احساس کمتری: کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں

احساس کمتری: کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں

فاروق طاہر
عیدی بازار، حیدرآباد، ہند
رابطہ : farooqaims@gmail.com
موبائل نمبر : 9700122826

اپنی ذات (شخصیت) کا غلط اندازہ لگاتے ہوئے دوسروں کے مقابلے میں خود کو حقیر سمجھنے کو احساس کمتری کہا جاتا ہے۔ الفریڈ ایڈلر ایک مشہور ماہر نفسیات ہے جس نے احساس کمتری کا سب سے پہلے اپنی کتاب (INDIVIUAL PSYCHOLOGY) میں تذکرہ کیا ہے۔ ایڈلر احساس کمتری اور برتری دونوں کو ایک سکے کے دو رخ گردانتا ہے۔ انسانی شخصیت کی وہ کیفیت جو اس کو جسمانی، ذہنی یا سماجی طور پر دوسروں سے کمتر ہونے کا احساس دلائے احساس کمتری کہلاتی ہے۔ یہ الجھن زندگی کے کسی بھی موڑ پر پیدا ہوسکتی ہے۔لیکن تحقیق و تجربے کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ عموما یہ کیفیت بچپن میں پیدا ہوتی ہے اور اس کیفیت کی پیدائش کے موجب و محرک اکثر والدین، اساتذہ، دوست اور رشتہ دار ہوتے ہیں۔ بچپن میں جب بچے کو تضحیک و تمسخر کا موضوع بنایا جائے اور اس کی بے جا تنقید کی جائے تب بچہ اپنا تقابل دوسروں سے کرنے لگتا ہے جس کی وجہ سے اس میں احساس کمتری پیدا ہوجاتا ہے۔ اساتذہ طلبہ کو احساس کمتری کے مثبت پہلو سے واقف کرتے ہوئے ان میں امنگ اور لگن کو فروغ دے کر نہ صرف خامیوں پر قابو پانا سیکھا سکتے ہیں بلکہ خامیوں کو خوبیوں میں بدلنے کی تربیت بھی فراہم کر سکتے ہیں۔
ٹیلی ویژن کمرشیل میں آپ دیکھتے ہیں کہ ایک سانولی (سیاہی مائل رنگت) لڑکی عالمی مقابلہ حسن میں شرکت کرنا چاہتی ہے لیکن اپنی رنگت کی وجہ سے تذبذب کا شکار نظر آتی ہے۔ تب اس کی دوست اس کو گورے پن کی لوشن (کریم) دیتی ہے جس کی وجہ سے اس کی رنگت چند دنوں میں موتیا اور گلاب کی طرح نکھر جاتی ہے۔ آج تک یہ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کس طرح سے کسی کی قدرتی رنگت لوشن اور کریم کے استعمال سے بدل سکتی ہے۔ یہ پر فریب اور دھوکے پر مبنی غازے (کوسمیٹکس) جو احساس کمتری کو سامان تسکین تو فراہم کرسکتے ہیں لیکن حقیقت نہیں بدل سکتے۔ میری دانست میں دنیا میں کوئی ایسی لوشن کریم آج تک معرض وجود میں نہیں آئی ہے جو انسان کی رنگت کو بدل دے۔ جب آدمی خود فریبی کے اس جال میں گرفتار ہوجاتا ہے تو یقینا اس کو رہ نمائی اور رہ بری کی اشد ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اس الجھن (کامپلکس) سے باہر نکل سکے۔ رنگت کی تبدیلی پر کمر کسنے سے بہتر ہے کہ اپنے دماغ سے کمتری کے احساس کو جڑ سے نکال پھینکیں تاکہ شخصیت کو مجروح ہونے اور تباہ ہونے سے بچایا جاسکے۔ لوشن و کریم کا استعمال ایسا ہی ہے کہ دھول چہرے پر جمی ہے اور ہم آئینہ صاف کر رہے ہیں۔ یعنی اپنی دماغی صلاحیت اور کیفیت کو بہتر بنانے کے بجائے ہم رنگت کے مسئلہ میں الجھ کر اپنی شخصیت کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کررہے ہیں۔ قنوطیت پسند افراد اس بات پر رنجیدہ ہوتے ہیں کہ گلاب کے نیچے کانٹے ہیں جب کہ رجائیت پسند افراد کے لیے یہ بات باعث فرحت اور مسرت ہے کہ گلاب کانٹوں کے اوپر ہوتا ہے۔ متذکرہ جملہ ایک سادہ اور آسان فلسفہ بیان کر رہا ہے کہ اشیا ہم کو ویسی ہی نظر آتی ہیں جیسا ہم ان کو دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ایک نوجوان اپنے بالوں کی سفیدی سے فکر مند ہو کر راتوں کی نیند گنوا بیٹھتا ہے وہیں ایک نوجوان دوشیزہ اپنے گال پر ابھرے پہلے مہاسے سے فکرمند ہوکر گھنٹوں آئینے کے سامنے کھڑی رہتی ہے۔ زندگی میں ہر نوجوان اس الجھن سے گزرتا ہے۔ ”میں پست قد ہوں، میں کالا ہوں، میں غریب ہوں، میں خوب صورت نہیں ہوں، میں موٹا اور بھدا ہوں، میں اپنے بالوں کے گرنے سے بہت پریشان ہوں، عینک کی وجہ سے میری وجاہت اور خوب صورتی متاثر ہورہی ہے، اپنے گال پر ابھرے مہاسے سے میں کبھی ائر ہوسٹس نہیں بن پاؤں گی۔ ان سب باتوں کے بارے میں آپ کو پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ آپ بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ آپ دوسروں سے کمتر ہیں یا کوئی آپ سے برتر ہے۔ اگر ان احساسات پر ابتدا میں ہی قدغن نہ لگائی گئی تو یہ مرض بہت ہی پیچیدہ ہوجاتا ہے اور افراد کی زندگیوں کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔ انسان اپنی فطری صلاحیتوں کو بھی برؤے کار لانے سے قاصر رہتا ہے یا تذبذب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ناک، نقوش، رنگت، جسمانی ساخت و جسامت یہ تو اللہ کی دین ہے. کسی کی ناک چپٹی ہوسکتی ہے، کوئی بھینگا ہوسکتا ہے، کوئی پست قد ہوتا ہے، کوئی نحیف و نا تواں نظر آتا ہے، کسی کی ٹانگ میں لنگ ہو یا ایک ٹانگ چھوٹی ہو، ہاتھ میں کوئی نقص ہو، چہرے پر بدنما داغ دھبے ہوں اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کمتر ہیں اور ہر وقت اپنا دوسروں سے موازنہ کرتے ہوئے رنج و غم کا شکار ہوجائیں۔ قدرت اگر کسی کو کوئی نقص یا کمی سے دوچار کر دیتی ہے تو دوسری شکل میں اس کی تلافی بھی کر دیتی ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ انگریزی کا مشہور شاعر بائرن لنگڑا تھا۔ بائرن کی شاعری اور علمیت کی دنیا معترف ہے۔ یہ بات جان کر آپ کو اچنبھا ہوگا کہ انگریز عورتیں جو کہ بائرن پر دل و جان سے فدا تھیں بائرن کی طرح لنگڑا کر چلنے میں فخر محسوس کرتی تھیں۔تھامس الوا ایڈیسن سے کون واقف نہیں ہے. یہ دنیا کا بہت ہی عظیم سائنس دان اور موجد ہے جس کے نام سے 10000(دس ہزار) سے بھی زیادہ ایجادات منسو ب ہیں۔مصر کے عالمی شہرت یافتہ رائٹر عالم، طہٰ حسن نابینا ہونے کے باوجود مصری حکومت میں وزارت کے اعلا عہدے پر فائز تھے اور ان کی اہلیہ کا شمار پیرس کی حسین ترین خواتین میں ہوتا تھا۔ ڈومسڈن بچپن میں قوت گوئی کے خلل سے دوچار تھا لیکن بڑا ہوکر وہ ایک عظیم مقرر بنا۔ ان شخصیات سے آپ کو متعارف کروانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی معذوری کو کبھی کمتری کے احساس میں تبدیل نہیں ہونے دیا۔ بلکہ اپنی معذوری کو اپنے عزم و ہمت اور حوصلے سے عزت و احترام بخشا۔ طلبہ ایک بات اپنے ذہنوں میں پیوست کر لیں کہ دوسروں سے اپنا موازنہ کرتے ہوئے جب وہ اپنے آپ کو کمتر سمجھتے ہیں تب وہیں سے ان کی بدنصیبی کا آغاز ہوجاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ قدرت نے آپ کو ان چیزوں سے محروم رکھا ہے جس کی آپ تمنا کرتے ہیں لیکن آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے آپ کو اپنے کسی اور تحفہ و نعمت سے نوازا ہے۔ یہ بڑی شرمناک بات ہے ہم عطا کردہ خوبیوں کو سنوارنے کے بجائے اپنی محرومی پر نوحہ کناں رہتے ہیں۔ احساس کمتری و برتری کی عفریت سے تحفظ فراہم کرنے میں شیخ سعدیؒ کی حکایت ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ آپ فرماتے ہیں ”زندگی میں ایک بار خیال گزرا کہ میں کمتر ہوں۔ میرے پاس پاؤں میں پہننے کے لیے جوتے نہیں ہیں۔اسی سوچ میں گھر سے نکلا اور تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ ایک شخص کو دیکھا جو دونوں پاؤں سے ہی محروم تھا۔“ شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ میرا احساس کمتری فوری احساس شکر میں تبدیل ہوگیا اور اس کے بعد میں نے کبھی اپنے آپ کو کمتر محسوس نہیں کیا۔ آپ فرماتے ہیں کہ اللہ نے ہم کو اس قدر نعمتیں دی ہیں کہ ہم اس کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔“ اور فرماتے ہیں جب میں نے دریا کے کنارے ایک نشے میں دھت شرابی کو بدحال بیٹھا پایا تب میرے ذہن میں برتری کا احساس پیدا ہوا کہ میں اس شرابی سے بہتر ہوں۔ کچھ دیر بعد دیکھتا ہوں کہ ایک کشتی نمودار ہوئی جو ڈگمگا کر دریا میں الٹ گئی اور اس میں سوار آدمی ڈوبنے لگے۔ سعدی  ابھی ان لوگوں کی زندگی بچانے کی تدبیر ہی کر رہے تھے کہ وہ شرابی دریا میں فوری کود کر ان لوگوں کو ڈوبنے سے بچالیا۔ سعدی  فرماتے ہیں کہ جب میں سوچتا رہ گیا کہ”میں بھلا کہاں بہتر ہوں۔“ احساس کمتری اور برتری دونوں ہی انسان کے لیے نہایت نقصان دہ ہوتے ہیں۔ ان سے ہر حال بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
احساس کمتری پر اگر قابو نہ پایا جائے تو یہ مایوسی، افسردگی اور بے چینی کی کیفیت پیدا کردیتی ہے۔احساس کمتری پر قابو پانے میں اگر لاپرواہی برتی جائے تو یہ مستقبل میں کئی نفسیاتی مسائل کا سبب بن جاتی ہے۔ احساس برتری میں مبتلا شخص بھی دراصل احساس کمتری میں ہی گرفتار ہوتا ہے۔ یہ اپنے احساس کمتری کو چھپانے کی کوشش میں احساس برتری کا شکار ہوجاتا ہے۔ لوگوں پر تنقید، طعن و تشنیع اور ان کی تحقیر کرنا اس کی عادت ثانیہ بن جاتی ہے۔ یہ دوسروں کی غلطیوں اور کمزوریوں کو اچھال کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ احساس برتری میں مبتلا شخص کو اپنی کوئی خامی اور نقص نظر نہیں آتی۔احساس کمتری و برتری میں مبتلا لوگوں کا نفسیاتی، اخلاقی، فکری اور سماجی رجحان صحت مندانہ طور پر پروان نہیں چڑھتا ہے۔ خود اعتماد آدمی دوسروں کی عزت نفس کی قدر کرتا ہے۔ اپنی خوبیوں سے واقفیت کے ساتھ اپنی خامیوں کا ادراک بھی رکھتا ہے اور ان کی اصلاح کی ہر دم کوشش کرتا ہے۔ علم نفسیات انسانوں کی جسمانی، ذہنی اور جذباتی زندگی کو مسلسل بہتر بنانے میں مصروف عمل ہے۔
احساس کمتری سے نجات پانے کے طریقے: احساس کمتری سے نجات دلانے میں ذیل میں بیان کردہ چھے تجاویز نہایت معاون ہیں۔ (1) اکثر ہم سوچتے ہیں کہ لوگ ہمیں دیکھ رہے ہیں یا ہمارے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ سب سے پہلے ایسی سوچ سے ہم کواجتناب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لوگ ہمارے بارے میں بھلا کیوں کر سوچیں گے۔ ان کو اپنے کام بھی ہیں۔ عموما کوئی شخص اپنے وقت کا 10% (دس فی صد) حصہ دیگر چیزوں کے بارے میں سوچنے پر صرف کرتا ہے جن میں سینکڑوں چیزیں شامل ہوتی ہیں اور آپ ان سینکڑوں میں سے ایک ہوتے ہیں۔ (2) اپنی ذات سے محبت کیجیے لیکن اس قدر بھی نہیں کہ آپ نرگسیت کے شکار ہوجائیں۔ اپنی ذات پر وافر وقت صرف کریں۔ ہر انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ روزانہ خود اپنے آپ سے ملاقات کے لیے وقت نکالیں۔ کسی مشغلہ یا سرگرمی کو اپنائیں۔پیچیدہ مسائل پر غور و خوض اور گفتگو کرنے کے بجائے کتابوں کے مطالعہ کی عادت ڈالیں یا پھر ٹیلی ویژن پر ایسے پروگرام دیکھیں جو کارآمد اور مفید ہوں، باغبانی کی سرگرمی بھی اچھی ہوتی ہے اور ان سب سے زیادہ اپنی روزانہ کی عبادت سے غفلت نہ برتیں۔ آپ کے مشغلے اور سرگرمیاں آپ میں خود اعتمادی کو پروان چڑھاتی ہیں۔ (3) دوسروں کو کوئی گزند اور تکلیف پہنچائے بغیر آپ کو اختیار ہے کہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزاریں۔ آپ کی طرز زندگی کی وجہ سے لوگ یا تو آپ کو پسند کریں گے یا پھر وہ آپ سے متنفر ہوکر کنارہ کش ہوجائیں گے۔ کھوکھلی اورمصنوعی زندگی جینے سے بالکل اجتناب کر یں۔ مصنوعی اور بناوٹی انداز اپنانے کے بجائے سچائی کے ساتھ جینا سیکھیں۔ ایک بار لوگوں کی خاطر جب کوئی چہرے پر تصنع اور بناوٹ کا پردہ تان لیتا ہے تو پھر دوبارہ احساس کمتری کو چھپانے کے لیے مصلحت سے کام لینا پڑتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ حقیقتوں میں رہیں (4) لایعنی اور فضول گفتگو(gossip) سے پرہیز کریں۔ افواہیں نہ پھیلائیں۔ جو افراد احساس کمتری میں گرفتار ہوتے ہیں وہ لایعنی و فضول گفتگو کرتے ہیں اور افواہیں پھیلانے کے عادی ہوتے ہیں۔ چھوٹی سی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ان کی عادت ثانیہ ہوتی ہے۔ (5) اپنے آپ کو ایسے مباحث اور مقام سے بچا کر رکھیں جہاں آپ کی جسمانی اور ذہنی معذوری کا تمسخر اڑایا جاتاہے اور آپ کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اپنی خامی، کوتاہی اور معذوری کو چھپانے کے لیے خود کو موضوع مذاق نہ بنائیں۔ ہمیشہ خیال رکھیں کہ آپ خود اپنی عزت اور وقار و ناموس کے نگہبان ہیں۔ ایسے افراد سے پرہیز کریں جو آپ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ہاتھوں بلی کا بکرا نہ بن جائیں جو دوسروں کو تکلیف دے کر محظوظ ہوتے ہیں۔ (6) اپنی شخصیت کی تعمیر، ارتقا اور فروغ میں آپ کو بہت ہی مستعدی سے کام لینا ہوگا اور اپنی ذات کے تیئں وفارداری کا مظاہرہ بھی کرنا ہوگا۔ جو اپنی ذات سے وفاداری نہیں کرتا وہ زمانے کی ٹھوکروں میں رہتا ہے۔ جو اپنے شخصی وقار سے آگہی رکھتے ہیں اور اس کے تحفظ میں مصروف رہتے ہیں زمانہ ان کو ہی عزت و احترام کی نظر سے دیکھتا ہے۔ بعض افراد خود کو جذباتی ظاہر کرتے ہوئے اپنے احساس کمتری، احساس عدم تحفظ اور خود اعتمادی کے فقدان کی کمزوریوں کی خود کو جذباتی کہہ کر پردہ پوشی کرنے کی کوشش کر تے ہیں۔ کسی فلم کے غمگین منظر پر آنسو بہانہ آپ کے جذباتی پن کی دلیل نہیں ہے بلکہ سرد راتوں میں سڑک پر ٹھٹھر تے لوگوں میں کمبل بانٹنا دراصل حقیقی طور پر جذباتی ہونا ہے۔
عزت نفس (self esteem).۔احساس کمتری سے نبرد آزمائی کا سب سے کارگر طریقہ عزت نفس کا فروغ ہے۔عزت نفس کیا ہے؟ عزت نفس کی تفہیم، توضیح اور ادراک کے لیے ہم کو اپنی ترجیحات اور پسند کا تجزیہ کرنا ہوتا ہے۔ آپ کی نظر میں ایک مثالی و آئیڈیل شخص فلم کا ایک ہیرو ہوتا ہے جو ناانصافی کے خلاف ڈٹ جاتا ہے، اپنی جماعت میں اول آتا ہے، علاحدہ زندگی گزارنے والے اپنے والدین کو پھر سے ملا دیتا ہے، اس کے علاوہ وہ جس لڑکی کو پسند کرتا ہے ان میں سے کوئی بھی انکار نہیں کرتی۔ آپ کی نظر میں یہ ایک مثالی اور آئیڈیل آدمی ہے۔ کیا آپ نے کبھی اس کی شخصی پریشانیوں، مجبوریاں اور مسائل کو جاننے کی کوشش کی ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ مثالی افراد کے ساتھ مجبوریاں، پریشانیاں اور مسائل نہیں ہوتے ہیں تو آپ بالکل غلط سمجھ رہے ہیں۔ مثالی افراد کبھی اپنے مسائل، پریشانیوں اور مجبوریوں کو خود پر لادتے نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ اپنا احترام کرنا جانتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی خود اعتمادی اور حوصلہ کبھی بھی متزلزل نہیں ہوتا ہے۔ یہ دوسروں کی باتوں پر کان دھرنے کے بجائے اپنی ذات پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اپنے دوستوں کی خامیاں جن سے آپ سخت نالاں ہوتے ہوئے بھی ان کو درست نہیں کر پاتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی آپ اپنے دوستوں کی خامیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ان کے ساتھ وقت گزارنے میں مسرت محسوس کرتے ہیں۔ والدین کو بھی آپ ان کی تمام کمزوریوں خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود حد سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ فلم کا ہیرو، آپ کے دوست اور والدین آپ کی زندگی کا صرف ایک حصہ ہیں جب کہ ہمیشہ آپ کا اپنی ذات سے مکمل رشتہ استوار رہتا ہے۔ دوسروں میں پائی جانے والی خرابیوں اور کوتاہیوں سے آپ نالاں رہتے ہوئے بھی آپ ان کے ساتھ اور تعلق کو عزیز رکھتے ہیں تو پھر اپنے نقائص اور کوتاہیوں پر کیوں رنجیدہ اور مغموم ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی انسان بے عیب اور سو فی صد نہیں ہوتا۔ نقائص اور کوتاہیوں کے باوجود سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ سماجی و ثقافتی اقدار، اخلاقی قدروں اور اپنی عزت نفس کا کیسے تحفظ کرتے ہیں؟ آپ کی شخصیت کو احترام، ہمدردی، اعتماد، ایمان داری اور جذبہ تعاون جیسے اقدار پرکشش اور دل کش بنا دیتے ہیں۔ جب آپ ان خصائل کو حاصل کرلیتے ہیں تب شخصیت کے ظاہر و باطن دونوں ہی  دل کش اور خوب صورت ہوجاتے ہیں۔ شخصیت کی یہی دل کشی اور خوب صورتی عزت نفس کہلاتی ہے۔ عزت نفس آپ میں جرات، جذبہ اور حوصلہ پیدا کر تی ہے۔ عزت نفس آپ کو ذہنی و قلبی سکون فراہم کرنے کے ساتھ حوصلہ اور اعتماد بخشتی ہے۔ جس کی بدولت دوسروں کی رائے اور تضخیک سے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عزت نفس کی برقراری کسی بھی فرد کا شخصی انتخاب ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو بہتر بنانے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ تمام خوبیاں جو ہم کو بھاتی ہیں اپنے اندر پیدا کریں اور وہ سب خامیاں جو ہم دوسروں میں تلاش کرتے ہیں اور ہم کو سخت نا پسند بھی ہوتی ہیں اپنی ذات سے نکال پھینکیں۔ احساس کمتری کے منفی پہلو کی وجہ سے آدمی حسد، چڑچڑے پن، بے حسی، خود غرضی، شدت پسندی، بدخلقی، بے مروتی وغیرہ کا شکار ہوجاتا ہے۔لیکن اگر احساس کمتری کو مثبت انداز میں لیں تو انسان حسد، جلن خفگی اور دیگر رزیلہ خصائل میں مبتلا ہونے کے بجائے وہ زندگی میں کسی سے کمتر نہیں رہتا۔ سو فی صدی کارکردگی کے ذریعے اگر وہ کسی سے آگے نہ بھی نکل سکے پھر بھی اپنا مقام اور احترام حاصل کرلینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس طرح آدمی احساس کمتری کے منفی اثرات سے خود کو محفوظ رکھتے ہوئے ذہنی، قلبی اور روحانی اطمینان و مسرت کے حصول میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ طلبہ مثبت احساس کمتری سے اپنے آپ کو بہرور کر تے ہوئے بہترین تعلیمی کارکردگی کو پیش کر سکتے ہیں۔ اگر طلبہ اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو دور کرتے ہوئے برتری کے حصول میں مصروف ہوجائیں تب وہ زندگی میں کبھی بھی کمتر نہیں رہیں گے اور عظیم کامیابیاں ان کا مقدر بن جائیں گی۔ اپنی صلاحیتوں پر مغرور نہ ہو اور کسی کو حقارت سے مت دیکھو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کے برا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔“(مسلم)۔ ہم اپنی صلاحیتوں کو اپنی شخصیت کے سنوارنے کے ساتھ دوسروں میں عزت نفس کے جذبہ کو فروغ دینے کے لیے استعمال کریں تب ہی ہم ایک صحت مند معاشرے کو تشکیل دے سکتے ہیں۔ احساس کمتری کو کچلنے کی آج اس لیے بھی سخت ضرورت ہیکہ اس کا دائرہ افراد سے وسیع ہوکر قوم تک پہنچ چکا ہے۔
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
***
فاروق طاہر کی گذشتہ نگارش: جدید تدریسی تقاضے اور اساتذہ کی اخلاقی و پیشہ وارانہ ترجیحات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے