کھتھو

کھتھو

کھتھو (اُونی شال) سندھی افسانہ اردو کے قالب میں
افسانہ : اکبر لغاری
مترجم : آکاش مغل
انتخاب : ظفر معین بلے جعفری

اکبر لغاری سندھی زبان کے معروف افسانہ نگار، محقق اور نقاد کے طور پر اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ آپ پانچ کتابوں کے مصنف ہیں جن میں "فلسفي جي مختصر تاریخ" ،” سنڌي ادب جو مختصر جائزو"، ادبي تنقید جي تاریخ ،" کوي عمر کوٽ جا" اور”عمر کوٽ ایامن کان" اہل علم و ادب سے داد تحسین حاصل کرچکی ہیں۔ لغاری صاحب بہت خوب صورت کہانیاں بھی تخلیق کرتے رہے ہیں مگر ان کی کہانیوں کا کوئی مجموعہ کتابی شکل میں تاحال سامنے نہیں آسکا۔ ادب نواز حلقوں کو امید ہے کہ لغاری صاحب اس طرف بھی ضرور توجہ دیں گے۔ آپ حکومت سندھ کے محکمہ ثقافت، سیاحت اور نوادرات میں سیکریٹری کی حیثیت سے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ اور آج کل آپ محکمہ تعلیم و خواندگی حکومت سندھ میں بحیثیت سیکریٹری اسکول ایجوکیشن ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں.
اکبر لغاری کا سندھی زبان میں تحریر کردہ افسانہ "کٿو" جسے آکاش مغل نے آپ کے لیے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے، آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر پیش خدمت ہے. ظفر معین بلے
**

ہاں باقی تو سب کھئیر ( خیر ) ہے، میں تعلقہ ہالا کے ایک چھوٹے سے گوٹھ میں کافی عرصے سے رہائش پذیر ہوں۔ یہ گوٹھ دريا بادشاہ کے کھابے پاسے ( بائیں طرف) آباد ہے۔ ہمارا آبائی پیشہ مویشی پالنا ہے۔ بھینسوں کی دو تین اقسام رکھی ہوئی ہیں، ایک بھائی ہے جو رئيس کا ہاری ( کسان) ہے۔ گھر میں اناج لانا اس کے ذمہ ہے اور کھیر ( دودھ ) لسی پانی کا انتظام میری ذمیواری، بس بچے پال رہے ہیں۔
پاڑے ( پڑوس ) میں چھوٹی سی کچّی مسیت (مسجد) بھی ہے، جہاں گوٹھ والے عيد کی نماز کے علاوہ جمعہ بھی پڑھتے ہیں، وہاں مولبی صاب بچّوں کو سپارہ بھی پڑھاتا ہے۔ ہم رمضان میں روزے رکھتے بھی کھیر مانی (دودھ روٹی ) کے ساتھ ہیں تو کھولتے بھی کھیر مانی کے ساتھ. کنگھ (کھانسی) وغیرہ ہوجائے تو حکيم صاب کی دی ہوئی پھکی پھانک لیتے ہیں، باقی سب کھئیر (خیر)، کھرچ صپھا گھٹ (اخراجات نہایت قلیل ہیں)۔ ہم دونوں بھائی کبھی کبھار کسی ميلے ملاکھڑے میں جائیں، بھٹائی کے عرس پر، یا ہالا جائیں تو دُہری اجرک ضرور کھریدتے ہیں، جو ہم کو اٹھتے بیٹھتے کام آتی ہے۔ بابا مرحوم جب حيات تھا تو اونٹ بھی رکھا ہوا تھا. ایک بار بابا تھر گیا تو وہاں کی سُوکھڑی (سوغات) کھتھو ( (اُونی شال) بھی لایا۔ واہ کھتھا تیری شان! اوڑے پاڑے (پاس پڑوس ) سے سب دیکھنے چلے آئے۔ سستے زمانے تھے پھر بھی پورے ڈیڑھ سو روپے کی ملی تھی۔ لوگوں کو تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا. "کھميسے کے شونق تو دیکھو! اتنے ڈوکڑ (رقم ) ایک کھتھے پر کھرچ کرڈالے!"
ماما گُلّو تو کھتھو پر صفا مر ہی مٹا! کہنے لگا: ”کھميسا ! دس روپے اوپر لے اور کھتھو میرے کو دے دے .“
لیکن بابا نے کھتھو بیچنے سے ٹھپ جباب دے دیا۔ بابا مرحيات کے بعد یہ کھتھو میرے پاس رہا، جس کو میں صرف پوھ کے مہینے میں اوڑھتا تھا۔ بہت پہلے، ہمارے گوٹھ میں بھی بجلی آئی، پھر ٹی وی آیا اور پھر آخر میں چھابڑی جیسی ایک چیز آئی، اس کو کہتے تو پتا نہیں کیا تھے، لیکن اس کی مدد سے ٹی وی پر ولائتی آدمی دکھاتے تھے، پرائی زائپھائیں (عورتیں ) ناچ رہی ہیں. میرا بھائی بھی یہ تماشا لے آیا۔ میرے والی بھاگ بھری بھی سارا دن دیدے پھاڑے بیٹھی رہتی ٹی وی کے سامنے، یہاں تک کہ کھیر ولوڑتے وقت ( دودھ بلوتے ہوئے ) بھی کھيل دیکھتی رہتی۔ میں شام کو بھینسیں چروا کر لوٹتا تو بیٹھ جاتی قصے سنانے۔
ایک دن بڑی کھُش تھی، بولی : ” آج کپُور اور پریا کا مِلن ہوگیا ہے۔“
میں نے پوچھا : ”یہ وری کون ہیں؟ اپنے ست راجی میں تو ایسے نام کسی کے نہیں ہیں!“ ۔ پتہ چلا کہ اس نے یہ مانھُوں ( لوگ ) ٹی وی میں دیکھے تھے۔
بھاگ بھری کو جب دیکھو، آئے روز نت نئی باتیں کر رہی ہے۔ کبھی سُرکھی پؤنڈر لے رہی ہے، تو کبھی وری عجيب طرح کے کپڑے سلوا رہی ہے. کھیر مکھن بیچ کر، ادھر ڈوکڑ ہاتھ میں آئے، ادھر سب اس کے چونچلوں میں پورے، میں بہراڑی بندہ ( دیہاتی ) کیا جانوں ان چیزوں کے بارے میں! رمضان آیا تو روزے رکھنے کے لیے پتہ نہیں کیا کیا منگوا لیا شہر سے۔ ایک دن شام کو جنگل سےگھر آیا تو صُوپھ (سیب)، کیوڑا اور نارنگياں رکھی ہوئی ہوں۔ يا ﷲ سائیں کھئير! یہ چیزیں تو ہم صرف کھتمہ دلانے کے واسطے کھریدتے ہیں!، کوئی پھوت ہو گیا ہے کیا؟ پتہ چلا کہ یہ سب روزہ کھولنے کے لیے منگوایا گیا ہے۔
وڈے چاچے کی دھی، بھاگ بھری کو، اب کیا بولوں! آٹھویں دن ایک پاڈہ (بھینس کا بچہ) بیچنا پڑا۔ سمجھانے کی کوشش بھی کی مگر نیک بکھت تو جیسے صپھا ببر (ببول) پر چڑھی کھڑی ہو، کون اتارے! پھر تو ہر روز، ميوے، شربت کی بوتلیں، گوشت پلاؤ۔
بیسویں روزے تک گھر میں ٹکا پئسہ سب کھتم۔ زال( بیوی) بولے: "ڈوکڑ دے، رمضان مزمان (مہمان) ہے، چلا جائے گا، اگلے سال يا نصيب۔“
میں نے پوچھا: "کدھر جائے گا؟، یہ مزمان ہر سال آتا ہے. میری زندگی تو کبھی ناغہ نہیں کیا، میرے پاس ڈوکڑ ہوں تو دوں نا!"۔
اگلے روز ابھی صبح ہونے سے پہلے مینھں ( بھینس) کی رسی کھولی۔ مولبی کے فجر کی اذان دینے سے پہلے بند بھی پار کر گیا۔ شام کو وری دير سے آیا۔ دوتین دن اسی طرح کیا.
ستائیسویں روزے کو ذرا جلدی گھر آگیا تو دیکھا گھر میں وہی پھل پھروٹ، شربت اور بوتلیں پڑی ہوں۔ پوچھا میں نے بھی نہیں!
اب کیا بتاؤں کہ عيد کی نماز پڑھ کر جیسے ہی ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگے تو میری نظر ماما گلو پر پڑی جو بابا مرحوم والی تھری کھتھو اوڑھے کھڑا تھا ۔
***
آکاش مغل کا یہ ترجمہ بھی پڑھیں:روشنیوں کے شہر کی تیرگی!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے