رومانوی اسلوب کا ناسٹلجیائی شاعر: جنید عالم آروی

رومانوی اسلوب کا ناسٹلجیائی شاعر: جنید عالم آروی

ڈاکٹر مستفیض احد عارفی
اسسٹنٹ پروفیسر،شعبۂ اردو
ایل ایس کالج،مظفرپور

زندگی ادب سے ہے اور ادب کی بازیافت زندگی کا خلوص، تعاون اور انسانی افق کا پاکیزہ جمال ہے۔ فن کار موزوں اور غیر موزوں لب و لہجہ میں اس سب کا انوکھا نمونہ پیش کیے دیتا ہے۔ اچھا ادب قاری کے ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے اور حق و باطل کے معتدل منظر سے روبرو کراتا ہے۔ یہ ادب کی آفاقیت ہے کہ اس میں بیک وقت پیدائش، موت، بھوک، محبت اور خواب جیسے حقائق اپنے ادبی اور فنی التزام کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ ایسا اس لیے ممکن ہوپاتا ہے کہ فن کار زندگی کا محاسبہ بہت ہی مخلصانہ اور عالمانہ طور سے کرتا ہے۔ اس کے بغیر کسی بھی ادب پارے کا تصور فضول ہے۔ ادیب اور شاعر ان حقائق کو بروئے کار لاتے ہوئے اصول و ضوابط، صنائع بدائع اور ادبی لوازم کا التزام بہ طور احسن کرتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ شاعر اپنے سماج کا بے انتہا ذہین، ذکی الحس اور باشعور فرد ہوتا ہے. ان کا شعور اس قدر بالیدہ پختہ اور حقائق پر مبنی ہوا کرتا ہے کہ ان سے متعلق اظہاریہ پر، فریب، مایا اور سراب کا دھوکا ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان کے طے شدہ حقائق اور انداز پیش کش عام ذہنوں سے ماورا ہوتے ہیں۔
جنید عالم آروی ایک شاعر کا نام ہے۔ ان کا تعلق متھلانچل کا قلب کہے جانے والے شہر دربھنگہ سے ہے۔”آؤ عشق کریں“ ان کا شعری مجموعہ ہے۔ میں نے جب اس کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ ان کی شاعری، شعری ڈھب، شعری لوازم اور شعری موضوعات مابعد جدید شعرا کے قبیل اور اس کے عروج کے زمانے سے مستعار ہیں، کہہ سکتے ہیں کہ ان کی شاعری پر مابعد جدیدیت کا بھی عکس نظر آتا ہے۔ بالخصوص مجھے ان کی شاعری پر گمان گزرا ہے دھوکا، فریب، مایا اور سراب کا….! ذرا چوکنا ہوکر دیکھیں تو معلوم پڑے گا کہ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے درمیان جو اوقات گزرے ہیں اس میں شعرا کا استفادہ اور انداز پیش کش نامیاتی اور انامیاتی دونوں صورتوں میں ابھرے ہیں۔ موضوعات، لفظیات، معنیات اور صوتیات کے تمامی Shades اس سے دوچار ہیں۔ خاص طور پر ناصر کاظمی، خلیل الرحمن اعظمی اور ابن انشا کے قبیل کے شعرا جب مابعد جدیدیت میں قدم رکھتے ہیں تو کثرت سے ان شعرا کے نزدیک نامیاتی اور انامیاتی عناصر دخول کر گئے ہیں۔ جنید عالم آروی چونکہ انھی کے قبیل سے مستعار لہجہ اختیار کر اپنی پہچان بنانے میں محو ہیں. اس لیے بھی اثرات نفوذ کر گئے ہیں۔ اگر آروی صاحب اس قبیل سے تعلق نہ رکھتے تو مجھے یقین ہے کہ رومانوی اسلوب کا ناسٹلجیائی لیبل میں ہرگز نہیں لگاتا۔ موصوف مذکور ابھی شعری اکتساب میں چلتے پھرتے اور جستجو کرتے نظر آتے ہیں۔ ان سے ذات کی سطح پر، شعری اکتساب کی سطح پر اور سماجی نشیب و فراز کی سطح پر باتیں ہوتی ہیں تو مجھے حیرت ہوتی ہے، کہ آخر، ان کی شاعری میں ناسٹلجیائی عناصر اور کیفیت کیوں راہ پاگئے ہیں…؟ حالانکہ رومانوی اسلوب اور اس سے متعلق کیفیت جنید عالم آروی کو معاصر شعرا میں انفراد سے ہمکنار کرنے کے لئے بہت زیادہ تھا۔ مجھے خیال ہے کہ ابھی جنید عالم آروی شعری اکتساب میں آدھے ادھورے ہیں، یہی وجہ ہے کہ، جستجو کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی جستجو اور شعری وطیرہ میں حد درجہ انہماک کی صورت سے ممکن ہے انھیں حیات و ممات اور ذات و کائنات کی سطح پر عرفان حاصل ہو، اس لیے کہ رومانوی اسلوب کا تمتمایا ہوا کرّوفر انداز بہت دل چسپ ہے۔ میرا دعویٰ بحث طلب ہے کہ آخر رومان، رومانوی، رومان پرور، رومانٹک اور رومانوی اسلوب کیا ہے…؟ اس سلسلے میں واضح رہے کہ رومانوی اسلوب کے گوناگوں Shades ہیں۔ لیکن یہاں یہ ظاہر نہیں ہے کہ آخر رومانوی اسلوب کسے کہتے ہیں؟
دراصل حسن و عشق کے موضوعات کو خواب و خیال کے پیرایے میں بیان کرنا رومانوی اسلوب کہلاتا ہے۔ اہل نظر کے نزدیک شاعری میں یہ ایک ایسا اسلوب ہے جس میں حقائق سے چشم پوشی اس انداز سے کیا جاتا ہے کہ حسن و عشق کے واردات و کیفیات خواب و خیال محسوس ہوں۔ حالانکہ میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ وایو منڈل میں جہاں اشخاص گذر بسر کرتے ہیں انھی کے ساتھ مرئی اور غیر مرئی چیزیں بھی ہیں، کیا ان سب سے علاحدہ گذر اوقات کسی انسان کے لیے ممکن ہے ؟ مثلاً پیدائش، موت، بھوک، محبت اور خواب رنگ و بو کے لیے لازمی ہے، ہر ذی نفس اس سے گزرتا ہے تو یہ خیال ہے؟ حقائق سے ماورا ہے؟ نہیں…، اور یقینا نہیں۔ تو مجھے کہہ لینے دیجیے کہ انسان ہی شاعر ہے اور شاعر مذکورہ عوامل سے خود کو نہ صرف مسلسل گزارتا ہے بلکہ اس سلسلے میں بڑا حساس پیمانہ رکھتا ہے، یہاں تک کہ ان کا Vision اور Versionطے شدہ حق کو پالیتا ہے اور اس طرح عرفان حاصل کر لیتا ہے۔ تب شاعر کے لیے ممکن ہوجاتا ہے کہ اشک ندامت اور اشک سرشاری بھی شاعری، خوشی کے ترانے بھی شاعری، انا، ریا اور فقر و فاقہ کی لذت بھی شاعری۔ روحانی، عرفانی، وجدانی اور بشری تقاضوں پر مبنی کیفیت بھی شاعری۔ غرض شاعری کے مختلف رنگ و آہنگ کا سا، سایہ گھٹا بن کر شاعر کے قلب مبین پر برس جاتا ہے۔ گویا…..”جس کا جتنا ظرف ہے وہ اس قدر خاموش ہے“ خیال جاتا ہے کہ رب ذوالجلال کے بعد تمامی اشیا خواہ نظر میں آنے والی ہو یا نظر سے معدوم ہو حقائق پر مبنی ہیں۔ ان تمامی چیزوں سے شاعر علاحدہ نہیں ہے، تو پھر رومان اور رومانوی خواب و خیال کیوں کر ہے۔ لفظ ”رومان“ روم سے مشتق ہے. اس کا معنی ہے ”کان کی لَو“ بالخصوص آپؐ کی کشتی سالم کو رومان کہا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ کا نام نامی ”رومان“ تھا. اس میں نکتہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ اپنی والدہ کے بطن سے پیدا ہوئیں اور سن بلوغ تک کے مراحل طے پاچکنے کے بعد آپؐ کے نکاح میں آئی تھیں۔ کشتی کا تعلق دریا پار کرنے سے ہے اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کی والدہ ”رومان“ نے عائشہؓ کو پرورش کے مراحل سے گزارا تھا. واللہ اعلم۔ اگر واقعی اسی پر اکتفا کر لیا جائے کہ آپؐ کی کشتی سالم کو رومان کہا جاتا ہے تو تعجب نہیں کہ رب ذوالجلال کے بعد محمدؐ اور ان کی امت کے لیے یہ خلقت ہی ایک کشتی نما ہے، جہاں تمامی اشیا اپنے اپنے مدار پر تیر رہی ہیں اور یقینا یہ عام ذہنوں سے پوشیدہ ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ حقائق پر ایک غلا ف ہے، غلاف ایک مفروضہ ہے اور مفروضہ ہی رومان ہے۔ رومان سے متعلق باتیں کرنا رومانوی ہیں اور اس انداز پر شاعری کرنا رومانوی اسلوب ہے۔ جہاں حسن و عشق کی کیفیات اور قلبی واردات کا اظہاریہ خواب و خیال ہو:
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
چمن زنگار ہے آئینہ باد بہاری کا

غرض ادب میں ایسی تخلیقات جن میں حسن، نسوانی حسن، فطرت کی دلآویزیاں، دل فریب ادائیں اور نزاکت و نفاست کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے، کو رومانوی کہا جاتا ہے۔ اردو ادب میں رومانوی تحریک سرسید تحریک کے رد عمل کی پیداوار ہے اور عالمی ادب میں روسو کی ذہنی اپج ہے۔ جنید عالم آروی کا شعری سرمایہ”آؤ عشق کریں“ رومانوی اسلوب کا پرتو ہے. اس کا اندازہ مندرجہ ذیل کے اشعار سے ہوتا ہے۔ بعدازیں پھر ہم ناسٹلجیائی کی صورتیں اور اس کا مطالعہ کریں گے۔
پھول زخموں کے جو کھل اٹھتے ہیں ہر شام کے بعد
لطف دیتا ہے مجھے درد جگر شام کے بعد
گھیر لیتا ہے مجھے آکے سوالوں کا ہجوم
تیرے کوچے سے جو ہوتا ہے گذر شام کے بعد
دن تو یادوں میں گزرتا ہے اس کی لیکن
کتنا ویران یہ ہوجاتا ہے گھر شام کے بعد
دیکھ پاؤگے نہ آنکھوں سے تباہی میری
تم نہ آنا کبھی بھولے سے ادھر شام کے بعد
تتلیاں خوابوں کی پلکوں سے لپٹ جاتی ہیں
جب بھی ملتی ہے مری اس سے نظر شام کے بعد
٭٭
بوجھ یادوں کا اٹھاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
تم کو اب ذہن میں لاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
پوچھ لے جاکے شب ہجر شہادت دے گی
خوں کو ہم اشک بناتے ہوئے تھک جاتے ہیں
تم کو ہوتی نہیں وعدے کے بھلانے میں تھکن
ہم تمھیں یاد دلاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
پوچھتے رہتے ہیں احباب اداسی کا سبب
ہم ترا نام چھپاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
اس لیے ہم نے کتر ڈالے ہیں پر خوابوں کے
بوجھ پلکوں پہ اٹھاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
پھر نہ بن پائی صد افسوس مصور نے کہا
تیری تصویر بناتے ہوئے تھک جاتے ہیں
٭٭٭
جب تلک عشق کرتا رہا
امتحاں سے گذرتا رہا
زندگی جب سے حاصل ہوئی
موت سے میں گزرتا رہا
اب کہاں ہم کسی سے ڈرتے ہیں
بس تیری بے رخی سے ڈرتے ہیں
رنگ خاکے میں بھر محبت کا
میری تصویر جب بنایا کر
تجھ پر شیدا نہ چاند ہوجائے
اس طرح بام پر نہ آیا کر
اشک کاغذ پہ جب گرا ہوگا
اک کہانی رقم ہوئی ہوگی
٭٭
زباں خموش ہے آنکھیں کلام کرتی ہیں
یہی ہے آپ کا انداز گفتگو تو نہیں
چاند حیرت سے تکتا رہتا ہے
تیری تصویر جب بناتا ہوں
٭٭
برف کے پہاڑوں کا تن پگھلنے لگتا ہے
حسن وادیوں میں جب بے نقاب ہوتا ہے
چاہے جتنے پردوں میں خود کو وہ چھپا ڈالے
حسن عشق کے آگے بے حجاب ہوتا ہے
٭٭
ہجومِ اہل جفا سے نکل کے آیا ہوں
تمھاری بزم میں کانٹوں پہ چل کے آیا ہوں
بلا کا کرب ہے راہ ثواب میں لیکن
عجیب لطف ہے اے دوستو گناہوں میں
٭٭
جب کوئی ان کو دیکھتا ہوگا
حسن کیا ہے یہ سوچتا ہوگا
٭٭
اور کیا دے گا مجھے اپنی محبت کا ثبوت
میری تصویر وہ پانی پہ بنا دیتا ہے
میرے محبوب کے قدموں کی کرامت دیکھو
وہ گذرتا ہے جدھر راہ بنا دیتا ہے
٭٭
مذکورہ بالا اشعار میں موضوعات کی سطح پر رومانوی اسلوب کے مختلف Shades اور اس کے گونا گوں رنگ و آہنگ ابھرے ہیں. لیکن ایک بات قدر مشترک ہے کہ ہر پیکر میں محبوب کا طلسم، محبوب کی لطافت، محبوب کا حسن، محبوب کی یادیں اور محبوب سے متعلق افکار و آرا و خیالا ت ہیں، جن سے شاعر ہمہ وقت پیکار نظر آتا ہے۔ شاعر کے ذہنی اعصاب پر محبوب کے خصائل، عادات و اطوار اور ان کے جمالوں کا رنگ مسلسل دستک دیتا رہتا ہے۔ مثلاً
شام کے بعد زخموں کے پھول کا کھل اٹھنا/ سوالوں کے ہجوم کا گھیر لینا/ کوچے سے گزرتے ہوئے سوالوں کے ہجوم میں خود کوموجود پانا / دن کا یادوں میں گزرنا/ گھر کا ویران ہوجانا/ تباہی کے منظر کا خوفناک ہونا/ تتلیوں کا خوابوں کے پلکوں سے لپٹ جانا/ یادوں کو بوجھ سمجھنا اور اسے اٹھاتے ہوئے تھک جانا/ شب ہجر کی شہادت پر اعتماد کرنا/ اشک کا خون اور خون کو اشک بنانا/ وعدے کے بھلانے میں تھکن کی کیفیت محسوس کرنا / اداسی کا سبب جاننا/خوابوں کے پر کترڈالنا/ مصور سے ہم کلام ہونا/ مصور کا تصویر بناتے ہوئے تھک جانا/ عشق کرتے رہنا اور اسے امتحان سے گزرنے کے مترادف سمجھنا / زندگی کی حصولیابی کے بعد پیہم موت کے عمل سے گزارنا/ بے رخی سے ڈرنا / تصویر کے خاکے میں محبت کا رنگ بھرنا/ محبوب کے حسن و جمال پر چاند کے شیدا ہونے کا شبہ ہونا/ کاغذ پر گرے ہوئے اشک کو کہانی رقم ہونے سے تعبیر کرنا/آنکھوں میں شب گزارنے کو محبت کی پائداری سمجھنا/ آنکھوں سے کلام کرنے کو انداز گفتگو سمجھنا/ تصویر بناتے ہوئے چاند کو محو حیرت سمجھنا/ حسن کے بے نقاب ہونے پر پہاڑوں کے برف کا پگھلنا / عشق کے آگے حسن کا بے حجاب ہونا/ اہل جفا کے ہجوم سے بچ بچا کر نکلنا / کانٹوں پر چل کر بزم تک آنا/ راہ ثواب میں بلاکا کرب ہونا/ گناہوں کے عمل سے عجیب لطف کا ملنا/ محبوب کو بے انتہا خوب صورت سمجھنا/ پانی پر تصویر بنانے کو محبت جاننا/ محبوب کے قدموں کے اطوار کو کرامت جاننا/ وغیرہم موضوعات ایک سنجیدہ قاری کے لیے فرسودہ اور مفروضہ خیالات و آرا نہیں، بلکہ شاعر اور اس سے متعلق لوازم ہیں جنھیں موصوف مذکور نے محسوس کیا ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ یہ شاعر کے ذہنی اعصاب پر لگاتار منعکس ترنگیں ہیں، کبھی کبھار یہ ترنگیں شاعر کے ذہنی تھکن اور موہوم قصے کا مداوا بھی کرتے ہیں اور شکایت بھی۔ غرض یہ کہ جنید عالم آروی حسن و عشق، رومان پرور اورجمالیاتی ذوق رکھتے ہیں لیکن اپنے محبوب کو ہی اس کا مرکز و محور تسلیم کرتے ہیں۔
کلمہ اور کلام کا انداز لفظیات و معنیات کا ایک ستھرا ہوا ہنر ہے، شاعر بھلی بھانتی اس سے واقف ہوا کرتا ہے. لیکن آروی کی شعری کائنات صرف موضوعات کی سطح تک ہی مکمل ہے۔ لفظیات و معنیات، صنائع بدائع، تشبیہات و استعارات اور محاورے کو برتنے میں کوتاہ نظری سے کام لیا گیا ہے۔ شاعری میں ریاض کرنے کا عمل شعری روایت کا اہم حصہ رہا ہے لیکن آروی نے اسے اپنے لیے لازمی نہیں سمجھا، یہی وجہ ہے کہ تکنیک اور آروی کا آرٹ کم زور ہے. اس کا پورا اثر ان کے لفظی و معنوی نظام پر پڑا ہے۔ دراصل ریڈیائی، صنعتی اور گلوبلائز زمانے میں شاعر سانس لے رہا ہے جہاں لوگوں کے اوصاف بھاگم بھاگ والی صورتیں ہیں. ایسے میں شاعر آروی سے اگر چوک ہوئی ہے تو یہ ان کی نیم پختگی کی علامت ہے. البتہ آئندہ وہ اپنا شعری مجموعہ منظر عام پر لائیں گے تو یقین ہے اس سلسلے میں وہ اپنے بھول اور چوک کو درست کریں گے۔
عنوان کے پیش نظر میرے موضوع کا دوسرا رخ ناسٹلجیائی ہے۔ حسرت ناک یاد، ماضی کی یاد، گھر کی یاد، گھر سے دوری کا شدید احساس یا وہ اشیا جو ماضی کی یاد پر مبنی ہوتا ہے نا سٹلجیائی کہلاتا ہے، بالخصوص شدید ترین یادوں کا احساس اور اس کا اظہار ہی ناسٹلجیا ہے۔ انسانی زندگی سے متعلق یاد کا کوئی بھی جہت یا ڈائمنشن ہو اگر ہم اس سے مرعوب ہوتے ہیں یا پھر ہمیں یہ کیف مغلوب کرتا ہے تو پھر ایسے اوقات میں ہمارا رد عمل بھی ناسٹلجیائی ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ کم و بیش ہر فن کار ناسٹلجیائی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تخلیقیت ناسٹلجیائی ذہنوں کی پیداوار ہوتی ہے۔ یاد ماضی کا ہو، گھر کا ہو یا پھر کوئی بھی احساس ہو جب شدید ترین ہوجاتی ہے تو اظہار کی صورت نکل آتی ہے۔ بہ الفاظ دگر فن کار کے ذہنی اعصاب پر جب کسی یاد کا غلبہ ہوتا ہے تو اس کی تخلیقیت ناسٹلجیائی صورتوں میں اثرپذیر ہوتی ہے. پھر ان کا اظہاریہ گونا گوں انداز سے الفاظ کے پیکر میں ڈھلتا ہے۔ بعض فن کار اپنی ہنرمندی سے ناسٹلجیائی عناصرکو جھٹک کر یا اس اوقات کی مغلوبیت کو ہضم کر اپنی تخلیق کے لیے ایک نیا زاویہ بناتے ہیں اور یہی زاویہ ان کے فن کی پہچان اور انفراد ہوجایا کرتا ہے۔
جنید عالم آروی کی شاعری میں ناسٹلجیائی عناصر کی کارفرمائی ہے۔ اگر موصوف ان عناصر کو جھٹک کر یا ہضم کر اک نیا زاویہ بناتے تو رومانوی اسلوب کا بادشاہ ہوتے۔ ان کے یہاں یہ عناصر مختلف اوقات میں، مختلف رنگ و آہنگ کے سہارے گونا گوں پیکر میں نظر آتے ہیں. بالخصوص محبوب سے یادوں کی وابستگی کا ایک سلسلہ ہے جو تخلیقیت کے مختلف Shades میں نظر آتا ہے۔ ان کی یادوں میں یاس وحرماں کا رنگ نہیں ہے بلکہ ایک سنجیدگی ہے، زندگی کی تلخی ہے اور نشیب و فراز کا آہنگ ہے۔ لیکن قوت اظہار میں اس قدر شدت ہے کہ پہلی نظر میں یاسیت اور محرومی کا احساس نمایاں ہوتا ہے لیکن بہ نظر غائر محسوس ہوگا کہ موصوف کی یادیں محبوب کی حصولیابی میں زندگی کے نشیب و فراز سے دو چار ہیں، یہ اسی کی تلخیاں ہیں۔ مثال کے طور پر دیکھیں:
پھول زخموں کے جو کھل اٹھتے ہیں ہر شام کے بعد
لطف دیتا ہے مجھے دردِ جگر شام کے بعد
گھیر لیتا ہے مجھے آکے سوالوں کا ہجوم
ترے کوچے سے جو ہوتا ہے گذر شام کے بعد
٭٭٭
بوجھ یادوں کا اٹھاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
تم کو اب ذہن میں لاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
٭٭٭
جب تلک عشق کرتا رہا
امتحاں سے گزرتا رہا
زندگی جب سے حاصل ہوئی
موت سے میں گزرتا رہا
یہاں ہر شام کے بعد، زخموں کا کھل اٹھنا اور درد جگر کا لطف دینا یادوں کا ایک سلسلہ ہے اور اس سلسلہ میں ایک حقیقت، زندگی اور اس کی حصولیابی کا راز پوشیدہ ہے ورنہ شاعر کو درد جگر لطف نہیں دیتا۔ گئے گذرے دنوں کے سناٹے میں جب محبوب کی وابستگی کے ایام برسر پیکار تھے ان اوقات اور اس سے متعلق سوالات آج بھی اس کوچے میں قدم رکھتے ہوئے شاعرکو گھیر لیتے ہیں، کا برملا اظہار شاعر کو شاد رکھتا ہے۔ اس طرح تیسرے شعر میں یادوں کا بوجھ اٹھاتے ہوئے تھک جانا اور واحد حاضر کے صیغے میں خطابیہ لہجہ کہ ”تم کو اب ذہن میں لاتے ہوئے تھک جاتے ہیں“ کا اشارہ کہیں نہ کہیں ماضی کے ایام میں ان مشاغل کی طرف اشارہ ہے جو اچانک ذہن پر دستک دیتا ہے۔ آخر آخر ان دو شعروں میں کہ عشق کرتے رہنے کے اوقات میں مسلسل امتحاں سے گزرتے رہنا اور جب زندگی حاصل ہوئی بعد ازیں موت سے گزرتے رہنے کا عمل ایک ایسی تلخ سچائی ہے کہ اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔ البتہ یہاں بھی شاعر کے ذہنی اعصاب پر یادوں کا غلبہ ہے اور اسی مغلوبیت کی بنیاد پر میرے مطالعے کا ماحصل جنید عالم آروی رومانوی اسلوب کا ناسٹلجیائی شاعر ہے. اس لیے کہ ان کی ذہنیت، موزونیت، شعری تکنیک اور شعریت یادوں کے اردو گرد گھومتی ہے۔
٭٭٭
Dr. Mustafiz Ahad Arfi
Assistant Professor
Department of Urdu
L.S.College, Muzaffarpur – 842001
Mob: 9472079131
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش: افسانوی اسلوب کا مضطرب فن کار: مجیر احمد آزاد

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے