مولانا حشمت اللہ ندویؒ

مولانا حشمت اللہ ندویؒ

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ

یہ دردناک اور الم ناک خبر بڑے افسوس کے ساتھ سنی گئی کہ ۵/ رمضان المبارک ١٤٤٣ھ مطابق ۷/اپریل ٢٠٢٢ء کو دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مایۂ ناز سپوت، عربی زبان و ادب کے ماہر و رمزشناس، سنہری یادوں کے مصنف، ندوۃ العلماء لکھنؤ کے سابق استاذ، حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کے معتمد خاص، قطر میں ندوۃ العلماء کے ترجمان سمجھے جانے والے مولانا حشمت اللہ ندوی کا ایک سڑک حادثہ میں انتقال ہوگیا، انا للہ و انا الیہ راجعون، حکومتی اور اسپتال کی کارروائیوں کے بعد ١٣/رمضان المبارک ١٤٤٣ھ مطابق ١٥/اپریل ٢٠٢٢ء روز جمعہ بعد نماز عشاء و تراویح مقبرہ ابو ہامور میں ان کے جنازہ کی نماز ادا کی گئی، ان کے انتقال سے علمی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کو سب نے محسوس کیا، خصوصاً ندوۃ العلماء میں اس مایہ ناز سپوت کے دنیا سے رخصت ہونے پر ماتم پسرگیا۔ پس ماندگان میں اہلیہ، دو لڑکے عمیر حشمت، علی حشمت اور تین لڑکیاں اسماء، فاطمہ، مریم کو چھوڑا۔
مولانا دھموارہ بلاک علی نگی ضلع دربھنگہ بہار کے رہنے والے تھے، ان کے والد الحاج ماسٹر محمد عیسیٰ صدیقی تھے، جو پہلے ہی فوت ہوچکے تھے، مولانا کی والدہ کا نام آرام بانو تھا اور سنہ پیدائش ١٩٦١ء۔ابتدائی تعلیم اور حفظ قرآن کی تکمیل مولانا نے اپنے گاؤں دھموارہ میں کیا، اس زمانہ میں گاؤں اور دیہات میں قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنے کا رواج ذرا کم تھا، حفظ کے طلبہ تجوید کی تعلیم حاصل کرتے تھے، تب قرآن کریم پورے اصول و آداب کے ساتھ پڑھنا ممکن ہوسکتا تھا، مولانا کی تلاوت میں بھی تجوید کے اعتبار سے خامیاں تھیں، چنانچہ سلسلہ تھانوی کے مشہور بزرگ مولانا سراج احمد امرہوی کے مشورہ سے مولانا کے والد نے انھیں مدرسہ اشرف المدارس ہردوئی روانہ کیا، اشرف المدارس حضرت مولانا ابرارالحق حقی کا قائم کردہ تھا اور تصحیح قرآن کاخاص اہتمام وہاں کل بھی تھا اور آج بھی ہے، ١٩٧٣ء میں مولانا وہاں داخل ہوئے، نورانی قاعدہ سے تعلیم شروع ہوئی، ایک ہفتہ میں یہ مرحلہ طے ہوگیا، پھر قرآن کریم حفظ کا دور شروع ہوا، اس کی بھی تکمیل ہوگئی اور مولانا انتہائی خوش الحانی اور تجوید کی رعایت کے ساتھ تلاوت قرآن پر قادر ہوگئے، جن لوگوں نے ان کی تلاوت سنی ہے وہ بتاتے ہیں کہ ان کی تلاوت سن کر آدمی مسحور ہوجاتا تھا، پھر عربی کے ابتدائی درجہ میں داخلہ ہوگیا، یہاں مولانا مرحوم نے خصوصی طور پر حضرت مولانا قاری امیر حسن سے تربیت پائی، اسی لیے وہ انھیں اپنا محسن اور مربی کہا کرتے تھے، عربی و فارسی کی ابتدائی کتابیں انھوں نے قاری امیر حسن صاحب سے ہی پڑھیں، اور تین سال کی مدت میں کافیہ اور قدوری تک کی تعلیم حاصل کی، یہاں کے فیوض و برکات سے دامن بھرنے کے بعد انھوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا، سال ١٩٧٦ء کاتھا، داخلہ امتحان مولانا شفیق الرحمٰن ندویؒ اور مولانا شمس الحق ندوی صاحب نے لیا اورثانویہ خامسہ شریعہ میں داخلہ ہوا، یہاں آپ کے رفیق درس جن سے خاص انس تھا، مولانا خالد کان پوری اور مولانا نجم الحسین تھے، داخلہ کی کاروائی مکمل ہونے کے بعد رواق شبلی میں رہنے کو جگہ ملی، کمرہ نمبر چھے تھا، حضرت مولانا مفتی ظہور صاحب ندوی نگراں تھے جو فجر کی نماز کے لیے خصوصیت سے لڑکوں کو جگایا کرتے تھے، کمرے کے جو رفقا تھے وہ خان برادران بھوپال کے تھے، ان حضرات سے مولانا کی اس قدر گاڑھی چھنتی تھی کہ کئی لوگ ان کو بھی بھوپال کا ہی سمجھتے تھے، عالمیت کے سال مولانا مرحوم نے ہدایہ اور سراجی مفتی صاحب سے ہی پڑھی اور ان کے طریقہ تدریس سے مستفیض ہوئے، ١٩٨٢ء میں فراغت کے بعد تخصص فی الادب میں داخلہ لیا، آپ کی علمی قابلیت و صلاحیت کو دیکھ کر تدریس کے لیے ندوہ میں ہی آپ کی تقرری عمل میں آئی، آپ غیر معمولی محنت و صلاحیت کی وجہ سے جلد ہی حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ، مولانا واضح رشید ندوی اور مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کے قریب ہوگئے، حضرت مولانا کے بعض مضامین کا عربی میں ترجمہ کیا جو حضرت مولانا نے بعینہ ان کے نام کے ذکر کے ساتھ اپنی کتاب میں شامل کیا، مولانا مرحوم نے الرائد میں بھی رفیق کی حیثیت سے کچھ دن کام کیا، فروری ١٩٨٢ء میں جب درالمصنفین نے اسلام اور مستشرقین پر سمینار کرایا اور موقع عرب فضلا کے لیے اردو مقالوں کے عربی خلاصے اور عرب مقالہ نگاروں کی اردو تلخیص کا تھا تواس فن میں آپ کی مہارت تامہ کا پتا چلا، اس موقع سے ہر طبقہ نے آپ کی صلاحیت سے فائدہ اٹھایا اورلوگ ان کے مداح نظر آئے۔
١٩٨٧ء کے آخر تک ندوہ میں استاذ رہنے کے بعد آپ قطر چلے گئے، وہاں ان کی صلاحیت کے مطابق ملازمت نہیں ملی، اس لیے مایوسی کا شکار رہنے لگے، مولانا مرحوم کے اندر علمی کبر نہیں تھا، کم گو تھے، لیکن حق گو تھے، فضول باتوں کا ان کے یہاں گذر نہیں تھا، ندوہ اور اکابرین ندوہ سے ان کی محبت مثالی تھی، یہ محبت ان کے خون کے ساتھ جسم و جان میں گردش کرتی تھی، ان کا حافظہ قوی تھا، وہ اردو، عربی، انگلش تینوں زبانوں پر قدرت رکھتے تھے، علی طنطاوی کے اسلوب سے متأثر تھے، ان کی کتابوں کی بہت سی عبارتیں ان کے حافظہ کی گرفت میں تھیں اور وہ انھیں بر وقت اور برجستہ استعمال کیا کرتے تھے، اس موقع پر مرشدالامت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کی یہ شہادت بھی نقل کرنے کو جی چاہتا ہے جو انھوں نے اپنے تعزیتی پیغام میں دیا ہے۔
”مولوی حشمت اللہ ندوی عربی ادب کے ساتھ ساتھ دوسرے علوم میں بھی فائق تھے، طالب علمی ہی سے ان کا یہ معاملہ تھا کہ جو بھی کام ان کے سپرد کیا جاتا وقت سے پہلے کرکے لے آتے، عربی کی صلاحیت ان کی بہت اچھی تھی، وہ بہت اچھا ترجمہ کرتے تھے، حضرت مولانا سیدابوالحسن علی حسنی ندوی کے کئی مضامین کے ترجمے انھوں نے کیے، جو مختلف مجموعوں میں شائع بھی ہوئے، مجھے اپنے علمی کاموں میں ان سے مدد اور تقویت ملتی رہی، ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے امید تھی کہ وہ ان مقاصد کی تکمیل میں مددگار ثابت ہوں گے جو ندوۃ العلماء کے زیر نظر ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا“ ایسی بافیض شخصیت کا ہمارے درمیان سے اٹھ جانا انتہائی صدمہ کاسبب ہے، اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل سے نوازے آمین یارب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم۔
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:کتاب: عکس خیال

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے