فیض احمد فیض کی نذر

فیض احمد فیض کی نذر

تضمین بر غزل فیض احمد فیض
نوٹ : ماہنامہ "روبی" کے جولائی ١٩٧٩ کے شمارے میں چھپی فیض احمد فیض کی غزل پر انہی دنوں یہ تضمین لکھی گئی.


مسعود بیگ’تشنہ`

اک آگ سی ہے جان کے اندر لگی ہوئی
سننے کو بھیڑ ہے سرِ محشر لگی ہوئی
تہمت تمھارے عشق کی ہم پر لگی ہوئی

منظر یہ دیکھ لے، ذرا پل بھر کو ٹھہر بھی
رندوں کے دم سے آتشِ مے کے بغیر بھی
ہے مے کدے میں آگ برابر لگی ہوئی

یہ کشت و خوں کا سوختہ منظر یہ رنگ و بو
آباد کر کے شہرِ خموشاں ہر ایک سو
کس کھوج میں ہے تیغِ ستم گر لگی ہوئی

ظلم و ستم کے وار بہ ہر گام جھیل کر
جیتے تھے یوں تو پہلے بھی ہم جاں پہ کھیل کر
بازی ہے اب کے جان سے بڑھ کر لگی ہوئی

” تشنہ" ملی ہے کیسی سزا میں بھی دیکھ لوں
لاؤ تو قتل نامہ مرا، میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی
***
مسعود بیگ تشنہ کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں:فکرِ اقبال اور عالمی یوم اردو : ایک مواخذہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے