امتزاجی اسلوب کا توانا شاعر: منصور خوشتر

امتزاجی اسلوب کا توانا شاعر: منصور خوشتر

ڈاکٹر مستفیض احد عارفی
  اسسٹنٹ پروفیسر 
ایل ایس کالج، مظفر پور ، بہار، ہند 

شعری ادب میں اسلوب کی بڑی اہمیت ہے اور اسلوب سے شخصیت کا رشتہ بڑا گہرا تسلیم کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ شخصیت ظاہری اور باطنی امتزاج کیمیائی سے تشکیل پاتی ہے۔ یہ جغرافیائی عوامل، علاقائی عوامل، شعور و آگہی، معیار و مزاج، سیاسی، تہذیبی اور ادبی رجحانات کے اثرات سے وجود میں آتی ہے۔ ادب میں نوعیت کے اعتبار سے اس کی دو صورتیں ہیں۔ نثری ادب اور شعری ادب۔ ان دو صورتوں کو وجود بخشنے والا انشا پرداز فن کار اور شاعرکہلاتا ہے۔ اسالیبی تفہیم کے تناظر میں ظاہری اور باطنی امتزاج کیمیائی کو سائنٹفک طریقہ سے قطعیت کے ساتھ جانچا اور پرکھا جاتا ہے۔ شاعر کی شخصیت، طرز نگارش یا انداز بیان کو پرکھنے کے لیے یہ لازمی فریضہ ہے۔ یہی وہ تکنیک ہے جس سے صاحب اسلوب شاعر اور اس کے خصائص کا پتہ معلوم کیا جاتا ہے۔
عنوان کے پیش نظر منصور خوشتر ایک نوجوان شاعر کا نام ہے۔ جو خود دار ذمہ دار، علم پرور، صحافی اور مختلف ادبی سرگرمیوں سے دو چار رہنے والا شخص ہے۔ شعری ادب کے حوالے سے خوشتر سے متعلق اہل ذوق کا نقطۂ نظر عیاں ہے، رسائل میں اور اخبار میں دیکھنے کو ملا ہے۔ حالانکہ یہ ان کے شعری ماحصل کا پورا پورا احتساب نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ متھلانچل کی اس زرخیز وادی سے ہمارے بیچ کا نوجوان شاعر اس قدر حسّاسیت کے ساتھ شعر کہتا ہے تو اس کا جواز کیا ہے؟ اس لیے کہ ان کی شاعری میں عصری شعور، تجرباتی کیفیت کا پختہ معیار، ارضی حقائق سے متعلق اتار چڑھاؤ، معرفت الہٰی کے آداب، حسن و عشق کی جدت طرازی، لفظیاتی تراش اور تخلیقی رچاؤ کی عمدہ مثال ملتی ہے۔ ملاحظہ ہو چند اشعار:
محبت کرنے والوں کا الگ اک اپنا مذہب ہے
وہ راہ عشق میں سود و زیاں دیکھا نہیں کرتے
کس لیے ان کے اثر میں فرق ہے
ایک ہے مسجد کی مندر کی ہوا
تو کسی کی بیاض ہے جیسے
ہر غزل انتخاب کیا کہنا
عشق صدجامہ چاک اپنی جگہ
حسن زیر نقاب کیا کہنا
ہم کو لکھنی تھی اک غزل لیکن
اپنے غم کا حساب لکھ بیٹھے
تیری قامت کی بات جب آئی
حسن کا اک نصاب لکھ بیٹھے
تم کو اپنا شمار کرتے ہیں
دیدہ و دل نثار کرتے ہیں
ان کا مشق ستم رہے جاری
جن کو ہم دل سے پیار کرتے ہیں
ہم بناتے ہیں پھول کانٹوں کو
آپ پھولوں کو خار کرتے ہیں
کوئی ایسا تو گلستاں ہوتا
جن میں اپنا بھی آشیاں ہوتا
حوصلہ ہے نہ قوت پرواز
زیر پا ورنہ آسماں ہوتا
سینکڑوں قتل کیا جس نے وہی منصف ہے
شہر کا ہے تیرے دستور نرالا کیسا
کچھ ایسی اب زمانے کی روش ہے
کہ اندر جو بھی ہو باہر ہے بدلا
سڑک پر چلنے والے کو نہیں اتنی سی مہلت
تڑپتی لاش کو بھی دیکھ کر رکتا نہیں ہے
اس میں بھی کچھ سازش ہوگی دشمن کی
آپ ہمارے گھر آخر کیوں آئیں گے
بس اسی کو محبت سمجھتے ہیں وہ
گاہے گاہے میرے گھر جو آتے رہے
عام لوگوں میں وہی فرد ہے اونچا کیسا
ہے وہی شخص مگر گھر میں کمینہ کیسا
جس میں خوئے زمانہ ہو اس سے
رشتہ کچھ استوار کیا کرتے
فیس بک اور ہے ٹیوٹر کا یہ زمانہ آیا
کتنے اقدار جو اعلیٰ تھے وہ ہم سے گذرے
مذکورہ اشعار کوئی جادو گری اور کرشمہ اندازی کی مثال نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہے اور منصور خوشتر کا شعر ی مجموعہ”کچھ محفل خوباں کی“ سے ماخوذ ہے۔ یہ ان کی پہلی کاوش ہے۔ اسلوبیات سے متعلق ان کی شاعری اپنے قاری سے پڑھوانے کی توانائی رکھتی ہے۔ اسلوب، اسلوبیات کی ایک اکائی ہے اوریہ اکائی موضوعی، معروضی، معنوی، لفظی اور مفروضی کسی بھی پیکر سے متعلق قاری کو توانائی عطا کرتی ہے۔ اس سطح پر خوشتر کی شاعری ہمیں امتزاجی اسلوب کے پیکر سے دو چار کراتی ہے۔ کہنے کو تو اسالیب کا اجتماعی پیکر ہی شاعری کی پہچان ہے۔ لیکن امتزاجی اسلوب کیا ہے؟ اور خوشتر کی شاعری اس سے کس حد تک متعلق ہے اس کی تفصیل امتزاجی اسلوب کی تعریف طے کرلیے جانے میں مضمر ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اجتماعی اسلوب کی شمولیت ہی امتزاجی اسلوب ہے، جو مختلف اسلوب کی آمیزش سے تشکیل پاتا ہے۔ اس میں شاعر اپنے ذمہ کچھ بھی التزام نہیں کرتا۔ مثلاً موضوعات، لفظیات، معنیات اور برتنے کا کوئی خاص وصف اپنے لیے مختص نہیں کرتا۔ جیسا کہ اردو شاعری میں شہرۂ آفاق شعراء کی پہچان ہے۔ حالانکہ اسّی عیسوی کے بعد کی شاعری میں پہچان بنانے والے شاعر نے ان تمام بندھنوں کو توڑا ہے۔ جو کلاسیکی اور نوکلاسیکی ترقی پسندی کا طرۂ امتیاز تھا۔ ان لوگوں نے موضوعات، معنیات، استعارات و تشبیہات اور تراکیب لفظی کو برتنے میں نارم کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ نارم شعری لوازم کو برتنے میں انحراف و اختلاف کی صورت کو کہتے ہیں۔ منصور خوشتر نے بھی اس سے استفادہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امتزاجی اسلوب کے اوصاف سے متصف ہوکر خوشتر اپنے خصائص سے بے پروا نظر آتے ہیں۔ یہی بے پرواہی شاعری کا حسن ہے، امتزاجی اسلوب کا وصف ہے، اور منصور خوشتر اپنے اسلوب کا توانا شاعر ہے۔ میں اپنی بات کو قطعیت اور معروضیت کی سطح پر بروئے کار لانے کے لیے موضوعات، لفظیات، معنیات اور استعارات و تشبیہات سے متعلق چند اشعار پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں:
بے وفا لوگوں سے خوشتر مت ملو
پتھروں سے شیشے ٹکراتے ہو کیوں؟
میز بانی پہ تیری آنچ نہ آنے دوں گا
تم بناکے کبھی دیکھو مجھے مہماں اپنا
زندہ رہنے کے لیے تھوڑی محبت چاہئے
اس سے پہلے ہے مگر لازم کہ صحت چاہئے
غم نہیں اس کا، محبت میں نہیں کچھ پا سکا
مطمئن اس پر ہوں میں نے کچھ گنوایا بھی نہیں
میں کسی کو چھوڑدوں تیرے لیے
تجھ سے کچھ ایسی تو قربت بھی نہیں
محبت میں بھی ہم معیار کا کچھ پاس رکھتے ہیں
کسی حالت میں بھی خود داری کا سودا نہیں کرتے
چاند پر ہم بھی خریدیں گے جگہ
گھر بنائیں گے بسائیں گے تجھے
بہاروں پر تسلط ہے خزاں کا
برا دن آگیا ہے گلستاں کا
مسکرا کر اس نے دیکھا ہی تو تھا
دل میں کیوں ہے شورش طوفان کچھ
میں نے یہ سچائی جانی ہے بہت کھونے کے بعد
دوستی اچھی نہیں ہوتی کبھی نادان کی
عمر بھر لکھتا رہا میں ریت پر اس کا ہی نام
ہائے نادانی یہ کیسا کار طفلانہ کیا
ایک نمونہ جس سے بن جائے ہماری زندگی
ایسے ہی لوگوں کی صحبت اور رفاقت چاہئے
مشکلیں جاں پہ کیا کیا اٹھاتے رہے
پر محبت بھی ہم ہی نبھاتے رہے
مذکورہ اشعار میں لفظیات کا انتخاب، اس کا رکھ رکھاؤ اور اس کی پاسداری ماقبل شعری روایت سے الگ نہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ لفظیات کی آمیزش اور تراش و خراش ماقبل شعری اسالیب کا نمونہ ہے۔ مثلاً
بے وفا لوگ، پتھر، شیشہ، میزبانی، مہمانی، زندگی، مسرت، صحت، محبت، قربت، خودداری، چاند، گھر، بسنا، بہار، خزاں، گلستاں، مسکرانا، دیکھنا، شورش، طوفان، روشنی، دشمنی، نادان، ریت، کار طفلانہ، تاریک، حیات، محفل، عشق، سودوزیاں، مسجد، مندر، جامہ، چاک، نقاب، قتل، قاتل، منصف، شہر، سڑک، لاش، پھول، کانٹا، آسمان اور آشیاں جیسے لفظیات کے علاوہ خوشتر کی شاعری میں حسرت و یاس اور آرزوؤں کا انوکھا باب بھی ہے۔ مثلاً
کانٹوں سے پھول بنانا/پھولوں کو خار ہوتے ہوئے دیکھنا/ ان دیکھے گلستان کا تصور کرنا / آسمان کا زیر پا ہونا /قتل و غارت گری اور منصفی  پر طنز کرنا/ زمانے کی روش کا بدلا ہوا پانا/ تڑپتی لاش کا تصور کرنا/ گاہے بہ گاہے گھر آتے رہنے کو ہی محبت جاننا/ میزبانی اور مہمانی کی روایت تسلیم کرنا/ زندگی کی مسرت اور صحت کا خیال رکھنا /محبت میں سود و زیاں سے بے حس ہونا/ محبت کا معیار طے کرنا/خودداری کا امین ہونا/ تجربہ کرنے کے بعد سچائی کا جاننا/ نادانوں سے ترک تعلق کرنا / آئیڈیل زندگی کی آرزو کرنا/تواتر کے ساتھ مصائب کا بار گراں سہنا/وغیرہ وغیرہ
تعجب ہے خوشتر کی شاعری میں مذکورہ لفظیات کی تراش وخراش اور اس سے بنا پیکر شاعر کے شعور کا عکس ہے۔ یہ عکس روشن بھی ہے، مدھم بھی ہے اور معدوم بھی ہے۔ تہذیب کی سطح پر، سماج کی سطح پر اور انسانی معیار و مزاج کی سطح پر اس کا آرٹ اور گراف دیکھا جاسکتا ہے۔
تو ہے محفل کی دل کشی اے دوست
تجھ سے میری ہے زندگی اے دوست
تو نہیں تو حیات ہے تاریک
تو ہی میری ہے روشنی اے دوست
اجنبی پر مت بھروسہ کیجئے
کر لیا تو جلد توبہ کیجئے
اپنے ذاتی مسئلے خوشتر کبھی
ہر کسی کو مت بتایا کیجئے
یوں تو دنیا میں کیا نہیں ہوتا
ایک تو ہی مرا نہیں ہوتا
لاکھ جبر و ستم وہ کرتا ہے
پھر بھی مجھ سے گلہ نہیں ہوتا
میں وہ عاشق کہ لوٹ جاتا ہوں
اس کا در جب کھلا نہیں ہوتا
جو بھلائی کرے نہ اوروں کی
اس کا ہرگز بھلا نہیں ہوتا
ایک لمحہ بھی یاد سے تیری
تیرا خوشتر جدا نہیں ہوتا
اس طرح کی شاعری کوئی عام شخص نہیں کر سکتا ہے۔ اس سے ایک طرف شعری آفاقیت، ترسیل، موضوعات اور اس کی معنویت ظاہر ہوتی ہے تو دوسری طرف کلاسیکی اور نوکلاسیکی تخلیقی رچاؤ کا عمدہ نمونہ ملتا ہے۔ اردو کا عام قاری بھی مومن کو جانتا ہے اور مومن، غالب کے عہد کا عمدہ شاعر تسلیم کیا گیا ہے، یہ جگ ظاہر ہے۔ غالب کے تعلق سے وہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ غالب اپنا پورا دیوان مومن کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا تھا اور کہا تھا کہ اس کے بدلے یہ شعر مجھے دےدو ”تم میرے پاس ہوتے ہو گویا/ جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا“ کہا جاتا ہے کہ یہ شعر سہل ممتنع کی عمدہ مثال ہے اور اسی بحر میں خوشتر نے اپنی پوری غزل پیش کی ہے۔ تخلیقیت خوشتر کی شاعری کا ماحصل ہے۔ غزلیہ آہنگ کا ایک اور نمونہ، پیکر، آرٹ، تلمیح اور عصری رچاؤ کی عمدہ مثال دیکھیے:
روپ بھرے رنگیلے چہرے
جاں کے دشمن ایسے چہرے
میرے ہوں کہ تیرے چہرے
اندر سے ہیں میلے چہرے
آپ کے چہرے سے ہیں بہتر
جو لگتے ہیں گندے چہرے
گر مجنوں کی آنکھ سے دیکھیں
سب سے اچھے کالے چہرے
نیتاجی نے کب دیکھا ہے
بھوکے سوکھے پیلے چہرے
خوشتر تیرے کیمرے نے تو
اکثر دیکھے دوہرے چہرے
یہاں غزل میں لفظ چہرے کی جھنکاریت اور اس کے آہنگ کو سمجھا جانا چاہیے۔ یہ آرٹ تو ہے ہی حقیقت پر مبنی آرٹ ہے۔ حقیقت اور آرٹ کا ایسا ملا جلا رنگ اردو شاعری میں خال خال ہی ملتا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص محسوس کرے گا کہ اس طرح کا آرٹ مختلف پیکر میں مختلف روپ دھار کر آس پاس گرد و غبار سے لپٹا ہوا، سوٹ بوٹ پہنے ہوا، اسٹائلسٹ گاڑیوں پر سوار آنکھیں پھیرتا ہوا نظر آتا ہے۔ کبھی کبھار شہروں کی بھیر بھار میں، گاؤں کے چوپال پر، کھیت کھلیانوں میں اور جھگی جھونپڑیوں میں بھی اس کا ادراک ہوتا ہے۔ یہ شاعر کا آرٹ، انداز اور اس کی تکنیک ہے کہ چہرے کی مناسبت سے اک نیا چہرہ تراشا ہے۔ مجھے کہہ لینے دیجیے کہ نئی نسل میں منصور خوشتر کی شخصیت اردو شعری روایت کا امین ہے۔ عطا عابدی صاحب نے بڑے ہی متوازن اندا زمیں درج کیا ہے کہ:
”منصور خوشتر کی شاعری کو ہم منصور خوشتر کی عمر و فکر کی روشنی میں دیکھیں تو ایک گونہ مسرت کا احساس ہوتا ہے۔ فکری و فنی پختگی ایک عمر کی ریاضت کا نتیجہ ہوتی ہے اور بہت جگہ ایک عمر کے بعد بھی یہ پختگی نہیں آتی۔ لیکن منصور خوشتر کے شعری اظہار سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جس انداز میں اپنی کاوش و فکر پیش کر رہے ہیں وہ ایک عمر کی ریاضت کے بعد ہی سہی پختگی سے نوازے گی۔“
عطاعابدی کی تفہیم کا متوازن انداز نرالا اور انوکھا ہے جو خوشتر کی شاعری کا مثبت طریقے سے احاطہ کرتا ہے۔ میری نظر میں منصور خوشتر امتزاجی اسلوب کا توانا شاعر ہے۔ اس لیے کہ ان کا شعری سرمایہ امتزاجی اسلوب سے ہم کنار ہوکر پڑھنے کی توانائی بخشتا ہے۔ اگر اس دائرے میں ان کی شاعری کو سمجھا جائے تو ان کی محنت پر یقینا کھلے دل سے تعریف کرنے کو جی چاہے گا. اس تعلق سے ان کا ذہنی قد، ادبی قد اور فکری اطوار بھی پیش نظر رکھناچاہیے۔
٭٭٭
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش: رومانوی اسلوب کا ناسٹلجیائی شاعر: جنید عالم آروی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے