کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور

کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور

  مظفر نازنین، کولکاتا

مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ ہندستان کے معروف اردو شاعر گذرے ہیں۔ اگر یوں کہا جائے کہ اردو شاعری غالب کے بغیر ادھوری ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ جس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ William Shakepeare کے بغیر انگریزی ادب نا مکمل ہے تو اس حقیقت سے انکار نہیں کہ غالبؔ کے بغیر اردو ادب اور شاعری کا تصور ناممکن ہے۔ تاج محل کا شمار دنیا کے ہفت عجوبہ روزگار میں ہوتا ہے۔ جسے دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے سیاحوں کی آمد ہوتی رہتی ہے۔ تاج محل شہر آگرہ میں ہے۔ لیکن ہمیں اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہئے کہ شہر آگرہ وہ شہر ہے جہاں اردوکے مایۂ ناز، باعث افتخار شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ ٢٧ دسمبر، ١٧٩٧ کو پیدا ہوئے۔ شہنشاہ شاہجہاں نے تاج محل جیسی خوب صورت عمارت بنواکر اپنی محبت کو دفن کرکے اسے ہمیشہ ہمیش کی زندگی بخشی۔  مرزا غالبؔ نہ تو کوئی شہنشاہ تھے اور نہ کسی شہنشاہ کے فرزند۔ محبت نے ان کے دل میں بھی ایسا ہی شگاف پیدا کیا جیسا کہ شہنشاہ شہاجہاں کے دل میں کیا تھا۔ لیکن مرزا غالبؔ تاج محل جیسی خوب صورت عمارت تو نہ بنوا سکے لیکن اشعار کے گل و خشت سے خوب صورت عمارت تعمیر کرگئے۔ تاج محل جسے دیکھنا ہو اسے چل کر جانا پڑتا ہے۔ لیکن غالبؔ کے اشعار کسی ایک مقام ایک شہر سے وابستہ نہیں بلکہ خفیہ جوگی اور بہتی ندی کی طرح شہر بہ شہر اور دیش بدیش چلے جاتے ہیں۔ بلکہ آج digital world میں ایک ہلکے سے touch سے انٹرنیٹ کے ذریعہ پوری اردو دنیا میں جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ ان کے اشعار  بہت پر معنی ہوتے ہیں۔ اور تیر و نشتر کی طرح دل میں چھبتے ہیں۔ 
غالبؔ کا پورا نام مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ اور غالبؔ تخلص تھا۔ دبیر الملک، نجم الدولہ  انھیں خطاب ملا تھا۔ غالبؔ صرف بر صغیر (ہند و بنگ و پاک) ہی نہیں پوری اردو دنیا کے معروف و شاعر ہیں۔ غالبؔ کے بغیر اردو شاعری تقریباً نامکمل ہے۔ غالبؔ بلاشبہ اردو شاعری اور ادب کے ستون سمجھے جاتے ہیں۔
غالبؔ نے جب آنکھیں کھولیں مغلیہ شیرازہ بکھر رہا تھا۔ ہندستان وطنِ عزیز بحران کے دور سے گذر رہا تھا۔ پرانی بساط کے مہرے الٹ رہے تھے۔ ہندستان فرنگیوں کے طوقِ غلامی میں جکڑا ہوا تھا۔ مرزا کی زندگی غم اور الم سے لبریز ہے۔ عالمِ طفلی میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ پھر بھائی بھی ختم ہوگئے۔ اور خدا نے ۷ اولاد دی تھی۔ جو سب بچپن میں ہی ختم ہوگئے۔ غالبؔ کا عالم شباب طرح طرح کی رنگ رلیوں سے پُر تھا۔ شراب جو ان کی فطرت میں شامل ہوچکی تھی۔ اس لئے ١٣/سال کی عمر میں ہی ان کی شادی نواب الٰہی بخش کی بیٹی سے کردی گئی۔ غالبؔ غزل گو شاعر، قصیدہ نگار اور اچھے نثر نگار تھے۔ خطوط نویسی میں ان کا جواب نہیں۔ انھوں نے پرانے القاب و آداب کو ختم کرکے مراسلے کو مکالمہ بنادیا۔ ان کے دیوان ١٨٤١ء، ١٨٤٧ء، ١٨٦١ء، ١٨٦٢ء اور ١٨٦٣ء میں شائع ہوئے۔ تمام زندگی پریشانی کے عالم میں گذری ہے۔ ان کے کلام میں سادگی، سلاست اور روانی ہے۔ غالبؔ ایک کامل مصور ہیں اور خیالی تصویروں کو سادگی سے پیش کرنے کا فن جانتے ہیں۔فلسفیانہ انداز، عاشقانہ بیان، ان کے لطیف اشعار، ان کی زندگی کا آئینہ دار ہیں۔ ان کے کلام میں فصاحت اور بلاغت موج زن ہے۔ انھوں نے اردو اور فارسی میں شاعری کی ہے۔ غالبؔ کو سات بچے خدائے تعالیٰ نے عطا کیے لیکن عالمِ طفلی میں ہی ختم ہوگئے۔ ایک ان کی متبنیٰ اولاد تھی۔ عین جوانی میں وہ ختم ہوئی. اس درد و رنج کا اظہار غالبؔ اس شعر میں کرتے ہیں۔
قیدِ حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
دنیا کو بازیچۂ اطفال سے تشبیہ دیتے ہوئے یہ شعر رقم کرتے ہیں ؎
بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے
غالبؔ اپنے پینشن کے سلسلے میں کلکتہ آئے تو شہر نشاط کے عیش و طرب کے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور یہ شعر رقم کیا ؎
کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے
وہ سبزہ زار ہائے مطرا کہ ہے غضب
وہ نازنین بتان خود آرا کہ ہائے ہائے
غالبؔ کی ایک اہم غزل کے چند اشعار قارئین کی فن شناس نظروں کی نذر ہے ؎
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے 
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
ڈرے کیوں مرا قاتل کیا رہے گا اس کی گردن پر
وہ خوں جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بدم نکلے
کہاں مے خانے کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتا ہوں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
غالبؔ نے شراب تو پی لی تھی لیکن انھوں نے اسے غلط قرار دیا تھا جو بذاتِ خود ان کے اس شعر سے ظاہر ہے ؎
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
غالبؔ کی زندگی درد و رنج، مصائب و آلام سے لبریز ہے ؎
میں چمن کیا گیا گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہوگئیں
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں
کل ملا کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ غالب کا کلام غالبؔ کی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ اور غالبؔ جیسا کوئی غالبؔ شاید اب نہ آئے۔ سخن ور تو بہت آئے لیکن غالب جیسا نہیں، بہ قول غالبؔ ؎
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
***
Mobile – 9088470916 Email – muzaffar.niznin93@gmail.com

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے