عالمی دنوں پر اردو کی پہلی منفرد کتاب:صحت اور آگہی

عالمی دنوں پر اردو کی پہلی منفرد کتاب:صحت اور آگہی

انجینئر محمد عادل
ہلال ہاؤس4/114
نگلہ ملّاح سول لائن علی گڑھ
علی گڑھ یوپی
صحت عربی زبان کے لفظ ”صَحَّ“ سے مشتق ہے۔جو درست اور صحیح کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ جسم کی وہ کیفیت اور حالت جو معمول کے مطابق ہو، جس میں کسی قسم کی کوئی بیماری لاحق نہ ہو صحت کہلاتی ہے۔ انسانی جسم کی صحت کے لیے متبادل لفظ کے طور پر تندرستی بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ لفظ دو الفاظ کے مرکب تن اور درستی سے مل کر بنا ہے۔ یعنی یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ تن جو ہر طرح سے درست افعال انجام دتیا ہو تندرستی کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر ہمیں اپنے جسم کو تندرست، توانا اور صحیح و سالم رکھنا ہے تو اس کے لیے ہمیں مختلف بیماریوں سے متعلق آگہی لازمی ہے۔
عصر حاضر میں دنیا کے تمام ممالک مسلسل اس کوشش میں لگے ہیں کہ وہ عوام میں صحت کے معاملات سے متعلق مکمل آگہی پیدا کر سکیں تاکہ وہ صحت یاب رہیں، کم بیمار ہوں، اور اگر وہ بیمار ہو بھی جائیں تو جلد از جلد اپنے معالج کے پاس جاکر وقت پر علاج کرا سکیں۔ ان کے امراض کی ابتدائی مراحل میں ہی تشخیص ہو سکے اور وہ درست علاج لے کر مرض کی پیچیدگیوں، جسم کی معذوری اور موت کے نتائج سے بچ سکیں۔ عوام میں بے داری لانے کے لیے ہر سال دنیا بھر میں مختلف امراض سے متعلق عالمی دنوں کا انعقاد بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے۔ اسی غرض سے ڈاکٹر عبد المعز شمس صاحب نے عالمی دنوں کے تعارف میں اپنی کتاب بہ عنوان: ”صحت اور آگہی (صحت سے متعلق 25 عالمی دنوں کا تعارف)“ تصنیف کی ہے۔
اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے صحت اور آگہی کی بیداری کے طور پر منائے جانے والے 25 عالمی دنوں کا تعارف بڑے منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔ کتاب اس لیے بھی اہم ہو جاتی ہے کیوں کہ موصوف نے اس کتاب کی تصنیف کرتے وقت اردو قارئین کی نفسیات کا پورا خیال رکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب پیشے کے لحاظ سے ایک سرجن اور ماہر امراض چشم ہیں۔ اردو زبان و ادب میں گہری دل چسپی رکھتے ہیں۔ سائنسی علوم کو اردو کے قاری تک پہنچانے میں آپ کا اہم کردار ہے۔ اس سے قبل بھی سائنسی علوم پر اردو میں آپ کی متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ جس میں ”ہماری آنکھیں، جسم و جاں (علم تشریح البدن و علم منافع الاعضاء)، جسم بے جان (علم ممات)، اردو میں سائنسی وسائل (مصنفین کی ڈائرکٹری اور کتابیں)، کاروانِ سائنس (تعارف سفیرانِ ماہنامہ سائنس)، آنکھ اور اردو شاعری، آب حیات“ قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ آپ ”اردو ماہنامہ سائنس“ سے بھی وابستہ ہیں۔ اور اس رسالے کے لیے ایک طویل مدت سے لکھتے چلے آ رہے ہیں۔
آپ کی تخلیقات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ موصوف اپنی تحریر میں سادہ اور سلیس زبان استعمال کرتے ہیں۔ اور سائنس کی پیچیدہ باتوں کو بنا کوئی معمہ بنائے پیش کر دیتے ہیں جو آسانی سے قاری کے ذہن نشین ہو جاتی ہیں۔ اس بات کے ثبوت کے طور پر مذکورہ کتاب کی ابتدا میں حرف آغاز ”تندرستی ہزار نعمت ہے“ سے ایک اقتباس ملاحظہ کریں:
”تندرستی، تن اور درستی کا مرکب ہے جو صحت کے لیے اردو زبان میں متبادل کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ تندرستی قدرت کا ایک انمول عطیہ اور نعمت ہے۔ اگر تندرستی یا صحت نہیں تو تمام راحتیں اور خوشیاں بے کار ہیں۔ زندگی اوردرازیِ عمر کا راز اسی میں پوشیدہ ہے۔ انسان صحت مند نہ ہو تو دولت و ثروت سب بےکار ہے۔ صحت انسان کی بنیادی ضرورت ہے خواہ وہ امیر، غریب یا متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔ اس کا بنیادی حق ہے۔ زندگی کے معیار کے تعین میں صحت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے لوگ ہمیشہ ہیلتھ از ویلتھ (Health is wealth) کا جملہ استعمال کرتے ہیں جو صد فی صد درست اور مناسب ہے۔“ ۱ ؎
مذکورہ اقتباس کو پڑھنے کے بعد کافی حد تک موصوف کی طرز تحریر کا اندازہ ہو جاتا ہے۔پوری کتاب میں آپ کو اسی طرح کی آسان اور سہل زبان دیکھنے کو ملے گی۔ تحریر کا یہ جادو اور انداز بیان آپ کو ڈاکٹر صاحب کا گرویدہ بنا دے گا۔
کتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں پروفیسر ظفر احسن روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
” حیرت ہوتی ہے کہ کوئی ڈاکٹر جو اپنے پیشے میں اتنا مشغول و مصروف ہو، کس طرح پڑھنے لکھنے کے لیے وقت نکالتا ہوگا۔ یہ کام صرف ایک جنونی ہی کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے جنون کو اسی طرح قائم رکھے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں لکھوں یا کتاب کے بارے میں۔ دونوں ہی اپنی جگہ بے مثال ہیں۔ کتاب دراصل صحت سے متعلق 25 عالمی دنوں کے بارے میں ہے۔ کوئی بھی دن منانے کا مقصد موضوع کے سلسلے میں عوام میں بیداری پیدا کرنا ہوتا ہے، ڈاکٹر عبد المعز صاحب نے بڑی آسانی و کامیابی سے اس مقصد کو اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔ امید ہے کہ موجودہ کتاب صحت اور آگہی، ڈاکٹر عبدالمعز صاحب کی پچھلی کتابوں کی طرح پسند کی جائے گی اور مقبولت کے نئے ریکارڈ قائم کرے گی۔“ ۲؎
کتاب میں نہ صرف موصوف 25 عالمی دنوں کا تعارف کراتے ہیں بلکہ ان عالمی دنوں سے متعلق کچھ عنوانات جو ڈاکٹر صاحب نے پیش کیے ہیں وہ بھی کافی اہم ہیں۔ مثلاً عالمی یوم الزھیمر (World Alzheimer’s Day) کے لیے ”یہ بھول بھی کیا بھول ہے“، عالمی یوم پیری (International Day of Older Person) کے لیے ”بڑھاپے کی سائنس“، عالمی یوم معذورین (World Disabled Person Day) کے لیے ”معذور سہی مجبور نہیں ہم“، عالمی یوم بریل (World Braille Day) کے لیے ”بریل کی کہانی“ جو کافی دل چسپ اور جاذب نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی موصوف نے اپنے مضامین میں موضوع کی مناسبت سے متفرق اشعار پیش کر کے اردو قارئین کی دل چسپی میں مزید اضافہ کیا ہے ساتھ ہی ان کی توجہ اس طرح مائل کی ہے کہ اردو شعر و ادب میں بھی یہ خاصیت ہے کہ اس کے توسط سے سائنس کی بہت سی باتوں اور حقائق کو ایک مختصر سے شعر کے پیرایے میں ڈھال کر آسانی سے پیش کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے ”عالمی یوم الزھیمر، یوم پیری، یوم معذورین، یوم کینسر، یوم صحت، یوم بیمار، یوم جگر، یوم عطیات، یوم انسداد خود کشی“ کے مضامین میں اردو شعرا کے متفرق اشعار کے ذریعے اپنے مضامین کو زیورِ سخن سے سجایا ہے۔ ان میں سے چند اشعار ملاحظہ کریں:
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظ میرا
(عالمی یوم الزھیمر پر)
بوڑھوں کے ساتھ لوگ کہاں تک وفا کریں
بوڑھوں کو بھی جو موت نہ آئے تو کیا کریں
(اکبر الہ آبادی)
پیری میں ولولے وہ کہاں ہیں شباب کے
اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے
(منشی خوش بخت علی)
اب وہ پیری میں کہاں عہد جوانی کی امنگ
رنگ موجوں کا بدل جاتا ہے ساحل کے قریب
(ہادی مچھلی شہری)
مضحمل ہوگئے قویٰ غالبؔ
وہ عناصر میں اعتدال کہاں
(غالبؔ)
(عالمی یوم پیری پر)
معذور کے لئے تو ہے تعزیر یہ دنیا
ہیں حرف سب انسان تو تحریر یہ دنیا
ظالم کے لئے ہیں سبھی آزاد فضائیں
مظلوم کے پیروں کی ہے زنجیر یہ دنیا
(عالمی یوم معذورین پر)
یقین برسوں کا امکان کچھ دنوں کا ہوں
میں تیرے شہر میں مہمان کچھ دنوں کا ہوں
(عالمی یوم کینسر پر)
تنگ دستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے
(عالمی یوم صحت پر)
آتے ہیں عیادت کو تو کرتے ہیں نصیحت
احباب سے غم خوار ہوا بھی نہیں جاتا
(عالمی یوم بیمار پر)
نقش ہیں سب نا تمام، خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام، خون جگر کے بغیر
سب کو مارا جگر کے شعروں نے
اور جگر کو شراب نے مارا
(عالمی یوم جگر پر)
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
(عالمی یوم عطیات اعضا پر)
زندگی دیکھ مرے ساتھ نہ کر یوں ورنہ
خود کشی ایک سہولت ہے تجھے یاد نہیں
قابل برداشت جب رہتا نہیں درد حیات
ڈھونڈتی ہے تلملاہٹ زہر میں راہ نجات
(عالمی یوم انسداد خودکشی پر)
ڈاکٹر صاحب نہ صرف اشعار کے ذریعے اپنے مضامین کو دل کش بناتے ہیں، بلکہ موصوف کو منظر نگاری اور کہانی کہنے کا فن بھی خوب آتا ہے۔ مثال کے طور پر ان کے مضمون ”کوڑھ کا عالمی دن“ سے ایک اقتباس ملاحظہ کریں جس میں وہ اپنے ماضی کی یادوں کی منظر کشی بڑی جذیات نگاری کے ساتھ کرتے ہیں۔ جس کو پڑھنے کے بعد قاری خود کو اسی ماحول میں پاتا ہے: ”1977میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مجھے پہلی بار بلائنڈ ریلیف کیمپ میں موتیا بند کے آپریشن کے لیے بنگال کے سب سے پچھڑے علاقہ پورولیا بھیجا گیا۔ وہاں قیام کے دوران آبادی سے دور ایک ایسے کیمپ میں لے جایا گیا جہاں عام انسان کا گذر شاید ہی ہوتا ہو۔ وہاں بھی کچھ مریضوں کا معائنہ کرنا تھا۔ خاردار تاروں سے گھرا ایک وسیع علاقہ جہاں ہزاروں کی تعداد میں انسان تھے مگر بد ہئیت، بد شکل، مجروح، کچھ مرہم پٹّی کے ساتھ، کسی کی ناک نہیں تو کسی کی آنکھ نہیں۔ کسی کی انگلیاں گر چکی، اکثر بیساکھی کے سہارے چلتے نظر آئے۔ اس کیمپ کا منتظم ایک کرشچن پادری تھا جس نے اپنے ہاتھ سے کافی بنا کر اور کیک کے چند ٹکڑوں سے ضیافت کی، غالبا وہ دو دھائی سے کوڑھ کے مریضوں کے اس کیمپ کا نگراں تھا۔ میڈیکل کالج سے فوراً فراغت کے بعد ہر نوجوان بڑے حسین خواب دیکھتا ہے. میں بھی انھی میں تھا مگر اس کیمپ کے مکین اور ان مجبور، لا چار، بیکس و بے سہارا لوگوں کو جن کے اپنے بھی انھیں چھوڑ کر چلے گئے اور اب وہ ایسی جگہ محصور ہیں جہاں آرام و آسائش نہیں بلکہ تقریبا ایک جیسے ہزاروں بے پناہ زندگی کی آخری سانسیں گزارنے کے لیے مجبور ہیں۔ اس سے زیادہ حیرت مجھے اس پادری پر ہورہی تھی جو کسی بھی فکر اور الجھن کے دوران کوڑھیوں کے درمیان ایک زمانہ سے زندگی گزار رہا ہے۔ مجھے آج بھی وہاں گذرا ایک ایک لمحہ یاد ہے۔“ ۳؎
موصوف نہ صرف ماضی کی باتوں کو یاد رکھتے ہیں بلکہ اپنی قدیمی تہذیب اور رسم و رواج کے ختم ہوجانے کا بھی انھیں افسوس ہوتا ہے۔ اس حوالے سے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
”ایک زمانہ تھا جب کھانا مخصوص جگہ اور مخصوص ماحول میں کھایا جاتا تھا۔ گھروں سے باہر کھانا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ شادی بیاہ اور دعوتوں میں کھانا پکانے، دستر خوان پر چنے جانے اور مل جل کر کھانے کا رواج تھا۔ جسے مہذب طریقہ مانا جاتا تھا۔ خواہ ڈشیز کتنی بھی ہوں مگر اس کے آداب میں کہیں کمی نہیں تھی۔
رفتہ رفتہ زمانہ بدلتا گیا۔ مشینی دور میں وقت کی تنگی ہوئی اور ہماری صدیوں پرانی تہذیب ایک دم بدل گئی۔ اب گلی کوچوں، فٹ پاتھ اور بازاروں میں خوانچہ بردار کھانے اور اس کی قسمیں ملنے لگی ہیں جسے فاسٹ فوڈ کا نام دے دیا گیا ہے جو چلتے پھرتے مہیا کی جاتی ہے۔“ ۴؎
ڈاکٹر صاحب اپنے مضامین میں قرآن مجید کی آیات سے بھی فیض و رموز حاصل کرتے ہیں۔ چند قرآنی آیات اور ان کے ترجمے ملاحظہ کریں۔ ”عالمی یوم الزھیمر“ کے حوالہ سے”سورہ النحل، آیت ٧٠“ کو پیش کرتے ہیں:
”وَاللَّہُ خَلَقَکُمْ ثُمَّ یَتَوَفَّاکُمْ وَمِنکُم مَّن یُرَدُّ إِلَی أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِکَیْ لَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْا إِنَّ اللَّہَ عَلِیمٌ قَدِیر۔“ (سورہ النحل، آیت: ٧٠)
”اللہ نے تم کو پیدا کیا، پھر وہ تم کو موت دیتا ہے، اور تم میں سے کوئی بدترین عمر کو پہنچا دیا جاتا ہے تا کہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔ حق یہ ہے کہ اللہ ہی علم میں بھی کامل ہے اور قدرت میں بھی۔“
عالمی یوم ماحولیاتی صحت (World Environmental Health Day) کے مضمون میں ”سورۃ النمل، آیت: ۸۸)،سورۃ القمر، آیت: ٩٤، سورۃ الحجر، آیت: ٩١“پیش کرتے ہیں۔
”صُنْعَ اللَّہِ الَّذِی أَتْقَنَ کُلَّ شَیْءٍ“ (سورۃ النمل، آیت: ۸۸)
اللہ کی کاری گری ہے جس نے ہر چیز کو (مناسب انداز پر) مضبوط بنا رکھا ہے۔“
”إِنَّا کُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنَا لِقَدْرِ“ (سورۃ القمر، آیت: ٩٤)
اور ہم نے ہر چیز کو ایک (مقررہ) اندازے پر پیدا کیا ہے۔
نیز ارشاد فرمایا:
وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاہَا وَأَلْقَیْنَا فِیہَا رَوَاسِیَ وَأَنبَتَنَا فِیہَا مِن کُلِّ شَیْءٍ موزون“ (سورۃ الحجر، آیت: ٩١) اور ہم نے زمین کو پھیلایا اور اس پر (اٹل) پہاڑ ڈال دیے اور اس میں ہم نے ہر چیز ایک متعین مقدار سے اُگائی ہے۔“
عالمی یوم سماعت(World Hearing Day) سے متعلق”سورۃ النحل، آیت: ٨١،سورۃ الملک، آیت: ٢٣، سورۃ الملک، سورۃ بنی اسرائیل، آیت: ٣٦“
”خالق کائنات فرماتے ہیں: وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَۃَ اللَّہِ لَا تُحْصُوہَا إِنَّ اللَّہَ لَغَفُورٌ رَّحِیمٌ (سورۃ النحل، آیت: ٨١)
(اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو تم اسے نہیں کر سکتے۔ بےشک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔)
”قُلْ ہُوَ الَّذِی أَنشَأَکُمْ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئدَۃَ قَلِیلًا مَّا تَشْکُرُونَ“ (سورۃ الملک، آیت:٢٣)
(تم کہو وہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا اور تمھارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے۔ تم بہت کم شکر ادا کرتے ہو۔)
اور یہ بھی ارشاد فرمایا:
”إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولَئکَ کَانَ عَنْہُ مَسؤولا“(سورۃ بنی اسرائیل، آیت: ۶۳)
(بے شک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔)‘‘
مذکورہ قرآنی آیات سے ہمیں الزھیمر کے مرض میں مبتلا انسان کی کیفیت کے بارے میں پتا چلتا ہے، جب وہ عمر کے بدترین حصّہ پر پہنچ جاتا ہے، جہاں وہ سب کچھ بھول جاتا ہے۔ دوسری آیات میں ماحولیات کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح اللہ نے اپنی کارگری سے ہر چیز کو مناسب اور صحیح متعین مقدار و کمیت، وصف و کیفیت کے ساتھ انسان کے اطراف میں آباد کیا ہے۔اس کے بعد کی آیات میں اللہ کی نعمتوں اور اس کے عطا کردہ اعضا کا ذکر ہے۔ خاص طور سے خالق نے ہمیں سماعت کے لیے کان دیے جن کے ذریعے انسان مختلف آوازوں کو سنتا اور سمجھتا ہے۔
عالمی دنوں سے متعلق ’تھیم‘ بھی کافی اہمیت رکھتے ہیں۔ ہر سال عالمی دنوں سے متعلق الگ الگ تھیم دیے جاتے ہیں تاکہ عوام میں جوش و ولولہ اور بیداری پیدا کی جاسکے۔ اس حوالے سے موصوف لکھتے ہیں:
”چند سالوں سے مختلف قسم کا دن منانے کا جیسے فیشن چل گیا ہے، درحقیقت یہ فیشن نہیں بلکہ یو۔این۔او نے ریزولوشن پاس کر کے طے کیا ہے کہ فلاں تاریخ، فلاں موقع سے فلاں عالمی یوم منایا جائے گا۔ اس کے پس پردہ ایک مہم ہوتی ہے تاکہ پوری دنیا کے لوگوں تک پیغام پہنچایا جائے اور متحد کیا جائے، اس کی اہمیت اجاگر کی جائے۔ اس کے لیے ہر سال اس دن کے لیے نیا موضوع (Theme) تیار کیا جاتا ہے۔ یہ تھیم بھی متفقہ طور پر طے کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں تک آسان اسلوب میں پیغام بھی پہنچے مخصوص دن، کسی مخصوص شخص، کسی مخصوص ایجاد یا کسی مخصوص واقعہ کے تحت یہ مخصوص دن طے کیا جاتا ہے۔“ ۵؎
ڈاکٹر صاحب نے عالمی دنوں سے متعلق چند سالوں میں دیے گئے تھیم اس طرح پیش کیے ہیں:
(۱)۔عالمی یوم الزھیمر ”چلیں Dememtia کے بارے میں بات کریں“(2021)
(۲)۔عالمی یوم پیری ”ڈیجیٹل مساوات تمام عمر کے لیے“ (Degital equility for all ages) (2021)
(۳)۔عالمی یوم ذیابیطس ”ذیابیطس کی نگہداشت کے لیے رسائی کا ذریعہ“ (Access to Diabetic care) (2021)
(۴)۔عالمی یوم معذورین ”کووڈ۔ ١٩ کے بعد بہتر معیار زندگی کو قابل حصول بنانا اور سنبھالے رکھنا ہے“(2021)
(۵)۔عالمی یوم کینسر (Not beyond us) (2022)
(۶)۔عالمی یوم ہائپرٹنشن(Measure your Blood pressure Accurately control it, Live longer) (2022)
(۷)۔عالمی یوم خون عطیہ ”خون دیں اور دنیا کو دھڑکتے رہنے دیں“ (Give blood and keep the world beating) (2022)
(۸)۔عالمی یوم ماحولیات صحت ”ہمارے کواکب اور ہماری صحت“ (Over Planet Our Health) (2022)
(۹)۔عالمی یوم ایڈز (Putting ourselves to the Test: Achieving Equity to end H.I.V) (2022)
(۰۱)۔عالمی یومِ دمّہ (Asthmma Care for all) (2023)
(۱۱)۔عالمی یوم ہیپاٹائٹس (Don’t miss the target) (2023)
(۲۱)۔عالمی یوم عطیاتِ اعضا (Let’s pledge to donate organ and save lives) (2023)
کتاب میں پہلے عالمی دن کے طور پر عالمی یوم الزھیمر کا تعارف دیکھنے کو ملتا ہے۔ جس کو ہر سال 21 ستمبر کے دن منایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے اس مضمون میں الزھیمر کی مختصر تاریخ، الزھیمر کیا ہے، اس کی علامات کیا ہیں، کس طرح یہ بیماری وجود میں آتی ہے، اس بیماری میں مبتلا مریض کی کیا کیا کیفیات ہوتی ہیں۔ ان تمام پہلوؤں پر مفصل روشنی ڈالتے ہیں۔در اصل یہ بیماری انسانی یاداشت کو متاثر کرتی ہے۔ جس سے عمر رسیدہ لوگوں میں ڈیمنشیا (Dementia) کے اثرات بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
”Dementia کوئی مخصوص مرض نہیں بلکہ یہ عام اصطلاح ہے جس میں یاد داشت کم زور ہو جاتی ہے، سوچنے، فیصلہ لینے کی صلاحیت میں خلل آجاتا ہے اور روزمرہ کے کام میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ صرف متاثرین ہی کے لیے نہیں بلکہ افراد خانہ اور تیمارداروں کے لیے بھی ویسا ہی تکلیف کا موجب ہے کیونکہ ایک طویل مدت تک مبتلا شخص کی نگہداشت اور اس کے اخراجات، برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ ابتدا نہایت خموشی سے ہوتی ہے جو ناقابل بیان اور پیچیدہ ہے۔ سب سے پہلے اس کا انکشاف تیزی سے خود ختم ہوئی یاد داشت سے کیا جا سکتا ہے۔ خصوصاً زمانہ قریب یاد نہیں رہتا۔“ ۶؎
دوسرا مضمون بڑھاپے کی سائنس ”عالمی یوم پیری“ کے عنوان سے ہے جوہر سال یکم اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب بڑھاپے کی اقسام، وجوہات اور نشانیوں سے متعلق اہم معلومات فراہم کرتے ہیں۔ بڑھاپے کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں:
”بڑھاپا ایک ایسا تجربہ ہے جس میں سال بہ سال قربانیاں دینے اور بہت سی باتیں ترک کرنی پڑتی ہیں۔ اپنی حسیات اور توانائیوں پر بداعتمادی سیکھنی پڑتی ہے، وہ راستہ جسے طے کرنا کچھ ہی عرصہ پہلے تھوڑی سی چہل قدمی جیسا ہوتا تھا، بہت طویل اور کٹھن ہو جاتا ہے اور پھر ایک روز ایسا بھی آتا ہے کہ اس راستے پر چل ہی نہیں پاتے۔ وہ کھانے جو ہم اپنی زندگی بھر بڑے شوق سے کھاتے رہے وہ ہم سے چھوٹ جاتا ہے۔ جسمانی خوشی اور لذت زیادہ سے زیادہ کمیاب ہو جاتی ہے اور ہمیں ان کی زیادہ سے زیادہ قیمت چکانی پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ تمام عارضوں اور بیماریوں، جواس کے کمزور پڑتے جانے، اعضا کے بتدریج مفلوج ہوتے جانے، کئی طرح کے درد اور تکلیفوں اور اکثر ان کی طوالت اور بےچینی سے بچا تو نہیں جا سکتا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے لیکن خود کو یہ دیکھے بغیر ہی پوری طرح شکست و ریخت کے اس منفرد عمل کے حوالے کردینا بھی محرومی کا مظہر اور ایک المناک بات ہوئی۔ بڑھاپے کی عمر کے بھی اپنے ہی اچھے اور مثبت پہلو ہوتے ہیں، اپنی ہی خوشیاں اور ڈھارس بندھائے رکھنے کے اپنی ہی ذرائع ہیں۔“ ۷؎
تیسرے عالمی دن کے طور پر ”عالمی یوم ذیابیطس“ کا ذکر دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ عالمی دن ہر سال14 نومبر کو منایا جاتا ہے۔ اپنے اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب ذیابیطس سے متعلق بہت سی اہم معلومات، تدابیر اور آگہی کے حوالے سے اہم نکات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ساتھ ہی ذیابیطس ہونے کی وجوہات، اقسام، علامات، علاج اور اس بیماری سے بچنے اور احتیاط سے متعلق معلومات بھی فراہم کرتے ہیں۔ ذیابیطس کے عارضہ کو اتنی اہمیت کیوں دی جاتی ہے اس حوالہ سے موصوف لکھتے ہیں:
”ذیابیطس کے عارضہ کو اتنی اہمیت آخر کیوں دی جا رہی ہے؟ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ اگر کسی کو ایک بار یہ مرض ہو گیا تو تا عمر قائم رہتا ہے اور اگر اس کو قابو میں نہ رکھا گیا تو یہ نہ جانے کیسی کیسی پیچیدگیاں پیدا کرتا چلا جاتا ہے اور انسان ذیابیطیس سے موت کے منہ میں نہیں جاتا بلکہ اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے جان جاتی ہے جن میں خاص کر دل کے دورے، فالج، بصارت کا چلا جانا، گردے کی نا کردگی اور اگر گینگرین ہاتھ یا پیر میں ہو گیا تو اس کے کاٹے جانے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ذیابیطس کوئی نیا مرض نہیں بلکہ صدیوں سے اس کی موجودگی کے حوالے مصر، یونان، روم اور ہندستان میں پائے گئے ہیں، مگر قدیم عارضہ کے باوجود اس صدی میں صحت عامہ کے لیے ایک چیلنج ثابت ہوا ہے اور ماہرین اسے عالمی وبا تسلیم کرنے لگے ہیں اور اس کی اب ضرورت محسوس کی جانے لگی ہے کہ ذیابیطس کے متعلق بیداری اور شعور پیدا کیا جائے۔ نیز اس کی روک تھام کے لیے تیز تر کوشش کی جائے۔“ ۸؎
ماہرین کے مطابق اگر ذیابیطس میں مبتلا شخص باضابطہ زندگی گزارے اور ایسی چیزوں سے پرہیز کرے جس سے اس مرض میں اضافہ ہوتا ہے، تو وہ کافی حد تک اس عارضہ پر غلبہ پا سکتا ہے۔ اس سے متعلق ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
”ہمارے بدلتے طرز زندگی صنعتی اور معاشی ترقی، دولت کی فراوانی کی وجہ سے آرام دہ زندگی، ضرورت سے زیادہ اشیائے خوردنی اور وزن کے بڑھنے کا تعلق ذیابیطیس کی شکل میں نمودار ہو رہا ہے۔
جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ یہ بیماری اگر ایک بار کسی کو ہو جائے تو شاید ہی ختم ہو. تا عمر یہ مرض قائم رہتا ہے اور اگر قابو میں رکھا جائے تو کسی تشویش کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر بے قابو ہوا تو پھر کسی بھی خطرے سے نپٹنے کو تیار رہنا چاہیے۔ اکثر ذیا بیطس میں مبتلا اشخاص با اصول اور با ضابطہ زندگی گزار کر اس مرض کو شکست دے سکتے ہیں. اگر کسی کو ذیا بیطس ہو جائے تو اُسے اس مرض کے متعلق محدود جان کاری، اسے قابو میں کرنے اور اس کو زندگی کا ہم سفر کیسے بنایا جائے جیسی معلومات ضرور حاصل کرنا چاہیے۔ مریض کو اپنے مرض کے مزاج سے اگر واقفیت ہوگی وقتاًفوقتاً پیدا ہونے والے معمولی مسائل کا خود یہ مریض بذات خود سد باب کر سکتا ہے اور پیچیدگیوں سے بچ سکتا ہے۔“ ۹؎
چوتھا مضمون ”معزور سہی مجبور نہیں ہم“ کے عنوان سے عالمی یوم معذورین کے متعلق معلومات فراہم کرتا ہے۔ یہ ہرسال 3 دسمبرکو منایا جاتا ہے۔ معذور کسے کہتے ہیں اس سے متعلق ڈاکٹر صاحب رقم کرتے ہیں:
”عام طور پر ہر وہ شخص جس کے لیے عارضی نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر عام کاروباری زندگی میں حصہ لینا محدود ہو جائے اسے معذور کہا جاتا ہے۔ معذور ہمارے معاشرے میں اس کو کہا جاتا ہے جس کے جسم میں کوئی اعضا مکمل نہیں جیسے کسی کی آنکھ نہیں تو وہ معذور ہے، کسی کے ہاتھ نہیں تو وہ بھی معذور ہے چونکہ وہ ہاتھ سے کام نہیں کر سکتا۔ کسی کی ٹانگیں نہیں تو وہ بھی معذوروں میں گنا جاتا ہے۔ ٹانگیں ہیں مگر پولیو ہونے کی وجہ سے کام نہیں کرتا، کوئی بول نہیں سکتا تو وہ بھی معذور ہے اور کوئی سُن نہیں سکتا تو وہ بھی معذور ہے۔ معاشرے میں معذوروں کو ان کی معذوری کی بنا پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ معذور افراد کو مخصوص افراد کم ہی کہا جاتا ہے بلکہ اکثر ان کے جسم میں جو کمی رہ گئی ہے اس نام کو بلا جھجک استعمال کیا جاتا ہے۔ گرچہ خصوصی افراد کو خصوص افراد کہنے سے بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں چونکہ معذوری الگ ہے مگر ان کا ذہن و دماغ عام انسان جیسا ہوتا ہے اور ان سے بہت سے کام لیے جا سکتے ہیں۔“ ١٠؎
اس مضمون میں معذوری کی اقسام اور ایسے مختلف مشہور و معروف افراد سے متعلق معلومات بھی مل جاتی ہے جو کسی نہ کسی معذوری میں مبتلا تھے. اس کے بعد بھی انھوں نے حوصلہ نہیں ہارا اور اپنے اپنے میدان میں کامیابی حاصل کی۔ جس میں کچھ دنیا کے مشہور و معروف شخصیت مثلاً آسٹریلین امریکن نک بغیر ہاتھ پیر (Tetra-amelia Syndrome) کے ساتھ پیدا ہوئے جو ایک Motivational Speaker کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔ امریکن ہنری ہیلن کیلر (Helen Keller) جو محض 19 ماہ کی عمر میں ایک نامعلوم مرض میں مبتلا ہو کر اپنی سماعت اور بصارت کھو بیٹھے تھے جنھوں انگریزی ادب میں اپنی منفرد کتاب (The story of my life) لکھ کر اپنی ایک الگ شناخت قائم کی۔ فرینکلن روزولٹ (Franklin Roosevelt) جن کا ایک پیر پولیو کے سبب مفلوج ہوگیا تھا۔اس کے بعد بھی وہ امریکہ کے 32 ویں صدر منتخب ہوئے۔ لوئس بریل(Louis Braille) جن کا تعلق فرانس سے تھا، جو کم عمری میں نابینا ہوگئے تھے ان کو بریل کے موجد کی حیثیت سے جانا جاتا ہے، جن کی کوششوں کے سبب نابینا افراد کے لکھنے پڑھنے کا عمل آسان ہوا۔ ایک اہم نام محمد علی کلے امریکی نژاد باکسنگ چیمپین کا بھی ہے جن کو Dyslexic تھا جس کے سبب پڑھنے میں دقت تھی اس کے باوجود بھی یہ افراد اپنی کمزوریوں پر فتح حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اپنے ملک ہندستان کی بات کریں تو ”ابھشیک بچن، ایرا سنگھل، جیوتی آمگے، سریش ایچ اڈوانی، سدھا چندرن، ارونا سنہا، روندر جین، اجیت جوگی، جاوید عابدی“ کے نام لیے جاسکتے ہیں جو کسی نہ کسی معذوری میں مبتلارہنے کے بعد بھی اپنے اپنے میدان میں کامیاب و کامران ہو کر ابھرے۔
مضمون کے آخر میں ڈاکٹر صاحب چند اہم تنظیموں کے نام بھی پیش کر دیتے ہیں جو ہندستان میں معذورین کے لیے اہم کام انجام دے رہی ہیں۔ مثلاً ”نارائن سیوا سنستھا (راجستھان)، پریتن (پونے)، آدرش چیر ٹیبیل ٹرسٹ (کیرالہ)، ریتھیم اسپیشل اسکول (تامل ناڈو)، وکاش (اڑیسہ)، کنیکٹ فار (ممبئی)، سوریم (چنڈی گڑھ)، ریہیبیلیٹیشن سوسائٹی آف ویزولی امپیرڈ (لکھنؤ)“ وغیرہ وغیرہ۔
کتاب میں شامل مختلف عالمی دنوں میں ”عالمی یوم صحت“ بھی کافی اہم دن ہے۔ ہر سال دنیا بھر میں 17 اپریل کو بڑے پیمانے پر منایا جاتا ہے۔ مضمون کی ابتدا میں موصوف صحت کیا ہے اس کے حوالے سے رقم کرتے ہیں:
”صحت کے لیے اُردو زبان میں متبادل کے طور پر تندرستی کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے جو دو لفظ یعنی "تن“ اور ”درستی" کا مرکب ہے۔ اس سے مراد جسم کی وہ کیفیت ہے جو معمول کے مطابق ہو یا جسمانی و ذہنی تندرستی ہے یعنی جسمانی اور ذہنی بیماری کا نہ ہونا جس میں چوٹ اور دردکا نہ ہونا بھی شامل ہے۔ صحت کی تعریف کو جب درجوں میں تقسیم کیا گیا تو ایک تعریف یوں بھی کی گئی کہ انسان عمر کے کسی بھی حصہ میں اپنی بیماری کے علاج کے ساتھ صحت اور بیماری کے ٹھیک ہونے کے اصول بھی پوری کرے تو اس کو صحت مند یا تن درست کہا جائے گا۔ عمر کے ساتھ ساتھ صحت کے معیار بدلتے رہتے ہیں مگر ہر عمر میں جسم کی تبدیلیوں کے ساتھ بیماری کا نہ ہونا یا بیماری کا علاج کے ساتھ کنٹرول ہونا ضروری ہے۔
صحت کا مطلب مثبت رویوں کے ساتھ جینا ہے کیونکہ ہمارے رویے ہماری اچھی صحت کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور ہمیں زندگی کے مقاصد پورا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ صحت مندی کو قائم رکھنے کے لیے عمر کے ہر حصہ میں مستقل کام کرنا ہوتا ہے کیونکہ ورزش، ماحول، غذا، تعلیم، خاندانی حالات، مالی حالات، پریشانیاں یہ سب صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔“ ۱۱؎
دیگر عالمی دن کے طور پر ”عالمی یوم بریل، عالمی یوم کینسر، عالمی یوم تپ دق، عالمی یوم ہائپرٹنشن، عالمی یوم خون عطیہ، عالمی یوم زونوسس، عالمی یوم مچھر، عالمی یوم ماحولیاتی صحت، عالمی یوم آرتھرائٹس، عالمی یوم نمونیہ، عالمی یوم ایڈز، عالمی یوم جذام، عالمی یوم بیماران، عالمی یوم سماعت، عالمی یوم جگر، عالمی یوم دمّہ، عالمی یوم تحفظ غذا، عالمی یوم ہیپا ٹائٹس، عالمی یوم عطیات اعضا، عالمی یوم انسداد خودکشی“سے متعلق اہم معلومات دیکھنے کو ملتی ہیں۔
الغرض ڈاکٹر عبد المعز شمس صاحب کی یہ کتاب ’صحت اور آگہی‘ صرف صحت سے متعلق 25 عالمی دنوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کے پسِ پردہ ڈاکٹر صاحب نے جان کاری کا ایک بیش قیمتی خزانہ اور حیرت انگیز معلومات کو اپنے مضامین میں ڈھال کر قاری کے روبرو پیش کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی موصوف نے خدمت خلق کے جذبے اور اپنی ذمے داریوں سے بھی قاری کو واقف کرایا ہے۔ یقینا اس کتاب کو پڑھ کر انسان صحت مند زندگی گزارنے کا گر سیکھ سکتا ہے۔مجھے پوری امید ہے کہ یہ کتاب اردو قارئین کے حلقے میں خوب داد و تحسین حاصل کرے گی۔
حواشی:
۱۔حرف آغاز: ”تندرستی ہزار نعمت ہے“، کتاب: صحت اور آگہی (صحت سے متعلق 25 عالمی دنوں کا تعارف)، ڈاکٹر عبد المعز شمس، ناشر: ڈیزائن ورلڈ، علی گڑھ، ص:۹
۲۔تعارف، پروفیسر ظفر احسن، کتاب: صحت اور آگہی (صحت سے متعلق 25 عالمی دنوں کا تعارف)، ڈاکٹرعبد المعز شمس، ناشر: ڈیزائن ورلڈ، علی گڑھ، ص:۸
۳۔کتاب: صحت اور آگہی (صحت سے متعلق 25 عالمی دنوں کا تعارف)، ڈاکٹرعبد المعز شمس، ناشر: ڈیزائن ورلڈ، علی گڑھ، ص: ١٤٥، ١٤٦
۴۔ایضاً، ص: ۱۹۱
۵۔ایضاً، ص: ٣١
۶۔ایضاً،ص:١٧
۷۔ایضاً،ص:٢٤ ،٢٥
۸۔ایضاً،ص: ٣٢ ،۳۳
۹۔ایضاً،ص:۳۳
۰۱۔ایضاً،ص: ٤٣
۱۱۔ایضاً،ص: ٧٥
×××
×××

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے