اِمام کی محبت مسجد سے، اِنتظامیہ کی محبت امام سے

اِمام کی محبت مسجد سے، اِنتظامیہ کی محبت امام سے

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی، جمشید پور موبائل:9279996221

دنیا میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں ہے، مطلب پرست، اپنے لیے ہی جینے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ ہرشعبے میں دونوں طرح کے لوگ موجود ہیں۔ جہاں اس طرح کی خبریں سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں کہ فلاں شہر کی فلاں مسجد کے امام! نے تنگ دستی، فاقہ کشی سے پریشان ہوکر و ذہنی تناؤ میں مبتلا ہوکر خود کشی کرلی، فلاں شہر میں مسجد کے امام صاحب اس مہنگائی کے دور میں پانچ ہزار روپے میں امامت جیسے مقدس فرائض کو انجام دے رہے ہیں۔ 9 سالوں سے تنخواہ نہیں بڑھی ہے اور جب اُنھوں نے تنخواہ بڑھانے کی گزارش پیش کی تو تنخواہ کیا بڑھائی جاتی، اُن کو امامت سے سُبک دوش کردیا گیا (معاذ اللہ) دوسرے اِمام کو چار ہزار میں بحال کرلیا گیاہے۔ کمیٹی کے ذمہ دار سینہ چوڑا کرکے یہ بتارہے ہیں کہ وُضو خانہ میں ٹائلیں، tiles لگ رہی ہیں۔ مسجد میں ایک ٹن ٹن اور ڈیڑھ ٹن کی چار، اے،سی لگی ہوئی ہیں 14000 کا بل ہر ماہ آرہا ہے تھری فیس کی لائن لگی ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اب اس خبر پر کس بات پر ماتم کریں کہ نئے امام صاحب کتنے نیک پارسا نکلے کی صرف چار ہزار میں خد مت انجام دے رہے ہیں؟ یا کمیٹی کی بے حسی اور سابق امام کی تکلیف پر توجہ نہ دینے پر؟۔ یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ ہم اپنے گریبان پر بھی نظر ڈالیں تو بہت سی کمیاں نظر آئیں گی کہ ہم کس درجہ مطلب پرست ہوگئے ہیں کہ اما مت جیسی متبرک ڈیوٹی پرمامور شخص پر بھی توجہ نہیں دیتے۔
؎ نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب وہنر
پڑی اپنی بُرائیوں پر جونظر تونگاہ میں کوئی بُرا نہ رہا
(بہادر شاہ ظفرؔ)

؎ ہمارے عیب نے بے عیب کردیا ہم کو
یہی ہنر ہے کہ کوئی ہنر نہیں آتا
(مرزا رضا برقؔ)

خوب صورت مسجد! داڑھی ٹوپی والا مولوی:
در اصل جب سے جاہل کمیٹی والے صرف داڑھی ٹوپی والے ہی کومولوی و مولانا،حافظ وقاری سمجھنے لگے اور مسجد خدا کے گھر کے بجائے خوب صورتی کے نام سے جانی جانے لگی، فلاں مسجد بہت خوب صورت ہے، اس میں اے سی لگی ہے،وُضو خانہ میں ٹائلس لگے ہیں وغیرہ وغیرہ تبھی سے مسجدوں کی خوب صورتی بڑھانے، اے،سی لگانے کا کمپٹیشن بھی شروع ہوگیا، بجلی بل دس ہزار امام کی تخواہ آٹھ ہزار تو پھر امام کس خانہ میں فٹ ہوگا۔ مساجد اللہ ر ب العزت کی عبادت کے لیے بنائے گئے گھر ہیں جنھیں اِیمان والے اللہ تعالیٰ سے اجرو ثواب کی نیت سے تعمیر کرتے ہیں۔
فر مانِ الٰہی ہے: إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّہِ مَنْ آمَنَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ وَلَمْ یَخْشَ إِلاَّ اللّہَ فَعَسَی أُوْلٰئکَ أَن یَکُونُواْ مِنَ الْمُہْتَدِیْنَ۔ ترجمہ: اللہ کی مسجدیں صرف وہی آباد کر سکتا ہے جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لایا اور اس نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور اللہ کے سوا (کسی سے) نہ ڈرا۔ سو امید ہے کہ یہی لوگ ہدایت پانے والوں میں ہو جائیں گے، مگر قُربِ قیامت میں ایسے لوگ آئیں گے جو مساجد کو نقش ونگار سے مزین کریں کرکے اِس پر فخر کریں کریں گے، (غُرورکرنا، وہ چیز یا وہ بات جس پر ناز کریں،) ؎
گمراہ بھی ہم کبھی رہے ہیں
اس فخر میں کچھ عجب نشے ہیں
نمازیوں کے دل عبادت سے ہٹ کر سجا وٹ میں لگ جائیں گے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فر مایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک لوگ مساجد پر فخر نہ کرنے لگ جائیں“۔(سنن ابو داؤد-حدیث:449) بہت سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے مسجدوں کی سجاوٹ سے منع کیا کہ اُمت کہیں ذکر و عبادت اور اطاعت اِلٰہی سے توجہ ہٹاکر مساجد کی عمدہ سے عمدہ تعمیر و آرائش میں مصروف نہ ہوجائیں۔ آج کی کمیٹیاں یہی کر رہی ہیں، بے چارے امام ومؤذن کی تنخواہ کی کوئی فکر نہیں کہ اس مہنگائی میں کیسے گزر بسر کر رہے ہیں۔ صرف داڑھی ٹوپی والا کم صلاحیت کاامام رکھ لیا عوام کی نمازیں خراب ہو رہی ہیں انھیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں۔ سیدنا ابو الدرداء فر ماتے ہیں: ”جب تم مساجد کی تزئین وآرائش میں مبالغہ کر نے لگو گے اور قرآن مجید کے نسخوں پر نقش و نگار بناؤ گے تو تمھاری بربادی کو کوئی نہیں روک سکے گا“۔(المصاحف لابن ابی داؤد- 2/110) امام بغوی رحمہ اللہ اور امام خطابی رحمہ اللہ فر ماتے ہیں کہ یہودو نصاریٰ نے اپنے عبادت خانوں کی تزئین وآرائش اس وقت کی جب انھوں نے اپنی آسمانی کتب میں تحریف کی چنانچہ انھوں نے دین کو ضائع کر کے رکھ دیا اور تزئین وآرائش کو اپنا مقصد بنا لیا“۔ (فتح الباری-عمدۃ القاری) آج ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو قیامت کی یہ نشانی بھی پوری ہوتی دکھائی دے چکی ہے۔ جب مسجد کی سجاوٹ پر ہی سارا دھیان ہو توپھر کمیٹی والوں کو یہ پہچاننے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ اس چار، پانچ ہزار والے مولوی کے اندر امامت کی صلاحیت ہے کہ نہیں؟ امامت کے شرائط وضوابط کیا کیا ہیں،کلامِ الٰہی قرآن مجید صحیح پڑھاتا ہے کہ نہیں، تجوید،(grammar) صرف ونحو کی رعایت رکھتا ہے یا نہیں، مسائل شرعیہ سے واقف ہے کہ نہیں(جوشرائط امامت میں اول درجہ رکھتے ہیں)، کمیٹی کو تو ایک ڈاڑھی ٹوپی والا امام مل گیا۔ اللہ اللہ،خیر صلّا،اللہ خیر فرمائے آمین۔ اما موں کی بے قدری کے بہت سے واقعات ہیں، چونکہ میں خود 38 سالوں سے فی سبیل اللہ امامت کی خدمات انجام دے رہا ہوں، اماموں کی اہمیت اور ان کی حما یت میں مضامین لکھتا ہوں نہ صرف لکھتا ہوں بلکہ تحریک بھی چلا رہا ہوں وغیرہ وغیرہ، کیا کیا لکھوں ایک ہو تو لکھوں دوچار، دس ہوں تو گِنواؤں زیادہ تر اِنتہائی افسوس ناک وشر مندگی والے واقعات ہیں، لیجیے جناب ایک سچا واقعہ ملاحظہ فر مائیں: زمانہ قدیم سے جمعہ کی خطابت میں دین اسلام کی تبلیغ کے لیے بیان کر نے کا رواج چلا آرہا ہے۔ اس بیان کی بڑی اہمیت ہوتی ہے. 20 سے 25 منٹ کابیان بہت سوچ سجھ کر دینا چاہئے. سماجی زندگی،سیاسی حالات و اصلاح کی غرض سے عوام کو پیغام دینا چاہیے. یہ تو ایک قابل عالم ہی دے سکتا ہے 4000 والے داڑھی ٹوپی والے امام سے توقع رکھنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے،
بہ قول علامہ اقبال۔ (اسلام اور مسلمان) "ضرب کلیم"

زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی
آج کیا ہے،فقط اک مسئلۂ علمِ کلام
میں نے اے میرسپہ! تیری سپہ دیکھی ہے
قُلْ ہُوَ اللَّہُ کی شمشیر سے خالی ہیں نیام
آہ اس راز سے واقف ہے نہ ملا،نہ فقیہ
وحدت افکار کی بے وحدت کردار ہے خام
قوم کیا چیز ہے،قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بےچارے دو رکعت کے امام (علامہ اقبال) 
اسی جمشید پور شہرمیں حضرت مولانا۔۔۔ صاحب نے جمعہ کے خطاب میں ”سُود“ جیسے قبیح گناہ کو موضوع topic بنایا اور قرآن و احادیث کی روشنی میں سُود کی بُرائیاں بیان کیں، بے چارے سیدھے سادھے عالم کو کیا پتہ تھا کہ کمیٹی میں اُونچے عہدے پر براجمان شخص سُود کا کاروبار چلاتاہے؟ بس پھر کیاتھا بے چارے حق اور سچ بولنے والے امام کو دوسرے جمعہ منبر رسول پر چڑھنے نہیں دیا گیا۔بے جا غلط الزامات کی بھر مار کرکے امامت جیسے متبرک پیشے سے سُبک دوش کردیا گیا، إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّا إِلَیْْہِ رَاجِعونَ۔ مسجد کمیٹیوں کے ذمہ دران مسجد کے مالک بنے بیٹھے ہیں. امام اور مؤذنین کی پر واہ کرنے والا کوئی نہیں، اِنتہائی کم صلاحیت والے امام و مؤذنین کی تقرری اسی لیے کی جاتی ہے کہ اُن پر حکومت کی جاسکے، ظاہر سی بات ہے کہ مجبوری میں ایسی کم صلاحیت والے امام و مؤذن کمیٹی والوں کی چاپلوسی، چاٹو گیری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کئی جگہ بے نمازیوں کو کمیٹی میں جگہ دی جاتی ہے جن کو طہارت، غسل اور وُضو کے فرائض و واجبات وسُنن تک معلوم نہیں ہوتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسجد کمیٹیوں میں نمازی حضرات تعلیم یافتہ، ایمان دار، پر ہیز گار لوگوں کو صدر وسکریٹری و ممبران لوگوں کو اِن خوبیوں کی وجہ سے منتخب کریں وغیرہ وغیرہ۔
بہ قول: مظفر وارثی
؎ علی الاعلان کیا کرتا ہوں سچی باتیں
چور دروازے سے آندھی نہیں آیا کر تی
اماموں کی چپقلش، عوام کیا کریں:
حالیہ دہلی کے سفر میں 12 نومبر2021 کو چھتر پور کی "پارے والی مسجد" میں جمعہ کی نماز پڑھنے کا موقع ملا (اس مسجد میں ایک ہی مسلک کے دو امام ہیں) نیچے کے حصہ میں حضرت مولانا غلام رسول خان نوری صاحب امامت کرتے ہیں موبائل نمبر 9871181868، اوپر کی منزل پر دوسرے امام صاحب حضرت مولانا مفید رضا صاحب نماز پڑھاتے ہیں موبائل نمبر 9651193608۔ کچھ بعید نہیں تیسری منزل تعمیر ہو اور تیسری منزل پر بھی الگ امام نماز پڑھانے لگیں، وقف پرا پرٹی والی مسجد میں ایک ہی مسلک کے دو امام امامت کررہے ہیں،اللہ خیر فر مائے آمین۔
؎ فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
علامہ اقبالؔ
دیگر مذاہب کی طرح مسلمانوں میں بھی فرقہ واریت، مسلکی،فقہی، اعتقادی اور تاریخی وذاتی اِختلافات اور تنازعات عروج پر ہیں
؎ گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا للہ (اقباؔل)
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمودو ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
بندہ وصاحب ومحتاج وغنی ایک ہوئے
تیری سر کار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
اقبال
کاش مسجد میں امام حضرات بھی ایک ہوتے!
امامت کا عہدہ اللہ کا انعام:
امامت کی ذمہ داری اللہ کی نعمت ہے جسے چاہے عطا فر مائے. ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَإِذِ ابْتَلَی إِبْرَاہِیْمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ فَأَتَمَّہُنَّ:۔ترجمہ:اور یا دکرو جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں کے ذریعے آزمایا تو اس نے پورا کردیا۔ قَالَ إِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَاماً:۔تر جمہ:(اللہ نے) فر مایا: میں تمھیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ قَالَ وَمِن ذُرِّیَّتِیْ: (ابراہیم)۔ نے عرض کی اور میری اولاد میں سے بھی۔ قَالَ لاَ یَنَالُ عَہْدِیْ الظَّالِمِیْنَ:۔فر مایا: میراعہد ظالموں کو نہیں پہنچتا۔
یعنی تمھاری نسل میں سے جو صاحب ایمان ہوں، نیک ہوں گے سیدھے راستے پر چلیں گے،ان سے متعلق ہمارا یہ وعدہ ہے۔ جب رب تعالیٰ نے نیک کی شرط رکھ دی تو پھر چاپلو سی کرنے والے سیاسی بازی گری کرنے والوں، خوشامدی کرنے والوں کی جگہ کہاں بنتی ہے؟۔
دنیا اچھے لوگوں سے خالی نہیں:
لکھنؤ کی بیسمنٹ والی مسجد جو کہ تین منزلہ ہے، اسی سے متصل مدرسہ غریب نواز بھی چل رہا ہے۔ شمع وہار کالونی،باغ نمبر 2 (متصل) اموسی ایر پورٹ لکھنؤ کے صدر مدرس،خطیب و امام حضرت حافظ مبین صاحب جو کہ 18 سالوں سے باغ نمبر 2 بیسمینٹ والی مسجد میں امامت کررہے تھے مسجد کی تعمیر و ترقی اور مسجد کے اردگرد مسلمانوں کی بھلائی کی مہم چلائے ہوئے تھے۔7 دسمبر2021 بروز سنیچر صبح 10بجے چھت کی ڈھلائی کی تیاری میں سنٹینگ دیکھنے اُوپر چڑھے جو تقریباً مکمل ہو چکی تھی، کہ اچانک بَلّی ہل گئی اور حافظ مبین صاحب نیچے گر گئے اور بے ہوش ہوگئے. علاج و معالجہ خوب ہوا ہورہا ہے آج تک کومہ میں ہیں اب اُنھیں مسجد ہی کے حجرے میں رکھ کر علاج کرایا جارہا ہے. صاف صفائی دیکھتے بنتی ہے میں چشم دید ہوں اُسی مسجد میں میرا خطاب 5 نومبر 2021 کو محسنِ کائنات اور حقوقِ حیوانات کی موضوع پر ہوا لوگوں نے بہت سراہا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہاں کے لوگ اور کمیٹی کے لوگ آج تک ان کی فیملی کا پورا خرچ اُٹھا رہے ہیں اور اُن کا پوری طرح سے علاج بھی کرا رہے ہیں، میڈیکل کالج لکھنؤKGMU کے ڈاکٹر اسد عباس صاحب مسلسل علاج کررہے ہیں۔ان کے بچوں کا خرچ ان کی پڑھائی کا خرچ اور ان کے علاج کا خرچ. اب تک 35لاکھ روپیے خرچ ہوچکے ہیں۔ متولی حاجی جمیل صاحب اور دوسرے صاحبان اور وہاں کے لو گ یقینا قابل مبارک باد ہیں۔
مسلمان کی مدد کرنے کا اجر: مَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ کُرْبَۃً فَرَّجَ اللّٰہُ عَنْہُ بِھَا کُرْبَۃً مِنْ کُرُبَاتِ یَوْمِ الْْقِیَا مَۃِ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ر سولِ کریم ﷺ نے فر مایا: ”جو شخص کسی مسلمان کی دنیاوی مشکل حل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکلات میں سے کوئی مشکل حل فر مائے گا۔(بخاری،ج؛2، ص، 862، حدیث:2310)
اللہ انھیں امام کی خدمت کرنے کی اور توفیق دے آمین ثم آمین۔ آنے والے 7 دسمبر کو مکمل دو سال ہوجائیں گے. اللہ کریم انھیں شفا عاجلہ کاملہ مستمرہ عطا فر مائے آمین.
؎ ہاتھ خالی ہیں تیرے شہر سے جاتے جاتے
جان ہوتی، تو مِیری جان! لُٹاتے جاتے (راحت اندوری)
خدمت خانۂ خدا پر جان نچھاور کرنے پر رب کی رحمتیں بھی ملتی ہیں. خوب ملتی ہیں. امام کی خدمت کا یہ واقعہ قابل تقلید ہے. اللہ سب کو امام کی عزت کرنے خدمت کرنے کی توفیق بخشے آمین ثم آمین-
حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی خطیب و امام مسجدِ ہاجرہ رضویہ اسلام نگر
کوپالی وایا مانگو جمشید پور جھارکھنڈ پن کوڈ 831020, ,hhmhashim786@gmalil.com
صاحب تحریر کی یہ نگارش بھی پڑھیں :حج جیسی اہم عبادت کو بِلا روک ٹوک پوری طرح سے جاری رکھا جائے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے