے ہیں۔ جن میں لکھاری سر فہرست ہیں۔ تسنیم جعفری صاحبہ جو خود بھی اس سلسلے میں کئی سالوں سے لکھ رہی ہیں، انھوں نے کافی محنت اور لگن سے کچھ نئے اور پرانے لکھاریوں سے اس موضوع پر لکھنے مقابلے (کذا) کروایا اور ان سب کی تحاریر کو ان کے تاثرات کی صورت میں ”زمین اداس ہے“ میں پیش کیا۔“
عموما یہ ہوتا ہے کہ ایک لکھاری کی ایک کتاب آتی ہے، جو ایک موضوع یا بہت سارے موضوعات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ لیکن کتاب پر ایک ہی قلم کار کے ذاتی تجربات، مشاہدات، پسند و ناپسند، خیالات اور رائے کی چھاپ ہوتی ہے۔ مگر اس کتاب میں اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ موضوع ایک ہے، لیکن قلم کار الگ الگ ہیں۔ تمام قلم کاروں نے اپنے اپنے ذاتی مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں اس بڑے مسئلے کو دیکھا اور پرکھا، تمام لکھاریوں نے اپنی اپنی نگاہ اور نقطہ نظر سے ماحولیاتی آلودگی کو محسوس کیا۔ اور اپنے اسلوب و انداز میں اسے پیش کر دیا۔ اسی وجہ سے اس میں شامل ہر کہانی مختلف تخیل اور تاثر پیش کر رہی ہے۔
پریس فار پیس یو.کے کی یہ کاوش بہت عمدہ ہے۔ انھوں نے نئے اور پرانے لکھاریوں کی تحاریر کو اس کتاب میں شامل کر کے سب کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ اور ادب میں ایک اچھا اضافہ بھی کیا۔ کتاب کے سر ورق اور کہانیوں کی السٹریشنز کے ساتھ اس معیاری کتاب کا اتنے کم وقت میں شائع ہو جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی ٹیم نے بہت محنت کی ہے۔
کتاب میں موجود کہانیوں کے ذریعے آگاہی دی گئی کہ بچہ ہو یا بڑا سب کی زمہ داری ہے کہ وہ اس زمین کی حفاظت کرے۔ اس لیے چاہے آپ خود قاری ہیں یا آپ کے بچے ہیں یا کسی سکول کے استاد ۔ اپنی لائبریری میں اس کتاب کو ضرور شامل کریں۔
بچہ بیمار ہو تو ماں کو اس کی تکلیف سے بھی تکلیف ہوتی ہے۔ اگر اس سیارے پر جانداروں کی زندگیاں خطرے میں ہوں گی۔ اور انسان و حیوانات کو تکلیف ہو گی، تو دھرتی میں کیسے خوش رہے گی؟
نوٹ: ادیب نگر کے زیر اہتمام مقابلے کی کہانیوں کو تسنیم جعفری نے مرتب کیا اور Pressforpeace.org.UK
نے شائع کیا ہے۔ کتاب منگوانے کے لئیے ادارے سے رابطہ کیا جاسکتاہے.
***
آپ یہ تبصرہ بھی پڑھ سکتے ہیں :کتاب : زمین اداس ہے

ادیبہ انور کی گذشتہ تحریر :کتاب: سارے دوست ہیں پیارے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے