افسانوی اسلوب کا مضطرب فن کار: مجیر احمد آزاد

افسانوی اسلوب کا مضطرب فن کار: مجیر احمد آزاد

”جھکی ہوئی شاخ“ کے تناظر میں

ڈاکٹر مستفیض احد عارفی
اسسٹنٹ پروفیسر، ڈیپارٹمنٹ آف اردو، ایل ایس کالج، مظفر پور

باسمہ تعالی
اردو افسانہ نگاری کی روایتوں کو فروغ دینے میں مجیر احمد آزاد کے تخلیقی کارناموں کو سراہا گیا ہے۔ اب تک ان کے متعدد افسانوی مجموعے جن میں ”ڈوم“، ”اندھیرے کا کرب“، اور ”جھکی ہوئی شاخ“ [شامل ہیں] کو کئی معنوں میں اعتبار حاصل ہے۔ موصوف گذشتہ بیس پچیس سال سے مسلسل لکھ پڑھ رہے ہیں۔ اس درمیان ان کے افسانوں نے اردو کے مؤقر رسالوں کو متاثر کیا، اشاعت کے مرحلوں سے گزرا اور ہنوز یہ عمل جاری ہے۔ ادبی دل چسپیوں کا یہ عالم ان کی سرگرمی کا ایک رخ متعین کرتی ہے۔ بہ حیثیت معلم آزاد کی شخصیت کا دوسرا رخ بھی ہے….!
پیش نظر افسانوی مجموعہ ”جھکی ہوئی شاخ“ مجیر احمد آزاد کا تیسرا مجموعہ ہے۔ اسے موصوف نے سال ٢٠١٣ء میں منظر عام پہ لایا تھا اور بصد خلوص مجھے عطا کیا تھا۔ کل سولہ افسانوں پر مشتمل کتاب ایک ہی بیٹھک میں پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔ یکے بعد دیگرے افسانہ پڑھتے ہوئے فن پارے کا جادو اس طرح سر چڑھ کر بولے گا معلوم نہ تھا۔ یہاں کل سولہ افسانوں پر بات کرنا ممکن نہیں، البتہ ان کے بعض افسانے آپ سے بھی شیئر (share) کرتا ہوں۔ اس کے لیے میں مختلف جگہوں سے افسانوی تراشے، اقتباسات اور پیرا گراف بطور مثال پہلے پیش کیے دیتا ہوں۔ تاکہ آزاد کے افسانوی اسلوب کا امتیاز واضح ہو۔ اس تناظر میں ماجرا نگاری، منظر نگاری، کردار نگاری، مکالمہ نگاری اور زبان و بیان جو کہ اسلوبیات کا خاصہ ہے، کا سنجیدگی کے ساتھ تجزیہ کر پانا آسان ہوگا۔
(A) (الف)”حویلی کے در و دیوار سے اُداسی ٹپک رہی تھی۔ چہار دیواری کے زیر سایہ کھلے ہوئے پھول مرجھائے سے لگ رہے تھے۔ دالان میں لوگ جمع تھے اور آپس میں سر گوشیاں ہو رہی تھیں۔“(برگد)
(ب) ”جیتے رہو گجادھر، ہاں میں نکل گیا ہوں تم چنتا نہ کرو۔ شکری تک میرے ساتھ رحمت کا بیٹا عالم جا رہا ہے۔ مجھے گاڑی پر بٹھا کر واپس ہو گا۔ ہاں ہاں۔“(برگد)
(ج) ”مندر کے پجاری کا موبائل بجا۔ وہ رات کی پوجا کے لیے تھالی اور گھنٹی لیے مندر کے اندر جانے والے تھے۔ ”ہلو کون بول رہے ہیں۔“ (برگد)
(B) ”ترپاٹھی جی سوچنے لگے جب تیرہ سال قبل انھوں نے بابا پالتی داس اور ان کے چیلوں کے خلاف مقدمہ کیا تھا اس وقت یہ عدالت کتنی چھوٹی تھی، چار پانچ کمرے پختہ اور باقی وکالت خانے نیم پختہ کھپرہ پوش۔ اب تو یہ شان دار عمارت میں تبدیل ہو چکی ہے۔ بابوؤں کے ٹیبل پر کمپیوٹر آ چکا ہے۔ کتنی ترقی ہوئی ہے عدالت کی مگر تاریخ ملنے اور دینے کا رواج آج بھی برقرار ہے۔ اتنی تبدیلیوں اور ترقیوں کے باوجود مقدمہ، وکیل، تاریخ اور جج ویسے ہی تو ہیں، کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ حیران و پریشان لوگ اور فائلوں کی بڑھتی ہوئی اونچائی میں دبے دبے سے فیصلے اور ہماری عدالت۔“ (آستھا)
(C) ”اس نے مجھے پڑوسن کے سامنے ذلیل کر دیا۔ بولتی رہی۔ میں مشین نہیں آدمی ہوں۔ جب دیکھیے صرف حکم چلاتی ہیں بس۔ کیا بتاؤں رضیہ کتنا اول فول بولتی رہی۔ کہتی تھی مجھے نوکرانی بنا کر رکھا ہے۔ آپ کو بہو نہیں نوکرانی چاہیے تھی۔ تو پھر نوکروں کا گھرانا دیکھ کر شادی کرتیں۔ میں نے جو گز بھر کی زبان دیکھی تو ہکا بکا رہ گئی۔“ (اپنا بنا کے دیکھو)
(D) (الف) ”دھان کی لہلہاتی فصلوں کی کمائی میں مصروف چمّو بار بار پگڈنڈی کی جانب دیکھ لیتا۔ وہ اپنے مالک رام بھروس ٹھاکر کی راہ دیکھ رہا تھا جو صبح سے ہی کسی نیتا کے ساتھ نکلے ہوئے تھے۔“ (یہ جمہوریت ہے)
(ب)”لگتا ہے اس بار کا الیکشن بڑا کٹھن (مشکل) ہوگا، کئی امیدوار اپنی دعویداری دے رہے ہیں۔ ہم کو لگتا ہے گھماسان ہوگا ابکی بار۔“ (یہ جمہوریت ہے)
(ج)’’پارٹی ان کو ٹکٹ دے گی تب نا چناؤ لڑیں گے۔ ان کی پارٹی سے اور بھی امیدوار ہیں، دیکھو اب سمبال کس کو ملتا ہے۔“ (یہ جمہوریت ہے (E) ”میں بتاتا ہوں، دادا جی نے ٹی وی کی آواز کم کرنے کو کہا، ممی پڑوس والی آنٹی کے ساتھ سیریل دیکھ رہی تھی۔ دادا جی نماز پڑھنے لگے۔ ممی آنٹی کو باہر چھوڑ کر آئی تو میں اور لالی کارٹون فلم دیکھ رہے تھے۔“ (جھکی ہوئی شاخ)
(F) ”دیش کو کیا ہو گیا ہے چاروں طرف آتنک ہی آتنک۔“ آر اے سی سیٹ پر بیٹھا ہوا مسافر کھل اٹھا، وہ بغیر کسی تمہید کے بول پڑا۔
”بھارت میں بھی اب اسلامی آتنک واد پنپ رہا ہے بھائی۔“ (پہچان)
(G)”حضرات! ایک ضروری اعلان…………۔ میں ایک مسافر ہوں، بیمار ہوں …………“
ابھی جملہ پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ امام صاحب بول پڑے۔ ”دعا کے بعد بھی تو درخواست کر سکتے تھے۔“ (ایک ضروری اعلان)
(H) ”اب تو اسے اپنا گھر کہنے کو جی بھی نہیں چاہتا۔ وہ گھر جہاں میں پیدا ہوئی تھی، میرا بچپن گزرا تھا میری پرورش ہوئی تھی، اتنا بے گانہ ہو گیا تھا کہ
بتا نہیں سکتی۔“ (دلی والی)
((I ”وہ بڑی مایوسی سے ٹی وی دیکھتا رہتا جس پر ملک گیر تحریک کی جھلکیاں دکھائی جا رہی ہوتیں۔ گاندھی ٹوپی سر پر ڈالے کیا نوجوان، کیا ضعیف، کیا عورتیں، کیا لڑکیاں، سڑکوں پرنعرہ لگاتی ہوئی دکھائی پڑتیں۔“ (گاندھی ٹوپی)
بھاگم بھاگ کے اس دور میں درس و تدریس اور تخلیقی عمل سے بر سر پیکار رہنا بڑے ہی دل گردے کی بات ہے۔ان باتوں سے قطع نظر آزاد کے افسانوی اسلوب کا اگر احاطہ کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ ان کی شناخت اور امتیاز طے شدہ فنکاروں پر دلالت کرے گی۔
ہم جس ماحول میں رہتے ہیں اس کے ارد گرد افکار و نظریات کا چھوٹا سے چھوٹا اور بڑا سے بڑا ہر طرف مختلف جال پھیلا ہوا ہے۔ برٹرینڈ رسل نے کہا تھا کہ پیدائش اور موت دنیاوی زندگی کی دو بڑی حقیقت ہے بقیہ جو کچھ بھی ہے سب ڈراما ہے۔ بات بہت چھوٹی سی ہے مگر بہت ہی گہری اور عمدہ ہے۔ اس تناظر میں جب ہم غور کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ انسانی زندگی ارضی حقائق کی بہت ہی سچی اور عمدہ کہانی ہے۔ انسانی تاریخ کا اگر مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ کہانی کہنا اور کہانی کا سننا ایک گمشدہ کڑی ہے۔ اس لیے بھی اصل زندگی کے علاوہ جو کچھ بھی ہے اسے ہم افسانے کا نام دیتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ طول طویل انسانی زندگی کے کسی خاص موڑ یا مخصوص واقعے کو تخلیق کار اپنی فکر کا حصہ بناتا ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ فن کار ایسا کیوں سوچتا ہے؟ اور اس طرح کیوں کرتا ہے؟ در اصل فن کار بہ حیثیت انسان خود بھی خیالات، محسوسات اور جذبات کا مرکز ہوتا ہے۔غرض ایک مخصوص نقطہ نظر سے زندگی کو دیکھنا اور اس سے اکتساب کرنا اپنا فطری حق سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پڑھنے والوں پر افسانہ نگار کا نقطۂ نظر واضح اور اثر پذیر ہوتا ہے۔ افسانہ کہنا اور سننا ایک فطری امر ہے۔ ادب میں فکشن کا مقام و مرتبہ اسی حیثیت سے طے کیا گیا ہے۔ داستان، ناول، ڈراما، افسانہ یا پھر انسانی جذبات کے اظہار کا کوئی وسیلہ ہو، اگر اسے احتساب کی کسوٹی پر دیکھا جائے اور پرکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ پیدائش، موت، بھوک، خواب اور محبت کے علاوہ ایسا کچھ بھی نہیں جس سے کہانی پھوٹ پڑتی ہو۔ کہانی بننا اصل میں واقعے کا ترتیب پاجانا ہے۔یہ ایک میکانکی عمل ہے تاکہ فن پارہ تاثیر سے لبریز ہو جائے۔ اس عمل کو بڑے ہی منظم اور مرتب انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ادب میں فکشن بذات خود افسانوی اسلوب ہے۔ مجیر احمد آزاد کا افسانوی اسلوب ذاتی خصائص، ماحول، رجحان اور ان کے انداز نگارش سے وجود میں آیا ہے۔ اس لیے موصوف کہانی کہنے، سننے اور لکھنے میں یقین رکھتے ہیں۔ جیسا کہ ان کا ”رنگ“ ہے……! ”افسانوی رنگ“ اسے ہندستانی لہجہ، طریقہ اور انداز بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ ان کی تخلیقیت پر اس قدر گہرا اور با اثر واقع ہوا ہے کہ موصوف تخلیقی اظہار کا کوئی وسیلہ اپنائیں، خود کو افسانوی اسلوب سے علاحدہ نہیں کر سکتے……..! مثال کے طور پر:
(A)(الف)حویلی کے در و دیوار سے اداسی کا ٹپکنا /چہار دیواری کے زیر سایہ کھلے ہوئے پھول کا مرجھائے سے لگنا /دالان میں لوگوں کا آپس میں جمع ہوکر سرگوشیاں کرتے نظر آنا۔ ان تمام چیزوں کو فن کار کی نگاہیں بہ نظر غائر دیکھ رہی ہیں۔ اس سے کم از کم تین معنی اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ اول تو یہ کہ فن کار بہ ذات خود رنج و ملول کی کیفیت سے گذر رہا ہے۔ دوم یہ کہ رنج و ملول کا واقعہ لازماً ماحول پر اثر انداز ہوتا ہے۔ سوم یہ کہ وجود خواہ حویلی کا در و دیوار ہو، چہار دیواری کے زیر سایہ کھلا ہوا پھول ہو، یا پھر دالان میں سب لوگوں کی آپسی سرگوشیاں ہی بذات خود ایک وجود  ہے جس کی کیفیت بدلتی رہتی ہے۔
(ب)یہ کہنا کہ جیتے رہو گجا دھر / تم چنتا مت کرو /شکری تک میرے ساتھ رحمت کا بیٹا عالم جا رہا ہے۔ زبان و بیان کا یہ میتھل لہجہ ہے اور متھلانچل کی تہذیب ہے۔ آزاد نے انھیں بڑی ہی چابک دستی سے افسانے کا جامہ عطا کیا ہے۔
(ج)مندر کے پجاری کا موبائل بجنا /پوجا ارچنا کے لیے تھالی اور گھنٹی کا ہونا / اور موبائل ریسیو کرتے ہوئے پجاری کا ”ہلو آپ کون بول رہے ہیں“ کو فن کار نے اہمیت دی ہے، اس سے ایک طرف حالیہ تناظر کا عکس ابھرتا ہے تو دوسری طرف عہد جدید میں چیزوں کے استعمال کا انداز بھی واضح ہوتا ہے۔ موصوف کو واقعات کی ترکیب کا عمدہ سلیقہ ہے لیکن زبان و بیان میں کھردرا پن کی جھلکیاں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔
(B) ترپاٹھی جی……..! اس تناظر میں فن کار کا نقطۂ نظر آپسی لڑائی اور مقدمہ بازی میں عدالت کا چکر کاٹنا / یادوں کے جھروکوں سے جھانکنا اور احتساب کرنا /کھپرہ پوش کی جگہ پختہ عمارت /رجسٹر کی جگہ کمپیوٹر اور نئے زمانے کی ہر لازمی اشیا / حالیہ تناظر کی عکاسی کرتی ہے۔ اس سب کے باوجود آزاد ہندستان میں انتظام و انصرام کی حالت میں کوئی بدلاؤ نہیں آیا ہے۔ فن کار کا اضطراب اور ان کے افسانوی لہجہ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سماجی، سیاسی، تہذیبی اور معاشرتی موضوعات کے تناظر میں ”اپنا بنا کے دیکھو“، ”یہ جمہوریت ہے“، ”جھکی ہوئی شاخ“، ”پہچان“ کا مطالعہ فن کار کو سمجھنے میں معاون ہے۔
(C) پڑوسن کے سامنے ذلیل کرنا /خود کو مشین نہیں سمجھنا /رضیہ کا اول فول بکتے رہنا / بہو کی جگہ نوکرانی اور نوکروں کا گھرانا/ گز بھر کی زبان کا تسلیم کرنا / دھان کی لہلہاتی فصلوں کے بیچ سے بار بار پگڈنڈی کی جانب دیکھنا / پورے دن نیتا کے ساتھ رہنا /الیکشن کا بڑا کٹھن ہونا/ الیکشن کا گھماسان ہونا /امیدواروں کا دعویداری کرنا / پارٹی کی طرف سے ٹکٹ کا ملنا / چناؤ لڑنا / پارٹی میں مختلف امید واروں کا ہونا / الیکشن کمیشن کی طرف سے سمبال کا ملنا / دادا جی کی طرف سے ٹی وی کی آواز کم کرانا / ممی کا پڑوس والی آنٹی کے ساتھ بیٹھ کر سیریل دیکھنا /بچیوں کا لالی کارٹون سے مطمئن فلم دیکھنا / اپنے دیش اور اس کی حالتوں پر تعجب کرنا / چہار جانب آتنک آتنک کا شور غو غا کرنا / بھارت میں اسلامی آتنک واد کا پنپنا جیسے واقعات و موضوعات کو مجیر احمد آزاد نے لفظوں، جملوں اور زبان و بیان کے انداز سے کہیں نہ کہیں قاری کو اپنی وابستگی کا احساس دلایا ہے۔جیسا کہ موصوف خود پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ:
”میں جب بھی کسی واقعہ سے متاثر ہوتا ہوں تو غیر شعوری طور پر اس کا احساس مجھے بے چین کئے رہتا ہے۔ میں مضطرب رہتا ہوں۔ یہ کیفیت کبھی کبھی مہینوں تک میرا پیچھا نہیں چھوڑتی ہے اور میں مجبور ہو کر قلم اٹھاتا ہوں۔“
اور مزید ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ:
”میرے افسانے معاشرہ کی ناہمواریوں اور انسانی مسائل و موضوعات کے عکاس ہیں۔ یہ آپ کے لیے اجنبی نہیں ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ واقعات و کردار آپ کے گرد و پیش میں ہوں۔ دیہی زندگی سے وابستہ افسانے ہماری مٹی پانی کے درپن ہیں۔ یہ میری حقیقت بیانی ہے۔ میں افسانہ کو زندگی کا ترجمان سمجھتا ہوں۔ جو پھیلاؤ زندگی میں ہے، جو فطری پن زندگی کا خاصہ ہے وہی کچھ افسانے کے ساتھ بھی ہے۔ میں افسانہ لکھتے ہوئے نہ توکسی فنی ضابطے کو تلاش کرتا ہوں اور نہ ہی اس کا خیال رہتا ہے بلکہ جو صورت بن جاتی ہے قاری کے سامنے پیش کر دیتا ہوں۔“
اس تناظر میں ان کے متعدد افسانوی تراشے، اقتباسات اور پیرا گراف کا تجزیاتی مطالعہ پیش نظر رکھیں تو معلوم پڑے گا کہ آزاد کا افسانوی اسلوب ہندستانی مزاج، دیہی زندگی اور نئے پرانے شعور کا ہم آمیز نتیجہ ہے۔ افسانہ نگار آزاد نے انھیں اپنے ماحول و معاشرہ سے اکتساب کرتے ہوئے سہیل عظیم آبادی اور پریم چند سے خود کو ملانے کی کوشش کی ہے۔ اگر آزاد واقعے کی ترکیب، کردار نگاری اور مکالمہ نگاری پر اپنی توجہ مزید صرف کرتے تو ان کی کوششیں اور زیادہ کامیاب نظر آتیں۔ اس لیے کہ ہندستانی سماج کا آزاد منظر نامہ ظلم و ستم، دھوپ چھاؤں اور اجالے اندھیرے کی کہانی ہے۔فراق نے اسے ”بیمار کی رات“ کہا تھا اور اہل علم حضرات نے اسے ”انتشار“ سے تعبیر کیا ہے۔ اس انتشار میں ہندستان کی حیرت انگیز فضائیں کروٹیں لیتی ہیں۔ان کروٹوں میں ہندستان کی سائیکی مختلف صورتوں میں ابھر کر سامنے آتی ہے۔ مثلاً ہند آریائی افکار، گوتم بدھ کے افکار، اسلام کی ابتدا، مغلیہ افکار، ١٨٥٧ کی پہلی جنگ آزادی، انگریزوں کی انتہا پسندی، جنگ عظیم کی ہولناکی اور تقسیم ہند کے واقعات؛ اس تناظر میں ادب کا ایک حساس قاری جب گہرائی کے ساتھ چیزوں کو دیکھتا ہے تو سماج کی سلجھی ہوئی گتھیاں الجھ جایا کرتی ہیں لیکن دل کو سمجھانا پڑتا ہے کہ”آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک“۔ بہر صورت آزادی کے بعد کا زمانہ ایک نئی تہذیب کا زمانہ واقع ہوا ہے۔ گویا آفتاب ہمارے ملک کے افق سے طلوع ہوا اور قومی زندگی کا مستحکم منجمد ڈھانچہ پگھل گیا۔ نئی نسل اور اس کی سائیکی آج بھی اس سے متاثر  ہے۔ مجیر احمد آزاد کے افسانوں کا جب میں بہ نظر غائر مطالعہ کرتا ہوں تو معلوم پڑتا ہے کہ موصوف کی سائیکی اس سے اثر قبول کرتی ہے۔”جھکی ہوئی شاخ“ میں شامل متعدد افسانے اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مجیر احمد آزاد نے اس منجمد بکھرے ہوئے ڈھانچے کو اپنے دامن میں چنا ہے جو ہندستانی تہذیب و تمدن کا ایک گہوارہ تھا۔ لیکن تھک ہار کر جب اپنی مسخ کردہ تہذیب کو کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو حد درجہ مضطرب ہو جاتے ہیں۔ہندستان کا اصل منظر، ہندستانی رنگ اور اس کی نیرنگیاں، ہندستانی طور طریقے، گنگا جمنی تہذیب، دو جسم ایک جان، محبت کرنے اور محبت جتانے کا اصول، مہمان نوازی کا سلیقہ اور سب سے بڑھ کر انسانوں کا گرنا ہوا معیار……….! ان تمام عنصروں پر آزاد کی آنکھیں خیرہ اور پریشاں ہیں۔ گویا اپنے کھوئے ہوئے ہندستان کو ڈھونڈ رہی ہوں، اپنی تہذیب اور ملی شعور کا متلاشی ہو۔ ان کے تخلیقی اظہار کا یہی کرب ہے جو سہیل عظیم آبادی کی راہوں سے گذر کر حیات اللہ انصاری اور پریم چند کے افسانوں کے اسلوب سے ہم آمیز ہو گئی ہے۔ آزاد کی سائیکی نے جس ملک کا تصور کیا ہے وہ کہیں بہت دور چھوٹ سا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میرے مطالعے کا حاصل مجیر احمد آزاد مضطرب فن کار کی صورت میں ابھر کر سامنے آیا ہے۔
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش: اردو ادب میں نئے امکانات کووڈ ١٩ کے حوالے سے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے