علامہ اقبال کی نذرایک غزل

علامہ اقبال کی نذرایک غزل

مسعود بیگ تشنہ ،اندور ،انڈیا

جو عقل دل سے کام نہ لے وہ محض فضول
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول ”. [اقبال] "
اونچی نگاہ رکھ کہ نظر آئیں کہکشاں
دھرتی کی ظلمتوں میں نہیں نور کا حصول
جذبہ بلند رکھ کہ ملے منزل مراد
ناکامیوں کو دیکھ کے ہرگز نہ ہو ملول
قدرت کے کارخانے میں بیکار کچھ نہیں
آتا ہے کام دھوپ میں یہ سایہء ببول
اٹھ کر غبار راہ سے اوپر ذرا تو دیکھ
منزل دکھا رہی ہے ،یہی راستے کی دھول
آساں نہیں گزارنا پھولوں میں زندگی
کانٹوں سے جب گزرتے ہیں ملتے ہیں تب ہی پھول
نہ کوہ طور چڑھ نہ تجلّی کی تاب رکھ
دل سے کلام کر جو تیرے دل کو ہو قبول
اس بے خودی میں ڈھونڈھ ذرا جذبہء خودی
اس بےخودی میں ڈھال نیا جذبہء اصول
تشنہ’ بنا کے لہجہء اقبال خوش نہ ہو ‘
نذرانہ ایسا ہو ،جو ہو ‘اقبال’ کو قبول

{٨نومبر ٢٠١٤}

صاحب غزل گذشتہ نگارش یہاں ملاحظہ فرمائیں : مولانا وحید الدین خان میری نظر میں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے