اردو ادب کا ثمر: ڈاکٹر طارق قمر

اردو ادب کا ثمر: ڈاکٹر طارق قمر

خواجہ احمد حسین
سابق ممبر مغربی بنگال اردو اکاڈمی، کلکتہ
رابطہ: 9831851566

"اس نو عمری میں طارق قمر نے سچی، خوب صورت اور خیر و برکت کی زندگی کو غزل بنانے میں واقعی کامیابی حاصل کر لی ہے"۔۔۔۔۔۔ جی ہاں یہ تحریری سند دنیاے اردو ادب کے موجودہ ہر دل عزیز شاعر، شہنشاہ غزل ڈاکٹر بشیر بدر نے اپنے ہوش و حواس میں دی تھی۔ طارق قمر سے ڈاکٹر طارق قمر تک کے طویل صحافتی و ادبی سفر کو آپ نے بڑے ہی خاکسارانہ و معصومانہ انداز میں طے کیا اور یہ کہہ کر ادب کے سمندروں کو چونکا دیا کہ:
کاغذ کی اک ناؤ اگر پار ہو گئی
اس میں سمندروں کی کہاں ہار ہوگئی
برسوں پہلے کلکتہ کے ایک مشاعرے میں یہ شعر سن کر راقم خواجہ احمد حسین اس نوجوان، خوب صورت شاعر کا مداح ہو گیا، اب تو ہم دونوں بہت اچھے دوست ہیں۔ لکھنؤ اپنے ٹی وی کے دفتر میں برسوں قبل اپنا اولین شعری مجموعہ”شجر سے لپٹی ہوئی بیل" اور "گنگا جمنا کے ساحلوں پر۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر طارق قمر" مرتب ڈاکٹر کشور جہاں زیدی، کتاب یہ لکھ کر خاکسار کو پیش کی تھی کہ "بڑے بھائی و بہترین شاعر جناب خواجہ احمد حسین صاحب کی محبتوں کی نذر۔۔۔۔۔طارق قمر"
میری ذاتی لائبریری میں، کتابوں کی بھیڑ میں لاکھ تلاش کے بعد آنکھوں سے ہمیشہ اوجھل رہی، برسوں سے اس کتاب کی تلاش تھی، آج مورخہ30/ ستمبر 2022 کو اچانک اپنی ذاتی لائبریری کی صفائی کے دوران جب یہ دونوں کتابیں نمودار ہوئیں تو خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ کتاب حاصل کرتے وقت ادب کے قمر سے وعدہ کر ڈالا کہ چند بے ربط جملے رقم کروں گا، آئیے چند ٹوٹے پھوٹے ذاتی تاثرات پیش خدمت ہیں۔
ابھی پہلا ورق پلٹا ہی تھا کہ اس شعر پہ نگاہ ٹھہر گئی کہ:
نظر نظر سے ملا کر کلام کر آیا
غلام شاہ کی نیندیں حرام کر آیا
دل سے بے ساختہ واہ واہ نکل پڑی، ذرا آگے بڑھا تو دیکھا کہ مجاہد اردو ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے بر جستہ کہہ دیا کہ "طارق قمر کے یہاں ایک چنگاری ہے جو مخالف ہواؤں کی زد میں آتے ہی سلگ اٹھتی ہے۔"
اس جملے کی ساری ادبی دنیا تائید کرے گی. طارق قمر ابھی جوان ہیں مگر ان کے شعری تخیلات کا کیا کہنا. تب ہی تو ملک کے باہر بھی ان کی گونج مسلسل سنی جارہی ہے. اسلام آباد پاکستان سے پروفیسر عالیہ امام بھی اپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھ سکیں اور صاف لفظوں میں کہہ ڈالا کہ: "طارق قمر سچائی کا پھول ہے۔ خوشبو ہی خوشبو ہے۔ ایک ایسی خوشبو جو تپتی ہوئی زمین پر بارش کی پہلی پھوار پڑنے سے پیدا ہوتی ہے اور پھر سارے وجود میں سرایت کر جاتی ہے۔"
طارق قمر کے حوالے سے تین بین الاقوامی ادبا و شعرا کا حوالہ دیا. اب کئی اور معروف بھارتی شعرا جن میں مرحوم ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد، مرحوم راحت اندوری، مرحوم انور جلال پوری اور منور رانا کو مشاعرہ میں کھلے عام ڈائس سے طارق قمر کی پذیرائی کرتے ہوئے ساری دنیانے دیکھا اور سنا ہے۔
طارق قمر زندگی کے مسائل و حالات حاضرہ سے اپنے اجداد شعرا : میر، غالب، اقبال، حالی و اکبر الہ آبادی وغیرہ کی طرح خوب واقفیت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پہ، یہ شعر دیکھیں اور محسوس کریں کہ:
کشتیاں شور مچاتی ہیں کناروں کے قریب
اور یہی شور سمندر کو برا لگتا ہے
طارق قمر اپنی فن کارانہ صلاحیت اور زبان و بیان پر غیر معمولی دسترس کے سبب ملک و بیرون ملک میں بھی از حد مقبول ہیں.
پچھلے دنوں کلکتہ کے بزم نور سخن کا کل ہند مشاعرہ تھا، منور رانا کی صدارت اور ابرار کاشف کی نظامت تھی، طارق قمر کی شرکت نے نہ صرف مشاعرے کو وقار بخشا بلکہ دو موجودہ وزیر مغربی بنگال جاوید احمد خان اور غلام ربانی نے طارق قمر کے کلام کو بے حد پسند کیا. پہلے دور کی نظامت راقم خواجہ احمد حسین نے ہی کی اور اپنی نظم "ماں" پیش کی تو منور رانا، طارق قمر اور ابرار کاشف نے بھر پور حوصلہ افزائی کی۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ڈاکٹر طارق قمر اردو ادب کا خوب صورت و قیمتی اثاثہ و ثمر ہیں۔ مستقبل میں اردو ادب کو ان سے بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں کہ ستون اردو ادب شمس الرحمن فاروقی نے جو کہہ دیا کہ "طارق قمر ملک کے ان چند ہونہار شعرا میں ہیں جن کی غزل بھی ان کی نظم کی طرح توجہ انگیز ہے۔" یقیناً طارق قمر نظم کے بھی بے حد کامیاب شاعر ہیں۔
مرحوم فاروقی صاحب میرے بھی کرم فرما رہے، میرےچھوٹے بھائی مرحوم خواجہ جاوید اختر الہ آباد کو بھی بہت عزیز رکھتے تھے۔ طارق قمر کے حوالے سے فاروقی صاحب کی پیشن گوئی و دعاؤں کے بعد مزید اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ آئیے طارق قمر کے چند اشعار سماعت فرما لیں۔
رشتوں کی تہذیب نبھاتے رہتے ہیں
دونوں رسماً آتے جاتے رہتے ہیں
تیز ہوا بے چپ چاپ گزرتی رہتی ہے
سوکھے پتے شور مچاتے رہتے ہیں
بہتر یہی ہے اپنا سفر اب سمیٹ لے
لہجہ بدل رہا ہے ترے میزبان کا
اب جو ناکامیِ قسمت کا گلہ کرتے ہو
فیصلے سارے خودی کے تھے خدا کے کب تھے
عشق کی اپنی شریعت ہے سو خاموش ہیں ہم
اس خموشی کی وضاحت نہیں ہوگی ہم سے
وقت ہمارے نقش مٹاتا رہتا ہے
لیکن ہم تصویر بناتے رہتے ہیں
اس با وقار و مہذب شاعر کی صلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے اس دعا پہ اپنی تحریر کو اختتام دے رہا ہوں کہ:
ملک تجھ پہ ہمیشہ ناز کرے
عمر تیری خدا دراز کرے
***

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے