ماہِ صیام

ماہِ صیام

غضنفر

بظاہر وقت کا حصہ ہے اک یہ بھی
مگر یہ وقت سے اپنے جدا بھی ہے
الگ اس کے کرشمے ہیں
انوکھے کارنامے ہیں
طلسماتی مظاہر ہیں
تعجب خیز منظر ہیں
اعجوبے سارے پیکر ہیں
نرالے اس کے تیور ہیں
یہ عرصہ تیس دن کا ہے
مگر لمحے ہیں لا فانی
ہر اک لمحے سے ملتی ہے
مری آنکھوں کو حیرانی
ہر اک لمحہ میں ایسا کام ہو تا ہے
جو صدیوں میں نہیں ہوتا
جو لمحہ بیج بوتا ہے
کوئی عرصہ نہیں بوتا
ہر اک ساعت بدل دیتی ہے تقدیریں
گھڑی بھر میں بکھر جاتی ہیں تعمیریں
تصور سے فقط جس کے
سنور جاتی ہیں تصویریں
ذرا سی دیر میں خوابوں کو مل جاتی ہیں تعبیریں
اندھیروں سے نکل آتی ہیں تنویریں
بنا دیتی ہیں بگڑے کام اک اک اس کی تدبیریں
فقط اک آن میں کٹ جاتی ہیں
ذہنوں سے زنجیریں
فقط پھونکوں سے اس کی
کند ہو جاتی ہیں شمشیریں
خوشی سے غیر لوگوں میں بھی بنٹ جاتی ہیں جاگیریں
کتابِ دین و دنیا کی
سبھی پیکر میں ڈھل جاتی ہیں تفسیریں
یہ ایسا وقت ہے چھونے سے جس کے سحر ہو جاتا
تغیّر فطرتِ انساں میں آ جاتا
نظر کا زاویہ تبدیل ہو جاتا
زباں پہ قفل پڑ جاتا
انا تلوار رکھ دیتی
ادا ناز و ادا سے باز آ جاتی
تمنائیں سبھی خاموش ہو جاتیں
دلوں کی خواہشیں بے ہوش ہو جاتیں
تکبّر سر جھکا دیتا
غرورِ شاہ بھی سر سے چلا جاتا
عجب اس وقت کا ہے طنطنہ صاحب
کہ اس سے شور و غوغا بھی تو چپّی سادھ لیتے ہیں
سبھی سرکش عناصر ہاتھ اپنے باندھ لیتے ہیں
کوئی جذبہ، کوئی احساس بھی حرکت نہیں کرتا
وہی کرتے ہیں ذہن و دل جسے کرنے کو ان سے وقت کہتا ہے
سبھی ڈرتے ہیں اعضا وقت جب ڈرنے کو کہتا ہے
یہ ایسا نرم کرتا ہے
کہ پتھر موم ہو جاتا
نفس شعلہ فشاں بھی پل میں سو جاتا
یہ ایسا گرم کرتا ہے
شرر یخ سے نکل پڑتا
فضاۓ برف کا سینہ پگھل پڑتا
جمودِ زیست بھی حرکت میں آ جاتا
وجودِ شعلہْ شر راکھ ہو جاتا
عجب یہ وقت ہے صاحب !
بِنا جبر و تشدد ذہن پر سکّہ جماتا ہے
دلوں پر راج کرتا ہے
حواسِ جسم پر انکش لگاتا ہے
عجب یہ وقت ہے صاحب
کہ جب بھی پاس آتا ہے
بدل دیتا ہے میری عادتوں کو
میری فطرت کو
مزاجِ سر گراں کو
تند خو میری طبیعت کو
بدل دیتا ہے سر سے پاؤں تک
کچھ اس طرح مجھ کو
کہ جیسے مجھ سے میرا میں ندارد ہو
وہی کرتا ہوں میں سب کچھ
جو مجھ سے یہ کراتا ہے
میں چلتا ہوں
مگر پیروں کو میرے یہ چلاتا ہے
سمجھ میں یہ نہیں آتا
کہ آخر کیوں اثر میں اس کے آتا ہوں
میں اپنے آپ کو بھی بھول جاتا ہوں
***
غضنفر کی یہ تخلیق بھی ملاحظہ ہو:غضنفر کی تین نظمیں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے