قطب الاقطاب سید شاہ عبدالرزاق بانسویؒ

قطب الاقطاب سید شاہ عبدالرزاق بانسویؒ

ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خاں
غوث منزل،تالاب ملا ارم
رام پور 244901 یو پی
موبائل:91 97193167039

برصغیر کے مشہورومعروف خاندانوں کی اگر ایک بہت مختصر سی فہرست بھی ترتیب دی جائے تو اس میں خانوادۂ فرنگی محل سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔ اس خاندان میں گزشتہ کئی صدیوں میں ایسے بے شمار علما پیدا ہوئے جنھوں نے اپنے بے مثال کارناموں سے دین و مذہب اور علم و ادب کو مالامال کیا۔ اس خاندان کا سلسۂ نسب مدینہ منورہ میں، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے میزبان اور ایک برگزیدہ صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی ا للہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔ ہندستان میں تشریف لا نے والے اس خاندان کے پہلے بزرگ قطب عالم خواجہ علاؤ الدین انصاری تھے۔ ان ہی کی نسل میں ملا قطب الدین شہید، خانوادۂ فرنگی محل لکھنؤ کے جد اعلا ہیں، جن کے کئی بیٹے ہوئے اور جنھوں نے مشعل علم کو اس طرح روشن کیا کہ مسلسل آٹھ پشتوں تک پورے برصغیر میں اس کی روشنی اور تابانی پھیلتی رہی اور ہر نسل میں ایک سے ایک ایسے عالم پیدا ہوتے رہے جنھیں نابغۂ روزگار کہنے میں کوئی تامل نہیں ہو سکتا۔ اس خاندان سے علم کی جو کرنیں پھوٹیں انھوں نے ہندستان کے علاوہ دنیا کے بہت سے دیگر اسلامی ممالک میں بھی علم کی روشنی پھیلائی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے فرنگی محل کی خدمات بیسویں صدی میں بھی برقرار رہیں۔ اس دور کے علما میں مولانا عبدالباقی، مولانا برکت اللہ، مولانا محمد عظمت اللہ، شمس العلماء مولانا عبدالمجید، شمس العلماء مولانا عبد الحمید، مولانا مولوی محمد قیام الدین عبد الباری سربرآوردہ اور اکابرین علما میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اس دور کی سب سے اہم شخصیت یہی مولانا عبدالباری فرنگی محلی ہیں جنھوں نے اپنی علمیت کے علاوہ اپنی شخصیت سے بھی ہندستان کی سیاست کو ایک اہم موڑ عطا کیا اور ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور آزادی کی جدوجہد میں ایک دوسرے سے تعاون کرنے کا جذبہ پیدا کیا۔ اس طرح وہ ایک عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بین الاقوامی سیاسی شخصیت کی حیثیت سے بھی سامنے آئے۔ مولانا کی تصانیف کی تعداد ایک سو دس ہے۔ ان تصانیف میں آپ کی ایک اہم تصنیف ’ملفوظ رزاقی‘ بھی ہے جو قطب الاقطاب حضرت سید شاہ عبدالرزاق بانسوی  کے حالات و ملفوظات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں صفحات کی تعداد ٥٢ ہے اور یہ ١٩٢٦ء میں کان پور کے احمد المطابع سے ٥٠٠ کی تعداد میں شائع ہوئی۔ مجلد کتاب کی قیمت محض ۴/ آنے ہے۔ رام پور رضا لائبریری میں یہ کتاب ’سلوک و آداب‘ فن کے تحت دیکھی جا سکتی ہے۔ کتاب کا کال نمبر ٦٧ ہے۔
اس تذکرہ کی ابتدا مصنف نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا سے کی ہے اور اپنی کم مائیگی و بے بضاعتی کا اظہار کیا ہے۔اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل و کرم سے جنت ملنے کی آرزو کی ہے۔ قرآن عظیم کی کئی آیات تحریر کی ہیں۔ ساتھ ہی ان کا ترجمہ بھی پیش کیا ہے۔ اس کے بعد حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف فرمائی ہے۔ مصنف کے نظریہ کے مطابق اعتقادات کا تعلق اگر حسیات سے ہو تو اس فن کو تصوف کہتے ہیں۔ مولانا عبدالباری آگے فرماتے ہیں کہ اوسط مہینہ شعبان المعظم ١٤٣٢ ہجری کا تھا جب حضرت ولی نعمت سیدنا مولانا شاہ سعید الحسن رزاقی کے در دولت پر حاضری نصیب ہوئی۔ وہاں شاہ ممتاز احمد صاحب رزاقی نے اثناے گفتگو میں ارشاد فرمایا کہ میں سید شاہ عبدالرزاق کا تذکرہ لکھوں۔ آپ فرماتے ہیں علوم اولیاء اللہ کی تو کوئی انتہا نہیں مگر ان کے فیضان سے جس قدر مجھے ان علوم سے بہرہ ہوا ہے، میں کہہ سکتا ہوں کہ حضرات قادریہ و نقش بندیہ نے صورت اول کو پسند کیا ہے کہ پہلے اتباع ہو پھر محبت اور حضرات چشتیہ نے پہلے محبت پھر اتباع کو مناسب سمجھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عادت خاصہ اور گروہ اولیا سے ایسے اشخاص پیدا کیے جنھوں نے شریعت و حقیقت کو از سر نو زندہ کیا۔ دور حاضر کے لیے اللہ نے تین بزرگ اس سرزمین ہند میں پیدا کیے۔ ان میں ایک حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی سرہندیؒ، دوسرے حضرت شیخ کبیر شاہ محب اللہ الہ آبادی اور تیسرے سیدنا شاہ عبد الرزاق۔
حضرت سید شاہ عبدالرزاق کو اللہ تعالیٰ نے امی محض رکھنے کے باوجود ذوق سلیم ایسا عطا فرمایا تھا کہ افراط و تفریط سے دور دونوں پہلوؤں میں اعتدال قائم کرکے ٹھیک راہ پر چلتے۔ جس شخص نے حضرت کی اتباع کی وہ منزل مقصود تک پہنچ گیا۔ مولانا عبد الباری نے کتاب ’ملفوظ رزاقی‘ میں آپ کی کئی کرامات کا تذکرہ کیا ہے۔ یہاں صرف ایک کرامت پیش کی جاتی ہے۔ایک بار حضرت شاہ عبدالرزاق نہر کلیانی کے کنارے برگد کے درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ درخت ہندستان کے ساتھ مخصوص ہے اور بڑا سایہ دار ہوتا ہے۔ اس کی شاخیں بہت ہوتی ہیں، پتے بہت چوڑے ہوتے ہیں اور یہ بہت دن تک باقی رہتا ہے۔ حضرت کی عادت شریف یہ تھی کہ اکثر اس درخت کے نیچے بیٹھ کر ذکر الٰہی میں باطمینان مشغول ہوتے تھے اور ایسے احوال آپ پر طاری ہوتے تھے کہ قلم ان سب کو لکھنے سے قاصر ہے۔ شمہ اس کا یہ ہے کہ اس درخت کے نیچے ایک بھینس مردہ پڑی ہوئی تھی۔ دل میں آیا کہ اس پر نظر کرنی چاہیے۔ آپ نے اس پر نظر التفات کی کہ اس کو زندہ کر دیں، فی الفور وہ زندہ ہو گئی۔ پھر حضرت شیخ دوسری جانب متوجہ ہو گئے اور التفات جاتا رہا تو اس بھینس کی اگلی سی حالت ہو گئی۔ صاحب کتاب مولانا عبدالباری فرنگی محلی اس کتاب میں ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ اس وقت قادریت کا ایک بڑا خاندان یہی خاندان رزاقیہ ہے، خصوصاً ہمارے اطراف میں اگر یہ خاندان رزاقیہ نہ ہوتا تو قادریت کا وجود مشکل سے ہی دکھائی دیتا۔
سوانح نگاروں کا اصول ہے کہ اگر وہ شخص جس کے سوانح لکھنا ہیں ذی نسب بھی ہے تو اس کو ذکر کر دینا اپنی تصنیف کی خوبی سمجھتے ہیں اور اگر اس کی مدح سرائی مقصود ہے تو ذکر نسب سے اس میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ اہل اسلام میں سب سے باعزت نسب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا، پھر قریشیوں کا اور پھر تمام عرب کا ہے۔ اسی واسطے مورخین اکثر اکابر و مشاہیر کے تذکرہ میں نسب کو ضرور لکھتے ہیں یا کم سے کم نسبت ضرور بیان کر دیتے ہیں۔ حضرت شاہ عبدالرزاق نسباً سید ہیں۔ آپ کے والد سید عبدالرحیم صاحب اولاد حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ہیں۔ اس امر میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ آپ کے مورث اعظم بدخشاں سے اول اول ہندستان آئے اور وہ ابوالقاسم میر کلال بدخشی کی اولاد سے تھے۔ محمد خاں صاحب شاہ جہاں پوری کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے جد اعلا سید معین الدین مخاطب بہ مبارز خان اپنے اہل و عیال کو لے کر وارد ہندستان ہوئے اور دہلی میں سکونت اختیار کی۔ سلطان عصر سے اعزاز حاصل کیا او ر خطاب ’مبارز خان‘ سے سرفراز ہوئے۔ ایسے ہی ان کے فرزند معزالدین خان کو یہ خطاب ملا اور وہ بھی معززومحترم رہے۔ ان کی اولاد سے سید عبدالرحیم والد سید عبدالرزاق تولد ہوئے۔ میر باقر علی رزاقی نے لکھا ہے کہ پہلے سید آذرالدین اس خاندان میں آئے اور انھوں نے ان کا سلسلہ نسب بھی تحریر کیا ہے۔حضرت میر کلال کے حالات میں درج ہے کہ آپ کے چار فرزند تھے۔ حضرت میر کلال کی وفات آٹھویں جمادی الاول بروز پنج شنبہ ٧٠٠ ہجری میں ہوئی۔ میر کلال کے فرزند میر حمزہ مشہور ہیں۔ ابوالقاسم کنیت غالباً سید میر کلال صاحب کی ہے۔ البتہ یہ بات تحقیق سے کہی جا سکتی ہے کہ حضرت شاہ عبدالرزاق صاحب کے والد سید عبد الرحیم حضرت میر کلال کی اولاد سے ہیں اور ان کی سیادت کو اکثر تذکرہ نویس لکھتے ہیں۔
حضرت شاہ عبد الرزاق بانسوی کے والد کے چار فرزند تھے۔ بڑے سید عبد الرشید صاحب، ان سے چھوٹے سید ابو تراب صاحب، ان سے چھوٹے حضرت سید صاحب اور آپ سے چھوٹے سید یٰسین صاحب۔ محمد خاں صاحب نے لکھا ہے کہ حضرت عبدالرزاق کے جد اعلا سید معین الدین المخاطب بہ مبارز خان جو سید میر کلال کی اولاد سے تھے اور بدخشاں سے دہلی آئے تھے، اپنے اہل و عیال کو لے کر بدخشاں سے نکلے تھے۔ خلجی کے وقت میں آپ کے خاندان کے لوگوں کو دہلی میں عزت و وقار حاصل ہوا۔ پھر زمانۂ فتنۂ تیمور میں نظم و نسق ملک بھی درہم برہم ہو گیا اور صوبہ داروں نے خود مختاری حاصل کر لی۔ اس وقت دربار شاہی سے اتصال کچھ مناسب نہ تھا۔ حضرت شاہ عبد الرزاق بانسوی کے والد سید عبدالرحیم رسول پور میں تولد ہوئے۔ یہ موضع قوم کھوکھر کا، محمود آباد کے متصل ہے جو بانسہ شریف سے مشرق کی جانب تین کوس کے فاصلے پر واقع ہوا ہے۔ یہ محمود آباد وہ نہیں ہے جو ریاست محمود آباد کا مشہورالریاست ضلع سیتا پور میں ہے بلکہ یہ ضلع بارہ بنکی میں ہے۔ غرضیکہ موضع رسول پور میں سید عبد الرحیم کی ولادت ہوئی۔ رسول پور نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس خاندان کے پروردہ ایک صاحب رسول خاں نامی تھے، ان کے سپرد کچھ زمین داری کا انتظام تھا۔انھوں نے موضع کھوکھر کے نزدیک ایک قریہ آباد کیا اور اس کا نام رسول پور رکھا۔
حضرت سید شاہ عبدالرزاق بانسوی کی ولادت بانسہ شریف میں ہوئی۔ جب آپ کی ولادت کا وقت قریب ہوا تواس وقت ایک مجذوب با کمال تھے جن کا نام چاند شاہ تھا۔ وہ مکان کے گرد پھرنے لگے اور کہنے لگے کہ سید عبد الرحیم کے مکان پر سورج گرنے والا ہے۔ یہ ایسا جملہ تھا کہ لوگوں کو خوف و اندیشہ ہوا کہ معلوم نہیں کیا حادثہ عظیم اس گھر پر آنے والا ہے جو یہ مجذوب ایسی باتیں کر رہا ہے۔ اس وقت وہ مجذوب حضرت سید عبد الرحیم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ تمھارے گھر میں آفتاب آیا ہے اس کی زیارت کراؤ۔ سید عبدالرحیم نے اندر جاکر کہا کہ اس لڑکے کو جو ابھی تولد ہوا ہے باہر لے چلو، اس کو چاند شاہ دیکھنے کو مانگتے ہیں۔ بہرحال مجذوب کے اصرار سے حضرت باہر لائے گئے۔ یہ مجذوب پہلے غیر مسلم تھے اور بعد کو مسلمان ہو کر اس حالت جذب کو پہنچ گئے تھے۔ عادت قدیمہ ان میں باقی تھی۔ نومولود سید صاحب کو دیکھ کر نہایت ادب کے ساتھ جھکے اور ڈنڈوت کرکے روبرو باادب ٹھہرے۔ پھر قدموں پر گرے اور کہا کہ جب سے یہ آفتاب طلوع ہوا ہے اس وقت سے اس کے غروب ہونے تک برابر، اس کی روشنی سے عالم منور ہوتا رہے گا۔ مجھے تاب نظر نہیں کہ اس کے جمال کو دیکھوں۔ پھر انھوں نے کہا کہ جب آفتاب طلوع ہو گیا تو چاند کے غروب ہونے کا وقت آگیا۔ یہ کہہ کر واپس چلے گئے اس کے بعد ان کو کسی نے نہیں دیکھا۔ مشہور ہے کہ غازی پور کے جنگل میں لوگوں نے ان کا جنازہ دیکھا۔ وہیں ان پر نماز جنازہ پڑھائی گئی اور دفن کیے گئے۔ اغلب ہے کہ یہ، وہ بستی ہے جو لکھنؤ سے دو تین کوس کے فاصلے پر جہت بانسہ و بارہ بنکی میں واقع ہے۔
مندرجہ بالا واقعہ سے حضرت سید صاحب کا بلند مرتبہ ظاہر ہوتا ہے اور ان مجذوب کے جذب صحیح کا پتہ چلتا ہے کہ قبل از آثار رشد انھوں نے حضرت صاحب کی حالت سے خبر دی اور ایسا ہی واقع ہوا۔
ایسا ہی ایک قصہ کتاب ’ملفوظ رزاقی‘ میں حضرت مراد کا بھی مذکور ہے۔ یہ بزرگ درویش و سیاح تھے۔بانسہ شریف میں اس زمانے میں وارد ہوئے اور وہیں مقیم ہو گئے۔ حضرت سید صاحب کی والدہ اپنے والد کے گھر تشریف لائیں۔ حضرت بھی ہمراہ تھے۔ اس وقت حضرت کا سن تین چار سال کا تھا اور آپ اپنی دایہ کی گود میں تھے۔ اتفاقاً سید مراد کی نظر ان پر پڑی۔ دایہ کی گود سے لے کر انھوں نے اپنی گود میں بٹھا لیا اور دیر تک زیارت جمال سے شرف افروز ہوتے رہے۔ دایہ نے لینا چاہا تو سید موصوف نے روکا۔ کئی بار کے اصرار کے بعد سید مراد نے حضرت کو سر اقدس پر بٹھا لیا اور قدم کو بوسہ دیا اور کہا کہ فرش سے عرش تک سب اس فرزند کے زیر اقدام ہونے والا ہے۔ اس کے بعد با ادب تمام دایہ کی گود میں دے دیا۔
حضرت سید شاہ عبد الرزاق صاحب کے ارشادات و ملفوظات اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی رزاقیت کے اقرار سے لبریز ہیں اور دعوت فکروعمل دیتے ہیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ذکر الٰہی کے لیے کوئی کسب مانع نہیں ہے اور اس کے لیے کسی سبب کی حاجت نہیں۔ ہاں امورات دنیوی کے لیے اسباب کی حاجت ہے۔ مثلاً ایک حقہ ہے کہ اس کے واسطے کتنی دنیاوی چیزوں کی حاجت ہے یعنی حقہ، نیچہ، چلم اور آگ۔ جب یہ سب اشیا موجود ہوں اور اس کے کھینچنے والا نہ ہو تو سب فضول ہیں۔ پھر یہ بھی لازمی ہے کہ دماغ خالی کرکے حقہ کھینچے تاکہ دھواں اس کا حاصل ہو۔ اس دھوئیں کے حاصل کرنے کی کتنی کوشش کی جاتی ہے۔ لہٰذا اگر اسی طرح طالب صادق یاد الٰہی میں بھی دل بستگی کے ساتھ اوقات بسر کرے اور دل و جان کو اشغال اور اذکار و افکار کے لیے مستعد کرے تو لمعات تجلیات انوار الٰہی اس پر منکشف ہوں۔
آپ کے اخلاق مرضیہ شرعیہ سے یہ تھا کہ شب میں بہت بیدار رہتے اور تھوڑا سوتے۔ آپ رات کو گھر میں بیداری کے عالم میں ذکر میں مشغول رہتے اور صبح کو صحرا میں اور جہاں فضا اور منظر اچھا ہو ادھر چلے جاتے اور وہیں پرور دگار عالم کا ذکر فرماتے۔ آپ کے ملفوظات میں یہ بھی تحریر ہے کہ آپ فرماتے: ”آدمی کو ایک پاس شب یعنی چوتھائی شب کفایت کرتا ہے یعنی کافی ہوتا ہے۔“ آپ مریدوں کو بھی زیادہ سونے سے منع فرماتے اور بیدار رہنے کی تاکید فرماتے اور طالبان حق میں سے جو کوئی بہت سوتا اس سے خوش نہ ہوتے۔
حضرت سید شاہ عبدالرزاق صاحب نے نہ صرف ابتداے عمر میں بلکہ سلسلۂ بیعت کے بعد بھی ہمیشہ نوکری کرکے بسر اوقات کی۔ آپ نے کبھی کسی سے سوال نہیں کیا اور نہ سوال کرنے کو پسند فرمایا۔ دیہات میں جو حصۂ مادری و پدری تھا اسی پر قناعت کی۔ اس کے علاوہ آپ کو جو کچھ بھی حاصل ہوا اس کو آپ نے فقرا پر صرف کیا۔ یہاں تک کہ مولوی علی اصغر نے دربار محمد شاہ بادشاہ سے سند معافی پانچ گاؤں کی تحریر کرا کے مولوی محمد نافع کے ہاتھ بھیجی جو مولوی علی اصغر کے عزیز تھے۔ آپ نے ان سے دریافت کیا کہ تمھارے ہاتھ میں کیا ہے؟ انھوں نے عرض کی کہ یہ سند معافی ہے جو آپ کے لیے مولوی علی اصغر نے شاہ عالم سے لکھوا کر اور مہر کرا کے بھیجی ہے۔ مولوی علی اصغر نے بہ مشورہ مولوی محمد نافع صاحب، محمد شاہ سے عرض کیا کہ میں اس وقت تک معافی نہ لوں گا جب تک حضرت سید شاہ عبدالرزاق صاحب کے نام معافی عطا نہ ہوگی کیونکہ ان کا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے۔محمد شاہ نے اس درخواست کو قبول کیا اور سند لکھ دی۔ وہ سند لے کر آئے لیکن حضرت سید عبدالرزاق صاحب نے مولوی نافع سے وہ سند لے کر پھاڑ ڈالی اور فرمایا: ”میرے خالق و رازق کے یہاں کیا کمی ہے جو اس کی مخلوق سے کچھ چاہوں۔“ اس موقع پر آپ کا درج ذیل ملفوظ قابل لحاظ اور لائق توجہ ہے۔ آپ فرماتے ہیں: ”بادشاہ کے لیے دعا، ترقی دولت اور اقبال میں مصروف ہو کہ ملک اور ہاتھی گھوڑے بادشاہ کے سلامت رہیں تاکہ میری یہ معافی بحال اور باقی رہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ میرے لیے میرا خالق بس ہے اور باقی ہوس ہے۔“
حضرت کے اعلا اخلاق سے یہ بھی ثابت ہے کہ اگر کوئی فقیر صورت آتا اور اس سے عشق الٰہی کے آثار ظاہر ہوتے اور وہ آپ کے یہاں مہمان ہوتا تو آپ اس کے سامنے کھانا رکھ دیتے اور اس کو بالکل آزاد چھوڑ دیتے۔ کبھی اس سے زیادہ کھانے میں اصرار نہ کرتے کہ یہ درویش ہے اور اس کے چہرے سے علامت، طلب حق کی ہویدا ہے اس کو پیٹ بھر کے کھانا زہر قاتل ہے اور کم کھانا اس کے لیے تریاق مجرب ہے۔ پھر اگر اس سے کہا جائے کہ ایک ہی لقمہ اور کھالے اور وہ سیر ہونے کے بعد کھائے تو اس کو ضرر عظیم ہوگا۔ اس کے برخلاف آپ کے پاس اگر دنیا دار آتے اور مہمان ہوتے تو ان سے شفقت کے ساتھ پیش آتے اور ان کو اصرار کرکے کھانا سیر ہوکے کھلاتے اور مبالغہ کرکے کھلاتے کہ شاید وہ نئی جگہ میں شرم سے کم کھائے اور بھوکا رہے۔ آپ فرماتے اس کے لیے سیر ہو کے کھانے میں کچھ بھی ضرر کا خوف نہیں ہے کیونکہ وہ رات بھر سوئے گا اور اگر نہ سوئے گا تو ایسی چیزوں میں مبتلا ہو گا جو اچھی نہیں ہیں۔ خود آپ کبھی بھر پیٹ کھانا تناول نہیں فرماتے تھے۔ اس ضمن میں آپ کا ارشاد گرامی حسب ذیل ہے:
”رات کو کچھ نہ کھاؤ اور دن کو تھوڑا کھاؤ تاکہ معدہ خالی رہے کیونکہ اس میں ذکر اور شب بیداری اچھی طرح سے ہو سکتی ہے۔“ اور جب آپ خود کچھ نوش فرماتے تو ہمیشہ بھوک رکھ کر کھاتے یعنی اس قدر کہ اگر پھر کھانا پڑے تو کھا سکیں اور رمضان المبارک میں روزے کی تاکید فرماتے اور افطار کے وقت کم کھانے کی تاکید فرماتے۔ ایک موقع پر آپ نے اپنے صاحب زادہ صاحب کے حق میں فرمایا۔ اس کا تخاطب اگرچہ خاص ہے لیکن بظاہر اس کا حکم عام ہے آپ فرماتے ہیں: ”استقامت اختیار کرو اور ہر گز ہرگز تحصیل معاش کے لیے امرا اور حکام کی طرف رخ نہ کرو تو بہتر ہوگا اور جو کچھ میں نے اپنے پیر دستگیر سے پایا ہے، اس کی ان کو اجازت دیتا ہوں۔ اس میں وہ مشغول رہیں ان شاء اللہ تعالیٰ ان کو نافع ہوگا بلکہ تمام یاران طالب حق سے یہی کہنا چاہیے کہ جو کچھ ارشاد ہوا ہے اس کو بہ جدوجہد ادا کریں۔“ آپ نے یہ بھی فرمایا: ”میں گھر میں بیٹھا ہوں۔ کوئی ذریعہ معاش نہیں رکھتا۔ رزاق مطلق رزق پہنچاتا ہے، اسی طرح دوسروں کے ساتھ بھی وہ رزاق مطلق فضل کرے گا۔“
حلیہ: حضرت سید صاحب میانہ قد تھے۔ نہ بہت طویل کہ بے ڈول معلوم ہوں، نہ قصیر کہ بالکل چھوٹے دکھائی دیں بلکہ مائل بہ طویل تھے۔ رنگ گندم گوں مائل بہ سفیدی تھا۔ آنکھیں نہایت مناسب تھیں زردی کا اثر نہ تھا بلکہ نہایت سیاہ۔ آخر عمر میں بعض مخصوص اذکار اور ریاضت کی وجہ سے دائیں آنکھ جاتی رہی تھی مگر اس سے حسن میں کوئی نقصان نہیں تھا بلکہ یکسوئی معلوم ہوتی تھی۔ بینی مبارک بلند اور دراز تھی۔ دندان مبارک بھی بڑے تھے اور ملے ہوئے تھے۔ البتہ کہیں کہیں ان میں شگاف بھی تھا۔ ریش مبارک گنجان اور طویل تھی۔ تھوڑے بال سیاہ تھے باقی سب سفید ہو گئے تھے۔
آپ کی کل عمر میں اختلاف ہے۔ حضرت ملا نظام الدین ۸۸ برس کی عمر لکھتے ہیں اور بعض دیگر حضرات ٩٢ برس جب کہ میر باقر علی ٩٦ سال کی عمر تحریر کرتے ہیں۔ بہرحال اگرچہ حضرت کی عمر انتہائی پیری کو پہنچی ہوئی تھی لیکن پھر بھی قویٰ میں کچھ فرق نہ تھا۔ سپاہانہ لباس تھا اور نشست و برخاست بھی سپاہانہ انداز کی تھی۔ ابتداے وقت مرض سے آخر آں وفات تک کبھی غشی نہیں طاری ہوئی۔
جب آپ کا آخر وقت ہونے لگا تو ایک حاضر باش نے عرض کیا کہ کلمۂ شہادت پڑھیے۔ آپ نے فرمایا کہ دل پر نقش ہے اس سے غفلت نہیں ہو سکتی ہے۔ انھوں نے عرض کیا کہ یہ تو یقین ہے مگر میں اس لیے عرض کرتا ہوں کہ تمام اعضا عبادت کے لیے مخلوق ہیں لہٰذا زبان سے بھی ذکر ہے اگرچہ مدار کار اس پر نہیں ہے۔ آپ نے کلمۂ شہادت پڑھنا شروع کر دیا۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا حکم شرع تو یہ ہے کہ مرنے والے سے نہ کہا جائے کہ کلمہ پڑھو بلکہ خود پڑھتا جائے تاکہ اس کو تلقین ہو اور وہ از خود یاد کرے۔ پھر اس خادم نے عرض کیا کہ بعد ارتحال حضور ہم کیا کریں؟ آپ نے فرمایا کہ جیسا مناسب سمجھو کرو۔ سوال سے یہ مترشح ہوتا تھا کہ حضرت کے مرقد اقدس کے متعلق دریافت کیا جاتا ہے کہ آیا بنایا جائے اور کس طرح کا بنایا جائے، گنبد بنے یا نہیں اور جیسا کہ دستور ہے اطراف میں زیارت کرنے والوں کے لیے مکانات بنیں یا نہیں۔ آپ نے اس کا بھی جواب دیا کہ اس امر کے دریافت کرنے کی ضرورت نہیں، جو تمھارے نزدیک مناسب ہوگا وہ کرنا۔
وصال: حضرت ملا نظام الدین تحریر فرماتے ہیں کہ آپ نے چہار شنبہ کے روز چھٹی شوال کو ١١٣٦ ہجری میں وفات پائی اور طریقۂ عرس پانچ شوال کو جاری ہے لیکن گمان کیا جاتا ہے کہ بانسہ شریف میں رویت ہلال ثابت نہیں ہوئی تھی اس لیے پانچ شوال تھی اور لکھنؤ میں رویت ہلال ثابت ہو گئی تھی اور چھ شوال تھی اس لیے حضرات کبار نے اکثر تاکید فرمائی ہے کہ چھٹی شوال کو حاضر آستانہ رہنا چاہیے۔ قبر شریف مقام کٹرہ میں جہاں مسافر خانہ تھا اس کے مقابل ایک باغ میں ہے۔ کچھ عرصہ بعد قبر پر ایک مقبرۂ عالی شان اور غلام گردش اور دیگر عمارات کی تعمیر ہوئی۔
لباس: حضرت سید صاحب سپاہانہ لباس پہنتے تھے۔مرزئی اور پگڑی اور دھوتی نیز کبھی انگرکھا اور پائجامہ بھی پہنتے اور اکثر چادر ساتھ رہتی تھی جس سے کمر باندھتے اور سردی میں اوڑھ لیتے۔ ملازمت کے زمانہ میں لباس کے علاوہ ایک تلوار ایک جوڑا جوتا ساتھ رکھتے تھے۔ لباس فقرا اور شہرت سے ہمیشہ احتراز کرتے لیکن آخر زمانہ میں کبھی پگڑی، کبھی چادر اور کبھی رومال گیروا اپنے پاس رکھتے اور اس کی وجہ یہ ہوئی کہ ایک بار بانسہ شریف سے لکھنؤ تشریف لا رہے تھے کہ ایک چوکیدار پارسیوں کی قوم میں سے آپ پر حملہ آور ہوا لیکن جیسے ہی اس نے چاہا کہ تلوار سے آپ کو شہید کرے کہ ہاتھ اس کے ہوا میں رہ گئے۔ وہ شخص نادم ہوا اور حضرت کے پاے مبارک پر گر پڑا۔ آپ نے اس کی خطا معا ف کر دی۔ اس کے ہاتھ جیسے تھے ویسے ہی ہو گئے۔ اس شخص نے نہایت التجا سے عرض کیا کہ یا حضرت! آپ کوئی چیز یا لباس اہل فقر کی قسم سے اپنے پاس رکھا کریں تاکہ مخلوق خدا دھوکہ نہ کھائے اور بے ادبی کرکے گرفتار بلا نہ ہو۔ لباس کے سلسلے میں آپ کی یہ عادت بھی تھی کہ دو شنبہ کو نیا کپڑا نہیں پہنتے تھے اور اپنی اولاد کو بھی منع فرماتے تھے لیکن چونکہ حضرت ملا نظام الدین صاحب نے اس کے متعلق کچھ تحریر نہیں فرمایا ہے اس لیے یہ گمان اغلب ہے کہ غالباً آپ کی اولاد کے ساتھ مخصوص ہو۔
***
Dr. M0hammad. Athar Masood Khan
Ghaus Manzil, Talab Mulla Iram
Rampur 244901 U P.India
Mob.91 9719316703
٢٥/مئی ٢٠١٥
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:واجدہ تبسم


شیئر کیجیے

One thought on “قطب الاقطاب سید شاہ عبدالرزاق بانسویؒ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے