اردو ادب میں نئے امکانات کووڈ ١٩ کے حوالے سے

اردو ادب میں نئے امکانات کووڈ ١٩ کے حوالے سے

ڈاکٹر مستفیض احد عارفی
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو
ایل ایس کالج، مظفرپور

کورونا وائرس کے باعث عالمی مہاماری سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف نئے امکانات نمایاں ہوئے ہیں۔ زندگی کا ہر ایک شعبہ اس سے متاثر ہوا ہے۔ بالخصوص سماجی، معاشرتی، سیاسی، اقتصادی، مذہبی اور تعلیم و تدریس کے شعبوں میں ایک ایسی تبدیلی محسوس کی جارہی ہے جس سے پوری دنیا نئی کروٹ، نئی صبح اور نئے مناظر کے انتظار میں خدا کے حضور ملتجی ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ سماج جب کبھی عالمی تبدیلیوں سے ہم کنار ہوا ہے، زندگی کے مختلف شعبے اس کی زد میں آئے ہیں۔ ادب پر بھی اس کے اثرات دیکھے گئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ادب سچائی، دیانت داری اور خوب صورتی کے ساتھ ان تبدیلیوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ ١٨٥٧ء کا غدر، روسی انقلاب، جنگ عظیم، تقسیم ہند کے اثرات اور اس سے متعلق تبدیلیوں کو آج بھی شعر وادب میں محسوس کیا جاتا ہے۔ لہٰذا عالمی کورونا مہاماری کووڈ ١٩ کی وجہ سے فن کار کس حد تک متاثر ہوا، فن کار کے متاثر ہونے کا انداز کیسا ہے؟ کیا فن کار کے جذبات و احساسات اور نفسیات اجتماعی ہیں؟ حالیہ تناظر میں کیا شعر و ادب کی نئی بوطیقا نئے اصول کی تشکیل ممکن ہے؟ یا پھر کووڈ ١٩ سے متعلق شعر و ادب، احساسات، جذبات اور خواہشات کی سطح پر کس حد تک کامیاب ہے؟ لفظیات، اصطلاحات، استعارات، تشبیہات، علامات اور اس سے متعلق صنائع و بدائع کووڈ ١٩ سے پیدا شدہ حالات کی عکاسی کرنے میں کس طرح معاون ہیں؟ اس کے علاوہ اردو ادب کی روایت اور اس سے متعلق عظیم سرمایہ آج بھی محفوظ ہے؟ سابقہ شعروادب میں کووڈ ١٩ کے حوالے سے نئے امکانات کے لوازم، معانی یا پھر اصطلاحات ملتے ہیں؟ اس لیے کہ بڑا ادب آنے والے زمانوں سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ مذکورہ سوالات نئے امکانات کو بروئے کار لانے میں معاون ہیں۔
شعری ادب میں آج بھی میر، غالب، اقبال اور فیض احمد فیض کو اور نثری ادب میں پریم چند، قرۃ العین حیدر، بیدی اور سعادت حسن منٹو کو اعتبار حاصل ہے۔ اس لیے مذکورہ فن کاروں کے ادبی سرمایوں کا مطالعہ کووڈ ١٩ کے حالیہ تناظر میں کیا جانا چاہیے۔
یہاں شارحین او رقارئین پر واضح ہونا چاہئے کہ عالمی کورونا مہاماری کووڈ ١٩ سے متعلق موضوعات کیا ہیں؟ اس سے متعلق سابقہ اور موجودہ ادب میں نئے امکانات سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلے میں میرا ماننا ہے کہ اجتماعی سرگرمی سے گریز، آزاد پسندی اور خود نمائی سے گریز، سماجی، معاشرتی، مذہبی اور تعلیمی کاموں میں اجتماعی سرگرمی سے گریز، جسمانی فاصلہ، آئیسولیشن، کوارنٹائن، تنہائی، تشکیک، فطرت پسندی، خدا کاتصور، اپنی ذات سے آشنائی، اعمال کا محاسبہ، قید و بند کی صعوبتیں، بچوں کے درمیان ماں باپ کی موجودگی، آن لان سرگرمی، الیکٹرانک آلات پر انحصار، گھروں سے دوری، گھر واپسی، اپنوں سے دوری، مزدوروں، کسانوں اوردیہی علاقوں کی بے بسی، نفسیاتی امراض، طبی خدمات کا فقدان، تناؤ، بے چینی اور خرید و فروخت سے متعلق منفی خبریں کووڈ ١٩ کے باعث اہم موضوعات میں سے ہیں۔ چنانچہ سابقہ اور موجودہ ادب میں ان موضوعات سے متعلق انسانی جذبات و احساسات اور خواہشات و نفسیات کے گونا گوں پہلو کو دیکھا جاسکتا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی شعور خوف و ہراس کے دہانے پر کھڑا کس طرح ادراک کر رہا ہے۔ عالمی تجارت کی منڈی میں کورونا وائرس پر سیاست اور اس کی آڑ میں قومی اور علاقائی سیاست نے بھی انسانی جذبات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
اوپر مذکور موضوعات سے متعلق میں یہاں چند اشعار پیش کرنے کی زحمت کر رہا ہوں، حالانکہ یہ سابقہ ادب کا حصہ ہے لیکن بڑا ادب ہونے کی وجہ سے آنے والے حادثات و واقعات کی ترجمانی بھی کرتا ہے۔ بالخصوص کووڈ ١٩ کے حوالے سے نئے امکانات کو محسوس کیا جاسکتا ہے:
تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے
دلّی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
شام سے ہی کچھ بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
میر تقی میر
ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
کاوِ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مرجائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
موت کا اک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
اصل شہود شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
(غالب)
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا
خودی کا رازداں بن جا خدا کا ترجماں ہوجا
اسی کشمکش میں گذریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی
اگر کھوگیا اک نشیمن تو کیا غم
مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں
کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا
ناخدا تو بحر تو کشتی بھی تو ساحل بھی تو
(اقبال)
غضب کیا ترے وعدے پر اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
(داغ)
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
تم آرہے ہو کہ بجتی ہیں میری زنجیریں
نہ جانے کیا مرے دیوار و بام کہتے ہیں
(فیض)
اس دورمیں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہوگئی ہے
(فراق)
گر گلے ملوگے تپاک سے کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
(بشیر بدر)
آواز مری لوٹ کر آتی ہے مجھی تک
اے کاش مرا شہر بیاباں نہیں ہوتا
ایک میں ہی رہ گیا ہوں وسعت کو نین میں
ہاتھ اٹھاتا ہوں دعا کو اور خدا معدوم ہے
(جمال اویسی)
زمیں پہنی گئی اور آسماں اوڑھا گیا برسوں
بدن کے خانقاہوں میں خدا سویا رہا برسوں
ساحل سے سنا کرتے ہیں موجوں کی کہانی
یہ ٹھہرے ہوئے لوگ بغاوت نہیں کرتے (خورشید اکبر)

مذکورہ اشعار سابقہ ادب سے ماخوذ ہیں۔ کووڈ ١٩ کی تشریف آوری سے بہت پہلے اس طرح کے اشعار اردو شاعری کا حصہ بنے ہیں۔ لیکن کووڈ ١٩ سے پیدا شدہ حالات کے تناظر میں اس کی معنویت پر غور کریں تو اس کے نئے امکانات سامنے آتے ہیں۔

مثلاً خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور ہونا/روتے روتے سوجانا/ دلّی کے کوچے کا اوراق مصور پر شبہ ہونا/شکلوں کا، تصویر میں تبدیل ہونا / شام سے بجھا سا رہنا / دل کا چراغ بجھ جانا / آدمی کا محشر خیال ہونا/ خلوت میں انجمن جیسے ماحول کا مشاہدہ کرنا / تنہائی پر بار گراں گزرنا / ایسی جگہ چل کر رہنے کی تمنا کرنا جہاں کوئی بھی نہ ہو/ تیمار داری اورنوحہ خوانی کے لیے کسی کا نہ ہونا/ رشتہ داروں کو مشکوک سمجھنا / میرے ہونے سے صحرا کا گرد میں چھپ جانا/ دریا کا خاک پر جبیں کو گھسنا /ابن مریم کا تصور کرنا/دکھ سے گھبرانا/ منہ میں زبان رکھنا/ رات بھر بے چین رہنا/ شہود، شاہد اور مشہود کا ایک ہونا /مشاہدہ کا حساب میں ہونا/ ہر حال میں خدا کاہونا/ اپنے من میں ڈوب کر زندگی کا سراغ پانا/ زمیں دیکھنا، فلک دیکھنا اور فضا دیکھنا / مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو دیکھنا/ انسان کو اپنی آنکھوں پر عیاں ہونا / خودی کا راز داں ہونا اور خداکا ترجماں ہونا / کش مکش میں زندگی کی راتوں کا گزرنا/ نشیمن کا کھوجانا/ اور بھی مقامات آہ و فغاں کا ہونا/ اندیشۂ طوفاں سے دل کا کانپنا/ وعدے پر اعتبار کرنا/ تمام رات قیامت کا انتظار کرنا / دل کا ناامید نہ ہونا / غم کی شام کا طویل ہونا /تیرے آنے سے زنجیروں کا بجنا / درو بام کا گویا ہونا/بیمار کی رات ہونا/ نئے مزاج کا شہر ہونا/ ذرا فاصلے سے ملنا/ اپنی آواز کا لوٹ آنا / شہر کا بیاباں ہونا / خود کو تنہا سمجھنا/ خدا کا معدوم ہونا /زمیں کا پہننا اور آسماں کا اوڑھنا/ بدن کے خانقاہوں میں خدا کا سویا رہنا/ ساحل سے موجوں کی کہانی سننا/ بغاوت نہیں کرنا۔
یہ سب جذبات و احساسات ہیں لیکن یہ جذبات و احساسات اگر کووڈ ١٩ سے متعلق پیدا شدہ حالات پر منطبق کی جائیں تو ان کے نئے امکانات روشن ہوجاتے ہیں۔ کووڈ ١٩ کے بعد بہ ظاہر پوری دنیا پر سکوت طاری ہے لیکن اندر ہی اندر ایک ہلچل ہے۔ انسان کے انفرادی اور اجتماعی حسیات سے متعلق نئی روایت قائم ہوئی ہے۔ تشکیک، منافرت، بے چینی، بے راہ روی، تنہائی، قید و بند کی صعوبتیں، فطرت پسندی، جسمانی فاصلہ، عالمی تجارت، اشتہار بازی، الیکٹرانک سرگرمی، طبی آلات، فرسودہ خیالات وغیرہ موضوعات پر مبنی سماجی تغیرات کے حوالے سے اشعار ہیں۔ یہ اشعار بہت پہلے کہے گئے ہیں۔ حالیہ تناظر میں بہ نظر غائر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ شعری لفظیات، اصطلاحات، علامات، استعارات، تشبیہات اور شعری لوازم نئے امکانات سے متعلق بدلے سے لگتے ہیں۔ مثلاً خورشید، ذرہ ظہور، رونا، سونا، دلی، کوچہ، مصور، اوراق، شکل، تصویر، شام، مفلس، چراغ، بجھنا، آدمی، محشر، خلوت، انجمن، تنہائی، صبح، شام، جوئے شیر، ہم سخن، پاسباں، بیمار، تیماردار، نوحہ خواں، تغافل، گرد، صحرا، جبیں، خاک، دریا، ابن مریم، دکھ، دوا، زبان، مدعا، موت، نیند، رات، شہود، شاہد، مشہود، مشاہدہ، حساب، خدا، ڈوبنا، کش مکش، زندگی، سوز، ساز، رومی، رازی، پیچ و تاب، نشیمن، مقامات، آہ و فغاں، کانپنا، دل، اندیشہ، طوفان، ناخدا، بحر، کشتی، ساحل، وعدہ، اعتبار، قیامت، انتظار، ناامید، غم، ہاتھ، مزاج، شہر، فاصلہ، ملنا، آواز، بیاباں، کونین، دعا، معدوم، زمیں، آسماں، پہننا، اوڑھنا، بدن، خانقاہ، بغاوت، لوگ، موجوں، کہانی وغیرہ الفاظ پیش نظر ہیں۔ یہ الفاظ بہت عام ہیں۔ کلاسیکی، نو کلاسیکی، ترقی پسندی، جدید اور مابعد جدید فن کار کے یہاں بھی کثرت سے مستعمل ہیں۔ لفظیات کا معاملہ یہ ہے کہ فنکار کی ہنرمندی سے اس میں معاشرہ، سماج اور ایک زمانہ سانس لیتا ہوا نظر آتا ہے۔ موضوعات کی تشکیل میں لفظوں کی کرتب بازی کے عمل کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ اس سے عہد بہ عہد کا ڈائمنشن بدلتا رہتاہے۔ قارئین کے نزدیک بیک وقت ماضی، حال اور مستقبل کا سیچوئیشن ہوتا ہے۔ اس طرح قاری اپنی تفہیم کے لیے اصطلاحات، علامات، استعارات اور تشبیہات کو زمانوں سے مشروط کر معنی اخذ کرنے کے لیے آزاد ہوتا ہے۔ اگر فن کار اور ان کے سرمایے کو ہر زمانے میں سر آنکھوں پر رکھا گیا ہے تو اس کے پس پردہ قارئین کی قرأت اور ان کی تفہیم کی آزادی کارفرما ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر:
تھا مستعار حسن سے/ اس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی/ اس ہی کا ذرہ ظہور تھا
سرہانے میر کے/ آہستہ بولو
ابھی ٹک/ روتے روتے سو گیا ہے
یہاں منقسم اشعار اور خط کشیدہ الفاظ کے معانی پر غور کریں تو ماضی قریب کے احوال نظر آتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ماضی میں کوئی حادثہ واقع ہوا ہے اور اس کے مطالعہ سے فن کار متاثر ہوا ہے۔ ”مستعارحسن/ان کے جو نور /خورشید میں بھی/ انہیں کا ذرہ ظہور/ سرہانے میر کے / آہستہ بولو/ ابھی ٹک / روتے روتے / سو گیا ہے“، کے ترتیب سے ڈائمنشن بحالت سیچوئیشن بدل بھی سکتا ہے۔ یہ قارئین اور اس کی قرأت پر منحصر کرے گا کہ ان کے ذہن کا سیچوئیشن کیا ہے؟ واضح رہے کہ یہ سیچوئیشن نہ صرف لفظیات بلکہ شعری لوازم کے مختلف صورتوں (علامات، اصطلاحات، تشبیہات، استعارات) میں بھی ظاہر ہوسکتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ میر تقی میر کے علاوہ غالب، شاد عظیم آبادی، داغ دہلوی، علامہ اقبال، فیض احمد فیض، فراق گورکھپوری، جمیل مظہری، کلیم عاجز، ناصر کاظمی، خلیل الرحمن اعظمی، ابن انشا، بشیر بدر، شہر یار، ظفر اقبال، جمال اویسی، خورشید اکبر، عطا عابدی اور خالد عبادی وغیرہ شعرا کے یہاں شعری لوازم سیچوئیشن کے اعتبار سے بدلتے رہتے ہیں۔ سابقہ شعری ادب سے متعلق یہ میرا سرسری مطالعہ ہے۔ ارباب ادب کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ”اگر حال کے زمانہ کو کوئی بہتر سمجھ لیتا ہے تو وہ مستقبل کی پیشن گوئی حرف بہ حرف کر سکتا ہے“۔ ادب کے تعلق سے یہ بات درست نہیں، اس لیے کہ انداز نگارش کی وجہ سے ادب عالمی اور آفاقی ہوتا ہے اور جب ادب عالمی اور آفاقی ہوجاتا ہے تو اس میں آنے والے دنوں کا عکس بھی جھلکتا رہتا ہے۔ اس تعلق سے مجھے کہہ لینے دیجیے کہ فن کار اپنے زمانے کو بہتر طریقے پر سمجھ رہا ہوتا ہے۔ ان کا صریر خامہ نوائے سروش ہوتا ہے۔
سابقہ افسانوی ادب میں بالخصوص پریم چند، بیدی، منٹو، قرۃ العین حیدر، پیغام آفاقی، عبدالصمد اور غضنفر کے یہاں عالمی کورونا مہاماری سے متعلق موضوعات و اصطلاحات اور انسانی بے حسی کے کرب کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ میں یہاں چند اقتباسات نقل کر رہا ہوں، آپ بہ غور دیکھیں:
(۱)”اس طرح دو تین دن گزر گئے۔ نصیر کو انا کی رٹ لگانے اور رونے کے سوا اور کوئی کام نہ تھا۔ وہ بے ضرر کتا جو ایک لمحہ کے لیے اس کی گود سے جدا نہ ہوتا۔ وہ بے زبان بلی جسے طاق پر بیٹھے دیکھ کر وہ خوشی سے پھولا نہ سماتا تھا۔ وہ طائر بے پرواز جس پر وہ جان دیتا تھا سب اس کی نظروں سے گر گئے۔ وہ ان کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھتا۔ انا جیسی جیتی جاگتی، پیار کرنے والی، گود میں لے کر گھمانے والی، تھپک تھپک کر سلانے والی، گا گا کر خوش کرنے والی چیز کی جگہ ان بے جان، بے زبان چیزوں سے پر نہ ہوسکتی تھی۔ وہ اکثر سوتے سوتے چونک پڑتا اور انا انا پکار کے رونے لگتا۔ کبھی دروازہ پر جاتا اور انا انا پکار کر ہاتھوں سے اشارہ کرتا گویا اسے بلا رہا ہے۔ انا کی خالی کوٹھری میں جاکر گھنٹوں بیٹھا رہتا۔ اسے امید ہوتی تھی کہ انا یہاں آتی ہوگی۔ اس کوٹھری کا دروازہ بند پاتا تو جاکر کواڑ کھٹکھٹاتا کہ شاید انا چھپی بیٹھی ہو۔ صدر دروازہ کھلتے سنتا تو انا انا کہہ کر دوڑتا۔ سمجھتا کہ انا آگئی۔ اس کا گدرایا ہوا بدن گھل گیا۔ گلاب کے سے رخسار سوکھ گئے۔ ماں اور باپ دونوں اس کی موہنی ہنسی کے لیے ترس ترس کر رہ جاتے۔ اگر بہت گدگدانے اور چھیڑنے سے ہنستا بھی تو ایسامعلوم ہوتا دل سے نہیں محض دل رکھنے کے لیے ہنس رہا ہے۔ اسے اب دودھ سے رغبت تھی نہ مصری سے، میوہ سے نہ میٹھے بسکٹ سے، نہ تازی امرتیوں سے۔ ان میں مزہ تھا جب انا اپنے ہاتھوں سے کھلاتی تھی۔“ (حج اکبر)
(۲)”بڑھاپا اکثر بچپن کا دور ثانی ہوا کرتا ہے۔ بوڑھی کاکی میں ذائقہ کے سوا کوئی حس باقی نہ تھی اور نہ اپنی شکایتوں کی طرف مخاطب کرنے کا رونے کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ آنکھیں، ہاتھ، پیر سب جواب دے چکے تھے۔ زمین پر پڑی رہتیں اور جب گھر والے کوئی بات ان کی مرضی کے خلاف کرتے کھانے کا وقت ٹل جاتا یا مقدار کافی نہ ہوتی یا بازار سے کوئی چیز آتی تو انھیں نہ ملتی تو رونے لگتی تھیں اور ان کا رونا محض بسورنا نہ تھا۔ وہ بہ آواز بلند روتی تھیں۔“ (بوڑھی کاکی)
(۳) ”بوڑھی کاکی اپنی اندھیری کوٹھری میں خیال غم کی طرح بیٹھی ہوئی تھیں۔ یہ لذت آمیز خوش بو انھیں بے تاب کر رہی تھی۔ وہ دل میں سوچتی تھیں شاید مجھے پوریا ں نہ ملیں گی۔ اتنی دیر ہوگئی کوئی کھانا لے کر نہیں آیا۔ معلوم ہوتا ہے لوگ سب کھا گئے ہیں۔ میرے لیے کچھ نہ بچا۔ یہ سوچ کر انھیں بے اختیار رونا آیا لیکن شگون کے خوف سے رونہ سکیں۔ (بوڑھی کاکی)
(۴)”بوڑھی کاکی دیر تک انہی افسوس ناک خیالوں میں ڈوبی رہیں۔ گھی اور مسالے کی خوش بو رہ رہ کر دل کو آپے سے باہر کیے دیتی تھی۔ منہ میں پانی بھر بھر آتا تھا۔ پوریوں کا ذائقہ یاد کرکے دل میں گدگدی ہونے لگتی تھی۔ کسے پکاروں آج لاڈلی بھی نہیں آئی۔ دونوں لونڈے روز دق کیاکرتے ہیں آج ان کا بھی کہیں پتہ نہیں۔ کچھ معلوم ہوتا کیا بن رہا ہے۔“ (بوڑھی کاکی)
(۵) ”بوڑھی کاکی نے سر نہ اٹھایا۔ نہ روئیں نہ بولیں۔ چپ چاپ رینگتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ صدمہ ایسا سخت تھا کہ دل و دما غ کی ساری قوتیں، سارے جذبات، ساری حسیات اس طرف رجوع ہوگئیں تھیں جیسے ندی میں جب کراڑ کا کوئی بڑا ٹکڑا کٹ کر گرتا ہے تو آس پاس کا پانی چاروں طرف سے سمٹ کر اس خلا کو پورا کرنے کے لیے دوڑتا ہے۔“(بوڑھی کاکی)
پریم چند کے علاوہ کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدرکے یہاں بھی کووڈ ١٩ سے متعلق جذبات و احساسات کی فضا آفرینی ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ افسانوی ادب میں واقعہ ہر حال میں زمان و مکاں کا پابند ہوتا ہے۔ اس تعلق سے موضوعات، کردار نگاری، منظر نگاری اور دوسرے اجزا بھی پابند ہوتے ہیں۔ تو پھر ادب کے سابقہ فکشن میں کووڈ ١٩ کے اثرات کو سمجھنا ہی فضول ہے۔ یہ باتیں درست ہیں لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ ہندستانی لوک کتھا اور متھ کی بنیاد آوا گون کے نظریات پر ہے اور فکشن میں آوا گون کی بنیاد بہت گہری ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سائنسی افکار و آرابھی آوا گون سے مستعار ہیں۔ نیچر سرکل، واٹر سرکل، ہیومن سرکل یا اور دوسرے سرکل کی بات کریں تو اس کی بنیاد میں آوا گون کے نظریات کو پائیں گے۔ اس تعلق سے زماں اور مکاں کے مابین روپ، ریکھا اور انداز ہی بدلتا رہتا ہے۔ لہٰذا جذبات و احساسات سے ادب ہے اور آفاقی ادب دائروں کا پابند نہیں ہوتا۔ گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں کہ:
”اردو افسانے میں اسلوبیاتی اعتبار سے جو روایتیں زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں یا جو اہم رہی ہیں، تین ہیں۔ پریم چند کی، منٹو کی اور کرشن چندر کی“۔
اگر نارنگ، بیدی، سہیل عظیم آبادی، قرۃ العین حیدر اور بعد کے فکشن رائٹر کے بعض افسانوں کو دیکھتے تو ان کی یہ فہرست طویل ہوتی۔ بہر کیف، میں یہاں مذکورہ افسانوں کے اقتباسات کا تجزیہ کرنا مناسب نہیں سمجھتا ہوں۔ ارباب ادب اس سے واقف ہیں۔
اردو شعر وادب کے موجودہ صورت حال کا اگر جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ دو دہائی ماہ کے لاک ڈاؤن میں فیس بک، واٹس ایپس، میسنجر اور دیگر الکٹرانک ذرائع سے روزانہ متعدد نظمیں، غزلیں اور بے شمار اشعار لوڈ کیے جارہے ہیں۔ متعدد شعرا نے اس دوران مسلسل نظم لکھنے کے ریکارڈ بھی بنائے ہیں۔ وبا کے دنوں کی شاعری کی پذیرائی خوب ہوئی ہے۔ نظمیں، غزلیں اور اشعار کو ایک مشن کے طور پر لینے والے کئی گروپ بھی اس وقت متحرک ہیں۔ میں یہاں چند لوگوں کا نام ہی درج کر دینے پر اکتفا کرتا ہوں۔ مثلاً خورشید اکبر، خورشید اکرم، اسرار گاندھی، صدف اقبال، ارشد عبدالمجید، کوثر مظہری، مولابخش، زبیر شاداب، مشتاق صدف وغیرہ شعرا نے اس تاریک ماحول میں شعر و شاعری سے روشنی کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس تعلق سے اسلم جمشیدپوری کا مطالعہ قابل غور ہے، ان کا ماننا ہے کہ واٹس ایپ پر موجود متعدد گروپس، مثلا دبستان لکھنو، دیار شوق، عالمی اردو پروفیسر گروپ، ماہنامہ تنویر، ادب رسالہ، ادب سلسلہ، انجمن فروغ اردو، اردو ہے جس کا نام، صدائے اردو، ندائے گل اور ادبی فورم وغیرہ میں تازہ ترین حالات کی شاعری کے نمونے بہ خوبی دیکھے جاسکتے ہیں۔
اب زندگی کورونا کے ساتھ آگے کی طرف گامزن ہے۔ نئی صبح کے انتظار میں، خوف و ہراس کے سایے میں، عالمی تجارت کی منڈی میں انسان خرید و فروخت کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو موجودہ زمانہ فکشن کا ہے۔ افسانوی ادب کا ہے۔ شاعری میں مسلسل غزل، مثنوی اور طویل نظم کا ہے۔ اس لیے کہ فن کار کے اردو گرد کورونا سے متعلق کردار، افعال، اطوار، گفتار، جذبات و احساسات اور خواہشات و نفسیات کی نئی دنیا آباد ہے۔
٭٭٭
Dr. Mustafiz Ahad Arfi
Assistant Professor
Department of Urdu
L.S.College, Muzaffarpur
Mob: 9955722260

آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : معاصر اردو غزل کا اسلوب: ایک تمہیدی مطالعہ از مستفیض احد عارفی 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے