اردو صحافت کا ارتقا: ایک مطالعہ

اردو صحافت کا ارتقا: ایک مطالعہ

محمد شہبازعالم مصباحی*


سب سے پہلے اکبر الہ آبادی کا ایک معروف شعر آپ سبھوں کی باذوق بصارتوں کے حوالے کرتا ہوں:
کھینچو نہ کمانوں کو، نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو، تو اخبار نکالو
سر دست میرے مطالعہ کی میز پر اردو صحافت کا ارتقا نامی کتاب ہے۔ یہ بیش بہا کتاب معصوم مرادآبادی کے قلم کی رہین منت ہے۔ معصوم مرادآبادی ایک کہنہ مشق اردو صحافی اور ادیب ہیں جو اردو نیوز پورٹل "جدید خبر" اور پندرہ روزہ اخبار "خبردار" کے مالک و مدیر ہیں۔ وہ پچھلے 35 برسوں سے اردو صحافت سے وابستہ ہیں۔ انھیں علمی، تاریخی، ادبی اور سیاسی موضوعات پر یکساں عبور حاصل ہے۔ ملک کے اہم اخبارات میں ہفتہ واری کالم لکھنے کے علاوہ اردو کے ادبی جریدوں "آ ج کل"، "ایوان اردو"، "نیا دور" اور”اردو دنیا" میں بھی ان کے مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔انھیں اب تک دہلی، اترپردیش اور مغربی بنگال کی اردو اکیڈمیاں صحافتی خدمات کے لیے ایوارڈ سے نواز چکی ہیں۔ ان کی اب تک ایک درجن کتابیں منظرعام پر آ چکی ہیں، جن میں چار کتابیں اردو صحافت پر ہیں۔
زیر مطالعہ یہ کتاب کل چار ابواب پر مشتمل ہے۔
کتاب کا آغاز حرفِ آغاز سے ہوتا ہے جسے انیس اعظمی سکریٹری اردو اکادمی دہلی نے لکھا ہے جس میں انھوں نے اردو اکادمی، دہلی سے اس کتاب کے شائع ہونے کے پیش نظر یہ اعتراف کیا ہے کہ یہ کتاب اردو اکادمی کے اشاعتی ذخیرے میں ایک بیش بہا اضافہ ہے جس کا سہرا جناب معصوم مرادآبادی کی محنت شاقہ کے سر ہے۔ (ص: 6)
اس کے بعد مصنف نے "اخبار بیتیََ کے عنوان سے ایک مختصر تحریر لکھی ہے جس میں انھوں نے صحافت سے اپنی وابستگی کے احوال قلم بند کرنے کے بعد لکھا ہے کہ: "اردو صحافت کی تقریباً دو سو سالہ تاریخ بے مثال قربانیوں، ایثار اور جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ دو صدیوں کی یہ داستان سینکڑوں کتابوں میں بکھری ہوئی ہے۔ میری یہ تازہ کتاب اس میں کسی اضافے کا سبب تو ہرگز نہیں ہوگی۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ میں نے اس عرصے میں جو کچھ جانا، پہچانا اور پڑھا ہے اسے کچھ بکھرے ہوئے اوراق کی صورت میں آپ کے حوالے کرتا ہوں"۔ (ص: 9)
اسی عنوان کے تحت مزید لکھتے ہیں کہ:
اردو صحافت نے بہت صبر آزما اور مشکل دور دیکھا ہے۔ اس کے کار پردازوں نے بڑی مشقت اور عرق ریزی کے ساتھ آج اسے اکیسویں صدی کی دہلیز تک پہنچایا ہے۔ آج اردو صحافت کا دائرہ بہت وسیع ہو چکا ہے اور اس کے بال و پر دنیا کی جدید ترین اور ترقی یافتہ زبانوں کی صحافت سے بات کر رہے ہیں۔ پتھر کے دور سے شروع ہونے والی یہ صحافت آج کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور سیٹلائٹ کے برق رفتار دور میں پورے اعتماد کے ساتھ داخل ہو چکی ہے۔ اردو کے ای پیپرز اپنی مقبولیت کا نیا ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔
اردو صحافت نے ارتقا کا یہ عمل کن مراحل سے گزر کر پورا کیا ہے اور اس کے صحافیوں نے اپنی جفا کشی، محنت اور جد و جہد سے تاريخ کے صفحات پر جو نقوش ثبت کیے ہیں، یہ کتاب در اصل اسی کا ایک مبسوط خاکہ ہے جس میں دو صدیوں پر محیط اردو صحافت کے تاریخی، فنی اور تکنیکی ارتقا کی تاریخ کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ (ص: 11-10)
کل چار ابواب پر مشتمل اس کتاب کے باب اول کے تحت مطبوعہ صحافت کا آغاز، پہلا اردو اخبار، اردو صحافت اور پہلی جنگ آزادی، ارتقائی مراحل، قدیم اردو اخبارات، اردو صحافت اور مولانا آزاد، دہلوی صحافت جیسے ذیلی عناوین باندھے گئے ہیں۔مطبوعہ صحافت کا آغاز کے ذیل میں معصوم مرادآبادی نے دیگر تفصیلات کے ساتھ صحافت سے متعلق یہ قیمتی تفصیلات لکھی ہیں:
ہندوستان میں مطبوعہ صحافت کا آغاز انگریزی اخبار "ہکیز گزٹ" ( Hicky’s Gazette) سے ہوا جو 1780 میں کلکتہ سے نکلا۔ اس اخبار کا اولین شمارہ 29 جنوری، 1780 کو شائع ہوا۔ یہ چار صفحوں کا ایک چھوٹا سا اخبار تھا۔ اخبار میں غیر مہذب مضامین کی اشاعت، لوگوں کو بدنام کرنے اور شہر کے امن کو مکدر کرنے کے سلسلے میں اس کی تقسیم پر پابندی لگادی گئی۔ یوں ہندوستان کا پہلا انگریزی اخبار اپنی غیر سنجیدگی اور سوقیانہ پن کی وجہ سے حالات کا شکار ہوا، لیکن اس کے برعکس ہندوستان میں اردو صحافت نے پوری سنجیدگی، متانت اور دیانت داری کے ساتھ ارتقائی منزلیں طے کیں ۔ 1822 میں کلکتہ سے "جامِ جہاں نما" کی اشاعت سے لے کر آج تک اردو صحافت کا کردار بڑا روشن اور تابندہ ہے۔ (ص: 26-25)
پہلا اردو اخبار یہ کتاب کے باب اول کی دوسری ذیلی سرخی ہے جس کے تحت یہ معلومات نذر قارئین کی گئی ہیں:
1830ء میں فارسی کی جگہ اردو سرکاری زبان قرار دی گئی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اس اقدام کا قدرتا اردو کی نشو و نما پر خوش گوار اثر ہوا۔ عدالتوں میں فارسی کی جگہ اب اردو میں کام ہونے لگا اور اس کے ساتھ ہی اردو زبان کے اخباروں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھنے لگی۔
صحافت کی مجموعی ترقی میں دوسرا بڑا عنصر یہ تھا کہ 1835ء میں سر چارلس مٹکاف نے اخبارات کو مختلف پابندیوں سے آزاد کردیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ دیسی زبانوں میں کئی اخبار نکل آئے۔ ان زبانوں میں اردو زبان سر فہرست تھی، کیوں کہ اسے سرکاری زبان کی حیثیت حاصل تھی۔ (ص: 31-30)
اسی عنوان کے تحت ہی مصنف نے اولین اردو اخبار کے طور پر 1794 کے آس پاس ٹیپو سلطان کا جاری کردہ "فوجی اخبار"، 1810 میں کلکتہ سے شائع ہونے والا” اردو اخبار" جاری کردہ مولوی اکرام علی (مترجم اخوان الصفا) اور 1822 میں کلکتہ ہی سے اشاعت پذیر "جام جہاں نما" کا نام لیا ہے۔ اول الذکر دونوں اخبار کے اولین اردو اخبار ہونے کے حوالے سے شبہات و اختلافات ہیں، جب کہ اردو صحافت کے بیشتر مؤرخین نے آخر الذکر جام جہاں نما، کلکتہ (اول شمارہ: 27 مارچ، 1822ء) کو ہی اولین اردو اخبار تسلیم کیا ہے جس کے مالک ہری ہردت رائے اور مدیر سدا سکھ لعل تھے۔
اردو صحافت اور پہلی جنگ آزادی کتاب کے باب اول کی تیسری ذیلی سرخی ہے جس کے ذیل میں مصنف نے یہ تفصیلات قلم بند کی ہیں:
دہلی میں اردو صحافت کی ابتدا 1837 میں "دہلی اردو اخبار" کی اشاعت سے ہوئی جو مولانا محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر نے جاری کیا تھا۔ 1857 کی جنگ آزادی کے دوران دہلی میں اسی اخبار نے انقلابی رجحانات کو فروغ دینے کا کام نہایت مؤثر انداز میں کیا۔ 1857 کی بغاوت کی رپورٹنگ اور اس عہد کے واقعات کو صحیح تناظر میں پیش کرنے کی پاداش میں اس پر انگریزوں کا عتاب نازل ہوا اور مولوی محمد باقر کو گرفتار کرکے نہایت سفاکی سے (16 ستمبر، 1857ء میں) شہید کردیا گیا۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ہے کہ مولوی محمد باقر وطن عزیز کی آزادی پر اپنی جان نثار کرنے والے اولین صحافی ہیں اور ہندوستان میں کسی بھی زبان کی صحافت اس قربانی کی کوئی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یہ ہمارا ہی سرمایۂ افتخار ہے کہ قلم کی آبرو اور وطن کی سرخروئی کے لیے اپنی جان قربان کرنے والا پہلا صحافی بھی اس اردو زبان ہی نے پیدا کیا جس کی کوکھ سے انقلاب کے لازوال نعرے نے جنم لیا تھا۔ (ص: 38)
ہفتہ وار "دہلی اردو اخبار" کا اولین شمارہ 17 مئی، 1857ء کو منظر عام پر آیا تھا۔ اس اخبار میں رپورٹنگ کا اسلوب معروضی تھا اور ہر واقعات کی جزئیات تک ریکارڈ کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ ساری معلومات ایڈیٹر خود سلیقے اور محنت سے ترتیب دیتے تھے اور واقعات بیان کرنے میں قصہ گوئی کا انداز تھا۔ (ص: 41)
بعد میں مولوی محمد باقر کے (بعض) کارناموں سے خوش ہوکر بہادر شاہ ظفر نے اپنے نام کی مناسبت سے ان کے اخبار کا نام "اخبار الظفر" کردیا جس کا اعلان 12 جولائی، 1857 کے شمارے کے سرورق پر ہوا اور اس اخبار کے آخری دس شمارے اسی نام سے شائع ہوئے۔ (ص: 43)
1857ء کے دوران دہلی میں اردو کے تین اخباروں کا کردار سب سے نمایاں اور مؤثر نظر آتا ہے۔ ان میں مولوی محمد باقر کا دہلی اردو اخبار، جمیل الدین ہجر کا "صادق الاخبار" اور بہادر شاہ ظفر کے نواسے مرزا بیدار بخت کا "پیام آزادی" (اولین اشاعت فروری 1857ء) شامل ہے۔ ان تینوں اخبارات نے 1857 میں آزادی کی شمع کو روشن کرنے میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ (ص: 40-39)
ارتقائی مراحل کتاب کے باب اول کی چوتھی ذیلی سرخی ہے جس کے تحت مصنف نے 1857 کے بعد اردو صحافت کے ارتقائی سفر پر روشنی ڈالی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
مولانا حسرت موہانی اردوئے معلی کی ادارت کرتے تھے، لالہ لاجپت رائے، حکیم اجمل خان، مولانا ابو الکلام آزاد سب ہی اردو صحافت کے ذریعے عوامی زندگی میں آئے۔ "الہلال" جس کو مولانا ابو الکلام آزاد نے 1912 میں کلکتہ سے شائع کرنا شروع کیا، طاقت ور اردو صحافت کی ایک سب سے خوب صورت مثال ہے۔ مہاتما گاندھی”ہریجن" کے ایک شمارے کی اشاعت اردو میں کرتے تھے۔ جواہر لعل نہرو نے لکھنؤ سے اردو میں "قومی آواز" نام سے ایک اخبار نکالنا شروع کیا تھا۔ اس ملک میں سر سید احمد خان کے "سائنٹفک گزٹ" اور” "تہذیب الأخلاق" کو اعلی مقام حاصل تھا۔ ملاپ، پرتاپ، تیج اور دیگر کئی اخبار آزادی کے طاقت ور حمایتی تھے۔ (ص: 58-57)
اسی ذیلی عنوان کے تحت اردو صحافت کے موجودہ مقام اور مزید ارتقا کی راہ میں حائل مختلف دشواریوں کا تذکرہ ایک طویل پیرا میں مصنف نے کیا ہے۔ ملاحظہ کریں:
آج اردو صحافت کو ہندوستان میں ہندی اور انگریزی کے بعد تیسرا بڑا مقام حاصل ہے۔ اردو اخبار 15 ریاستوں اور مرکز کے زیرِ انتظام دو علاقوں سے شائع ہو رہے ہیں۔ اخباروں کی تعداد کے معاملے میں 2670 اخبارات و جرائد کے ساتھ اردو کا ہندی اور انگریزی کے بعد تیسرا نمبر ہے۔ روزنامہ اخباروں کے معاملے میں کل ہند سطح پر اردو کو دوسرا مقام حاصل ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین دہائیوں کے دوران اردو اخباروں کی تعداد میں قابلِ ذکر اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافہ کی شرح سبھی زبانوں کے ہندوستانی روزنامہ اخباروں کی کل اضافی شرح سے کہیں زیادہ ہے، لیکن دوسرے لسانی اخباروں کی طرح اردو کے اخباروں کو بھی مختلف دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اردو کے ارتقا کے لیے سرکار کے ذریعہ 1972 میں مرحوم (آنجہانی) اندر کمار گجرال کی صدارت میں تشکیل دی گئی کمیٹی نے اردو صحافت کے تعلق سے اہم سفارشات کی تھیں۔ ان سفارشوں میں اردو اخباروں کو قومی بینکوں کے ذریعہ قرض اور مالی امداد دیا جانا، اردو کے چھوٹے چھوٹے اخباروں کو اخباری کاغذ فراہم کرنے سے متعلق ضابطے کو آسان بنایا جانا، اردو اخباروں کو اشتہار دیے جانے سے متعلق شرحوں میں چھوٹ دیا جانا، اردو صحافت میں دل چسپی رکھنے والے لوگوں کو تربیت دینے کے لیے یونیورسٹیوں میں ذرائع ابلاغ سے متعلق مرکز اور انسٹی ٹیوٹ کا قیام، اردو اخباروں اور رسائل کی اشاعت کے لیے امداد باہمی کمیٹیوں کی تشکیل اور جدید تکنیکی سہولتوں کا استعمال کرکے اردو اخباروں اور رسالوں کی طباعت کی جدید کاری جیسی سفارشات شامل تھیں۔ یہ سفارشیں بہت ہی اہم ہیں اور ان پر سنجیدگی سے غور نیز ان پر عملی کاروائی بے حد ضروری ہے۔ گجرال کمیٹی کی سفارشات پر عملی اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے سرکار کے ذریعہ 1990 میں علی سردار جعفری کی صدارت میں تشکیل دی گئی ماہرین کی کمیٹی نے بھی اردو کے ایسے صحافیوں کو تربیت دینے کی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے، جنھیں اپنی صلاحیتوں کو سنوارنے کے مواقع فراہم نہیں ہیں۔ یہ تجویز کہ اردو صحافت میں مزید بہتری لانے کے کام میں اردو اکیڈمیوں کو شامل کیا جائے، در حقیقت ایک اہم تجویز ہے۔ (ص: 59)
مصنف نے کتاب کے باب اول کی پانچویں ذیلی سرخی "قدیم اردو اخبارات" قائم کی ہے۔ قدیم اردو اخبارات میں انھوں نے ہفت روزہ "سید الاخبار"، دہلی، مدیر مولوی عبد الغفور، مالک سید محمد خان برادر سر سید احمد خان، سنہ اجرا 1837، ‘کوہ نور’، لاہور، مالک منشی پرسکھ رائے، تاریخِ اجرا 14 مئی، 1850، ‘اعظم الاخبار’، مدراس، سنہ اجرا 1848، ‘اودھ اخبار’، لکھنؤ، 1858ء، مالک منشی نول کشور، ایڈیٹر منشی غلام محمد خاں تپش و پنڈت رتن ناتھ سرشار، مزاحیہ اردو اخبار ‘اودھ پنچ’، لکھنؤ، جنوری 1877، مدیر: منشی سجاد حسین، اخبار سائنٹفک سوسائٹی، غازی پور و علی گڑھ، 9 جنوری 1864ء، سر سید احمد خان، تہذیب الاخلاق، علی گڑھ، تاریخ اجرا 24 دسمبر، 1870ء، مدیر سر سید احمد خان، پیسہ اخبار، فیروز والا و لاہور، تاریخ اجرا: جنوری 1887ء، مالک مولوی محبوب علی، اردوئے معلیٰ، علی گڑھ، سنہ اجرا 1903، مالک و مدیر مولانا حسرت موہانی، زمیندار، گوجرانوالہ و لاہور، تاریخ اجرا جون 1903، مولانا سراج الدین احمد و مولانا ظفر علی خان، ہمدرد، کلکتہ و دہلی، مؤسس و مدیر مولانا محمد علی جوہر، تاریخ اجرا 23 فروری، 1913، الہلال، کلکتہ، مولانا ابو الکلام آزاد، تاریخ اجرا 13 جولائی، 1912ء کو شمار کرایا ہے۔
اشاعتی ارتقا کتاب کے باب سوم کی چھٹویں سرخی ہے جس کے تحت مصنف نے درج ذیل اطلاعات بہم پہنچائی ہیں:
رجسٹرار آف نیوز پیپر آف انڈیا (RNI) کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق ملک میں تمام زبانوں کے رجسٹرڈ اخبارات کی مجموعی تعداد 82237 ہے، جن میں 4853 نئے اخبارات 11-2010 کے درمیان رجسٹرڈ کیے گئے ہیں۔ سب سے زیادہ اخبارات کا رجسٹریشن ملک کی قومی زبان ہندی میں ہوا ہے جن کی تعداد 32793 ہے، جب کہ 11478 کے ساتھ انگریزی زبان دوسرے نمبر پر ہے۔ جہاں تک اخبارات کی سرکولیشن کا سوال ہے تو یہاں بھی ہندی زبان نے اپنی برتری قائم رکھی ہے اور اس وقت ملک میں ہندی اخبارات کی مجموعی سرکولیشن 15 کروڑ 54 لاکھ 94 ہزار 770 ہے، جب کہ انگریزی اخبار و جرائد کی تعداد اشاعت 5 کروڑ 93 لاکھ 70 ہزار 184 ہے، جب کہ تیسرے نمبر پر اردو زبان ہے جس کے 3 ہزار سے زائد اخبارات و جرائد کی مجموعی سرکولیشن 2 کروڑ 16 لاکھ 39 ہزار 230 ہے۔ (ص: 140)
پریس رجسٹرار کی گذشتہ رپورٹ کے مطابق پورے ملک سے شائع ہونے والے تقریباً 2844 اردو اخبارات و جرائد کا مجموعی سرکولیشن 61 لاکھ سے زائد تھا۔ اپنی تعداد کے لحاظ سے اردو صحافت ملک کی 22 بڑی زبانوں کی صحافت میں ہندی اور انگریزی کے بعد تیسرے نمبر پر ہے اور سرکولیشن کے اعتبار سے ہندی، انگریزی اور ملیالم کے بعد اس کا چوتھا نمبر ہے۔ ان اعداد کے اعتبار سے گذشتہ دہوں میں اردو اخباروں نے تعداد کے لحاظ سے ساڑھے پانچ گنا اور سرکولیشن کے لحاظ سے تقریباً آٹھ گنا اضافہ حاصل کیا ہے۔ (ص: 141)
اگر صرف اردو روزناموں پر نظر ڈالیں تو پورے ملک سے 525 اردو روزنامے شائع ہوتے ہیں۔ یہ ملک کی دیگر زبانوں کے گوشوارے میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ ان روزناموں کا مجموعی سرکولیشن 36 لاکھ 14 ہزار 692 بتایا گیا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آج ملک کے کم از کم 36 لاکھ لوگوں کے ہاتھوں میں ہر صبح اردو کا ایک اخبار ہوتا ہے۔ اگر آپ ان سرکاری اعداد و شمار کو مبالغہ آرائی بھی کہہ لیں تو اس حقیقت سے نظر چرانا مشکل ہے کہ دہلی، کلکتہ، پٹنہ، حیدرآباد، بنگلور اور ممبئی سے شائع ہونے والے دس بڑے اخباروں کا مجموعی سرکولیشن ہی کم و بیش 3 لاکھ ہے۔ ایک معتبر سروے کے مطابق ایک اردو اخبار گھر کے افراد اور آس پڑوس کی لین دین میں تقریباً دس ہاتھوں سے گزرتا ہے یعنی ان چند بڑے شہروں میں ہی اردو اخبارات کے لگ بھگ 30 لاکھ قارئین موجود ہیں۔ (ص: ایضاً)
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ماضی میں اردو صحافت شمالی ہند کا ہی طرۂ امتیاز تھی اور جنوبی ہند کی اردو صحافت کا مرتبہ یا تو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا یا اسے تصویر کا دوسرا رخ کہا جاتا تھا۔ اس کا معقول سبب بھی تھا۔ پریس رجسٹرار نے اپنی اولین رپورٹ میں جنوبی ہند میں اردو اخبارات کی نہایت مایوس کن تصویر پیش کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق حصول آزادی کے دس سال بعد جنوبی ہند کی تمام تین اردو نواز ریاستوں یعنی آندھراپردیش، میسور اور مدراس میں اردو کے اخباروں کی مجموعی تعداد 44 تھی اور ان کا مجموعی سرکولیشن 403 تھا۔ یہ دونوں اعداد شمالی ہند کے دہلی، پنجاب یا اتر پردیش کی کسی ایک ریاست کے اعداد سے بھی کم تھے۔ اب صورت حال قطعی بر عکس ہے۔ اب جنوبی ہند کے رجسٹرڈ اردو اخبارات کی تعداد 678 اور ان کا مجموعی سرکولیشن 11 لاکھ، 86 ہزار 685 ہے جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت جنوبی ہند کی ریاستیں آندھرا اور کرناٹک اردو صحافت کی قیادت کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ ان میں آندھراپردیش (تلنگانہ) کے دار الخلافہ حیدر آباد کو یہ افضلیت حاصل ہے کہ وہاں سے بیک وقت چار بڑے اردو روزنامے شائع ہو رہے ہیں۔ سیاست، منصف، اعتماد اور رہنمائے دکن کے علاوہ ہفتہ وار ‘گواہ’ اور پندرہ روزہ ‘وقار ہند’ جیسے اخبارات و جرائد کو آپ فخر کے ساتھ انگریزی اخبارات کے ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ (ص: 43-142)
اعداد و شمار کے بعد اب اردو صحافت کے معیار پر روشنی ڈالتے ہیں تو بڑی تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ ابتدا میں اردو اخبارات چھوٹے سائز کے دو یا چار صفحات پر پتھر یا لیتھو پرنٹنگ پریس میں چھپا کرتے تھے، لیکن 80 کی دہائی میں تقریباً سبھی بڑے روزنامے فوٹو آفسیٹ مشینوں پر شائع ہونے لگے۔ جدید پرنٹنگ ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے کے بعد اردو اخبارات دیگر زبانوں کے اخبارات کے برابر کھڑے تو ہوئے، لیکن صحافتی معیار میں کوئی خاص فرق نہیں آیا۔ اخبار کی تقسیم اور اشتہارات کے حصول کا کوئی نیٹ ورک نہ ہونے سے تعداد اشاعت میں بھی کوئی خاص اضافہ نہ ہو سکا۔ انگریزی اور علاقائی زبانوں سے اردو میں خبروں اور مضامین کا ترجمہ کرنے والے باصلاحیت، تجربہ کار اور محنتی مترجمین کی کمی تھی۔ چنانچہ اخبار کا صحافتی معیار بلند نہیں ہو پاتا تھا، لیکن کمپیوٹر کی آمد کے بعد ترقی کی رفتار اچانک بڑھ گئی۔ کمپیوٹر نے اردو صحافت میں بھی انقلاب برپا کردیا۔ 1990 کے بعد اردو روزناموں میں کمپیوٹر کا چلن عام ہونے لگا۔ اگرچہ پاکستان میں 1981 میں اردو سافٹ ویئر نوری نستعلیق کی ایجاد کے بعد روزنامہ ‘جنگ’ نے اپنے لاہور ایڈیشن کی شروعات کمپیوٹر کی کتابت سے کردی تھی، لیکن اسے ہندوستان آنے میں خاصا وقت لگا۔ سب سے پہلے جالندھر کے روزنامہ ‘ہند سماچار’ اور اس کے بعد ‘سیاست’، ‘رہنمائے دکن’، ‘انقلاب’، ‘قومی آواز’ اور ‘اردو ٹائمز’ کے دفاتر میں کمپیوٹر نے کاتبوں کی جگہ لے لی۔ ایک ہی کمپیوٹر سے چار کاتبوں کا کام لیا جانے لگا، ورنہ کمپیوٹر سے پہلے پورا اخبار بیسوں کاتب لکھا کرتے تھے۔ اس طرح وقت، توانائی اور روپے کی بچت ہوئی۔ صحافت اور طباعت کا معیار بھی بلند ہوا۔ اس جدید ٹیکنالوجی کا اثر یہ ہوا کہ اخبار کے صفحات اور خوب صورتی میں اضافہ ہوا جس کا لازمی اثر سرکولیشن پر پڑا۔ [اور اشتہارات پر بھی، یعنی سرکولیشن اور اشتہارات میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔] (ص: 143)
درج بالا ذیلی عناوین کے علاوہ درج ذیل ذیلی عناوین بھی کتاب میں باندھے گئے ہیں اور ہر ایک کے تحت تقریباً سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ وہ عناوین یہ ہیں: اردو صحافت اور مولانا آزاد، دہلوی صحافت (باب اول)، فنی ارتقا، صحافتی زبان، صحافت اور ادب، سر سید احمد خان کی تحریک، حیات اللہ انصاری کی اصلاحات (باب دوم)، تکنیکی ارتقا، اردو صحافت کی جدید کاری، پتھر سے کمپیوٹر تک، نوری نستعلیق کی ایجاد، اردو خبر رساں ایجنسی کا قیام، اردو کا فروغ اور صحافت، عصری مسائل، پریس کونسل کی رپورٹ، اردو ایڈیٹرس کی کانفرنس کی قرار دادیں، رسائل و جرائد کی صورت حال (باب سوم)، چند نامور صحافی (باب چہارم)
کچھ ناگزیر مصروفیات کی بنا پر ان عناوین کا مطالعہ میں نہیں کر سکا، لیکن امید کرتا ہوں کہ اردو صحافت کے آغاز و ارتقا کو سمجھنے کے لیے اس قدر حاصل مطالعہ بھی کافی ہے۔ معصوم مرادآبادی کی اس کتاب اردو صحافت کا ارتقا کو 2013ء میں دہلی اردو اکادمی نے شائع کیا ہے۔ کاغذ عمدہ اور طباعت نفیس ہے۔
*پتہ:
شعبۂ عربی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی
کوچ بہار، مغربی بنگال
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:ماہِ رمضان: دینی، سماجی اور تربیتی زاویۂ نظر سے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے