تنقید کو تخلیق بنانے والا قلم کار : حقانی القاسمی

تنقید کو تخلیق بنانے والا قلم کار : حقانی القاسمی

جب ہم حقانی القاسمی کی بحیثیت نقاد بات کرتے ہیں تو ان کی ناقدانہ حیثیت یکسر غیر متنازع نظر آتی ہے۔

جمال عباس فہمی

کہتے ہیں تنقید ایسا منھ زور گھوڑا ہے کہ جس پر توازن برقرار رکھتے ہوئے سواری کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس منھ زور گھوڑے پر سواری کے دوران توازن بر قرار نا رکھ پانے کے سبب بسا اوقات شہسوار اوندھے منھ گر جاتے ہیں، لیکن حقانی القاسمی اس کمال ہنر مندی کے ساتھ اس گھوڑے پرسواری کرتے ہیں کہ توازن عدم توازم کا شکار نہیں ہوتا اور گھوڑا بھی مست ہو کر خراماں خراماں چلتا ہے اور دیکھنے والے گھوڑے کی چال اور سوار کے کمال کی داد دیے بغیر نہیں رہ پاتے۔
اردو ادب کی تنقید کی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب نقاد خود اپنی غیر متوازن تحریروں کے لیے تنقید کا نشانہ بنے، جب ہم حقانی القاسمی کی بحیثیت نقاد بات کرتے ہیں تو ان کی ناقدانہ حیثیت یکسر غیر متنازع نظر آتی ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم حقانی القاسمی کی تہہ دار اور مرنجا مرنج شخصیت کا تفصیل سے ذکر کریں ان کی تعلیم و تربیت، خاندانی پس منظر اور ان کی جدت طرازی اور اختراعی صلاحیتوں کا جائزہ لینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
بہار کے ضلع ارریا کے بگڈہرا سے تعلق رکھنے والے عبد الصمد کے یہاں 1970 میں حقانی القاسمی کی ولادت ہوئی۔ والد سرکاری ملازمت میں تھے، لیکن تدریسی خدمات بھی انجام دیتے تھے۔ حقانی القاسمی نے اردو، انگریزی اور حساب کا درس اپنے والد سے ہی لیا۔ دادا خلیل الرحمن طبابت کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کے مقدس پیشے سے بھی وابستہ تھے۔ خاندان میں علمی و ادبی ذوق کا دور دورہ تھا۔ گھر میں قدیم مجلات کا ذخیرہ تھا۔ ادبی رسائل سے ادبی ذوق پروان چڑھا۔ حقانی القاسمی کی پہلی قلمی کاوش مدرسہ کے جداری مجلہ میں شائع ہوئی۔ یہ قلمی کاوش مذہبی نوعیت کی تھی جو بزرگوں کے جملوں کے جوڑ توڑ کا نتیجہ تھی۔ اس کے بعد رسائل میں ان کے خطوط چھپنے لگے اور خطوط کے بعد مضامین کی اشاعت ہونے لگی اس طرح مضمون نگاری کے میدان میں قدم رکھا۔
انھوں نے جامعہ اسلامیہ بنارس، دارا لعلوم دیوبند اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے عربی میں ایم اے اور ایم فل کیا، ایم اے میں حقانی القاسمی نے نمبروں کے معاملے میں یونی ورسٹی بھر میں ٹاپ کیا۔ حقانی القاسمی نے فلسطین کے چار ممتاز شعرا پر ایم فل اور فلسطینی کہانیوں پر پی ایچ ڈی کی۔ حقانی القاسمی کا قلمی سفر 1985 سے شروع ہو گیا تھا۔ اردو کے ساتھ ساتھ حقانی القاسمی ہندی، انگریزی، عربی اور فارسی پر بھی دسترس رکھتے ہیں۔
حقانی القاسمی کی شخصیت میں ادب اور صحافت کا امتزاج ہے۔ وہ دہلی سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ‘اخبار نو` اور ‘نئی دنیا` سے منسلک رہے۔ ماہنامہ ‘آجکل` سے بھی جزوی طور پر منسلک رہے۔ صلاح الدین پرویز کے ادبی مجلہ سہ ماہی ‘استعارہ` کے شریک مدیر رہے۔ ‘سہارا انڈیا پریوار` کی ادبی میگزین ‘بزم سہارا` سے بھی وابستگی رہی۔ حالانکہ حقانی القاسمی صحافت میں داخلے کو اپنی ایک بڑی حماقت قرار دیتے ہیں۔ ان کے اس خیال کا پس منظر تو وہ خود ہی جانتے ہوں گے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ‘بزم سہارا` کے ‘شہر سخن`، ‘گہوارہ دانش`، ‘جہان دانش`، ‘مباحثہ` اور ‘بادہ کہن` جیسے متنوع موضوعاتی سلسلے لوگوں کے ذہنوں پر اب بھی نقش ہیں۔ سہ ماہی مجلے ‘استعارہ` کے وسیلے سے انھوں نے ادب پر طاری جمود کو توڑا، وہ مثالی ہے۔ ‘استعارہ` مجلاتی صحافت کا ایک روشن استعارہ ان کی جدت فکر اور اختراعی صلاحیتوں کے سبب بنا۔ یہ اور بات ہے کہ ‘سہارا پریوار` میں انھیں کچھ افراد کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن صحافت سے ان کی وابستگی سے صحافتی ادب یا ادبی صحافت نے کسب فیض ضرور کیا ہے۔
حقانی القاسمی کی متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ‘فلسطین کے چار ممتاز شعرا`، ‘طواف دشت جنوں`، ‘لا تخف`، ‘تکلف بر طرف`، ‘رینو کے شہر میں`، ‘دارالعلوم دیو بند۔ادبی شناخت نامہ`، ‘خوشبو روشنی رنگ`، ‘شکیل الرحمان کا جمالیاتی وجدان`، ‘بدن کی جمالیات`، ‘تنقیدی اسمبلاژ` اور ‘ادب کولاژ` خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ حقانی القاسمی نام اور کام دونوں کے اعتبار سے منفرد شخصیت ہیں۔ جہاں تک نام کی انفرادیت کا تعلق ہے تو آپ آزما کر دیکھ لیجیے۔ ‘گوگل` پر حقانی القاسمی ٹائپ کیجیے۔ اس کا سرچ انجن صرف اور صرف ایک ہی حقانی القاسمی کو جانتا ہے۔ اسی کی تصویریں ڈھونڈھ کر سامنے رکھ دے گا اور اسی کے کارناموں کی تفصیل سے آپ کو آگاہ کرےگا، جہاں تک کام کی انفرادیت کا تعلق ہے تو حقانی القاسمی کی جدت طرازی اور اختراع پسندی کا ثبوت ان کے ذریعے شایع ہونے والا مجلہ ‘انداز بیان` اس کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ ’انداز بیان‘ شاید نہیں بلکہ یقینی طور پر اردو میں شایع ہونے والا اپنی نوعیت کا اکلوتا مجلہ ہے۔ عام طور سے رسائل اور جرائد سالناموں کے طور پر خصوصی شمارے شائع کرتے ہیں یا کسی ادبی شخصیت یا کسی خاص موضوع سے کسی شمارے کو مخصوص کرکے خصوصی شمارہ قارئین کے سامنے پیش کردیتے ہیں۔ لیکن یہ موضوعی مجلہ حقانی القاسمی کے اختراعی ذہن کی اپج ہے۔ ’انداز بیان` کا ہر شمارہ ہی خصوصی نمبر ہوتا ہے۔ ‘انداز بیان` مجلے کا ہر شمارہ حقانی القاسمی کی ندرت خیال اور اختراعی طبیعت کا عکاس ہے۔ خواتین کی خود نوشتوں کا جائزہ اور پولیس کا تخلیقی چہرہ جیسے چونکانے والے شماروں کے بعد انھوں نے میڈیکل ڈاکٹروں کی ادبی خدمات پر 540 صفحات پر مشتمل شمارہ شائع کیا ہے۔ سر ورق سے لے کر ‘فہرست مضامین` اور ‘اداریہ` تک کے عنوانات موضوع سے مطابقت رکھتے ہیں۔ یہاں بھی حقانی القاسمی کی جدت طرازی کارفرما نظر آتی ہے۔ جاذب نظر سرورق کے بعد پورے صفحہ کا ریڈ کراس کا نشان قاری کے لیے فضا بناتا ہے۔ فہرست کو ’تشخیص‘ اداریہ کو ’دست مسیحائی‘ اور ذیلی عنوانات کو ’مرکبات‘ اور ’مفردات‘ جیسے نام دیے گئے ہیں۔ بحیثیت مدیر حقانی القاسمی کی روایت شکنی اور اختراع پسندی کی داد دینے کو جی چاہتا ہے۔
حقانی القاسمی کا بحیثیت تنقید نگار اگر ذکر نہ کیا جائے تو ادبی تنقید کے ساتھ نا انصافی ہوگی، ایک ایسے دور میں کہ جب تنقید تحفظات اور تعصبات کا ملغوبہ بن گئی ہے، ایک دیانت دار ناقد کے طور پر حقانی القاسمی کا دم غنیمت ہے۔ حقانی القاسمی کی تنقید میں تمام تر تخلیقی اوصاف جلوہ گر نظر آتے ہیں۔ پیغام آفاقی کے ناول ‘پلیتہ` پر جو تجزیاتی مضمون حقانی القاسمی نے تحریر کیے۔ صرف اس کو پڑھ کر ہی بہت سے لوگوں میں ناول پڑھنے کا شوق پیدا ہو گیا ہوگا۔ شکیل الرحمان کی کتاب ‘محمد قلی قطب شاہ کی جمالیات` پر جو تبصرہ حقانی القاسمی نے تحریر کیا ہے وہ اسی پایہ کا ہے جس پایہ کی کتاب ہے۔
تنقید کیسے تخلیقی پیراہن زیب تن کرتی ہے اس کا نمونہ شبنم عشائی کی شاعری پر حقانی القاسمی کے تبصرے کا ایک اقتباس ہے۔ ”شبنم عشائی کی نظموں میں کیفیتیں ہزار ہیں اور ہر کیفیت ان کے ذہن کے موسم اور مافیہ کا کشاف ہے۔ اس میں وجود کے حوالے سے خود سپردگی بھی ہے، تکرار بھی ہے انکار بھی ہے۔ وصل جاناں بھی ہے، آتش ہجر بھی ہے۔ موج خیز جذبات بھی ہیں۔ شبنمی احساسات بھی ہیں۔ انھوں نے اپنے وجود کے سارے حوالے کائناتی وجود کے حوالوں سے مربوط کر دیے ہیں۔"
ادب کے معاملے میں حقانی القاسمی کی پسند کچھ الگ ہی نوعیت کی ہے۔ انھیں وہ ادب اچھا لگتا ہے جو ہیلن کی طرح حسین ہو، قلو پطرہ کی طرح قتالہ عام ہو۔ جو نو سیکا کی طرح نازک اندام ہو، جو نییون بی لنکوس کی مانند نو بہار حسن و جمال ہو۔ جو میر کے گلاب کی پنکھڑی ہو، امرؤالقیس کے تخیل کی دوشیزہ ہو۔ جس میں ہیلن کے سفوف کی طرح سکر ہو، جس کی زلفوں میں ہزاروں گپھاؤں کی تیرگی ہو، جس کے وجود میں مشک و ختن ہو اور جس کے رخسار پر وہ اپنے دل کا پتہ ڈھونڈ سکیں۔
ویسے تو حقانی القاسمی کو مختلف انعامات سے سرفراز کیا جا چکا ہے لیکن ساہتیہ اکادمی نے انھیں جس ایوارڈ سے نوازہ ہے وہ اردو ترجمہ کے حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ گجراتی ادب میں سنگ میل کی حیثیت رکھنے والے دلت ناول ‘انگلیات` کے اردو ترجمے کے لیے حقانی القاسمی کو ساہتیہ اکادمی نے 2016 میں انعام کا مستحق قرار دیا۔ تقریباً چالیس کتابوں کے مصنف جوزف میکوان کے اسی ناول کو ساہتیہ اکادمی 1988 میں انعام سے نواز چکی ہے۔
آج کل حقانی القاسمی وزارت فروغ انسانی وسائل کے تحت قائم قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ساتھ ادارتی مشیر کی حیثیت سے وابستہ ہیں اور کونسل کے تحت شائع ہونے والے رسائل اور جرائد کے حوالے سے ادبی صحافت کے میدان میں اپنے قلم کی جولانیاں دکھا رہے ہیں۔ 2019 کی تین ستمبر کا دن حقانی القاسمی کی زندگی کا ایک المناک دن تھا۔ جب ان کی بارہ سالہ دختر انیقہ اسکول میں ناگہانی حادثہ میں جاں بحق ہو گئی۔ اتنے بڑے المیہ سے گزرنے کے باوجود حقانی القاسمی کا ہی حوصلہ ہے کہ وہ اسی شد و مد اور دل جمعی کے ساتھ قلمی جہاد میں سرگرم ہیں۔
(بشکریہ قومی آواز)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے