زہر ہوں اور شہد گھول رہا ہے مجھ میں

زہر ہوں اور شہد گھول رہا ہے مجھ میں

دلشاد دل سکندر پوری

زہر ہوں اور شہد گھول رہا ہے مجھ میں
کون ہے تیری طرح بول رہا ہے مجھ میں

اب محبت نہ کروں گا یہ قسم کھائی تھی
بند دروازہ کوئی کھول رہا ہے مجھ میں

خود کو میں اپنے ہی قدموں پہ جھکا لیتا ہوں
ایک ہی فن ہے جو انمول رہا ہے مجھ میں

اپنی جنت میں بنا کر کے مٹا دیتا تھا
مدتوں تک کوئی بہلول رہا ہے مجھ میں

میرے سینے میں یہ دل ہے کہ کوئی سوداگر
میرے احساس کا دھن تول رہا ہے مجھ میں

اب یہ پتھر مجھے کیا آنکھ دکھائیں گے دل
پہلے آئینوں کا اک غول رہا ہے مجھ میں
***
صاحب غزل کی گذشتہ غزل :زمیں سے عرش کا سنگم نہیں ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے