بچوں کی توانائی کو درست راہ اور سمت دیں!

بچوں کی توانائی کو درست راہ اور سمت دیں!

فاروق طاہر، حیدرآباد،ا نڈیا
farooqaims@gmail.com ,9700122826

پھر ان ننھے شریروں کے ساتھ کیا کیا جائے؟
ایک پریشان شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا ”آپ تو کہتے ہیں کہ بچوں کو پراعتماد ہوناچاہیے۔ انھیں شرمانا نہیں چاہیے۔بے خوفی سے کسی کاسامنا کرنا چاہیے۔
میں نے کہا”ہاں،بالکل درست کہا“۔’اس نے کہا”لیکن ایک مسئلہ ہے“۔میر ایک پانچ سال کا بیٹا ہے۔وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔وہ جہا ں جاتا ہے پانچ منٹ کے اندر اندر وہاں کی ہر چیز پر اپنا تسلط قائم کردیتا ہے۔ہم اس کی اسی فطرت کی وجہ سے کسی سے بھی ملاقات کے لیے جانے سے کتراتے ہیں۔میری بیوی اسے ایک سالگرہ کی تقریب میں لے گئی۔وہاں صرف وہ آدھے گھنٹے تک رہا۔لیکن اس آدھے گھنٹے میں اس نے ہال میں موجود تمام افراد کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔وہ کسی سے نہیں ڈرتا۔وہ جو چاہتا ہے لے لیتا ہے۔وہ رونا نہیں جانتا لیکن دوسروں کو رلانا اسے اچھے سے آتا ہے۔وہ بچوں کو مارے گا، انھیں دھکے دے گا اور جہاں جانا چاہے چلاجائے گا۔ وہ ایک منٹ بھی خاموش نہیں رہتا۔ ہمیشہ پرزور اور پر جوش رہتا ہے۔ہم نہیں جانتے کہ اس کے ساتھ کیسے پیش آئیں؟وہ گلوگیر آواز میں بات کررہاتھا اور گہر ے افسوس میں ڈوبا ہواتھا۔
پرمغموم لہجے میں کہنے لگا ”اگر گھر میں اس کی مرضی کے خلاف کچھ ہوجائے تو جو بھی چیز اس کے ہاتھ آئے اٹھاکر پھینک دیتاہے۔ہماری اورپڑوس کی عمارت کی مشترکہ کمپاؤنڈ وال ہے۔دیکھ ریکھ کے لیے ایک چوکیدار بھی ہے۔ اس کا اب ایک ہی کام ہے کہ ہمارے بیٹے کی پھینکی ہوئی چیزوں کو واپس لاکر دیتا رہے۔ایک بار تو اس نے حد ہی کردی، ایک وزنی گملہ اٹھا کر پھینک دیا جو پڑوسی کے کار کے شیشے پر گرا جس سے شیشہ پورا ٹو ٹ گیا۔ مجھے اس کی قیمت چکانی پڑی۔اب آپ ہی بتائیے میں کیا کرو؟ اس پریشان شخص کے سوال کا جواب اگر آپ کے پاس ہے تویقینا آپ بچوں کی نفسیات سے واقف ہیں۔
بچوں کی توانائی کو والدین درست سمت فراہم کریں
توانائی کو سمت دینا:
مذکورہ بچے کا مسئلہ درحقیقت اس کے پاس موجود وہ وافر توانائی ہے جس کا استعمال نہیں ہوتا۔ اس توانائی کو درست سمت دینا بہت ضروری ہے۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا وہ کہنے لگے”وہ رات گیارہ بجے سے پہلے نہیں سوتا۔ تب تک ہماری عمارت میں اودھم مچا رہتاہے۔ ہمارے نیچی کی منزل پر رہنے والے لوگ اس کی اچھل کود سے پریشان رہتے ہیں، اور ہمارا بیٹا ایسا ہے کہ اچھل کود سے باز نہیں آتا۔ جب وہ سوتا ہے تو ہماری پوری بلڈنگ سکون کا سانس لیتی ہے۔ میرے خیال میں یہ بہت ذہین ہے اور اس کی ذہانتہی ہماری پریشانی کا باعث ہے۔ اس پر قابو پانے کا کوئی حل ہو تو بتائیے“۔ وہ بڑبڑا نے لگے”ذہانت بہتربنانے کو چھوڑیئے اسے بعد میں دیکھ لیں گے“۔ ان کی بڑبڑاہٹ کو میں نے سن لیا۔
جب وہ کسی قدر بحال ہوئے تو میں نے انھیں ایک ایکشن پلان دیا اور کہا کہ اس پر سختی سے نافذ کریں۔ ایسے بچوں کے لیے سب سے پہلا ایکشن پلان انہیں اپنی توانائی کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کا موقع فراہم کرنا ہوتا ہے۔منصوبے کو نافذ کرنے کی ذمہ داری بچے کے دادا نے اپنے ذمے لی۔ داداجی اسکول سے واپس آنے کے بعدروزانہ اپنے پوتے کوپارک لے جانے لگے۔ دادا نے بچے کے لیے ایک خاص سائیکل،بلہ (کرکٹ بیاٹ)، گیند(بال) خریدی جسے وہ روزانہ بچے کو باغ لے جاتے وقت ساتھ لے جاتے تھے۔
اب دادا کا روزانہ شام ساڑھے پانچ سے ساڑھے آٹھ بجے تک ایک ہی کام تھا کہ بچے کو تین گھنٹے تک باغ سے باہر نہ جانے دیں۔ بہرحال لڑکا باغ میں مصروف ہوگیا۔ وہ بھاگتا دوڑتا اور سائیکل چلاتا۔جھولا جھولتا، اچھل کود کرتا رہتا۔ دو تین دن تک اس نے باغ میں موجود دوسرے بچوں کو تنگ کیا۔ لیکن اس کے بعد سب ٹھیک ہونے لگا۔
دادا پوتے کو تھکا دینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ بہت بھاگ دوڑ، کھیل کود اور سائیکل چلانے کے بعد بچہ آٹھ بجے گھر واپسی کا انتظار کرنے لگتا۔ وہ تھکا ہوا ہوتا پھر بھی دادا کہتے تھے ایک چکر اور لگاؤ پھر گھر چلیں گے۔ مزید چار چکر لگاؤ، پھر ہم گھر جائیں گے۔
لڑکا گھر آتا، کھانا کھاتا اورر کھانا کھاتے ہی فوراً سو جاتا۔ اب روزانہ بچہ رات کے کھانے کے بعد فوری سو جانے لگا۔ چند دن بعد بچے کے والد نے مجھے ان کے گھر پر بلایا اور کہا کہ اب ہماری شامیں پہلے سے بہت بہتر ہوگئی ہیں۔ لیکن بچہ بہت زیادہ تھک جارہا ہے اور زیادہ سورہا ہے۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
میں نے کہا ”اس معمول کو مزید چند دن جاری رکھیں“۔ بچوں میں بہت زیادہ توانائی ہوتی ہے جو استعمال نہیں ہوتی۔ اس توانائی کو ہمیں ایک صحیح رخ (سمت) دینے کی ضرورت ہے۔
ہیری (Harry)میرا ہیرو:
اب ماں نے بچے کی ذہن سازی کا پروگرام شروع کیا۔ والدین، دادا، دادی اب عاجزی، انکساری، اور دیگر عمدہ اخلاق و اعلا اقدار کو بچے کے ذہن میں بٹھانے میں لگ گئے۔ وہ بچے کو عاجزی، شائستگی اور تمیز و تہذیب سے پیش آنے کے فائدے بتاتے۔
ہیری پوٹر بچے کا پسندیدہ ہیرو تھا۔
ماں بچے کو ہیری پوٹر فلم کے ایسے منتخب مناظر دکھاتی جس میں ہیری پوٹر شائستہ برتاؤ کرتا ہے۔ ماں بچے سے کہتی کہ”تم ہیری پوٹر ہو یا پھر مال فوائے(Malfoy) کی طرح ایک برے لڑکے؟ پھر ماں اور بیٹے نے کچھ اصول بنائے تاکہ بچے میں ہیری پوٹر کی طرح عاجزی پیدا ہو جائے۔ بڑوں کو سلام کرنا، انھیں بیٹھنے کی جگہ دینا، جب وہ جانے لگیں تو خدا حافظ کہنا، نرمی سے بات کرنا، کسی پر نہ گرنا، کودنا وغیرہ۔ اصول آسان اور سادہ تھے۔ لیکن بچہ تقریباً ہر روز کوئی نہ کوئی اصول توڑدیتا۔
ماں بچے سے پوچھتی ہے کہ بتاؤ آج تم نے کون سا اصول توڑا؟ بیٹا مسکراتا اور بتاتا کہ اس نے کون سے اصول توڑے ہیں۔ حیران کن بات ہے کہ اس بچے کو آہستہ آہستہ اب سب پسند کرنے لگے تھے اور وہ سب کی آنکھوں کا تارا بن گیا۔
جو بچے ہائپر ایکٹیو ہوتے ہیں ان میں زبردست توانائی ہوتی ہے لیکن والدین درست سمت دینے کے بجائے ان کی پٹائی کرتے ہیں یا گھر سے باہر نہیں نکالتے یا پھر انھیں ایک ہی جگہ پر رکھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
مجھے یاد ہے، جب میں چھوٹا تھا، ہمارے پاس خرگوش تھے۔ جنھیں اکثر بند کرکے رکھا جاتا تھا۔ جب کبھی انھیں چند منٹوں کے لیے چھوڑا جاتا وہ گھر میں تیزی سے اچھلتے، کودتے، بھاگتے اور ایسے کرنے سے وہ خود کو روک نہیں پاتے تھے۔ وہ کبھی دیوار سے تو کبھی کسی چیز سے ٹکراتے رہتے تھے۔ کئی بار ہمارے بچے بھی اسی کیفیت سے گزرتے ہیں۔ ہمیں غور کرنا چاہیے۔
اگر بچے پورا دن ایک جگہ پر بندھے رہیں اور پھر انھیں اپنے اردگرد کھلی جگہ اور بہت سے لوگ نظر آئیں اور وہ اپنی توانائی کو ظاہر کرنے لگیں تو بھلا اس میں کیا حرج ہے؟
ہمیں ان کی توانائی کو صحیح سمت (رخ) دینا چاہیے۔ مذکورہ صورت حال اور تبدیلی میں سب سے اہم جو بات تھی وہ ماں کی جانب سے اپنے پانچ سالہ بیٹے کی برین ٹیوننگ (ذہن سازی) تھی۔ بچے کی ماں بھی اب خوش تھی کہ اس کا بچہ تبدیل ہوچکا تھا اور وہ پرورش و تربیت اولاد  کا صحیح طریقہ جان چکی تھی۔
محرکہ (Motivation) کیا ہے؟
ہر بچہ کسی نہ کسی شے سے تحریک اور حوصلہ پاتا ہے۔ بچے چاہتے ہیں کہ ہر کوئی ان سے اچھا برتاؤ کریں۔ بچے اپنے تجربات سے سیکھتے ہیں جب لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں یا نہیں کرتے تب وہ اپنی توانائی کو تحریک کے مطابق سمت دینا شروع کر دیتے ہیں۔
کئی بار، جنھیں ہم ہائپر ایکٹیو بچے کہتے ہیں، وہ دوسروں کو اپنی صلاحیتیں دکھانے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ لیکن ہم ان کی سرگرمیوں کی تعریف و توصیف کرنے کے بجائے انھیں ڈانٹتے ہیں، چپ کرادیتے ہیں یا پھر انھیں نظر انداز کردیتے ہیں۔ بچوں کی توانائی کو درست سمت پر لگانا والدین، اساتذہ و دیگر افراد خانہ کی ذمہ داری ہے۔ بچوں کو مختلف جگہوں پر لے جائیں، انھیں مثبت انداز میں مصروف رکھیں۔ بچے اپنی توانائی کو درست کیسے استعمال کریں اس کے بارے میں تربیت اطفال سے جڑے تمام افراد بالخصوص والدین کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
”ہائی پر ایکٹیو“ بچوں کی توانائی کو کیسے درست سمت دی جائے؟ 
ہائپر ایکٹیو (Hyper Active) بچوں کا ٹائم ٹیبل:
احقر یہاں ایک ٹائم ٹیبل (نظام الاوقات) آپ کے سامنے پیش کررہا ہے جو ہائپر ایکٹو بچوں کے برتاؤ کو بہتر بنانے میں ان شاء اللہ معاون ثابت ہوگا۔
یہ منظم نظام العمل ہائی پر ایکٹیو بچے کی تبدیلی میں بہت سود مند ثابت ہوا ہے۔ بچے کے دادا علی الصبح 4 بجے بیدار ہوجا تے۔ 5:30 بجے چہل قدمی کے لیے باہر نکلتے اور اکثر اپنے پوتے کو بھی ساتھ لے جاتے۔ باہر جاتے وقت اپنے پالتو کتے کو بھی ساتھ رکھتے۔ کتے کا پٹا بچے کے ہاتھ میں تھما دیتے۔ کتے کی دیکھ بھال کرنا اب بچے کی ذمہ داری تھی۔ بچہ کتے کو بہت مشکلوں سے سنبھال پاتا۔ اسے سنبھالتے ہوئے بچہ جب تھک جاتا تو دادا پوتے سے کہتے ہیں ”دیکھو تم کتے کی وجہ سے تھک گئے ہو، اسی طرح تم بھی اپنی شرارتوں سے دوسروں کو تھکا دیتے ہو“۔
دادا پھر اسے پیراکی کے لیے لے جاتے۔ بچہ پیراکی کرتا اور ڈیڑھ گھنٹے تک سوئمنگ پول سے باہر نہیں آتا۔ لگاتار اصرار کرنے پر سوئمنگ پول سے باہر نکلتا۔ وہ اپنی سائیکل پر سوئمنگ پول تک جاتا۔ گھر میں اصول بنایا گیا کہ گھر کا کوئی بھی فرد بچے کے ذاتی کاموں میں اس کی مدد نہیں کرے گا۔ اپنے اسکول کا بستہ (Bag) اسے خود ترتیب دینا تھا۔ کئی بار، وہ اسکول بیاگ میں ضروری اشیا نہ رکھ کر چلا جاتا جس کی وجہ سے اسکول سے بارہا شکایتیں موصول ہوئیں۔ اس کے باوجود والدین اسکول کی کتابیں اور نوٹ بکس بیاگ میں رکھنے میں اس کی مدد نہیں کرتے۔ آخرکار ایک دن بچہ خود اسکول جانے سے پہلے اپنے بستے کو ترتیب دینے لگا اور اس کے بعد سے وہ لگاتار اس عادت پر کاربند ہے۔
بچہ اب اسکول جانے کے جوش میں اپنے سب کام خوشی خوشی کرنے لگا ہے۔ سائیکل چلانے، پیراکی اور صبح کی سیر اور دیگر سرگرمیوں کی وجہ سے لڑکے کی انتہائی سرگرمی (ہائی پر ایکیٹویٹی) چند دنوں میں ختم ہو گئی۔
اگراساتذہ طلبہ کو پڑھانا چاہتے ہیں تو پہلے انھیں سمجھنا چاہیے۔ والدین بھی اگر اپنے بچوں کی پرورش کرنا چاہتے ہیں تو پہلے انھیں اپنے بچوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایک جملہ میرے ذہن پر بچپن میں ہی نقش ہوگیا تھا۔ ”اگر آپ عمران کو ریاضی پڑھانا چاہتے ہیں تو آپ کو تین باتوں کا علم ہونا ضروری ہے“۔
1. سب سے پہلے آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ عمران کیسا ہے۔
2. اس کے بعد ریاضی پڑھانے کے لیے آپ کو ریاضی کا علم ہونا چاہیے اورپھر
3. آپ کو ریاضی پڑھانے کے طریقے بھی آنا چاہیے۔
سب سے پہلی اور اہم بات عمران کو سمجھنا ہے۔ کسی بھی بچے کو سمجھنے کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں۔ پہلے یہ معلوم کریں کہ اس کا دماغ کیسے کام کرتا ہے اور دوسرا، اس کا ذہن۔
یہ اصول بچوں کے ساتھ ہی نہیں جب آپ بڑوں کے ساتھ کام کررہے ہوں اس وقت بھی یہ اصول کارگر ثابت ہوتا ہے۔ ہمیں مندرجہ ذیل تین چیزوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
1۔معلوم کریں کہ شخص کی پسند اور ناپسند کیا ہے۔
2۔جب کوئی شخص کچھ کام کررہا ہو تو اس کے پیچھے کارفرما محرکے کو معلوم کریں۔
3۔ کام کے ساتھ فرد کے جذباتی لگاؤ کا بھی پتہ لگائیں۔
جذباتی لگاؤ سے مراد جب ہم کوئی کام انجام دیتے ہیں تو اس سے ہمیں خوشی حاصل ہوتی ہے یا پھر مایوسی۔
ہم ان چیزوں سے دور رہنا پسند کرتے ہیں جن سے ہمیں خوشی نہیں ملتی جو ہمیں پریشان کرتی ہیں اور تکلیف دیتی ہیں۔ ہم ان چیزوں کو بار بار کرتے ہیں جن سے ہمیں خوشی حاصل ہوتی ہے۔ اگر  ہم اس سادہ سی ترغیب کو سمجھ لے تو بہت سے کام بچے خود ہی کرنا شروع کر دیں گے۔
اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ بچہ کسی خاص کام میں خوشی کیوں محسوس کررہا ہے تو یہ نکتہ ہمیں عمران کو سمجھنے میں مدد فراہم کرے گا۔
یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ہمارا دماغ کیسے کام کرتا ہے۔ بچے کو سمجھنے کا مطلب یہ سمجھنا ہے کہ بچے کا دماغ کیسے کام کرتا ہے۔ دماغ دو طریقوں سے کام کرتا ہے۔ بایاں دماغ مختلف طریقے سے کام کرتا ہے اور دایاں دماغ مختلف طریقے سے۔
بچوں کو وقت دیں:
بچوں کی ذہنی نشوونما کے لیے سب سے پہلے ہمیں انھیں معیاری وقت دینا چاہیے۔ جب ہم بچوں کو وقت دیتے ہیں تب ہی ہم ان کو سمجھ پائیں گے۔ اکثر والدین اپنے بچوں کو وقت دینے کے حقیقی مفہوم سے بھی واقف نہیں ہیں۔
ایک پروگرام میں مجھ سے ایک ماں نے سوال کیا ”ہم اپنے بچوں کو وقت تودیتے ہیں، ہم ہر وقت ان کے ساتھ ہی ہوتے ہیں۔ کیایہ وقت دینا نہیں ہے؟
لیکن ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ صرف بچوں کے ساتھ رہنا انھیں وقت دینا نہیں ہے؟
میں نے ماں سے سوال کیا بتاؤ ”دنیائیں“ کتنی ہیں؟
خاتون کو سوال سمجھ میں نہیں آیا۔ اس نے کہا ”کتنی دنیاؤں سے آپ کا کیا مطلب ہے؟“
”جی ہاں میرا یہی مطلب ہے کہ کتنی دنیائیں ہیں؟ یعنی ایک دنیا ہے، دو ہے، تین چار، پانچ، چھ۔۔۔۔“ میں نے جواب دیا
”دنیا ایک ہی ہے“۔ خاتون نے فوراً جواب دیا۔
ہال میں باقی تمام افراد کا بھی یہی جواب تھا۔
میں نے خاتون سے پھر پوچھا ذرا سوچ کر بتائیے کہ، کیا دنیا ایک ہی ہے؟ کیا آپ کے ذہن میں وہی دنیا ہے جو دوسری خاتون کے ذہن میں موجود ہے؟
اس کا کیا مطلب ہے؟
یہ سوال غور طلب ہے۔ اس دنیا میں ہر ایک کے سوچنے کا طریقہ الگ الگ ہے۔ ہر کوئی اپنی دنیا اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے اور جس لمحے آپ کو اپنی دنیا میں داخل ہونے کا موقع ملتا ہے آپ فوراً اس میں داخل ہو جاتے ہیں۔
بچوں کو سمجھنے کے لیے ہمیں ان کی دنیا میں داخل ہونا ضروری ہے.
اگر ایک ہال میں چار سو پانچ سو افراد بیٹھے ہیں تو یہاں چار سو پانچ سو دنیائیں بھی موجود ہیں۔
میں نے والدین سے پوچھا، فرض کیجیے، اس ہال میں پانچ سو لوگ ہیں۔ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس ہال میں ہماری پانچ سو دنیائیں ہیں؟ کیونکہ ہر ایک کی اپنی ایک الگ دنیاہے۔ اگر میں چند لمحوں کے لیے توقف کروں تو ہر ایک اپنی دنیا میں داخل ہو جائے گا۔ ایک عورت سوچنے لگے گی کہ ”جب میں گھر جاؤں گی تو مجھے کھانا پکانا ہے” کوئی سوچے گا کہ مجھے آفس جانا ہے، مجھے کسی کو بلانا ہے وغیرہ وغیرہ موقع ملتے ہی ہم اپنی دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اتنی ہی دنیائیں آباد ہیں جتنی تعداد میں اس دنیا میں لوگ موجود ہیں۔ کیا آپ اس بیان سے اتفاق کرتے ہیں؟ وہاں پر موجود سبھی افراد نے مجھ سے اتفاق کیا۔
جس طرح ہم اپنی دنیا اپنے ذہن میں لیے پھرتے ہیں، اسی طرح بچوں کی بھی اپنی دنیا ہوتی ہے، کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں؟ سب نے فوراً اس پر بھی اتفاق کیا۔ اور جب ہم بچوں سے بات کرتے ہیں تو کیا ہم اپنی دنیا میں رہ کر ان سے بات کرتے ہیں یا پھر ان کی دنیا میں جاکر ان سے مخاطب ہوتے ہیں؟ ننانوے (99) فی صد موقعوں پر ہم بچوں سے اپنی دنیا میں رہ کر ہی بات کرتے ہیں۔ جب ہم اپنے نقطہ نظر سے بات کر رہے ہوں تو پھر بچوں سے ان کی دنیا کے بارے میں سوالات پوچھنے کے امکانات بہت کم پائے جائیں گے۔ اگر آپ بچوں کو وقت دینا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے آپ کو ان کی دنیا میں داخل ہونا پڑے گا اور پھر جب آپ کہہ سکتے ہیں کہ آپ انھیں وقت دے رہے ہیں۔
ہم نے پرورش و تربیت اولاد کے بارے میں بہت کچھ پڑھا ہے۔ بچوں کو وقت دینے کا مطلب ہے کہ بچوں کے جوتوں میں اپنا پاؤں ڈالنا۔ چیزوں کو بچوں کے نقطہ نظر سے دیکھنا تربیت و پرورش اطفال کا سنہرا اصول ہے۔
٭٭٭
فاروق طاہر کی گذشتہ نگارش:”بہترین وقت“ کے لیے ”وقت“ کو بہتر استعمال کریں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے