افسانوی ادب کا ایک روشن ستارہ: عطیہ پروین

افسانوی ادب کا ایک روشن ستارہ: عطیہ پروین

ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں
غوث منزل، تالاب ملا ارم
رام پور 244901 یو پی،انڈیا
موبائل نمبر:91 9719316703

اردو کی خواتین قلم کاروں میں ناول اور افسانوی ادب کے افق پر ایک نام کئی دہائیوں سے جگمگا رہا ہے اور یہ نام ہے عطیہ پروین!
ان کا اصلی نام سیدہ امت الزھرا اور قلمی نام عطیہ پروین ہے اور اسی نام سے وہ بر صغیر ہندوپاک کے افسانوی ادب میں مشہور و معروف رہی ہیں۔ ضلع ہردوئی کا قصبہ بلگرام عرصۂ دراز سے مردم خیز رہا ہے۔اس سرزمین میں ملک کی کئی اہم ادبی، مذہبی، سماجی اور سیاسی شخصیات نے جنم لیا۔ یہاں کی کئی نابغۂ روزگار اور عظیم المرتبت ہستیوں کی مختلف میدانوں میں اعلا و ارفع خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔عطیہ پروین کی ولادت بھی ایک سادات گھرانے میں، اسی قصبے بلگرام میں ہوئی۔
اس زمانے میں، معاشرتی حالات، خاندانی وقار، بزرگوں کے ادب احترام، زمیں دارانہ نظام، عفت و پاکیزگی، پردے کی پابندی اور محدود سوچ و فکر کے باعث قصبے کے زمیں دار سید خاندان کی لڑکیاں اسکول، کالج یا مکتب و مدرسے کا منھ نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ بڑی بڑی پابندیاں تھیں اور بہ جبرواکراہ سب کو ان سے دوچار ہونا پڑتا تھا۔ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں کوئی لڑکی قلم چلانے اور سماج کے خلاف قدم اٹھانے کی ہمت بھی کرتی اور اپنے مجروح جذبات اور درددل کو بیان کرنے کا حوصلہ بھی دکھاتی تو سماج، گھر اور خاندان کے ڈروخوف سے، اسے یہ کام بہت خفیہ طریقے سے کرنا پڑتا۔ قلم کاری کی صلاحیتیں فطری ہوتی ہیں اور عشق و مشک کی طرح اس کی جولانیاں اور جلوہ سامانیاں بھی چھپ نہیں سکتیں۔
یہ سماج کے لاکھ پردوں اور پہروں میں بھی سامنے آتیں اور اجاگر ہوتی ہیں۔ اس لیے عطیہ پروین کا حساس اور جذباتی قلم بھی زندگی کے دکھوں، ارمانوں، جذبوں اور آنسوؤں کو کیوں، کیسے اور کب تک روک سکتا تھا کہ اس کا فیصلہ تو روز ازل میں ہو چکا تھا۔ وہ وقت آیا اور نہایت عجلت و سرعت کے ساتھ آیا اور عطیہ پروین نے محض تیرہ سال کی اس کچی عمر میں اپنا پہلا افسانہ لکھا جو گڑیوں سے کھیلنے اور گڑیا گڈے کی شادی رچانے کا دور ہوتا ہے۔ کسی بھی قلم کار کی زندگی کا یہ ایک بڑا المیہ اور بڑی جاں سوز حقیقت ہے کہ اس کو متفرق سماجی، اقتصادی، سیاسی اور خاندانی پابندیوں سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے لیکن دراصل یہ حالات و واقعات ہی ہیں جو اس کی فن کاری کو چمکاتے اور اس کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
عطیہ پروین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا رہا۔ ایک طرف گھریلو ذمہ داریاں انھیں سنبھلنے کا موقع نہ دیتیں تو دوسری طرف ان کے دل میں پڑھنے لکھنے کی شدید حسرت پنپتی رہتی لیکن وہ گھر کی بڑی بوڑھیوں کی طرف سے دیے گئے گھریلو کام کاج میں لگی رہتیں۔ ہنڈیا روٹی، کفگیر چمچہ سنبھالے طرح طرح کے کھانے اور پکوان بنانے میں مصروف رہتیں یا پھر سوئی دھاگا سنبھالے، سینے پرونے، کاج بٹن کرنے اور کرتا پاجامہ یا شلوار جمپر کاٹنے، سینے اور ترپنے میں مصروف رہ جاتیں۔ ان کا گھر اور گھرانا بھرا پرا تھا اور اس میں بہت سے لوگ تھے جن کی خدمت گزاری بہت کچھ عطیہ پروین کے ذمے تھی لیکن قدرت کو ان کے حق میں کچھ اور بھی منظور تھا۔ عطیہ پروین نے ہمت و دلیری دکھائی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے لیے نصرت و کامرانی کے دروازے کھول دیے۔ حالانکہ ان کے ارد گرد حالات صرف ایسے تھے کہ وہ اپنی کئی چچا زاد اور پھوپی زاد بہنوں کی طرح صرف باورچی خانے کا، مختلف قسم کی خوشبوؤں والا دھواں سونگھتی رہیں اور سینے پرونے میں سوئی کی نوک سے اپنی انگلیوں کو زخمی، جذبات کو مجروح اور دل کو فگار کرتی رہیں۔
عطیہ پروین کے والد کا نام سید محمد باقر حسین تھا جو انھیں بے حد چاہتے تھے اور اس چاہنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی ان کی والدہ سیدہ کنیز زھرا اپنی تین اولادوں یعنی عطیہ پروین، ان کے بھائی علی باقر عرف حسن میاں اور ننھی رضیہ کو بہت چھوٹا چھوڑ کے مالک حقیقی سے جا ملی تھیں۔ والدہ محترمہ کے انتقال کے وقت عطیہ پروین کی چھوٹی بہن رضیہ صرف نو ماہ کی تھیں اور ان کو، ان کی نانی نے پالا پوسا تھا۔عطیہ پروین کا نانیہال لکھنؤ میں ہے۔ ننھی رضیہ کے نانی کے یہاں لے جائے جانے کے بعد، ابا کے پاس یہ دونوں بہن بھائی، عطیہ پروین اور حسن میاں رہ گئے۔ ابا نے اب دونوں بچوں پر اپنا سارا پیار اور سارا وقت نچھاور کر دیا۔ ان کی انگلی بھی دکھتی تو ابا بے چین ہو جاتے۔ یوں بھی باپ اور بیٹی کی محبت بڑی جذباتی، دل گداز، شدید اور بے لوث و بے غرض ہوتی ہے۔
اپنے ابا کی ایسی چہیتی اور ایسی لاڈلی بیٹی عطیہ پروین نے ایک روز رو روکر، پڑھنے لکھنے کی اپنی خواہش کا ان سے اظہار کیا تو انھوں نے شفقت پدری سے مغلوب ہو کر ان کی پیٹھ تھپک کر اور ’میری بیٹی‘ کہہ کر ان کو تسلی دی۔ اس کے بعد ان کے بیٹے کو پڑھانے کے لیے آنے والے مولوی صاحب سے کہا: ”مولوی صاحب! میری بیٹی کو بھی آپ اسی طرح دل لگا کر پڑھائیے جیسے آپ میرے بیٹے حسن میاں کو پڑھاتے ہیں۔“
اس طرح اس کم سن عطیہ نے خوشی کے مارے کانپتے ہاتھوں سے، سینٹھے کے قلم اور مٹی کی کلھیا میں بنی سیاہی کو اپنے دل سے لگا لیا اور جی جان سے پڑھائی اور کتابوں کے مطالعہ میں لگ گئیں لیکن گردش حالات اور سماجی پابندیوں کے باعث وہ کبھی اسکول یا کالج نہ جا سکیں۔ اس کا انھیں ہمیشہ رنج و ملال اور تاسف و افسوس رہا۔ البتہ پڑھنے لکھنے کا شوق جنون کی حد تک ہو تو کوئی کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اس لیے عطیہ پروین بھی گھر پر ہی مولوی حسن صاحب سے، اپنے ابا سید محمد باقر حسین صاحب سے اور اپنے چچا زاد بھائی سید اصغر حسین عرف چھبن میاں سے، جو علی گڑھ میں پڑھتے تھے اور پھر پڑھانے بھی لگے تھے، پڑھتی رہیں اور علم و ادب کی روشنی سے اپنے دل و دماغ کو روشن و منور اور روح کو آسودہ و بالیدہ کرتی رہیں۔
انھوں نے پرائیویٹ طریقے سے کئی امتحان بھی دیے اور ان میں اچھے نمبروں سے پاس بھی ہوئیں۔ آہستہ آہستہ ان کی دادی، پھوپھی اور دوسری بزرگ خواتین نے بھی ان کی اس خود سری، ضد اور بغاوت کو قبول اور کسی حد تک برداشت کر لیا۔ یہی دور تھا کہ ان کے اندر کہانی لکھنے یا ادب تخلیق کرنے کی خواہش پلنے لگی۔ جی کی ترنگ اور من کی امنگ مجبور کرتی کہ مچلتے جذبوں اور بے طرح آتے خیالوں کو صفحۂ قرطاس پر لکھ کر روح کو آسودگی اور دل کو فرحت و انبساط سے روشناس کرایا جائے۔
عطیہ پروین کے سبھی چچا تعلیم یافتہ اور ادب نواز و ادب پرور تھے۔ ان کے ایک چچا ’منجھلے ابا‘ ادیب و شاعر بھی تھے اور کامیاب مقرر بھی۔ عطیہ پروین ذہنی طور پر ان سے بے حد قریب تھیں۔ وہ لکھا کرتے اور یہ ان کو بڑے شوق سے دیکھا کرتیں۔ ان سے ادبی موضوعات پر گفتگو اور سوالات کرتیں تو وہ بے حد خوش ہوتے۔ اپنے ناولوں کے پلاٹ اور اقتباسات سنایا کرتے تو عطیہ کو بہت اچھا لگتا۔ ان کا رجحان اور انہماک، ادب اور خاص کر افسانوی ادب کی طرف بڑھتا رہا۔ ان کے مذکورہ چچا انگریزی ناولوں کے ترجمے بھی کرتے تھے اور ان کے کئی ناول جیسے ’برف کے پھول‘ اور’شیشے کی آنکھ‘ وغیرہ شائع بھی ہو چکے تھے۔ وہ شاعری بھی کرتے تھے جسے قبول عام کی سند حاصل تھی۔ ان کا کچھ کلام اور خاص کر ان کے لکھے کچھ قصیدے آج بھی عطیہ پروین کے پاس محفوظ ہیں۔ ان کے چھوٹے چچا بھی ناول لکھتے تھے لیکن کتابوں کی طباعت و اشاعت سے انھیں کوئی دل چسپی نہیں تھی۔البتہ عطیہ پروین کے والد ادب کو تخلیق تو نہیں کرتے تھے لیکن انھیں مطالعہ کا بہت زیادہ شوق تھا۔ رات کو مطالعہ، ان کا روزانہ کا معمول تھا۔
ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ عطیہ پروین نے اپنا پہلا افسانہ محض تیرہ سال کی عمر میں لکھا تھا۔ اس کا عنوان تھا ’وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے‘۔ اس کہانی کی اشاعت کی کہانی بھی کافی دل چسپ اور قابل ذکر ہے۔ہوا یوں کہ یہ افسانہ عطیہ پروین کے ماموں علی صفدر رضوی نے ان کے صندوق سے نکال لیا اور لے جاکر اپنے وقت کے معروف افسانہ نگار رام لعل صاحب کو دکھایا جو اس زمانے میں کٹرہ ابو تراب خاں میں رہتے تھے۔ یہ لکھنؤ کا ایک مشہور محلہ ہے اور اسی میں عطیہ پروین کی نانیہال بھی ہے۔ الغرض جوہری نے نگینے کو دیکھتے ہی پرکھ لیا اور کہا کہ یہ ایک اچھا افسانہ ہے اور جب رام لعل صاحب کو یہ معلوم ہوا کہ مذکورہ افسانہ محض تیرہ سال کی ایک لڑکی نے لکھا ہے تو وہ حیرت زدہ بھی ہوئے اور انھوں نے خوشی کا اظہار بھی کیا۔ پھر ان کے ماموں سے فرمایا ”جناب! اپنی بھانجی کو قلم چلانے دیجیے، اس کو روکیے نہیں اور اس کا حوصلہ بڑھائیے۔ افسانے کے میدان میں اس کا مستقبل روشن اور تابناک نظر آتا ہے۔“
اس طرح ان کے ماموں نے بھی عطیہ پروین کا حوصلہ بڑھایا، ہمت بندھائی اور خاندان والوں سے ٹکر لی کہ اس لڑکی کو قلم چلانے دیا جائے لیکن افسانہ نگاری کے لیے ابا کی بھی اجازت ضروری تھی۔ ان کے سامنے بات آئی تو انھوں نے اجازت تو دے دی لیکن یہ بھی کہا کہ کوئی الٹا سیدھا افسانہ، نہ لکھنا اور شریفانہ انداز اختیار کرنا۔ ابا کی تشویش، مشورہ، خوشی اور پھر اجازت! ان سارے مراحل سے عطیہ پروین ضرور گزریں لیکن انھوں نے ابا کی نصیحت کو کبھی فراموش نہیں کیا اور ہندوپاک کے نسائی ادب میں، بہ اعتبار زبان و بیان، موضوع و پلاٹ، اسلوب و طرز ادا ہر لحاظ سے اپنے افسانوں اور ناولوں کو پاکیزہ اور صاف ستھرا رکھا اور کبھی کوئی ایسی چیز نہ لکھی جو ننگ و عار کا باعث بنے یا شرمندگی کی موجب ہو۔ اس طرح پاکیزہ اسلوب نگارش اور پاکیزہ انداز بیان اختیار کرکے عطیہ پروین نے قلم چلانا شروع کر دیا۔
رسائل کے ذریعہ آہستہ آہستہ ان کو ادب میں اہم مقام ملنا شروع ہو گیا۔ ہندستان اور پاکستان کے ادبی اور سماجی رسائل میں ان کے افسانے شائع ہوئے۔ ڈائجسٹ اور خاص کر خواتین کے رسائل میں ان کے ناولوں کی قسط وار اشاعت ہوئی۔ عطیہ پروین نے اب تک ٣٥ ناول لکھے ہیں۔ ان کے زیادہ تر ناول نسیم بک ڈپو، لکھنؤ سے شائع ہوئے۔ ایک ناول اردو پبلشرز اور دو ناول گوپال متل نے شائع کیے۔ اس کے علاوہ دو ناول رنگ محل پبلی کیشنز سے بھی شائع ہوئے۔ عطیہ پروین کے ناول، قارئین میں کافی پسند کیے جاتے ہیں اور خاص کر خواتین میں بہت مقبول رہے ہیں۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ ان کے ناول معاشرے کے ماحول اور حالات، گھریلو مسائل اور گھر آنگن کے دردوکرب کو اجاگر کرتے ہیں۔
عطیہ پروین کے چھ ناولوں کا ہندی اور پنجابی میں ترجمہ ہو چکا ہے اور یہ سبھی ناول’اجیت سماچار‘چنڈی گڑھ سے شائع ہو چکے ہیں۔ ہندی ادب کے قارئین نے بھی ان ناولوں کو کافی پسند کیا۔ ان ناولوں کے نام اس طرح ہیں – ۱۔جس کو سمجھے تھے مسیحا ۲۔بہاریں پھر بھی آتی ہیں ۳۔یہ رشتے دل کے ۴۔پیار کا بندھن ٹوٹے نا ۵۔رگ جاں سے قریب ۶۔لو پھر بہار آئی۔ ان ناولوں کے علاوہ پنجاب کیسری نے بھی ان کے دو ناول: ڈھل گئی شام غم اور ناظمہ ہندی میں ترجمہ کرکے شائع کیے۔ ان ناولوں کو بھی قارئین نے پسند کیا۔
عطیہ پروین نے اب تک تقریباً ڈھائی سو افسانے لکھے ہیں جو ہندوپاک کے مشہورومعروف رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ انھوں نے طنزومزاح اور انشائیہ نگاری میں بھی اپنے قلم کے جوہر دکھائے۔ احمد جمال پاشا نے اپنے زمانے میں لکھنؤ کے مشہور و معروف اور مقبول عام اخبار ’اودھ پنچ‘ کا دوبارہ اجرا کیا تو بہت سے قلم کاروں کے ساتھ عطیہ پروین سے بھی اصرار کیا کہ وہ اس پرچے کے لیے مزاحیہ مضامین لکھیں۔ اس پر عطیہ پروین نے اپنے ہی خاندان کی ایک بزرگ خاتون کو مرکزی کردار بنا کر اور ان کی بھولی بھالی و تصنع سے دور باتوں کو موضوع کی شکل میں پیش کرتے ہوئے ایک مزاحیہ مضمون لکھا۔ اس کا عنوان تھا-”چچی چھمن نے خط لکھایا“۔
اردو طنزومزاح میں مرکزی کردار کی شکل میں چچا چھکن، شیخ چلی وغیرہ بھی کافی مشہور رہے ہیں اور کئی قلم کاروں نے مختلف موضوعات کے تحت طنزیہ و مزاحیہ مضامین اور انشائیے لکھے لیکن چچی چھمن کا نسوانی کردار عطیہ پروین کے ذریعہ اردو میں پہلی بار متعارف ہوا تھا۔ بہرحال یہ مزاحیہ کافی پسند کیا گیا اور قارئین کے اصرار پر چچی چھمن کو ہی مرکزی کردار کی شکل میں پیش کرتے ہوئے عطیہ پروین نے تقریباً تیس مضامین لکھے اور یہ سب کے سب لکھنؤ کے علاوہ ماہنامہ تحریک دہلی اور پاکستان کے بھی کئی رسالوں میں شائع ہوئے۔
قانون قدرت کے مطابق زندگی دو نفوس یعنی زوجین کے مابین تعلق اور رشتوں سے گزاری جاتی ہے لیکن اگر کبھی ان میں سے کوئی ایک، زندگی کا ساتھ چھوڑ جائے تو وہ دونوں جو باہم شیروشکر اور ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہوتے ہیں، ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ زندگی اجیرن اور دشوار ہو جاتی ہے، راہیں مسدود اور محدود ہو جاتی ہیں۔ زندگی کا سفر مشکل اور کرب آمیز بن جاتا ہے اور زندگی کے بیشتر خواب چکنا چور اور منہدم ہو جاتے ہیں۔ قلم کاروں کے لیے یہ دکھ، دوسروں سے سوا ہوتا ہے کیونکہ وہ عام لوگوں کے مقابلے زیادہ حساس، زیادہ نازک دل اور زیادہ ٹوٹے بکھرے ہوتے ہیں۔
عطیہ پروین نے بھی اپنے قلب حزیں پر شوہر کی جدائی کا ایک شدید دکھ اٹھایا تھا۔ شوہر کے انتقال کے بعد ان کی زندگی بھی شدید ذہنی دردوکرب اور دلی رنج و الم کا شکار رہی۔ زندگی کے سب سے نزدیکی ساتھی کے بچھڑنے کا دکھ، اس کی یادیں، اس کی باتیں، اس کے جذبات و خیالات، اس کی خوشی و غم کے لمحات، گھر کی ہر شے سے مترشح اور ظاہر ہوتے نظر آتے ہیں۔ نظر سے دل تک اور دل سے رگ جاں تک، گزرے ہوئے پل، پلکوں کو بھگوتے اور دل کو اداس کر جاتے ہیں۔ اس ساتھی کی جدائی کے زخموں کا اندمال آسانی سے نہیں ہوتا۔ عطیہ پروین بھی اس صدمہ سے اچھوتی اور ان چھوئی نہ رہیں۔ اس جا ں گداز اورجانکاہ دکھ نے انھیں زندگی سے بیزار، مضمحل، پژمردہ اور کبیدہ خاطر کر دیا اور کچھ عرصے تک ان کا لکھنا لکھانا موقوف اور بند رہا لیکن ارسطو کے مطابق آدمیman is human being ہے۔ وہ اپنے لیے نہ بھی چاہے تب بھی اسے دوسروں کے لیے جینا پڑتا ہے۔
زندگی کتنی ہی مشکل سہی، پروردگار عالم کا ایک سب سے قیمتی اور سب سے خوب صورت عطیہ ہے۔ اس کو یوں ہی برباد اور نیست و نابود کرنے کا کسی کو حق نہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ بندے کو غم دیتا ہے تو اس کا مداوا بھی فرما دیتا ہے، رنج و محن دیتا ہے تو صبر کی دولت سے بھی نوازتا ہے اور یوں زندگی اپنے پورے حسن و جمال کے ساتھ اپنی انھی راہوں پر گامزن ہو جاتی ہے۔ اگرچہ راستے دامن دل کو کتنے ہی کانٹوں میں الجھائیں: ان ہی راستوں نے جن پر تم تھے ساتھ میرے /مجھے روک روک پوچھا تیرا ہم سفر کہاں ہے
بہرحال اپنے بچوں کی محبت اور وقت کے مرہم نے عطیہ پروین کو پھر زندگی کی طرف لوٹا دیا اور انھوں نے اسی حوصلے اور جذبے کے ساتھ قلم کو پھر سنبھال لیا۔ یہ بات بغیر کسی تکلف اور تصنع کے کہی جا سکتی ہے کہ عطیہ پروین نے بے شبہ بہت کچھ لکھا ہے اور وہ بھی بے تکان اور بنا کسی لمبے وقفے کے لکھا ہے۔ جیسا کہ ہم گزشتہ سطروں میں لکھ چکے ہیں ان کی تخلیقات ہندستان کے علاوہ پاکستان میں بھی کثیر تعداد میں شائع ہوئی ہیں۔ اپنے شوہر کے انتقال کے بعد انھوں نے رائے بریلی میں ہی مستقل سکونت اختیار کر لی تھی اور چونکہ یہ شہر بھی ادبی اہمیت کا حامل ہے اس لیے یہاں بھی لکھنے کے اچھے مواقع میسر آئے۔ وہ ادبی محفلوں میں بھی شرکت کرتی رہیں اور ان کے قلم اور سوچ و فکر کو نئے نئے موضوعات بھی ملتے رہے لیکن زندگی کے اس موڑ پر ابھی ان کی قسمت میں کچھ اور بھی لکھا تھا اور وہ یہ کہ کچھ ناگفتہ بہ حالات اور چند ناگزیر وجوہ سے انھیں اپنی سسرال کی زمین پر واپس آنا پڑا۔ محترمہ عطیہ پروین نے اس بابت اور وہاں کے موجودہ حالات کے بارے میں، اپنے ایک خط میں راقم کو کچھ اس طرح لکھا تھا:
”ردولی کے قریب چھوٹا سا گاؤں، زمیں داروں کا گاؤں، مگر اب زمیں دار نہیں رہے جو ہیں وہ بھی اپنی بچی کھچی آن، بان، شان لیے، باقی رہ گئی زمینوں کو لیے بیٹھے زندگی کے دن گزار رہے ہیں۔ زمانہ بدل چکا ہے، ماحول بدل چکا ہے، کوئی ادبی ماحول نہیں ہے، کوئی ادب نواز نہیں ہے۔ کچھ روز تک میرا قلم چپ چاپ پڑا اپنی قسمت پر روتا رہا۔ میرے کچھ قلمی دوستوں نے، پر خلوص ساتھیوں نے مجھے مجبور کیا کہ میں قلم اٹھاؤں۔ میں نے ہمت کی اور پھر قلم سنبھالا اور لکھنے لگی۔ یہاں بھی میری ڈاک آنے لگی جس کو لوگ حیرت سے دیکھتے تھے۔
ڈاکیہ کہتا: ’سید پور کی جندگی (زندگی) میں پہلی بار کہیں باہر کے ملکوں سے چٹھیاں آتی ہیں۔ اتی ڈاک تو آج تک یہاں نہیں آئی۔‘ بہرحال اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں اور دعا کرتی ہوں انگلیوں میں طاقت رہے قلم پکڑنے کی، آنکھوں میں روشنی رہے اپنی تحریر کو خود پڑھنے کی۔لکھ رہی ہوں، لکھتی رہوں گی۔ جب تک دم میں دم ہے اردو کی خدمت کرتی رہوں گی۔ نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پروا۔“
موجودہ دور میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اب ناول کا زمانہ گزر گیا اور قاری کے پاس،اس کو پڑھنے، اسے منھ لگانے یا اہمیت دینے کا وقت نہیں اور یہ کہ آج مختصر افسانے کی مقبولیت کا سبب وقت کی تنگی ہے اور اس کا شکار، قاری اور قلم کار دونوں ہیں لیکن یہ ایسے بے مقصد اور ناقابل قبول دعوے ہیں، جن کو تحریری شکل دینے سے پہلے کسی طرح کی تحقیق کی زحمت نہیں کی جاتی۔سنی سنائی باتوں کو اپنی تحریر کا حصہ بنانا، غیر ذمے دارانہ دعووں کو سند عطا کرنا اور اپنی تحریر کو ہی حتمی اور قطعی سمجھ لینا جانب دارانہ اور غیر ذمہ دارانہ فعل ہے۔ راقم ایسے سارے دعوؤں کو صحیح نہ سمجھتے ہوئے قبول کرنے سے قاصر ہے۔
اس کی وجہ اور جواز اور مجاز کیا ہے؟ وہ، یہ ہے کہ میں اس وقت ہندستان میں ١٩٤٧ء سے لے کر آج تک شائع ہوئے افسانوی مجموعوں اور ناولوں کا ایک طویل و بسیط اشاریہ ترتیب دے رہا ہوں۔ اس کے لیے مختلف لائبریریوں، متعدد رسالوں، ان گنت کتابوں اور ملک کے بے شمار قلم کاروں سے رابطہ قائم کیا گیا ہے اور ان نتائج سے میں خود حیران ہوں کہ افسانوی مجموعوں کے مقابلے ناولوں کی اشاعت کہیں زیادہ ہوئی ہے۔ قارئین سے یہ بھی عرض کرنا ہے کہ افسانوی مجموعوں کے دس ہزار ناموں پر مشتمل اس اشاریہ کی پہلی جلد ان شاء اللہ جلد ہی منظر عام پر آئے گی۔
بازار کا اصول یہی ہے کہ جس چیز کی جتنی مانگ ہوتی ہے اتنی ہی اس کی پیداوار بڑھتی ہے۔ اس لیے راقم کا سردست اب تک کا تجربہ یہی ہے کہ ناولوں کی تعداد افسانوی مجموعوں کے مقابلے کسی طرح بھی کم نہیں ہے۔ یہ نتائج تحقیق سے حاصل ہوئے ہیں سنی سنائی باتوں سے نہیں۔ ناول آج بھی لکھے جا رہے ہیں اور قارئین ان کو پڑھ بھی رہے ہیں۔ ناولوں کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ خود عطیہ پروین نے بھی اب تک ٣٥ ناول لکھے ہیں اور یہ سب شائع بھی ہو چکے ہیں۔ ان ناولوں کے نام اس طرح ہیں: ۱۔شہلا ۲۔چندا ۳۔مہ لقا ۴۔زرتاج  ۵۔ربو آپا ۶۔خاک ہو جائیں گے ہم ۷۔پلکوں تلے ۸۔پھول کھلتے ہیں ۹۔آنگن کی چاندنی ١٠۔لو پھر بہار آئی ۱۱۔اک شمع رہ گئی ہے ١٢۔بہاریں پھر بھی آتی ہیں ١٣۔دل کے دروازے ١٤۔ترے کوچے سے ہم نکلے ١٥۔اگر اور جیتے رہتے ١٦۔کسی کے ہو گئے جب تم  ١٧۔ناگن بن گئی رات ١٨۔ناظمہ ١٩۔خوشنما ٢٠۔ترا غم رہے سلامت ٢١۔شام آرزو ٢٢۔نگاہوں کے چراغ ٢٣۔یہ رشتے دل کے ٢٤۔راحتیں اور بھی ہیں ٢٥۔رگ جاں سے قریب ٢٦۔ڈھل گئی شام غم ٢٧۔جس کو سمجھے تھے مسیحا ٢٨۔رگ سنگ ٢٩۔دل کچھ اس صورت سے تڑپا ٢٠۔تیری آنکھوں کے دیے ٣١۔تمہارے لیے ٣٢۔رہے تیری انجمن سلامت ۳۳۔پھر بہاروں نے چوم لی چوکھٹ ٣٤۔چھوٹے سرکار ٣٥۔محبوب میرے۔
عطیہ پروین کے کئی ناولوں کے نام غالب اور چند دیگر مشہور شعرا کے معروف اور زبان زد خاص و عام مصرعوں سے اخذ کیے گئے ہیں۔ ان کے چار ناولوں کو اتر پردیش اردو اکادمی نے اعزاز و انعام سے نوازا ہے۔ انعام یافتہ ان ناولوں کے نام اس طرح ہیں -۱۔چندا ۲۔مہ لقا ۳۔زرتاج ۴۔خاک ہو جائیں گے ہم۔
انھوں نے اپنا ایک افسانوی مجموعہ ’یہ میرا ظرف دیکھ‘  ١٩٨٦ء میں فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی اتر پردیش، لکھنؤ کے جزوی مالی تعاون سے خود شائع کرایا ہے۔ اس میں ان کے ١٩ افسانے شامل ہیں۔ جن کے نام اس طرح ہیں -وہ ایک تیری نشانی، مجھے نہ پکارنا، نوحۂ غم ہی سہی، آن، پچھلا دروازہ، لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا، گھبرا کے محبت کر بیٹھے، گڑیا، جو ہم نے داستاں اپنی سنائی، اگر اور جیتے رہتے، موم کی چٹان، لہو پکارے گا، گر تو برا نہ مانے، بہو کہتی ہے، یہ میرا ظرف دیکھ، کہاں ہو، کھول دو دروازہ، کانٹوں سے محبت کر لو، جلاتے چلو چراغ۔
عطیہ پروین نے اپنے ناولوں کی طرح اس افسانوی مجموعہ کے کئی افسانوں کے نام بھی مشہور شعروں سے مستعار لیے ہیں۔ وہ نثر کے ساتھ ہی شعری رجحان بھی رکھتی ہیں۔ اسی ذوق و شوق کے باعث انھوں نے کئی نظمیں بھی لکھی ہیں جو شائع بھی ہو چکی ہیں۔البتہ ان میں سے چند نظمیں بچوں کے لیے مخصوص ہیں۔
کہانی بہ جبر و کراہ لکھی جاتی ہے یا وہ خود قلم کار سے اپنے آپ کو لکھواتی ہے، یہ بحث معنی خیز بھی ہے، کسی حد تک ضروری بھی اور دل چسپ بھی۔ جس طرح کوئی حقیقت چھپائے نہیں چھپ سکتی اسی طرح کہانی بھی اپنے آپ کو لکھوا کر رہتی ہے۔ وہ قلم کار کے ذہن و دل پر ایسا تاثر اور دباؤ ڈالتی ہے کہ اسے معرض وجود میں لانے یا افسانے کا پیکروپیرہن عطا کرنے کے سوا قلم کار کے پاس کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ اس ضمن میں راقم کا بھی یہی تجربہ ہے۔ خود اپنے تخلیقی سفر، گردوپیش کے ماحول، افسانوں کے موضوعات، سماجی پس منظر کی بابت عطیہ پروین اپنے افسانوی مجموعہ ’یہ میرا ظرف دیکھ‘ کے پیش لفظ میں لکھتی ہیں:
”میں کیوں لکھتی ہوں یہ بتانا ذرا مشکل ہے۔ میرا دل اور میرا قلم مجھ سے لکھواتا ہے۔ میرے اندر کوئی تحریک پیدا ہوتی ہے جو مجھے لکھواتی ہے۔ میں نے اردو ادب کی اپنے خیال میں کافی خدمت کی ہے۔ ایک لمبے عرصے سے لکھ رہی ہوں۔ اپنا پہلا افسانہ میں نے ١٣ برس کی عمر میں لکھا تھا اور اس فضا میں، اس ماحول میں، اس پابندی میں جہاں کہ لڑکیوں کا لکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ بڑی ڈانٹ پڑی پھر بھی میرے دل میں یہ خواہش کروٹیں لیتی رہی کہ کچھ لکھوں…..پھر میری بڑھتی ہوئی دیوانگی کو دیکھ کر میرے والد نے، خدا ان کو جنت عطا کرے، مجھے قلم اٹھانے کی اجازت دے دی۔“
ہم لکھ چکے ہیں، عطیہ پروین نے اب تک تقریباً ڈھائی سو افسانے لکھے ہیں۔ وہ اپنے افسانوں کے کردار اور موضوعات، اپنے آس پاس کے ماحول اور سماج کے مختلف طبقوں سے اخذ کرتی ہیں۔ ان کے افسانوں کا کوئی کردار مافوق البشر نہیں بلکہ حقیقی زندگی میں چلتا پھرتا کردار ہے۔ ان کے تقریباً سبھی افسانے معاشرتی حالات کے ارد گرد گھومتے ہیں۔ عورت کی عزت و اہمیت، اس کے رنج و الم، اس کی خوشی و مسرت، اس کے دکھ اور درد، اس کی عادات و خصائل، اس کے مسائل و مصائب، اس کا استحصال و اعتبار، اس کی محبت و وارفتگی، اس کی شفقت و جاں نثاری، اس کی خود سپردگی اور وفاداری، سماجی رسوم اور رواج، خاندانی رقابت و رفاقت، گھریلو جھگڑے اور قضیے، گھر آنگن میں سسکتی خوشیاں اور مسکراہٹیں، دبی کچلی آہیں اور سسکیاں، اس کی شرم اور حیا، اس کی لجاجت اور شرافت، اس کی عصمت اور عفت، عورت پر کیے جانے والے ظلم اور جور، اس کی پاکیزگی اور طہارت، عقد و نکاح، طلاق و جدائی، جہیز نہ دینے یا کم دینے سے پیدا شدہ مسائل، ظلم و زیادتی سے جلائی جانے والی دلہنیں، سہاگ کے سکھ کو ترستی عورتیں، پردیسی پیا کی راہ تکتی پیاسی آنکھیں، الھڑ جوانی کے قہقہے، کچی عمر میں محبت کا روگ، کنوارے ارمانوں کا سوزوگداز، غرض سماجی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس پر عطیہ پروین نے اپنے ناولوں اور افسانوں میں کھل کر نہ لکھا ہو۔ خلوص و محبت ان کی تحریر کا بنیادی وصف ہے۔
ان کی زبان نہایت شائستہ اور مہذب ہے۔ وہ عام گھروں میں بولی جانے والی زبان استعمال کرتی ہیں جس میں کسی تصنع کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کا اسلوب نگارش بھی سادہ اور بہترین ہے اور کرداروں کی زبان، پلاٹ اور ماحول کے مطابق ہی اختیار کیا گیا ہے۔ وہ اس بات کو جانتی بھی ہیں اور اس کی نمائندگی بھی کرتی ہیں کہ عورت اس کائنات کی سب سے بہتر تخلیق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔
لیکن کس انسان کو…..؟
ہر انسان اشرف المخلوقات میں شامل نہیں کیونکہ قرآن عظیم میں پروردگار عالم نے کچھ انسانوں کو تو جانوروں سے بھی بدتر قرار دیا ہے۔ لہٰذا انسانوں میں اشرف و مشرف، اقرب و مقرب، اطہر و مطہر اور اعلا و افضل صرف وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے احکام اور اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و اعمال کی بے چون و چرا، پیروی کرتے ہیں۔ بے شبہ، لاریب انسان اللہ تعالیٰ کی شاہ کار تخلیق ہے اور کائنات اصغر کی حیثیت رکھتا ہے اور ایسا ہی انسان ملک و قوم اور معاشرہ و مذہب کی خدمت کرکے محبوب رب اور افضل الملائک بنتا ہے۔ اعمال کے لحاظ سے پروردگار عالم کی نظر میں عورت اور مرد، دونوں برابر ہیں۔ لہٰذا قلم ایک امانت ہے اور اس کا صحیح استعمال ہی اس کا حق ادا کرتا ہے۔ عطیہ پروین نے بھی اپنے افسانوں اور ناولوں میں ایک نیک مقصد کو پیش نظر رکھا ہے۔ اپنے افسانوی مجموعہ’یہ میرا ظرف دیکھ‘ میں وہ، یہ بھی لکھتی ہیں:
”یہ ضرور ہے کہ کچھ عورتیں اپنے آپ کو اس اونچے مقام سے گرا کر نیچے چلی آتی ہیں۔ میں انھیں اٹھانے اور ان کے اندر کی اچھی عورت کو جگانے کی کوشش کرتی ہوں۔ میرے ہر افسانے میں کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔“
اپنی انا اور آن کی خاطر انسان کیا نہیں کرتا۔ درمیانی طبقہ تو چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس جانے والی شے کا نام ہے۔ مفلسی اور غربت کیسے دکھ دیتی ہے۔ غم و اندوہ کے عالم میں دل سے اٹھی ہوک ہونٹوں پر آنے کے بجائے آنسوؤں کی شکل میں آنکھوں سے ٹپک جاتی ہے۔حسرت و عسرت کون سے رنگ نہیں دکھاتی: پیرہن سے مفلسی ظاہر تھی اس لیے /مہمان کے قریب سے بچے ہٹا دیے
اس تناطر میں عطیہ پروین کے ایک افسانے ’آن‘ کا یہ دل گداز اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
”میری نظر باورچی خانے کے کھلے دروازے پر پڑی۔ بڑا سا چولہا ٹھنڈا پڑا تھا لیکن تین بڑی بڑی پتیلیاں اس کے اوپر ڈھکنوں سے بند رکھی تھیں۔ میری چھوٹی بہن سلمیٰ نے بڑی رازداری کے ساتھ مجھے بتایا تھا کہ بی بی جی بے چاری کیا کرتی ہیں۔ چولہے پر دو تین پتیلیاں پانی سے بھر کر چڑھادیتی ہیں۔ کوئی آتا جاتا تو دکھانے کے لیے بار بار چولہے کے پاس جا کے پتیلیوں میں چمچہ چلانے لگتی ہیں تاکہ وہ سمجھے کھانا پک رہا ہے۔“ (ص:۵۴)
عطیہ پروین نے اپنے قلم کی جولانیاں ایک اور صنف میں بھی دکھلائی ہیں۔ اس صنف کا نام ہے ’ادب اطفال‘۔انھوں نے بچوں کے لیے بہت کچھ لکھا ہے۔ ان کی بے شمار کہانیاں ماہنامہ کلیاں لکھنؤ، ماہنامہ کھلونا دہلی، ماہنامہ سیپ پاکستان اور بچوں کے دیگر کئی رسائل میں شائع ہوئیں۔ ان میں سے کئی رسالے اب بند ہو چکے ہیں لیکن بچوں کے لیے کئی رسالے اب بھی بڑی پابندی سے شائع ہو رہے ہیں اور عطیہ پروین آج کل بھی بچوں کے ادب پر زیادہ سے زیادہ دھیان دیتے ہوئے بہت آسان زبان میں بچوں کے لیے دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں لکھ رہی ہیں۔ ماہنامہ ’بچوں کی نرالی دنیا‘ دہلی میں بھی ان کی کہانیاں برابر شائع ہوتی تھیں لیکن اب(٢٠٠٤ ء میں)یہ خوب صورت رسالہ بند ہو چکا ہے۔
البتہ بچوں کے لیے شائع ہونے والے وہ دوسرے رسالے جن میں وہ مستقل شائع ہو رہی ہیں ان میں سے چند کے نام یہ ہیں -اچھا ساتھی، ھلال، نور، فنکار نو، گلشن اطفال، خیر اندیش، گل بوٹے، بچوں کی دنیا، امنگ، پیام تعلیم، گلدستۂ تعلیم وغیرہ۔ بچوں کے لیے عطیہ پروین کی کئی کتابیں رحمانی پبلشرز نے شائع کی ہیں۔ ان میں سے چند کتابوں کے نام درج ذیل ہیں -۱۔خوش قسمت کون ۲۔اللہ جو کرتا ہے ۳۔بھکاری بادشاہ ۴۔چاند بی بی ۵۔رضیہ سلطانہ ۶۔شہزادی جہاں آرا بیگم ۷۔شہزادی یاقوت۔ان کی کتابوں میں سے ایک کتاب ’سونے کی تجوری‘ کو اتر پردیش اردو اکادمی، لکھنؤ سے ایوارڈ مل چکا ہے۔
اردو ادب کو اس عظیم فن کارہ پر ناز ہے۔ وہ آج کل کی ادبی سیاست سے کوسوں دور ہیں۔ جوڑ توڑ کرکے اپنے اوپر خوشامدی مضامین لکھوانے کو بھی وہ پسند نہیں کرتیں۔ کوئی فن کار گردش حالات اور وقت کے الٹ پھیر کے باعث بھلے ہی معدوم ہو جائے لیکن اس کا فن، اس کی تحریر، اس کا تخلیق کردہ ادب، اس کے تصورات و خیالات، تخلیقات یا کتابوں کی شکل میں باقی رہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں اور عطیات میں سے ایک بڑا عطیہ شہرت و ناموری بھی ہے۔ قارئین کی شکل میں، ملک و بیرون ملک میں، عطیہ پروین کے پرستاروں اور مداحوں کی کمی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ وہ عطیہ پروین کو صحت و تندرستی سے نوازے اور اصلاح معاشرہ کی نیت سے، وہ ایسا ادب تخلیق کرتی رہیں جو صدقۂ جاریہ کی شکل میں، دونوں جہان میں ان کی کامیابی و کامرانی کا موجب بنے،آمین!
(٢٦/مئی ٢٠١٥)
***
صاحب مقالہ کی گذشتہ نگارش:’دو گز زمین‘ (افسانوی مجموعہ) اور ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے