سیمانچل کی تاریخ (قسط دوم)

سیمانچل کی تاریخ (قسط دوم)

احسان قاسمی
رابطہ: ehsanulislam1955@gmail.com

ہندو اساطیر میں سیمانچل: ہندو شاستروں میں وقت کو چار یُگوں (زمانوں) میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ست یُگ، ِتریتا یگ، دُواپر یگ اور کل یگ۔ آج کا دور آخری زمانہ یعنی کلیُگ ہے جس میں ہم سب جی رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ست یگ سب سے قدیم دور تھا۔ اُس یُگ میں ایک بڑا مشہور واقعہ پیش آیا تھا۔ پُران کے مطابق ست یگ میں بھگوان وِشنُو نے اپنا چوتھا اوتار ‘نر سِنگھ اوتار’ کے روپ میں دھارن کر ظالم راجا ہِرنیہ کشِیپو (ہرن کشیپ) Hiranyakashipu کا قتل کیا تھا۔ یہ مشہور واقعہ اسی پورنیہ کی سرزمین پر رونما ہوا تھا جس کی یادگار آج بھی یہاں قائم ہے۔ ہندستان کے زیادہ تر لوگ ہندو اساطیر سے کچھ نہ کچھ واقفیت ضرور رکھتے ہیں لیکن میرے بہت سارے دوست ایسے بھی ہیں جن کا تعلق غیر ممالک سے ہے اور ان اساطیر سے ان کی واقفیت کافی کم ہے، لہذا مختصر طور پر یہ دل چسپ قصہ بیان کرتا ہوں۔
بھگوان وِشنُو نے اپنے ‘واراہ روپ’ میں دنیا کی بھلائی کے لیے ہرن کشیپ کے چھوٹے بھائی ہِرنیاکش  Hirnyaksh کا قتل کیا تھا۔ اس بات سے راجا ہرن کشیپ بہت ناراض تھا۔ اس کی راجدھانی ہرنیہ کرن ون  میں تھی۔
( ون، بن اور ارنیہ ان تمام الفاظ کا معنی جنگل ہے۔ اس سے ثابت ہے کہ ست یگ میں بھی سیمانچل کا یہ علاقہ جنگلات سے معمور تھا)
ہرن کشیپ نے طویل عرصہ تک بھگوان برہما کی گھور تپسیا کی۔ اس کی تپسیا سے خوش ہو کر برہما نے اس سے وردان مانگنے کو کہا۔ ہرن کشیپ نے ان سے کئی وردان مانگے جنھیں برہما نے منظور کر لیا۔
رفتہ رفتہ اس کے اندر غرور پیدا ہو گیا۔ اس کے دل سے موت کا خوف جاتا رہا اور وہ خود کو خدا کہلوانے لگا۔ لیکن  ہر فرعون کے گھر موسی پیدا ہوتا ہے کہاوت کے مصداق اس کے چار بیٹوں میں سے ایک پرہلاد  Prahlad نے اس کی خدائی کا انکار کیا۔ پرہلاد کم عمری میں ہی بھگوان وشنو کا بہت بڑا بھکت تھا۔ اس لیے آج بھی اسے بھکت پرہلاد کے نام سے ہی یاد کیا جاتا ہے۔ وشنو بھگوان سے تو ہرن کشیپ یوں ہی خار کھاتا تھا، اس نے بہت کوشش کی کہ پرہلاد وشنو کی بھگتی چھوڑ دے۔ آخر کار مایوس ہو کر اس نے اپنے بیٹے پرہلاد کے قتل کا فیصلہ کر لیا۔ ہرن کشیپ کی بہن ہولیکا  Holika کے پاس ایک چادر تھی جس پر آگ کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔ ایک کافی بڑا الاؤ روشن کیا گیا جس کے درمیان ہولیکا اپنے بھتیجے پرہلاد کو اپنی آغوش میں لےکر بیٹھی۔ آگ سے حفاظت کے لیے اس نے وہی (فائر پروف) چادر اوڑھ رکھی تھی۔ اشارہ ہوتے ہی اسے پرہلاد کو اپنی آغوش سے نکال کر انگاروں کے حوالے کر دینا تھا لیکن تبھی ایک ایسی ہوا چلی کہ چادر نے اڑ کر پرہلاد کو ڈھک لیا اور ہولیکا آگ میں جل مری۔
اس واقعہ کی یاد میں ہر سال ہولی پرب کے ایک روز قبل رات میں  ہولیکا دہن کیا جاتا ہے جس میں گاؤں، شہروں کے چوک چوراہوں پر لکڑیوں کا ڈھیر یکجا کر اس میں آگ لگائی جاتی ہے۔
پرہلاد کے زندہ بچ جانے پر ہرن کشیپ مزید ناراض ہو گیا۔ اس نے پرہلاد کو رسیوں سے جکڑ دیا اور ہاتھ میں کھڑگ (وزنی تلوار) لے کر بولا "کہاں ہے تیرا بھگوان ؟
پرہلاد نے بےخوف ہوکر کہا" وہ تو ہر جگہ ہے۔ مجھ میں، تم میں اور اس کھڑگ میں بھی۔
ہرن کشیپ غصے سے بےقابو ہو کر محل کے پتھریلے کھمبے پر مکا مارتے ہوئے چیخ اٹھا "اس میں بھی ہے ؟"
اس کے مکا مارتے ہی بھگوان وشنو اس پائے یا استمبھ سے نر سنگھ اوتار کے روپ میں ظاہر ہوئے۔ یعنی نصف انسان اور نصف شیر کی شکل لیے اور ہرن کشیپ کو پکڑ کر اپنی جانگھوں پر چت لٹا دیا۔ ہرن کشیپ نے کہا تم مجھے نہیں مار سکتے۔ مجھے برہما کا وردان حاصل ہے۔ مجھے کوئی انسان یا جانور نہیں مار سکتا۔ نر سنگھ نے کہا میں مکمل طور پر نہ تو انسان ہوں اور نہ جانور۔ ہرن کشیپ نے کہا میری موت نہ دن میں واقع ہو سکتی ہے اور نہ رات میں۔ نرسنگھ نے کہا "یہ شام کا وقت ہے۔ ابھی نہ دن ہے اور نہ رات۔ ہرن کشیپ نے ہمت سے کام لےکر کہا "مجھے زمین اور آسمان پر کوئی قتل نہیں کر سکتا۔ نرسنگھ نے کہا "تمھیں میں نے اپنی جانگھوں پر لٹا رکھا ہے اور تم زمین و آسمان کے درمیان معلق ہو۔ ہرن کشیپ نے آخری داؤں چلا "مجھے کسی ہتھیار سے قتل نہیں کیا جا سکتا ہے۔"
نرسنگھ نے کہا "میں کوئی ہتھیار لےکر نہیں آیا۔ یہ میرے پنجے دیکھو، یہ ہتھیار نہیں میرے جسم کا حصہ ہیں۔"
اتنا کہہ کر نرسنگھ نے اپنے مضبوط، تیز نوکیلے پنجوں سے ہرن کشیپ کا پیٹ چیر کر اسے اس کے انجام تک پہنچا دیا۔
پورنیہ کے ایک قصبہ، تھانہ بن منکھی  کے قریب سِکلی گڑھ دھرہرا نامی مقام پر پتھر کا وہ کھمبا آج بھی موجود ہے جو مانِک استمبھ  کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں ایک مندر بھی ہے جہاں ہر سال میلہ لگا کرتا ہے اور ہولیکا دہن کا پرب بھی منایا جاتا ہے۔
انسان کے پورنیہ نمبر 1955ء میں جناب اکمل یزدانی اپنے مضمون "پورنیہ عہدِ رفتہ میں" کے تحت لکھتے ہیں: "ایک ندی  ہرن  نامی اب تک یہاں موجود ہے۔"
اس سے آگے ذکر کرتے ہیں ۔۔۔۔ "اس تھام ( مانک استمبھ) کے نیچے کھدائی کے بعد طلائی سکہ برآمد ہوا ہے جو دوسری صدی عیسوی کا ہے جس کا ذکر میلی نے اپنے پورنیہ ڈسٹرکٹ گزیٹیر میں کیا ہے۔
( LSS O’ Malley – The Purnea district gazetteer – 1911 )
موجودہ دور میں ہرن ندی خشک ہو چکی ہے۔ ہاں! موسمِ برسات میں یہ ضرور ندی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
تریتا یگ میں سیمانچل: تریتا یگ وہ یگ ہے جس میں بھگوان رام پیدا ہوئے۔ ہندو رام کو بھی وشنو بھگوان کا اوتار ہی مانتے ہیں۔ انھوں نے لنکا کے راجا راون کو شکست دے کر اپنی اغوا شدہ پتنی سیتا کو اس کے چنگل سے چھڑایا تھا۔ اس یگ میں سیمانچل کے حالات کیسے تھے اس بات کے تاریخی شواہد دستیاب نہیں ہیں۔
سیمانچل دواپر یگ میں: اس یگ میں مہابھارت کا واقعہ رونما ہوا تھا۔
راجا بھرت جو ہستِنا پور (دہلی) Hastinapur کے راجا تھے ان کی رانیوں میں ایک رانی کرنتی Karanti بھی تھی جو کیرات دیش (ٹھاکر گنج) کی تھی۔
یہاں لگے ہاتھوں یہ جانکاری بھی دے دوں کہ ٹھاکر گنج نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہاں بنگال کے ٹھاکر خاندان (نوبل انعام یافتہ رابندر ناتھ ٹھاکر کا خاندان) کی زمین داری تھی۔ لہذا اس خطۂ ارض کا یہ نیا نام ہے۔
بہرحال راجا بھرت سے شانتنو Shantanu اور شانتنو سے بھیشم Bhishma پیدا ہوئے۔ بھیشم نے کنوارے رہ کر اپنے دو چھوٹے بھائیوں چترانگد Chitrangad اور وچتر ویرج Vichitra virg کی پرورش کی۔ چترانگد کی ایک لڑائی میں موت واقع ہو گئی۔
بھیشم کاشی راج کو شکست دے کر امبیکا Ambika اور امبالیکا Ambalika کو اٹھا لائے اور ان کی شادی اپنے بھائی وچتر ویرج سے کروا دی۔ امبیکا سے دھرت راشٹر Dhiritrashtra پیدا ہوئے جو پیدائشی طور پر نابینا تھے۔ امبالیکا کے بطن سے پانڈو Pandu پیدا ہوئے۔ دھرت راشٹر کے نابینا ہونے کی وجہ سے پانڈو راجا بنے۔
دھرت راشٹر کو گاندھاری Gaandhari سے سو بیٹے پراپت ہوئے جنھیں کورو Kaurav کہا جاتا ہے۔ ان میں سب سے بڑا دُریودھن Duryodhan تھا۔ پانڈو کو رانی کُنتی Kunti اور رانی مادری Maadri سے پانچ بیٹے یدھشٹر Yudhishtir، بھیم Bheem، ارجُن Arjun، نکُل Nakul اور سہدیو Sahdeo حاصل ہوئے جنھیں پانڈو Pandav کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مہابھارت کی جنگ ہستنا پور کی حکومت کے لیے انھیں دو فریقین کورؤں اور پانڈؤں کے درمیان لڑی گئی تھی۔
اس زمانے میں چوسر کھیلنے کا عام رواج تھا اور شرطیں بھی لگا کرتی تھیں۔ دریودھن نے یدھشٹر کو جوا کھیلنے کی دعوت دی۔ اس جوئے میں پانڈو اپنا راج پاٹ اور سب کچھ حتی کہ اپنی مشترکہ بیوی دروپدی کو بھی ہار گئے۔
دھرت راشٹر نے دریودھن سے پانڈؤں کو ان کا راج پاٹ لوٹا دینے کو کہا۔ دریودھن نے اپنے ماما شکونی Shakuni کی صلاح پر پانڈؤں کے سامنے یہ شرط رکھی کہ انھیں تیرہ سال بنواس اور ایک سال اگیات واس میں رہنا ہوگا۔ اگیات واس کا زمانہ ان تمام لوگوں کو اپنا بھیس بدل کر اور اپنی شناخت کو مخفی رکھ کر گزارنا ہے اور اگر کسی نے انھیں پہچان لیا تو نئے سرے سے وہی شرط لاگو ہوگی۔
جنگلوں میں تیرہ سال گزارنے کے بعد جب اگیات واس میں جانے کا وقت آیا تو انھوں نے ویاس منی Vyas Muni سے مشورہ طلب کیا۔
آنجہانی پنڈت کرتیانند بیوگی معلم رسل ہائی اسکول، بہادر گنج اپنے مضمون "پورنیہ کی تاریخی اہمیت" میں یوں رقم طراز ہیں: "ہندؤوں کی سب سے پرانی تاریخ مہابھارت ہے جو دنیا کا سب سے بڑا گرنتھ مانا جاتا ہے جو عیسوی سنہ سے قریب چوبیس پچیس سو برس پہلے ہی لکھا گیا ہے۔ اس میں ایک باب ‘بیراٹھ پرب’ کے نام سے ہے جس میں راجہ بیراٹھ کے راج کا تفصیلی بیان اور اس کی چوہدی درج ہے۔ جہاں تہاں پھیلے ہوئے تاریخی کھنڈرات کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کشن گنج کا سارا اتری اور پچھمی حصہ اور یہ سارا حصہ اور نیپال ترائی کا آدھے سے زیادہ حصہ بیراٹھ راج میں پڑتا تھا۔ پانڈؤں کو کورؤں نے جب جوئے میں ہرا کر بن باس دیا تو ان لوگوں نے اس زمانے کے سب سے بڑے جغرافیہ داں اور تاریخ داں انسان ویاس سے پوچھا کہ ہم لوگ کس راج میں جاکر امن چین سے رہ سکتے ہیں؟ اس پر ویاس نے کہا کہ سب سے دولت مند، سب سے سکھی اور سب سے اچھی آب و ہوا والا راج راجہ بیراٹھ کا ہے جہاں دودھ کی ندیاں بہتی ہیں، اناج کا انبار لگا رہتا ہے، اچھے اچھے سوت کے کپڑے بنتے ہیں اور جنگلوں کی ہریالی میں غزالیں چوکڑیاں بھرتی ہیں، وہیں جاکر امن چین سے رہیں۔"
( انسان ، پورنیہ نمبر صفحہ 21 )
سب سے پہلے یرھشٹر کنک Kank نام سے براہمن کا روپ دھارے راجا بیراٹھ کے دربار میں حاضر ہوئے۔ ان کی علمیت سے متاثر ہو کر راجا نے انھیں اپنے درباریوں میں شامل کر لیا۔ بعد ازاں بھیم رسوئیا یعنی باورچی کی شکل میں حاضر ہوئے۔ انھوں نے اپنا نام ولّو Vallaba بتایا۔ بھیم کافی لحیم شحیم اور طاقتور تھے۔ ایک ہی بار میں جنگل سے لکڑیوں کا ڈھیر اٹھا کر لے آتے تھے، انھیں بھی ملازمت مل گئی۔ نکل اور سہدیو نے بالترتیب گھڑسال اور گئو شالہ میں بہ طور ملازم جگہ بنا لی۔ ارجن نے ناچنے گانے والے زنخے بِری ہنّلا Brihanalla کی شکل میں راجا کے حرم میں جگہ بنائی تو دروپدی ‘سیراندھری ‘ Sairandhari بن کر راجا بیراٹھ کی دوسری رانی سودیشنا Sudeshna کی ملازمۂ خاص بن گئی۔
راجا بیراٹھ کا سالا  کیچک  Kichak کافی طاقتور اور بارسوخ تھا۔ اس نے دروپدی کے ساتھ چھیڑخانی کرنے کی کوشش کی جس کی شکایت دروپدی نے بھیم سے کی۔ بھیم نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اگیات واس کے اب محض دو چار دن ہی بچے ہیں تھوڑا اور صبر کر لو۔ جب ایک سال کا عرصہ مکمل ہو گیا دروپدی نے کیچک سے رات کے وقت رقص گاہ میں ملاقات کا عندیہ دیا اس شرط کے ساتھ کہ وہاں مکمل تنہائی ہو اور روشنیاں بھی گل کر دی جائیں۔ بھیم نے دروپدی کا بھیس بنا کر وہاں کیچک کا قتل کر دیا۔ یہ جگہ  کیچک ودھ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مقام نیپال کے جھاپا ضلع میں کیاباڑی نامی گاؤں میں ہے۔ انڈین بارڈر سے اس کی دوری بمشکل تین کیلومیٹر ہے۔ یہاں ہر سال میلہ لگتا ہے جس میں ہندستان، سکم، بھوٹان اور نیپال کے زائرین شامل ہوتے ہیں۔
دیگر تاریخی مقامات:
1 – مہابھارت کال کی دیگر تاریخی عمارات/ مقامات میں مولانا محمد یوسف رشیدی ہری پوری نے اپنی کتاب ‘ احسن التوارخ ‘ میں ٹھاکر گنج کے علاقے میں واقع راجہ بیراٹھ اور رانی کرنتی کے قلعے کے کھنڈرات کا ذکر کیا ہے ۔ لیکن اب غالباً ان میں سے بہت سارے کھنڈرات کے نشانات بھی مٹ چکے ہیں۔
2 – بھیم تکیہ ، ٹھاکر گنج: یہ مٹی کے دو ٹیلے ہیں جن کے بارے میں کہاوت ہے کہ یہاں پانڈؤں نے کچھ وقت گزارا اور آرام کیا تھا۔ پانڈؤں کی یاد سے متعلق ساگ ڈھالا اور بھات ڈھالا نامی مقامات بھی اسی خطے میں ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ دورانِ سفر یہاں پانڈؤں نے کھانا بنایا اور کھایا تھا۔
3 – تخت بھنگروا: یہ مقام ضلع کٹیہار کے لابھا ریلوے اسٹیشن سے پچھم تقریباً پانچ کیلومیٹر کے فاصلے پر منہدم اور شکستہ عمارات کی شکل میں موجود ہے۔ یہاں راجہ بیراٹھ اکثر آیا کرتے تھے۔
مہابھارت کی جنگ بہت بڑی جنگ تھی جس میں ہندستان کے تمام راجاؤں نے حصہ لیا تھا۔ اس جنگ نے اس دور کی سیاست کا نقشہ ہی بدل دیا۔
راجا کرن، راجا بیراٹھ اور نہ جانے کتنی حکومتیں زوال پذیر ہو گئیں۔ بعد کے زمانے میں نئی نئی چھوٹی چھوٹی ریاستیں علاقائی طور پر وجود میں آئیں، ان کا ذکر ان شاء اللہ آئندہ قسط میں۔
***
تصاویر میں:
اوپر بائیں: سِکلی گڑھ دھرہرا، بابِ پرہلاد نگر
دائیں: مانِک استمبھ ( سکلی گڑھ دھرہرا )
نیچے بائیں: مقام کیچک ودھ ( نیپال ) میں بھیم اور کیچک کی پتھر سے بنی مورتیاں
دائیں: بھیم تکیہ کے ٹیلے واقع ٹھاکرگنج
***
پہلی قسط یہاں پڑھیں :سیمانچل کی تاریخ اور تیسری قسط یہاں پڑھیں: سیمانچل کی تاریخ (قسط سوم)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے