مفتی ہلال احمدقاسمیؒ، کتنی مشکل زندگی ہے کس قدرآساں ہے موت

مفتی ہلال احمدقاسمیؒ، کتنی مشکل زندگی ہے کس قدرآساں ہے موت

✒️سرفراز احمدقاسمی، حیدرآباد
برائے رابطہ:8099695186

13رمضان المبارک بروز پیر مطابق 26اپریل 2021 کو جب سحری کےلئے بیدار ہوا اورٹائم دیکھنے کےلئے فون ہاتھ میں لیا اورمیسج چیک کرنے لگا تو اچانک میری نظر ایک میسج پرٹھہر گئی،سرسری طور پرایک بار اس کو دیکھنے کے بعد کچھ بے اطمینانی میں اضافہ ہوگیا، دوبارہ اورسہ بارہ اس میسج کو پڑھنے لگا جوکسی نے پرسنل پر مجھے بھیجاتھا،نیند کی کیفیت بھی طاری تھی،پہلے مرحلے میں اس خبرپر اعتبار نہ ہوا،لیکن کچھ ہی دیرمیں کچھ اورلوگوں کےمیسج بھی آگئے، یہ وہی میسج تھاجو کسی نے کچھ دیرقبل ہی مجھے پرسنل بھیجا  تھا،میسج کیاتھا،اس میں معروف عالم مفتی ہلال احمد قاسمی صاحب مرحوم کے انتقال کی خبر تھی، جس میں لکھاتھاکہ”انتہائی رنج وغم کے ساتھ یہ اطلاع دی جارہی ہے کہ مفتی ہلال احمد قاسمی صاحب مہتمم جامعہ حسینیہ ہرنتھ،بھاگل پور آج 26 اپریل بروز پیر ابھی کچھ دیر قبل رات دوبجے کے قریب اس دارفانی سے رخصت ہوگئے،اناللہ واناالیہ راجعون،تمام حضرات دعائے مغفرت اوررفع درجات کےلئے دعاء فرمائیں، اللہ تعالیٰ لواحقین وپس ماندگان کو صبرِ جمیل عطافرمائے”. اس کو پڑھنے کے بعد طبیعت میں ہلچل پیدا ہوگئی، پہلے مرحلے میں تو میں نے سمجھاکہ شاید یہ خبر غلط ہو لیکن جب پے درپے مسلسل ایک ہی میسج بار بار آنے لگے تو یقین ہوگیاکہ اب مفتی ہلال صاحب ہمیشہ کےلئے ہم سے جداہوگئے. سحری کاوقت ہوچلا تھا کچھ ہی منٹ باقی تھے لہذا سحری سے فراغت کے بعد میں نے مزید تحقیق کےلئے مفتی صاحب کے نمبر پر فون کیا تو ادھرسے کسی نے فون اٹھاکر اس خبر کی تصدیق کردی کہ”مفتی صاحب کا انتقال ہوچکاہے”یہ سن کر میرے اوپر سکتہ طاری ہوگیا اور بے چینی بڑھنے لگی دل یہ ماننے کو تیار نہیں تھاکہ مفتی صاحب کا انتقال ہوچکاہے،لیکن حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا،مشیت ایزدی کے سامنے انسان بے بس ہے،مجبور ہے،قدرت کے فیصلے کو تسلیم کرنا ہی کرناہے. میں نے اپنے دل کو سمجھایاکہ موت ایک اٹل حقیقت ہے،جس سے کسی کو رستگاری نہیں،ہرجان دار کو اس کا مزہ چکھنا ہے،جانا تو سب کو ہے،ہرانسان کو جاناہے لیکن اس کےلئے ہرایک کا وقت مقرر ہے. قدرت کا یہ بھی ایک عجیب دستور ہے کہ انسان کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی واپسی کا وقت طے کردیاجاتاہے،یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس کا انکار نہیں کیاجاسکتا،انسان دنیا سے کب جائےگا اس کاعلم بھی نہ جانے والوں کوہوتاہے اورنہ کسی اورکو،بعض اوقات جانے والوں پر کچھ علامتیں ظاہر ہوجاتی ہیں،جس کامطلب یہ ہوتاہے کہ اب آپ کاوقت قریب آچکاہے. کبھی مہلک مرض سے انسان کوواسطہ پڑتاہے،کبھی کسی حادثے کے ذریعے انسان کو الرٹ کردیاجاتاہے کہ دیکھو آپ کاوقت آچکاہے جانے کےلئے تیار رہئے اور کبھی تو ان چیزوں کا موقع ہی نہیں ملتا،آنافانا سب کچھ ایک لمحے میں ہوجاتاہے اورانسان ہمیشہ کےلئے آخرت کے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے. جانے والا مسافر اگر کسی تنظیم اور ادارے سے منسلک ہو تو پھر اس کی موت کا صدمہ بھی بڑا گہرا ہوتاہے. کچھ اسی طرح کی کیفیت مفتی ہلال صاحب کی موت سے بھی پیدا ہوئی. ان کے انتقال کی خبر سن کر 20/25 پچیس سال پہلے کی یادیں ذہن کے پردے پر گردش کرنے لگیں. مفتی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے صالحیت اورصلاحیت دونوں چیزوں سے نوازا تھا،وہ انتہائی ذہین،اخلاق مند اورملنسار انسان تھے،سادگی،متانت اور سنجیدگی ان کے رگ رگ میں بھری تھی،وہ تکبر جیسی عظیم بیماری سے بھی محفوظ اورپاک تھے. مفتی صاحب سے میری واقفیت زمانہ طالب علمی سے رہی،اس وقت جب وہ اپنے والدماجد، بھاگل پور کی انقلابی اورتاریخی شخصیت مولاناعبدالرحمن صاحب قاسمیؒ بانی ومہتمم جامعہ حسینیہ ہرنتھ،وسابق صدر جمعیة علماء بھاگل پور کے انتقال کےبعد ان کے جانشین اورادارے کے سربراہ منتخب کئےگئے. 1995/96 میں جب مولانا عبدالرحمنؒ صاحب کا انتقال ہواتھا توایک طرف تو مسلمان اس عظیم صدمے سے دوچار تھے تودوسری طرف ہم نے غیرمسلموں کو بھی دہاڑیں مارکر روتے ہوئے دیکھاتھا. مسلمانوں کی عقیدت ومحبت کا یہ عالم تھاکہ جنازے میں علاقے کے لوگوں کا سیلاب امڈ پڑاتھا،مدرسہ کے سامنے جو کھیت ہے لوگوں نے تاحدنظر اس کھیت میں جنازے کی نماز اداکی،پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ اتنا بڑا مجمع اس علاقے میں کبھی کسی کے جنازے میں نہ ان سے پہلے دیکھا گیا اورنہ اس کے بعد،ہرطرف غم واندوہ کی لہر تھی،ہرشخص نڈھال تھا. مولانا عبدالرحمنؒ صاحب کے انتقال کے وقت لوگوں کی عجیب حالت تھی پوراعلاقہ سوگوار تھا. مفتی ہلال صاحب لائق اوربڑے باپ کے فرزند تھے،صلاحیت،صالحیت،معاملہ سنجی، قوت ارادی،اورمعاملہ فہمی میں بھی ممتاز تھے. مولانا عبدالرحمن صاحبؒ کے انتقال کے بعد ان کے جانشین کا مسئلہ اہم تھا اوراس کےلئے علاقے کےکئی ایک صف اول کے علماء جانشینی کے دعویدار تھے،مولانا عبدالرحمن صاحبؒ دارالعلوم ریوبند کے قدیم فاضل اورشیخ الاسلام حضرت مدنیؒ کے چہیتے شاگردوں میں تھے،اس لئے کئی لوگ دعوے دارتھے اورتمام کے تمام دعویدار مولانا عبدالرحمنؒ کے شاگرد تھے. ماہ رجب المرجب میں مولانا عبدالرحمن صاحبؒ کاانتقال ہوا اور پھر شوال میں شوری کا ہنگامی اجلاس بلایاگیا جس میں کئی سو لوگوں کے علاوہ بھاگل پور کے اہم اوربڑے علماء بھی شامل تھے. اسی اجلاس میں بھرے مجمع میں اتفاق رائے سے جامعہ حسینیہ ہرنتھ کے مہتمم اورمولانا عبدالرحمن صاحبؒ کے جانشین کے طور پرمفتی ہلال صاحب کو منتخب کیاگیا،میں چوں کہ اس وقت اسی مدرسہ میں زیرتعلیم تھا،اورغیرشعوری کازمانہ تھا لیکن یہ واقعہ بہت اچھی طرح یاد ہے،یہیں سے میں نے مفتی صاحب کو قریب سے دیکھا،تحمل وبردباری،منکسر المزاجی، سادگی وملنساری، علماء وصلحاء کاادب واحترام،چھوٹوں پرشفقت، اوربڑوں سے بے پناہ محبت وغیرہ ان کا امتیازی وصف تھا جوانھیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتاتھا. 
شوری کے فیصلے سے کچھ گھنٹے قبل تک وہ اس ذمہ داری کو اپنے کاندھوں پر لینے کےلئے تیارنہ تھے، برابر اس سے انکار کرتے رہے،لیکن علامہ شپخ اکرام علی صاحبؒ اورمولانا قمرالحسن قاسمی صاحبؒ سابق مہتمم جامعہ محمدیہ عربیہ شاہ جنگی کی فہمائش اورذہن سازی کے بعد انھوں نے اس عہدے کو قبول کرلیا. اس طرح مفتی ہلال صاحبؒ نے 26سال اہتمام کی ذمہ داری سنبھالی. اپنے دوراہتمام میں وہ مدرسہ کو ترقی کی جانب لےجانے کےلئے ہمیشہ کوشاں رہے،ہرطرح کی ترقی کےلئے ہمیشہ فکرمندرہتے اورجدوجہدکرتے، اہتمام سنبھالنے کےبعد ہی انھوں نے تعلیم وتربیت کا معیار بلندکیا،جس وقت مولانا عبدالرحمن صاحبؒ کا انتقال ہوا تھااس وقت مدرسے میں حفظ وناظرہ ہی تک تعلیم تھی،مفتی ہلال صاحب نے چہارم پنجم کے عربی درجات کا اضافہ کیا،حفظ وناظرہ کے ساتھ عربی درجات کی تعلیم کو معیاری بنایا،جس کے نتیجے میں علاقے کے دوسرے مدارس کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد یہاں کا رخ کرنے لگی،اور حال یہ تھاکہ بچوں کےلئے مدرسے میں جگہ کم پڑگئی،جس کی وجہ سے داخلہ بندکرناپڑا. طلباء کی سہولیات میں بھی انھوں نے اضافہ کیا،پہلے طلبہ اپنا تیل ڈال کر چراغ اورلالٹین کی روشنی میں پڑھتے تھے،مفتی ہلال صاحب نے بچوں کے صحت کاخیال کرتے ہوئے ایک بڑی رقم خرچ کرکے جنریٹر کاانتظام کروایا. اسی طرح گرمی کی شدت کی وجہ سے بچوں کو کافی تکلیف ہوتی تھی،اس کےلئے انھوں نے لائٹ پنکھے کا انتظام کیا. ایسے ہی ہم لوگ مولانا عبدالرحمنؒ کے زمانے میں کنویں سے پانی بھرتے اوراستعمال کرتے تھے، مدرسے کی چہار دیواری میں اترجانب گیٹ کے سامنے ہی بڑا ساکنواں تھا،اس کنویں کے چاروں جانب پکی دیوار تھی،گھرنی اورپلاسٹک کی موٹی رسی کے ذریعے اس کنویں سے پانی نکالاجاتاتھا جس کی وجہ سے کنویں کی دیواریں گھس گئی تھیں اوردیواروں پر رسی کے نشان نمایاں طورپر دکھائی دیتے تھے ،طلباء کوکافی دشواری پیش آتی تھی اس کو دیکھتے ہوئے انھوں نے لوہے والا دوہینڈ پمپ نصب کرایا،جس سے طلبہ کو آسانی ہوئی. ایسے ہی تعمیری ترقی کےلئے بھی وہ ہمیشہ جدوجہد کرتے رہے،محدود وسائل کے باوجود انھوں نے خوب صورت مسجدتعمیرکرائی،کچھ کمرے بھی تعمیرکرائے، مین گیٹ پر بڑاسا لوہے جالیوں کا گیٹ لگوایا،اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ کیا،باصلاحیت اساتذہ کی تقرری کی،لیکن تعلیمی معیار زیادہ دنوں تک باقی نہ رہ سکا،محنتی ذہین طلبہ کی وہ حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے،طلباء کو مانوس رکھنے کےلئے مفتی صاحب عصر کے بعد مختلف کھیلوں میں خودبھی شامل ہوتے اورطلباء کو بھی کھلاتے،فٹبال،بالی وال اورکبڈی وغیرہ بھی طلباء کے ساتھ کھیلتے،تجوید اورنورانی قاعدہ کی معیاری تعلیم کےلئے انھوں نے ہرنتھ کے متوطن اور اکل کوا کے ایک فاضل سے نورانی قاعدہ کی مشق کی،جوروزانہ شام کے وقت مدرسہ آکر نورانی قاعدہ پڑھاتےتھے، مفتی صاحب کچھ اساتذہ کوبھی اپنے ساتھ نورانی قاعدہ سکھاتےتھے. عربی کتابوں میں بھی انھیں اچھی صلاحیت تھی،عربی درجات کی اہم کتابیں خودہی پڑھاتے تھے،جس کسی طلبہ کی آواز اچھی ہوتی ان کی حوصلہ افزائی کرتے،اچھے انداز میں قرآن سیکھنے اورپڑھنے کی ترغیب دیتے،وہ خود بھی قرآن اچھا پڑھتے تھے اوراکثر فجر کی نماز مفتی صاحب ہی پڑھاتے،فجر کے بعد سورۃ یاسین کی تلاوت روزانہ اجتماعی طور پر ہوتی تھی،تلاوت کے بعد اپنے مخصوص انداز میں مرحومین،معاونین مدرسہ، عالم اسلام،اور پوری ملت اسلامیہ کی خیروبھلائی کےلئے طویل اوررقت انگیز دعاء کراتے تھے. میں جب تک اس مدرسہ میں زیرتعلیم رہا،میرے ساتھ بھی ان کا خصوصی برتاؤ رہا، بڑی محبت سے پیش آتے،میرے نانا(نذیرحسن) مرحوم جومولانا عبدالرحمن صاحبؒ کے خاص دوستوں میں تھے،نانا جب بھی فجر کے بعد کبھی کبھار مدرسے آتے تو نانا کے سامنے میری تعریف کرتے،بلاتے اورنانا کے سامنے ہی مجھ سے کچھ پڑھواتے،میری آواز اور قرات تھوڑی اچھی ہونے کی وجہ سے ناظرہ کے کچھ بچوں کو قرات سکھانے کی ذمہ داری مجھے دے دی گئی تھی. میں جب تک وہاں زیرتعلیم رہا تب تک  ان کی خصوصی عنایتیں میرے ساتھ رہیں. 2000 میں والدہ کے انتقال کے بعد مجھے گھروالوں کے مشورے سے اس مدرسے کو چھوڑنا پڑا اور میں مزید تعلیم کےلئے اکل کوا چلایا. چھٹی میں جب گھر واپس آیا میرے آنے کی خبر مفتی صاحب کو ہوئی تو انھوں نے بچوں کے ہاتھ مجھے خبربھجوایاکہ” مفتی صاحب نے ملنے کےلئے بلایاہے”میں جب مدرسہ گیا،خندہ پیشانی کےساتھ ملاقات ہوئی اورمصافحہ کے بعد ناراض ہوکر کہنے لگے کہ کیوں تم نے یہ مدرسہ چھوڑدیا؟ میں کوئی جواب نہ دےسکا،کچھ دیر ناراض رہے پھرکہنے لگے کہ اساتذہ سے مشورہ کرکے جاناچاہئے تھا، کوئی نہیں روکتا،ناراضگی اس لئے ہے کہ آپ نے مدرسہ چھوڑنے سے پہلے کسی کو بتایاکیوں نہیں؟پھر فرمانے لگے آج آپ مدرسے میں ہمارے ساتھ کھانا  کھاکر جائیں گے”میں نے انکار کیاکہ گھرمیں کھانا کھالوں گا اسی گاؤں کے تو ہم ہیں،لیکن وہ مصر رہےکہ نہیں کھاکر ہی آپ کو جانتاہے. بہر حال کھانا کھاکر ہی اس دن مدرسے سے واپس ہوا. اس کے بعد سے جب کبھی چھٹیوں میں گھرآتا اوران کو معلوم ہوتاتو کسی بچے کے ذریعے مجھے مدرسہ بلواتے،یاکبھی خود ہمارے گھر ہی آجاتے،اور فرماتے کہ آج آپ کے یہاں چائے پینے کےلئے آیاہوں،اسی بہانے ملاقات بھی ہوجائے،کئی سال کاعرصہ گذرگیا،درمیان میں ملاقات نہ ہوسکی،ایک سال میں تراویح سناکر داخلے کےلئے ڈائرکٹ دیوبند چلاگیا، وہ بھی دیوبند آئے ہوئےتھے،مجھے یہ معلوم نہیں تھاکہ وہ دیوبند میں ہیں،ایک دنراستے میں اچانک ملاقات ہوگئی،فوراپہچان گئے،خیرخیریت کے بعد کہنےلگے”مولانانثارصاحب کے یہاں میں رکاہوں گھرپہ آنا تفصیل سے بات ہوگی،کل تک میں ہوں”میں ان کی قیام گاہ پر گیا، کافی دیرتک ملاقات رہی ،میرے دیوبند آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے کہاداخلے کےلئے آیاہوں،بہت خوش ہوئے دعائیں دی،اورکہاکہ محنت کرو اگرسفارش وغیرہ کی ضرورت پڑے تو مجھے بتانا،یانہیں تو چلو آج ہی مولانا ارشد مدنی صاحب سے ملاقات کروادیتاہوں،حضرت سفارش کردیں گے اگر اس کی ضرورت پڑےگی تو،میں نے جانے سے انکار کیا اوران سے کہہ دیاکہ بعد میں دیکھیں گے. مفتی ہلال صاحب کے والد مولانا عبدالرحمنؒ حضرت شیخ الاسلام کے خاص شاگردوں میں تھے،فدائے ملت کے بعد مولانا ارشد مدنی صاحب کے بھی ان سے گہرے روابط تھے،اسی وجہ سے وہ مجھے ملواناچاہ رہے تھے. الحمدللہ سفارش کی نوبت ہی نہیں آئی. جب کبھی مفتی ہلال صاحب ملتے خندہ پیشانی اور بالکل ہنستے ہوئے. یہ طریقہ ان کا صرف میرے لئے نہیں تھا بلکہ وہ ہرکسی سے ایسے ہی ملاقات کرتے تھے، وہ ایک صاف دل انسان تھے ان کادل بغض اورکینے سے بالکل پاک تھا،کسی استاذ یاطلبہ سے بدسلوکی کرتے ہوئے میں نے کبھی نہیں دیکھا،ماحول ایساتھا کہ اکثر ان کے دوست ہی معلوم ہوتے تھے،میراتو نام ہی انھوں نے "قاری نوریز”رکھ دیاتھا اوراسی نام سے ہمیشہ مخاطب کرتے جب کبھی ملاقات ہوتی،یافون پر گفتگو ہوتی. تقریبا آٹھ دس سال بعد جب میں نے پچھلے سال لاک ڈاؤن میں ان کو فون کیا اور یہ خوشخبری سنائی کہ”آپ کے والدماجد مولانا عبدالرحمن صاحب قاسمیؒ کی سوانح حیات پر میں ان دنوں کام کررہاہوں اس میں آپ کے تعاون کی ضرورت ہے”توبہت خوش ہوئے دعائیں دی اورفرمایاکہ بڑا اچھا کام کررہے ہو اللہ تعالیٰ تمہاری مددفرمائے میں ہرطرح سے تمہاری مدد کروں گا. اس کے بعد اکثر اس سلسلے میں ان سے فون پربات ہوتی رہتی تھی،شعبان میں ان سے آخری بار جب بات ہوئی توفرمانے لگے حیدرآباد سے کب آؤگے ؟ملاقات ہوئے کافی دن ہوگئے۔آجاؤ جلدی ملاقات کرلو پھرپتہ نہیں کل ہم ملیں یا نہ ملیں؟

میں نے ان سے وعدہ کیاتھاکہ ان شاءاللہ عیدکے بعد بھاگل پورسفرکاپروگرم بناؤں گا،اوران شاء اللہ ملاقات ہوگی،لیکن کسے معلوم تھاکہ میرے سفرسے پہلے ہی وہ ایسے سفر پرروانہ ہوجائیں گے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا. میں جب بھی گاؤں جاتااوران سےملاقات کےلئے مدرسہ جاتا تونمازکےوقت ہمیشہ آگےبڑھاتے بالخصوص جہری نمازکےلئے اورفرماتےکہ” آپ کی قرات اچھی ہوتی ہےباربار سننے کادل کرتاہے روزتویہ موقع نہیں ملتا اس لئے جب مل جائے ہم اسی کو غنیمت سمجھتےہیں، مفتی صاحب ساتھ کےدیگراساتذہ وطلبہ ہماری اقتداء میں نماز ادا کرتےاورمجبوراً ہمیں امامت کرنی پڑتی. بعض اوقات طلبہ سرگوشی کرتے کہ یہ کون صاحب ہیں جنھوں نےنمازپڑھائی توان طلبہ کوخود مفتی صاحب مرحوم میراتعارف کراتے،الفاظ سن کر ہمیں خود شرمندگی محسوس ہوتی اوراپنی کم علمی پرنظرڈالتا اورسوچتاکہ اتنالمباچوڑا،اوربھاری بھرکم تعارف ہم جیسے نکمے اورنااہل لوگوں کےلئے ہے جن کادامن علم وعمل سے یکسر خالی ہے،ہماری حقیقت اگرمعلوم ہوجائے توپھر ہم سے بات کرنا بھی لوگ پسند نہ کریں، چہ جائیکہ میری امامت میں نماز اداکریں،کسے معلوم تھاکہ دنیا میں ظاہری طور پر امامت کےلئے ہم جیسوں کو آگے بڑھانے والے مفتی صاحب آخرت کے سفرکےلئے سبقت لے جائیں گے اورخود چپکے سے آگے بڑھ جائیں گے اورہم جیسے نہ جانے کتنے لوگوں کویتیم کرجائیں گے. 
اب میری کوشش کے باوجود کبھی ان سے اس دنیامیں ملاقات نہیں ہوسکتی ، ایک ڈیڑھ سال سے ہر مہینہ پندرہ دن کے بعد وہ مجھے فون کرتے اورپوچھتے آپ کا کام کہاں تک پہونچا کوئی رکاوٹ تو نہیں ہے؟ بتانا،میں ان کو ہربار مطمئن کرتا اورفون کٹ کردیتا. جاناتوسب کوہے لیکن کچھ لوگ جاتے جاتے ایسازخم دے جاتے ہیں جوشاید کبھی نہ بھرسکے،خدامغفرت کرے بڑاآزاد مردتھا. 
مفتی ہلال صاحب 1968 میں کرنپور میں پیدا ہوئے. ابتدائی تعلیم یہیں مکتب میں حافظ عابد صاحب مرحوم اورحافظ مقصود صاحب سے حاصل کی،اس کے بعد جامعہ حسینیہ ہرنتھ میں داخلہ لیا اور یہاں فارسی اول ودوم تک تعلیم حاصل کی اس کے بعد مزیدتعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کےلئے شاہی مرادآباد چلے گئے ،دوتین سال وہاں تعلیم حاصل کرنےکے بعد دارالعلوم دیوبند گئے،لیکن اس سال وہاں ان کا داخلہ نہ ہوسکا،ایک سال سماعت کرنے کےبعددوسرے سال چہارم میں دارالعلوم میں ان کا داخلہ ہوگیا،پانچ سال وہاں وہ زیرتعلیم رہے،اور1990 میں دارالعلوم سے فراغت حاصل کی، ہمیشہ امتیازی نمبرات سے پوزیشن لاتے رہے ،1991 میں مدرسہ شاہی مرادآباد میں افتاء کیا،اس کے بعد درس وتدریس سے منسلک ہوگئے. 
دوتین سال قاسم العلوم خورجہ، بلندشہرکے علاوہ کچھ دن ناگپور اورکچھ دنوں گجرات میں متوسطات تک کی کتابیں پڑھائی ،1996 میں جب والدمحترم حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب قاسمیؒ کا وصال ہوا تو وہ باہر اوردور ہونے کی وجہ سے جنازے میں بھی شرکت نہ کرسکے، کچھ دنوں کے بعد جانشین منتخب کرلئے گئے اوراخیرعمر تک جامعہ حسینیہ ہرنتھ کے مہتمم رہے. مولانا عبدالرحمن صاحبؒ کی کل 6 اولاد ہوئیں ،چاربیٹے اوردوبیٹیوں میں آپ سب سے چھوٹے فرزندتھے،اہتمام کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ وہ فتاویٰ نویسی کاکام بھی کرتے تھے. شاہ کنڈ بلاک کے وہ قاضی بھی تھے. تقریری صلاحیتوں سے بھی اللہ تعالیٰ نے انھیں نوازاتھا. مخلتف پروگراموں اوراصلاح معاشرے کے جلسوں میں ان کی تقریریں اوربیانات متاثرکن ہوتے تھےاورشوق ورغبت کے ساتھ ان کوسناجاتاتھا،ان کا اپنا ایک مخصوص انداز تھا خطاب کرنے کا. 
ملی وسماجی مسائل کےحل میں بھی وہ پیش پیش رہتے تھے،اونچے اوربڑے خاندان سے ان کاتعلق تھا،کئی دنوں سے وہ بیمارتھے کورنا وائرس نے جس طرح پورے ملک اورپوری دنیا میں لوگوں کودہشت زدہ کررکھاہے،اب تک لاکھوں لوگ اس کاشکار ہوکر موت کوگلے لگاچکے ہیں،یہ سلسلہ تاحال جاری ہے،شہرگاؤں اوردور دراز علاقوں میں بھی لوگ سراسیمگی کی حالت میں ہیں اورخوف زدہ ہیں، ہرجگہ افراتفری کاماحول ہے،سانس کی تکلیف اوربخار کی شکایت کی وجہ سے مفتی صاحب زندگی کی جنگ ہارگئے،گھر پرہی دوبجے رات میں جان جان آفریں کےسپردکردی، 53سال کی عمرپائی،
اللہ تعالیٰ انکی مغفرت فرمائے،درجات کوبلند فرمائے، سیئات کوحسنات سے مبدل فرمائے. 
پس ماندگان میں مرحوم نے غیرشادی شدہ دو بیٹیاں اور اہلیہ کو چھوڑاہےرب کریم انھیں صبرجمیل عطا فرمائے اورغیب سے ان کی کفالت کاانتظام فرمائے. مفتی صاحب کی شکل میں جامعہ حسینیہ اور علاقے کے لوگوں نے ایک عظیم سرمایہ کھودیاہے،اللہ تعالیٰ اس مدرسے اور علاقے کے لوگوں کوبہتر نعم البدل عطا فرمائے، ان کی خدمات اورقربانیاں ہمیشہ یادرکھی جائیں گی. میں اپنی جانب سے مفتی صاحب کے خاندان،اہل خانہ اور دوست واحباب کے علاوہ علاقے کےلوگوں کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتا ہوں. مفتی صاحب کاسانحہ میرا ذاتی نقصان بھی ہے. اللہ تعالیٰ ہم سب کوصبرجمیل عطافرمائے۔26 اپریل بروز پیر بعدنمازظہر کرنپورکے قبرستان میں سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں نمازِ جنازہ اداکی گئی اور نم آنکھوں کےساتھ انھیں سپرد لحدکردیاگیا ۔کئی مواقع پر انھیں زندگی کےنشیب وفراز سے بھی گذرناپڑا۔اب ایسے لوگ جواپنے چھوٹوں کے ساتھ حسن سلوک کامعاملہ کریں اورعمدہ اخلاق کامظاہرہ کریں بہت کم ملتے ہیں،اللہ تعالیٰ اس کمی کوپورافرمائے۔جس تیزرفتاری کےساتھ اہل علم،کبارعلماء اورصلحائے امت ہمارے درمیان سے اٹھتے جارہے ہیں یہ تشویشناک ہے ،مفتی صاحب جس عمر میں گئے ہیں یہ یقیناً ان کے جانے کی عمر نہیں تھی،ابھی توانھیں بہت کام کرناتھا،بہت سارے مسائل تھےجنھیں حل کرناتھا، اتنی جلدی مفتی صاحب ہم سےجدا ہوجائیں گے یہ ہمارے تصور میں بھی نہیں تھا،لیکن شاید وہ اس دنیا کی رنگینی اوربے ثباتی سے تنگ آچکے تھے،اسی لئے وہ راہی عدم ہوگئے اور چل بسے،علامہ اقبالؒ نے شاید ایسے ہی موقع کےلئے کہا تھاکہ
کتنی مشکل زندگی ہے کس قدر آساں ہے موت
گلشن ہستی میں مانند نسیم ارزاں ہے موت
کلبہ افلاس میں ،دولت کے کاشانے میں موت
دشت ودر میں،شہر میں،گلشن میں،ویرانے میں موت
رب کریم ان کے ساتھ خصوصی رحم وکرم کامعاملہ فرما۔
(مضمون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
sarfarazahmedqasmi@mail.com

صاحب تحریر کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں : آرایس ایس میں تنظیمی اصلاحات اور ہماری ملی تنظیمیں!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے