کہانی "اشتراک" کے بننے کی

کہانی "اشتراک" کے بننے کی

( یہ تحریر ٹھیک ایک برس قبل (١٧ اکتوبر ٢٠٢٠) اشتراک ڈاٹ کام کی رسم اجرا کے موقعے پر لکھی گئی تھی. آج ایک برس مکمل ہونے پر اسے شایع کیا جارہا تھا تاکہ اس سلسلے کی دوسری تحریر جو لکھی جانی ہے، سے ربط قایم رہے.)

سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو
سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو

پہلے ایک لطیفہ:
ہمارے ایک دوست کے ایک اشتراکی دوست نے دوستانہ ماحول میں کہا کہ اشتراک کا تعلق کمیونسٹ یا کمیونسٹوں کے خلاف کسی تحریک سے تو نہیں.😁

یہ بات طے ہے کہ اشتراک ڈاٹ کام کا کام صرف اور صرف اردو قارئین تک صالح ادب پہنچانا ہے. اس کا کسی تحریک سے کسی ازم سے کوئی لینا دینا نہیں. ہم سب بعض معنوں میں ترقی پسند، بعض معنوں میں جدیدی اور زمانی لحاظ سے ما بعد جدیدی تو ہیں ہی.

ایک سوال یہ بھی کہ اتنی ساری ادبی ویب سائٹس کے ہوتے ہوئے اشتراک ڈاٹ کام کی ضرورت کیوں پڑی؟

ہر قدم جو آگے کی طرف بڑھے اس کی اہمیت اتنی ضرور ہے جتنی کہ وہ بڑھے. یعنی جس شدت سے جس ماحول میں جس سمت میں قدم بڑھایا جائے اتنی شدت اسی ماحول اور اسی سمت میں اس کی اتنی ہی اہمیت ہے. ایک اور یعنی کہ اردو زبان و ادب کو بین الاقوامی سطح پر اپنی پہچان کی ضرورت نہیں ہے. اس کی پہچان اور اس کی دھوم سارے جہاں میں ہے. لیکن ہر آواز کی شدت و توانائی ایک جیسی نہیں ہوتی. ہر علاقے کی اور وقت کی ضرورت الگ الگ ہے.
کتنی ہی آوازیں نامانوس علاقوں کی وجہ سے دم توڑ دیتی ہیں. کتنی ہی آوازوں کو وقت کی دھول دبا گئی. اس لیے جب حرکت میں برکت ہے تو برکت سے کیوں محروم رہا جائے.

ادب ایک مشغلہ بھی ہے، اظہار ذات کا ذریعہ بھی اور زندگی کی تنقید بھی. صحافت ایک مشغلہ تو ہے لیکن اظہار ذات اور زندگی کی روح سے خالی. اس لیے میرے لکھنے کا سفر جو صحافت اخبار سے شروع ہوا اب اشتراک جیسے ادبی پورٹل تک پہنچا.

عجب تھا یہ اشتراک باہمی 
میں ایک وحشت وہ ایک سایہ

میں نے کئی مہینے صحافت اخبار کے ایک ہندی رپورٹر کے ساتھ کام کیا. اس کی ہندی رپورٹ کو اردو میں لکھنا میرا کام تھا. شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وال میگزین کا ایک ٹرم ایڈیٹر رہا. (2010-2011). کئی مہینے بصیرت آن لائن کے لیے خبریں لکھیں. تب میں اتر دیناج پور سے بہ طور بیورو چیف کام کرتا تھا.
بیچ بیچ میں اکا دکا الٹے سیدھے تخلیقی اور تنقیدی کام بھی جاری رہے. کئی سالوں سے بلاگ بنا رکھا تھا. لیکن ان سب سے مطمئن نہیں تھا. اب اگلی منزل کے طور پر اشتراک ڈاٹ کام کو رکھا ہے.

اختلاف ذہن فطرت زندگانی کا سراب
اشتراک باہمی ہی موجب دریا ہوا

آج (17 اکتوبر 2020) کو سیمانچل کے ادیبوں اور شاعروں کی موجودگی میں اس کا اجرا ہوگیا. سیمانچل میں اردو ادب کی ماہر اور چنچل شخصیت احسان قاسمی کے ہاتھوں لیپ ٹاپ پہ ماؤس کلک کرکے پہلی بار عوامی طور پر اس ویب سائٹ کو دیکھا گیا.

اشتراک کے لیے سب سے پہلی تحریر کی شکل میں محمد ریحان (میرے جامعی ساتھی ہیں) کا انشائیہ (ابو مصنف) دست یاب ہوا. اصغر شمیم (کولکاتا) کی غزل اور احسان قاسمی کا افسانہ اور ساتھ میں ایک مضمون. آج یوم سرسید کا موقع تھا تو میں نے اپنا ایک مضمون "سر سید کا سفر لندن" اشتراک پہ شائع کیا. اس طرح اشتراک کی کل کائنات (جس وقت اس کا اجرا ہوا) یہی تھی. اب آپ لوگ قلمی تعاون فرماتے جائیں اور اشتراک کو آگے بڑھاتے جائیں.

اشتراک کے اجرا کے موقع پر ایک ادبی نششت رکھی گئی جس میں علاقے کے درج ذیل شعراے کرام شامل ہوئے.
جہانگیر داور
محسن دیناج پوری
نثار دیناج پوری
شہباز مظلوم پردیسی
مکالمہ نگار اور شاعر مستحسن عزم
اور احسان قاسمی

ان سبھی شعرا و ادبا نے محفل میں خوب رنگ بھرے. ان سب کا شکر گزار ہوں.
اسی موقع پر احسان قاسمی کی دو تخلیقی کتابوں کا اجرا بھی عمل میں آیا.
دشت جنوں طلب (شعری مجموعہ )
پیپر ویٹ ( افسانے)

معزز مہمانوں میں
شہزاد جہانگیر
حسنین رضا
تنویر صاحب
تنویر ارشد
محمد نور حسین ( ایس کے این کے ڈائریکٹر)
رضوان عالم
مظفر شمسی
ظفیر الدین صاحب
اور خاص طور سے شہزاد شمس شامل رہے.

شہزاد شمس نے اشتراک کو پہلی کتاب اپنے دستخط سے ہبہ کی. اشتراک ان کا ممنون ہے.
ان کی کتاب کا نام ہے : عورت اور سماج
جلد ہی اسے اشتراک پہ ابلوڈ کردیا جائے گا.

ا نتظام کار میں :

انتظار حسین، ذیشان رضا اور شہنشاہ بابر کے علاوہ ایس کے این کوچنگ سینٹر کے طلبا شامل رہے. اشتراک ان سب کا ممنون ہے.
ظہرانے میں دیسی کھانے کا لطف لیا گیا اور ظہرانہ تیار کرنے والی باورچن کا بھی شکریہ کہ انھوں نے لذیذ کھانا تیار کیا.
طیب فرقانی
رابطہ: 6294338044
ishtiraak.com@gmail.com

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے