موجودہ حالات میں مسلمانان ہند کا لائحہ عمل کیا ہو

موجودہ حالات میں مسلمانان ہند کا لائحہ عمل کیا ہو

ڈاکٹر سیّد احمد قادری
رابطہ: 8969648799

گزشتہ  دنوں  گجرات فساد میں بے رحمی سے ہلاک کیے جانے والے ممبر پارلیمنٹ احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری کی حمایت میں کھڑی اور ان کے لیے قانونی لڑائی لڑنے والی انسانی حقوق کی سرگرم رکن تیشتا سیتلواڑ اور ایک ٹی وی چینل پر نوپور شرما اور نوین جین کے ذریعہ اہانت رسول ﷺ کی کلپ وائرل کرنے والے آلٹ نیوز کے صحافی محمد زبیر کی گرفتاری اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ موجودہ حکومت مسلمانان ہند پر کیے جانے والے ظلم، بربریت، نا انصافی اور حق تلفی کے خلاف جو کوئی آواز اٹھائے گا اور حمایت کرے گا، ایسے لوگوں کو اس طرح کے نا کردہ گناہ کی پاداش میں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے گا۔ جس سے مسلمانوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کرنے کے ساتھ ساتھ مذہبی منافرت کے خلاف اور انسانی حقوق کی حمایت میں بولنے، لکھنے اور احتجاج کرنے والوں کی بھی ہمّت، حوصلوں اور جرأت مندانہ اقدام کو کچل دینا چاہتی ہے۔لیکن ایسے خوف زدہ اور سراسیمگی کے ماحول میں بھی کچھ لوگ غلط کو غلط کہنے کی جرأت رکھنے والے ہیں۔ کانگریس رہ نما نے محمد زبیر کی گرفتاری پر سچ ہی کہا ہے کہ بی جے پی کے جھوٹ، تعصب اور منافرت کو بے نقاب کرنے والا ہر شخص حکومت کے لیے خطرہ ہے۔ ایک حق کی آواز کو دبانے کے رد عمل میں ہزاروں آوازیں اٹھیں گی۔ ظلم پر ہمیشہ سچائی کی فتح ہوتی ہے۔
ہم اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ ملک کا موجودہ مسلم مخالف منظر نامہ ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ اور تشویشناک ہے۔ مسلم مکت بھارت کا نعرہ اور ایجنڈے کے تحت ملک کے مسلمانوں کے تمام تر ایثار و قربانیوں کو فراموش کرتے ہوئے فرقہ پرستوں اور فاشسٹوں کے ذریعہ ان کے سیاسی، سماجی، معاشرتی، اقتصادی، تعلیمی، مذہبی، تہذیبی، لسانی اور ثقافتی تشخص کو ختم کرنے کی غیر آئینی وغیر انسانی منصوبہ بند اور منظم کوششیں کی جا رہی ہیں۔ جن کی تفصیل آئے دن ملک کے طول و عرض سے مسلسل سامنے آتی رہی ہیں۔ ایسے سانحات اور واقعات کے رونما ہونے کے بعد سیکولرزم پر یقین رکھنے والے اور سماجی و سیاسی طور پر متحرک رہنے والے برادران وطن کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک کی بھی سیاسی و سماجی تنظیمیں اور معتبر دانشور نہ صرف ان کی مذمّت کرتے ہیں بلکہ احتجاج اور مظاہرے بھی کرتے ہیں۔ ایسی سینکڑوں مثالیں بھری پڑی ہیں۔ تازہ مثال ملک کی مشہور انسانی حقوق کارکن تیستا شیتلواڑ جن کا میں نے  مندرجہ بالا سطور میں ذکر کیا ہے؛ ان کے ساتھ ساتھ بیرون ملک امریکا میں امریکی مسلم تنظیم انڈین مسلم کونسل کی ہے جس نے امریکا کی ڈیموکریٹک پارٹی کی رکن پارلیامنٹ الہان عمر کے ذریعہ ایوان میں پیش کیے جانے والی اس قرارداد کی، جس میں مبینہ طور پر اقلیتوں خصوصاََ ہندستان کے مسلمانوں کی حق تلفی کی تنقید کی گئی ہے اور امریکا کے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ امریکی اراکین کانگریس رشدہ طالب اور جوان ورگاس کی پیش کردہ قرارداد میں بین الاقوامی مذہبی آزادی پر امریکی کمیشن کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے اسے نافذ کریں نیز ہندستان میں مسلسل مذہب کی بنیاد پر تفرقہ اور منافرت پھیلائے جانے کی کوششوں سے باز نہیں آنے اور مذہب کی بنیاد پر ہندستان کے مسلمانوں پر ظلم و تشدد کیے جانے پر بین الاقوامی مذہبی ایکٹ کے تحت ہندستان کو خصوصی فکر والا ملک (سی پی سی) قرار دیے جانے کی بھی مانگ (27 اپریل 2022) کی گئی ہے۔ یہ مطالبہ اپنے آپ میں کس قدر سخت اور شرمناک ہے۔ ملک و بیرون ممالک کی سیاست پر نظر رکھنے والے اس سے بہ خوبی واقف ہیں۔ ان چند مثالوں سے ملک اور بیرون ملک میں ہندستانی مسلمانوں کے ساتھ ہو رہے ظلم اور ناانصافیوں کے خلاف ہونے والی سنجیدہ کوششوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
موجودہ حالات میں ہندستانی مسلمان اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ مسلمان خوف اور مایوسی کے سایے میں جی رہے ہیں۔ اس لیے ایسے کٹھن دور میں سنجیدہ حلقوں سے یہ سوال اٹھنا فطری اور لازمی ہے کہ ایسے حالات میں مسلمانان ہند کیا کریں؟
اس سلسلے میں ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہم دیکھیں گے کہ ایسے مشکل حالات ملک یا بیرون ممالک کے مسلمانوں کے لیے نئے نہیں ہیں۔ مسلمان اکثر ایسے سخت امتحان اور آزمائشوں سے گزرے ہیں اور ان پر فتح حاصل کی ہے۔ اپنے ہی ملک میں ٹھیک آزادی سے قبل مسلمانوں کے لیے یہاں کی زمین کتنی سخت اور گرم کر دی گئی تھی۔ لیکن ہندستان کے مسلمانوں نے اپنی سیاسی بصیرت اور سماجی ذمّہ داریوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف ان کا مقابلہ کیا بلکہ اپنی اہمیت اور حیثیت برقرار رکھتے ہوئے ان مشکل حالات پر قابو بھی پایا۔
اس لیے ضرورت ہے کہ ہندستان کے مسلمان وقت اور حالات کے تقاضوں کو محسوس کرتے ہوئے ہمّت اور حوصلے کے ساتھ ان حالات کے تدارک کے لیے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دانشورانہ، عالمانہ، مدبرانہ اور حکمت عملی کے ساتھ مختصر مدتی اور طویل مدتی منصوبے تیار کریں اور ان پر بہت سنجیدگی سے عمل کریں۔ آزادی ہند کے بعد ہم چند سیاسی پارٹیوں کے بھروسے اور ان کے جھوٹے وعدوں پر تکیہ کیے رہے۔ اپنی بقا اور تشخص کے لیے کبھی کوئی سنجیدہ اور بڑا فیصلہ یا اقدام نہیں کیا۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے لیے اور اپنے آنے والی نسل کے لیے جاگیں۔ وقت ہمیشہ یکساں نہیں رہتا اور کب کون سا رخ اختیار کر لے، نہیں کہا جا سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم منظم اور متحد ہو کر سب سے پہلے ذات پات کی خلیج کو ختم کریں۔ موجودہ حالات میں یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں ہے۔ اس کے بعد ہمارے دینی رہ نما اور علما وقت اور حالات کی نزاکت اور تقاضوں کے پیش نظر اپنے مسلکی اختلافات کو ٹھنڈے بستے میں ڈال کر اسلامی نظریہ حیات کو اپناتے ہوئے مسلمانوں کے اندر اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کریں۔ اس بات پر تو تمام مسلک کے لوگ اتفاق کریں گے کہ قران پاک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جس سے ہمیں روشنی حاصل کرتے ہوئے لائحہ عمل تیار کرنا ہے۔ اگر ان دو اہم مسئلہ پر اتفاق ہو جائے تو پھر ہم مقامی، ریاستی اور پھر قومی سطح پر ایسے قائد تلاش کریں جو اپنے کردار و عمل سے یہ باور کرائے کہ وہ امت مسلمہ کا بے لوث خادم ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ہر ریاست میں ایک ’تھنک ٹینک‘  تشکیل دی جائے تاکہ وہ عوام اور قائد کے درمیان رابطہ رکھے اور دانش مدانہ مشوروں و منصوبوں پر عمل کرے۔ یہ تھنک ٹینک اور قائد ملک کی اہم سیکولر شخصیات اور سیاسی و سماجی تنظیموں کے رابطے میں رہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہندستان میں ہم سیکولر طاقتوں کے ساتھ مل کر ہی اپنی حکمت عملی کے ساتھ متعصب، فرقہ پرستوں اور فسطائی قوتوں کے مسلم مخالف منصوبوں اور سازشوں کے تیز دھار کو کند کرسکتے ہیں۔ مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی فرقہ پرستوں کی کوششوں کو ناکام کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم جذباتیت کا شکار نہیں ہوں۔ فرقہ پرستوں کی یہی کوشش اور منصوبہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو مشتعل کر انھیں احتجاج اور مظاہرے کے لیے مجبور کریں اور وہ بغیر کسی منصوبہ اور قائد کے سڑکوں پر نکلیں اور اس بھیڑ میں غیر سماجی عناصر کو دانستہ طور پر شامل کرکے، آئینی اور قانون کے دائرے میں ہونے والے احتجاج اور مظاہرے کے مثبت مقاصد کو فوت کر تے ہوئے کوئی ایسی حرکت ہو کہ پولیس کے ظلم و بربریت کے مسلمان شکار بنیں۔ انھیں گولیاں ماری جائیں، انھیں جیلوں میں سڑایا جائے، ان کے گھروں کو منہدم کیا جائے۔ اس ضمن میں بہتر یہ ہے کہ فرقہ پرستوں کے نعروں اور ناپسندیدہ بیانات کا جواب وہی سیکولر جماعت اور شخصیات دیں، جن کے ہم رابطے میں ہیں اور جو ہماری مجبوریوں کو بہ خوبی سمجھ رہے ہیں۔ یہی ہماری حکمت عملی ہونی چاہئے۔ اس لیے کہ یہ بات بھی اب پوری طرح عیاں ہو چکی ہے کہ ملک کے مسلمان کسی بھی قیمت پر اس وقت تک اپنے مثبت منصوبوں پر کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ ملک کے سیکولر طاقتوں کے ساتھ نہیں چلیں گے۔ ہمیں اپنے برادران وطن کے ساتھ ہم آہنگی کا بھی بھرپور مظاہرہ کرنا ہوگا، جو ہماری شان دار روایت اور گنگا جمنی تہذیب کا حصہ رہی ہے۔ ان کے دُکھ سُکھ، ان کے پرب تیوہار میں کثرت سے شامل ہوں۔ بازار اور دیگر تجارتی ماحول میں اپنے مخلصانہ کردار و عمل سے ان کے دلوں میں اپنے لیے محبت اور یک جہتی کا جذبہ پیدا کریں۔
ان امور کے ساتھ ساتھ ہمیں تعلیم کے میدان میں بھی کامیاب ہونا ہے۔ اس لیے کہ تعلیم ہی ترقی کی راہ کو آسان کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قران میں تعلیم کی اہمیت پر کافی زور دیا گیا ہے۔ اس کار خیرکے لیے مخیر حضرات اور بہت ساری فلاحی تنظیمیں ہیں، جو معاشی طور پر کم زور اور حاشیہ پر پڑے لوگوں کی مجبوریوں کو سمجھتے ہوئے بچوں کی تعلیم کے حصول کو آسان بنا سکتے ہیں۔ ملک میں ہمارے اوقاف کے تحت اتنی دولت ہے کہ ان سے ہم بڑی آسانی سے اور بڑے پیمانے پر اسکول، تکنیکی کالج اور مدارس کھول سکتے ہیں، جو ہمارے بچوں کے تابناک مستقبل کے ضامن بن سکتے ہیں۔ اوقاف پر جس طرح ناجائز قبضہ لوگوں نے کر رکھا ہے، انھیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ حکومت کی نگاہ میں ان کی کرتوت بہت ہی واضح طور پر ہے اور وہ اگر ان ناگفتہ بہ حالات میں بھی اپنی اپنی ذمّہ داریوں کو ایمان داری سے نہیں نبھاتے ہیں تو وہ دن دور نہیں جب حکومت کوئی بھی قانون لا کر اوقاف کی دولت کو اپنے مصرف میں لے لے گی اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ حکومت کی سرپرستی میں فرقہ پرستوں کے حوصلے بڑھتے جا رہے ہیں. حالات بہت تیزی سے ہمارے مخالف ہو رہے ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ وقت کی نزاکت اور ضرورت کو سمجھتے ہوئے حکمت عملی سے اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کے بجائے اجتمائی مفادات کو فوقیت دیں ورنہ اللہ نہ کرے کہ علّامہ اقبال کی یہ پیشن گوئی سچ ہو جائے کہ ؎
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
***
صاحب مضمون کی گذشتہ تحریر : عالمی یوم ماحولیات اور بڑھتی آلودگی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے