قصۂ غم بہ بارگہ عالم پناہﷺ

قصۂ غم بہ بارگہ عالم پناہﷺ

مشتاق نوری

خاک ہندی میں وفاؤں کی مہک جاگی تھی 
سرورا! آپ سے ایماں کی چمک جاگی تھی

خیر و راحت کی کہانی، کہ ستم کے قصے 
ہیں عیاں آپ پہ احوال امم کے قصے 

ارض بھارت پہ جبیں رکھ کے عبادت کی ہے
سینکڑوں سال یہاں ہم نے حکومت کی ہے

خواجۂ ہند کے قدموں سے یہ رعنائی ہے
تب کہیں جا کے چمن میں یہ بہار آئی ہے

نین نقش اس کے قرینے سے سنوارے ہم نے
ضعف و کسلان کے آثار اتارے ہم نے

دست مسلم نے اسے زندہ جوانی بخشی
اجڑے باغات کو دل چسپ کہانی بخشی

رائج وقت تھے ہم چار سو سکے کی طرح
سارے عالم میں معزز رہے کعبے کی طرح

ٹوٹی شمشیر نے، تدبیر نے دے مارا ہے
عرش سے فرش پہ تقدیر نے دے مارا ہے

سخت مشکل میں ہے امت کے سہارا سن لو
والئ خیر! کہ فریاد خدا را سن لو

عزتیں، عصمتیں سب کفر کے نرغے میں ہیں
ہر گھڑی زینب و زہرا یہاں خطرے میں ہیں

نفرتوں کے یہ شرارے، یہ سلگتے منظر
راج ہے ظلم کا، خائف ہے اماں کا پیکر

اب تو رہ رہ کے ڈراتے ہیں یہ منظر آقا
ہند میں جینا ہمارا ہوا دو بھر آقا

عدل بے پر کا پرندہ ہے اڑے گا کیسے
یہاں انصاف بھی لنگڑا ہے چلے گا کیسے

خیر کے رنگ میں بھگوا کے وہ شر ڈالے ہیں
ظلم نے عدل کے پر سارے کتر ڈالے ہیں

اک تو فاشسٹ ہے پھر اس پہ حکومت کا نشہ
نازی افکار کا پیرو ہے یہاں کا مکھیا

اس کا یہ خواب کہ بے یار بنا دے گا ہمیں
چند سالوں میں یہاں سے وہ بھگا دے گا ہمیں

ترکش و تیر یہ شمشیر یہ خنجر اس کا
وردیاں ساری اسی کی، یہ ہے لشکر اس کا

خواب خرگوش میں سوئے ہیں جگائیں کیسے
ہم نہتے ہیں قبیلے کو بچائیں کیسے

کفر ہے برسر پیکار بچا لو ہم کو
ظلمت دہر سے للہ نکا لو ہم کو

سوچتے ہیں تو نگاہوں سے ندی بہتی ہے
داستاں ایسی کہ چٹان بھی رو دیتی ہے

خندہ زن کفر ہے اس قوم کی بے یاری پر
پھبتیاں کسنے لگے امت بے چاری پر

بعد تقسیم فسادوں کا وہ صرصر اٹھا
امن کے واسطے جیسے کوئی محشر اٹھا

چھن گئی بابری، اور متھورا بھی گیا
کتنے کعبے کو یہاں شوق سے توڑا بھی گیا

حرمت منبر و محراب یہاں خطرے میں ہے
درس اسلام کا ہر باب یہاں خطرے میں ہے

ابھی گجرات کا وہ زخم بھرا بھی تو نہیں
ابھی میرٹھ کا ستم دل سے گیا بھی تو نہیں

پھر یہ کھرگون، یہ دلی بھی جلائی کس نے
آگ نفرت کی اس طرح لگائی کس نے

ہم ہی مارے گئے، ہم کو ہی اٹھایا بھی گیا
کر کے سازش ہمیں زنداں میں سڑایا بھی گیا

خوف و دہشت کے پجاری ہیں نگر میں رقصاں
سارے دنگوں کے مناظر ہیں نظر میں رقصاں

وہ کٹے سر، وہ لٹی عصمت حوا کی قسم
شوکت عرش علی! ملت بیضا کی قسم

کعبے والے کی قسم اے گنبد خضری والے
تیری امت کو ستاتے ہیں یہ دنیا والے

عصمت کعبہ بچانے کو وہ کنکر آیا
جانب رب سے ابابیل کا لشکر آیا

بہر امداد فرشتوں کی جماعت اتری
بدر والوں کی سکینت کو عنایت اتری

آپ کے صدقے ہماری بھی مدد ہو جائے
ہم سے کمزور پیادوں کو رسد ہو جائے

آخری وقت میں امت کا سہارا تم ہو
شب تاریک ڈھلے، نور سویرا تم ہو

کب تلک چلتے رہیں ظلم کے انگاروں پر
یا نبی نظر کرم! اپنے وفاداروں پر

کفر کا پانی اتاریں وہی ہمت دیجے
یا نبی بازوے مومن میں وہ قوت دیجے

ہم تری راہ سے کیا بھٹکے، کہ عزت سے گئے
طاعت رب سے ہٹے، اور حکومت سے گئے

ہم خطاوار ہیں، مجرم ہیں، سزا دیں ہم کو
ہم جو بگڑے ہیں تو سرکار بنا دیں ہم کو

نخل ایماں پہ کھلے پھر سے امیدوں کے گلاب
عود کر آئے چمن کے گل چیدہ کا شباب

کشتی امت عاصی کے نگہباں تم ہو
ہم خطاوار پہ حد درجہ مہرباں تم ہو

ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں یہ سوالی دیجے!
یا نبی عظمت رفتہ کی بحالی دیجے!

استغاثہ دل نوری کا سماعت کیجے 
مرے سرکار غلاموں کی حفاظت کیجے

(۲۵؍اپریل ۲۰۲۲ء)
صاحب نظم کی گذشتہ نگارش:بیٹیوں کے نقاب نوچنے کا ذمہ دار کون؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے