پروین شاکر کی زمین میں طبع آزمائی 

پروین شاکر کی زمین میں طبع آزمائی 

(پروین شاکر اور احمد علی برقی اعظمی) 

غزل : پروین شاکر
چلنے کا حوصلہ نہیں ، رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا

اے میری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر کیا تیرا حال کر دیا

ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا

اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر
بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا

ممکنہ فیصلوں میں ایک، ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی، اس نے کمال کر دیا

میرے لبوں پہ مہر تھی، پر مرے شیشہ رو نے تو
شہر شہر کو میرا واقفِ حال کر دیا

چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آسکے
وقت نے کس شبیہہ کو خواب و خیال کر دیا

مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا

غزل : ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی
میرے جنونِ شوق نے میرا وہ حال کردیا
حسرتِ دید نے مرا جینا مُحال کردیا

کردیا مُجھ کو دم بخود اُس کی نگاہِ ناز نے
جس کی نہ تھی کوئی اُمید ایسا سوال کردیا

بزمِ تصورات کے رنگ میں بھنگ ڈال کر
عیش و نشاط کو مرے خواب و خیال کردیا

مُجھ کو دکھا کے سبز باغ دیتا رہا فریب وہ
اوجِ کمال کو مرے جس نے زوال کردیا

ایسا لگا مُجھے مری نبضِ حیات رُک گئی
جسم کا میرے مُرتعش بال بال کردیا

تیرگئ شب کے بعد صُبحِ اُمید کی خبر
بادِ صبا نے آکے دی جس نے نِہال کردیا

سامنے حُسن و عشق تھے صِرف حریمِ ناز میں
جس نے مرا بحال پھر ذوقِ جمال کردیا

سازِ حیات چھیڑ کر نغمۂ جانفزا سے پھر
برقیؔ کا دور اُس نے سب حُزن و ملال کردیا

برقی اعظمی کی گذشتہ تخلیق : بجھی ناوقت شمعِ زندگی پروین شاکر کی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے