صلح کرنا، کرانا حبیبِ لو لاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک کا حصہ!

صلح کرنا، کرانا حبیبِ لو لاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ پاک کا حصہ!

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی جمشید پور*
موبائل :09279996221

آج کل ذرا ذرا سی بات پر لڑا ئی جھگڑا عا م ہو گیا ہے، نفسا نفسی کا عالم ہے۔ اب تو حال یہاں تک پہنچ گیاہے کہ معمو لی معمولی سی بات پر قتل کر دینا عام ہو گیا ہے۔ چھو ٹی سی بات پر باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو، بھائی بھائی کو اور بھا ئی بہن کو، شوہر بیوی کو اور قریبی رشتے دار و دوست کو مار ڈالنے کو تیار ہو جا تا ہے. انسان کی جان مچھر اور مکھی سے بھی کم تر ہوگئی ہے۔ آئے دن قتل کے وا قعات بڑھ ر ہے ہیں. بوریوں اور سوٹ کیسوں میں بھری لاشیں مل رہی ہیں. روزانہ درجنوں جھگڑ ے اور قتل کے واقعات معمول کی بات ہو گئی ہے۔ کسی کو احساس زیاں (نقصان، خسارہ) T DETRIMEN تک نہیں ہو رہا ہے، قاتل ناحق کے دل میں انسا نیت کے درد کی رمق تک باقی نہیں رہی ہے۔ اس کا دل محبت، ہم دردی، انکسا ری اور انسان دوستی سے خالی ہو چکا ہے. حتیٰ کہ انسان انسان کے خون کا پیاسا بن چکا ہے. آج کے انسان نے شاید اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے وہ احکا مات نہیں پڑ ھا ہے۔ جوبے وجہ لڑائی جھگڑا اور قتل ناحق کی وعید میں نازل ہوئے ہیں. اللہ رب العز ت نے قتل نا حق کی مذمت کر تے ہوئے قرآن مجید میں سخت وعید نازل فرمائی ہے۔ ( القر آن، سو رہ نساء: 93) ترجمہ : اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سز ا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہو گا اور اللہ اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لیے زبر دست عذاب تیار کر رکھا ہے۔ (کنزالایمان)

تشدد کا بڑ ھتا رجحان صلح سے دوری لمحہ فکر یہ!: ہما رے معا شرے میں ہی کیا پورے ملک، پوری دنیا میں تشدد کا بڑھتا رجحان انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو صلح کرانے کا حکم دیا اور صلح کرنے کرا نے والوں کو پسند فرمانے کی خوش خبری بھی سنائی (القرآن، سورہ الحجرات: 9) ترجمہ: اگر مسلما نوں کے دو گروہ آپس میں جنگ کریں تو ان کے در میان صلح کرا دیا کرو، پھر اگر ان میں سے ایک ( گروہ) دوسرے پر زیادتی اور سر کشی کرے تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کا مرتکب ہو رہا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے، پھر اگر وہ رجوع کر لے تو دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو، بے شک اللہ انصا ف کر نے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (کنز ا لا یما ن) صلح کرانا اللہ کو پسند ہے. حد یثوں میں بھی اس کی فضیلت آئی ہے. مذکورہ آیت کا شان نزول حدیث پاک میں اس طرح سے ہے حضرت انس رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سے عرض کیا گیا، اگر آپ ابن ابی (منافق) کے یہاں چلتے تو بہتر تھا۔ آپ ﷺ اس کے یہاں ایک گدھے پر سوار ہوکر تشر یف لے گئے۔ صحابہ رضوا ن اللہ علیہم اجمعین پیدل آپ کے ہم راہ تھے۔ جدھر سے آپ ﷺ گزر رہے تھے وہ شور (ریگستان) زمین تھی. جب نبی کریم ﷺ اس کے یہاں پہہنچے تو وہ کہنے لگا ذرا آپ دور ہی رہیے آپ کے گدھے کی بونے میرا دماغ پریشان کر دیا ہے. اس پر ایک صحابی بولے کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کا گدھا تجھ سے زیا دہ خوش بو دار ہے۔ عبداللہ (منافق) کی طرف سے اس کی قوم کا ایک شخص اس صحابی کی اس بات پر غصہ ہو گیا اور دونو ں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا. پھر دونوں کے حمایتی مشتعل ہو گئے اور ہاتھا پائی، چھڑی اور جوتے تک نوبت پہنچ گئی۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہ آیت وَ اِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا فَاِنْ بَغَتْ اِحْدَاھُمَا۔۔۔۔الخ (القرآن سورہ الحجرات :9) ’’اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو اِن میں صلح کرا دو‘‘ (بخا ری، باب لوگوں میں صلح کرا نے کا ثواب، حدیث 2691)۔

صلح کرانے کے لیے جھوٹ بو لنا گناہ نہیں : صلح کرانے میں جھو ٹ بھی بو ل سکتے ہیں. ام کلثوم بنت عقبہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ کو یہ فر ماتے سنا تھا کہ جھو ٹا وہ نہیں ہے جو لوگوں میں باہم صلح کرانے کی کو شش کرے اور اس کے لیے کسی اچھی بات کی چغلی کھا ئے یا اسی سلسلے کی اور کوئی اچھی بات کہہ دے. (بخا ری، حدیث 2692) سہل بنی اسعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ: قبا کے لوگوں نے آپس میں جھگڑا کیا اور نو بت یہاں تک پہنچی کہ ایک دوسرے پر پتھر پھینکے، آپ ﷺ کو جب اس کی اطلاع دی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’چلو ہم ان میں صلح کرائیں گے‘‘ (بخا ری، باب حاکم لو گوں سے کہے ہم کو لے چلو ہم صلح کرا دیں حدیث 26)۔

صلح حدیبیہ جس کو قرآن نے فتح مبین فر مایا: ماہ ذیقعدہ ۶؍ ھجری میں حضور ﷺ عمرہ ادا کر نے کے ارادے سے مدینہ سے مکہ تشریف لے جا نے کے لیے سفر میں نکلے. مشرکین مکہ نے مسجد الحرام کی زیارت سے روک دیا. آپ ﷺ نے مشر کین مکہ اور قریش سے حدیبیہ کے مقام پر صلح فر مایا۔ اس کی دستا ویزAGREEMENT حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لکھی تھی. لکھتے وقت آپ نے ’’بسم ا للہ الرحمن الرحیم‘‘ لکھا. مشرکین مکہ و قریش کے نما ئندہ نے اسے قبول نہیں کیا اور کہا کہ ز مانہ جاہلیت کے طریقہ پر ’’باسمک اللھم ‘‘ لکھنا پڑے گا، آپ ﷺ نے اسے قبول کر لیا۔ آپ کا اسم گرامی ’’محمد رسول اللہ‘‘ لکھا گیا. مشرکین مکہ نے اس پر اعترا ض کیا کہ لفظ محمد کے سا تھ رسول اللہ نہ لکھو، کیوں کہ آپ رسول ہوتے تو ہم آپ سے لڑ تے ہی کیوں؟ قریش ضد پر اڑگئے. آپ ﷺ ایک طرفہ صلح کر نے کے لیے اس پر بھی راضی ہو گئے. آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فر مایا. رسول اللہ کا لفظ مٹا دو، حضر ت علی نے کہا میں تو اسے نہیں مٹا سکتا، تو آپ ﷺ نے خود اپنے ہا تھ سے مٹا دیا اور مشر کین کے ساتھ اس شرط پر صلح کی کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ ( آ ئندہ سال) تین دن کے لیے مکہ آئیں اور ہتھیار میان میں رکھ کر دا خل ہوں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے برداشت نہ ہو سکا اور انھو ں نے جوش جذبات میں کچھ ایسے الفاظ فر مائے کہ ہمیشہ (اس پر) شر مندہ رہتے. تمام صحا بہ انتہائی جذبات میں احرام کھول کر ایک دوسرے کے سر مونڈ ھنے لگے اور ایسا کر رہے تھے کہ جیسے ایک دوسرے کی گردن کاٹ دیں گے. لیکن اللہ رب العز ت نے اس صلح کو جو بہ ظاہر ذلت آمیز تھی ’’فتح مبین ‘‘ قرار دیا اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحْاً مُّبِیْناً ۔۔۔۔۔۔ الخ ترجمہ: بے شک (اے نبی ) ہم نے آپ کو کھلم کھلا فتح دی۔ (بخا ری و مسلم حدیث 2698 ،2699، 2700، 2701،2693 راوی محمد بن بشار، شعبد، ابو اسحاق، برا بن عاذب رضو ان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین وغیرہ وغیرہ اور بھی احا دیث مو جود ہیں مطا لعہ فر مائیں ۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم فتح مکہ کو فتح شمار کرتے ہو اور ہم بیعت الرضوان کے واقعہ کو فتح مانتے ہیں. ہم چودہ 1400 سو آدمی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس مو قع پر تھے. صلح حدیبیہ کے مو قعے پر ایک درخت کے نیچے صحابہ کرام نے آقا ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی. اسی مقام پر صلح حدیبیہ ہوئی (بخا ری) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صلح حدیبیہ کے واپسی سفر میں آپ ﷺ نے فرما یا گذشتہ شب میں مجھ پر ایک سورت اتری جو مجھے دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے. پھر آپ نے( اِنّا فَتَحْنَا) کی تلا وت کی‘‘( بخا ری، تر مذ ی، نسائی، مسند احمد) صلح حدیبیہ سے بہت بر کت حاصل ہوئی، لوگوں میں امن و امان قا ئم ہوا، مسلمان کافروں میں بول چال شروع ہو گئ. علم و ایمان کی روشنی تیزی سے پھیلنی شرو ع ہو گئی، آپ ﷺ فرماتے ہیں در گذر کرنے سے عزت بڑھتی ہے اور عاجزی و انکساری کر نے سے بلندی اور عالی رتبہ حاصل ہو تا ہے۔ (حد یث )

صلح کی اہمیت، فضیلت  و فوائد

خانگی زند گی ہو یا معا شرتی کبھی ایسے حا لا ت آ جاتے ہیں کہ لو گوں میں جھگڑے کی نو بت آجاتی ہے.

خد نخواستہ گھریلو زندگی میں اگر ایسی نو بت آجائے تو اللہ رب العزت فرما رہا ہے ثا لثی مقرر کر کے صلح کر لو قر آن مجید میں ہے۔ وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَماً مِّنْ اَھْلِہٖ وَ حَکَماً مِّنْ اَھْلِھَا۔۔۔۔۔۔۔الخ ( القر آن سو رہ نسا ء : 35 ) تر جمہ :اگر تمھیں میاں بیوی کے درمیان مخا لفت ( ان بن) کا اندیشہ ہو تو تم ایک منصف مرد کے خا ندان سے اور ایک منصف عورت کے خا ندان سے مقرر کر لو، اگر وہ دونوں (منصف) صلح کرانے کا ارادہ رکھیں تو اللہ ان دونوں کے در میان موافقت پیدا فر ما دے گا، بے شک اللہ خوب جا ننے والا اور خبر دار ہے، (کنزالایمان) میاں بیوی کے درمیان اگر رنجش، بگاڑ ہو تو علمائے کرام فرماتے ہیں اور شارع علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایمان دار اور سمجھ دار شخص کو مقرر کرے جو یہ دیکھے ظلم و زیا دتی کس طرف سے ہے. پس ظالم کو ظلم سے روکے، سمجھائے اس سے بات نہ بنے تو مرد والوں و عورت والوں کی طرف سے ایک بہتر دین دار شخص کو منصف مقرر کر دیں. (شا رع علیہ السلام) نے اس بات کی طرف شوق دلایا ہے کہ جہاں تک ہو سکے کو شش کریں کہ کوئی شکل نبھاہ کی نکل آئے. اگر شوہر کی غلطی ہے تو عورت کو اس سے روک لے اور اس کا خرچ دلائے اور سمجھائے اور اگر عورت کی طرف سے زیادتی ہو تو عورت کو الگ کریں ( مرد اس کا خرچ بند کردے) لوگ اس کو سمجھائیں اس کو مجبور کریں کہ اپنی عادت ٹھیک کرے اور شوہر کو بھی سمجھا ئیں کہ ہنسی خوشی رہے۔

صلح کرنے کرا نے کی فضیلت:
قرآن پاک میں متعدد جگہ آئی ہے، رسول پاک ﷺ کی سنت بھی ہے، خود آپ ﷺ کی زند گی میں ایک بار حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعا لیٰ عنھا کے درمیان کوئی بات ہو گئی تو آپ نے پو چھا: کیا تم عمر کو حَکَم بنائو گی؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے عرض کیا: نہیں، کیوں کہ وہ سخت مزا ج ہیں، پھر آپ ﷺ نے پو چھا: کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ تمھارے والد میرے اور تمھا رے بیچ فیصلہ کریں؟ حضرت عائشہ نے کہا : ہاں ۔ آ پ ﷺ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا ۔ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے تو آپ ﷺ نے در یافت فرمایا کہ تم بات کرو گی یا میں بات کروں؟ اُم المومنین نے عرض کیا: آپ ہی با ت کریں لیکن صحیح صحیح بولیں. حضر ت ابوبکر صد یق رضی اللہ عنہ یہ سن کر سخت غصہ ہو گئے، اور حضر ت عائشہ رضی اللہ عنھا کو ایک طمانچہ مار دیا، حضرت عائشہ بھاگیں اور آپ ﷺ کی پیٹھ کے پیچھے چھپنے لگیں، حضور ﷺ نے حضر ت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرما یا: میں نے آپ کو اس لیے نہیں بلا یا تھا۔ پھر جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے تو آپ نے حضرت عائشہ کو قریب بلا یا، مگر انھو ں نے آنے سے انکار کر دیا، آپ مسکرائے اور فر مایا: ابھی کچھ دیر پہلے تو تم میری پیٹھ سے چمٹے جا رہی تھیں، پھر جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشر یف لائے اور دونوں کو ہنستے ہو ئے دیکھا، تو فرمایا : آپ دونوں نے اپنے اختلاف میں ہمیں شریک کیا تھا، تو اپنی صلح میں بھی ہمیں شریک کر لیں (ابو دا ئود: 4999)

مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں :

اللہ رب العزت ارشاد فر ما رہا ہے ( القرآن، سورہ الحجرا ت : 10) ترجمہ: (یاد رکھو) سب اہل ایمان (آپس میں ) بھائی ہیں۔ سو تم اپنے دونوں بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ آج احکا م اِلٰہی کی پابندی سے دوری ہی ہماری لڑائی اور جھگڑے کی وجہ ہے اور ہمارے اندر بر داشت کی قوت ختم ہو تی جا رہی ہے. جس کی وجہ سے بے چینی، بدا منی، تشدد، ذرا سی بات پر قتل تک کر بیٹھتے ہیں اور پوری زند گی برباد کر لیتے ہیں. نہ خود چین سے رہتے ہیں۔ نہ دوسرے کو چین سے رہنے دیتے ہیں. قتل نا حق کے بارے میں قرآن مجید میں بہت سی وعیدیں آئی ہیں۔ اِرشاد باری تعالیٰ ہے وَلَا تَقْتُلُوْا نَّفْسَا الَّتِیْ۔۔۔۔۔۔۔۔الخ ( بنی اسرآئیل : 33) ترجمہ: قاتل کے دل میں انسا نیت کا درد ختم ہو جاتا ہے. اس کا دل محبت، ہم در دی، انکساری اور انسان دوستی سے خا لی ہو جا تاہے، سماج کے ذمے دار لوگوں کو حالات پر غو ر کرنے کی ضرورت ہے اور جو بن پڑے اپنی طا قت بھر کو شش کرنا چاہئے۔ جہاں لڑائی جھگڑا نظر آئے وہاں میل ملاپ صلح کرا ئیں اور اللہ کی بار گاہ میں پسندیدہ بندہ ہونے کا شرف حا صل کریں. اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو صلح کرنے کر انے کی تو فیق عطا فر مائے آمین ثم آمین-
رابطہ: حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی خطیب و امام مسجدِ ہاجرہ رضویہ اسلام نگر وایا مانگو جمشید پور جھارکھنڈ پن کوڈ 831020,*
*09279996221,*hhmhashim786@gmail.com
صاحب مضمون کی یہ تحریر بھی ملاحظہ ہو :محسن کائنات ﷺ اور حقوق حیوانات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے