پروفیسرمحمد محفوظ الحسن
170/A کاشی ناتھ کالونی، نیو کریم گنج، گیا ٨٢٣٠٠١ موبائل نمبر:9430840627
سرور غزالی موجودہ عالمی اردو منظر نامے کا ایک چمکتا ستارہ ہے۔ سرور غزالی کا خاندانی تعلق سر زمین بہار سے ہے جو سابق مشرقی پاکستان اب بنگلہ دیش ہوتا ہوا پاکستان اور پھر مختلف مغربی ممالک میں سکونت پذیر ہے۔ اس نقل مکانی کی وجہ غالباً تقسیم ہند کا اندوہناک المیہ ہے، اس المیہ کا شکار بیشتر ہندستانی خود کو مہاجر کہتے آرہے ہیں۔ لیکن آج تک پاکستانی نہیں بن سکے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان سے نقل مکانی کرکے ہندستان آنے والے اور ان کی نسلیں کب کی ہندستانی بن چکی ہیں۔ یہ بھی ایک تاریخی المیہ ہے۔ میں اسے ایک نفسیاتی بیماری سے تعبیر کرتا ہوں اور میں اس کو آج تک مہاجرت نہیں مانتا گرچہ ہجرت تھی ہی نہیں۔ یہ تو سکون کی تلاش میں نقل مکانی تھی۔ بہر کیف سرور غزالی اردو کے ایک اہم فن کار کی حیثیت سے اپنا نام درج تاریخ کرچکے ہیں۔ وہ بیک وقت ناول نگار، افسانہ نگار، تنقید نگار، شاعر اور سفر نامہ نگاری کے میدان میں اپنا پرچم لہرا چکے ہیں۔ان کا تعلق جرمن میں درس و تدریس سے ہے، وہ اردو پنجابی، انگریزی اور جرمن زبان تو جانتے ہی ہیں اور بھی نہ جانے کتنی یوروپی زبانوں سے واقف ہیں، آدھی دُنیا سے زیادہ کی سیر کرچکے ہیں اور ابھی جذبہ جوان ہے، اللہ کرے پوری دُنیا کی سیر کرلیں۔
اردو زبان میں عربی کے واسطے سے سفر کے لیے دو طرح کے محاورے رائج ہیں۔ ایک تو سفر کو وسیلہ ظفر ماننا ہے اور دوسرا سفر کو جہنم سے تعبیر کرنا ہے۔ میرے خیال میں یہ دونوں محاورے ایک سکے کے دو رُخ ہیں جن کو اپنے اپنے تجربات کی روشنی میں لوگوں نے الگ الگ نظروں سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ میرے خیال میں سفر کا لطف اس کی صعوبتوں کے ساتھ ساتھ اس کی یافت کی مسرت؛ دونوں میں پنہاں ہے۔ اگر سفر میں تکلیف اور پریشانیاں نہ ہوں تو پھر سفر اور گھر میں کیا فرق رہ جاتا ہے اور اگر سفر کا اختتام کچھ نئی چیزوں کی دریافت، نئی معلومات کی مسرتوں کے ساتھ نہ ہو تو پھر ایسا سفر کس کام کا؟
میں سفر نامہ نگاری کی تاریخ اور اس کی فنی حدود کا تذکرہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا کہ یہ کام ان کا ہے جو اس فن میں مہارت رکھنے کا کا دعویٰ کرتے ہیں۔ میں تو صرف سرور غزالی کے سفر ناموں پر گفتگو کرنے بیٹھا ہوں کہ اس میں کیا ہے، کیسا ہے اور کیسے ہے۔ کیا نہیں ہے یہ گفتگو اس لیے مناسب نہیں کہ میں نے سفر نامے کی تاریخ نہیں پڑھی ہے۔ یہ اعتراف اس لیے ضروری ہے کہ کل کو کوئی یہ نہ کہہ دے کہ دعویٰ تو بہت بڑا کیا تھا، لیکن میں اس کو بڑا آدمی سمجھتا ہوں جو اپنی کمی کا اعتراف کرتا ہے۔ میں خود کوئی بڑا آدمی تو نہیں مگر اپنی کمیوں اور کوتاہیوں سے بھی ناواقف نہیں ہوں۔ اس لیے مجھے اس کے اعتراف میں کسی قسم کی جھجک محسوس نہیں ہوتی۔ پھر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ہر شخص لامحدود علم رکھنے والا ہوہی نہیں سکتا ہے۔ یہ سعادت اسے ہی نصیب ہوتی ہے جسے اللہ چاہتا ہے۔
اس تمہیدی گفتگو میں، میں نہ جانے کیا کیا لکھ گیا ہوں۔ مگر جب لکھ چکا ہوں تو آپ اسے چاہیں نہ چاہیں برداشت کرلیں۔ میں نے سرور غزالی کے ناولوں کا مطالعہ بھی کیا ہے اور ان کے افسانوں کی بھی سیر کی ہے۔ ان کی شاعری بھی پڑھی اور سنی ہے۔ اور ان کے انٹرویو کا بھی سامنا کیا ہے۔ ان سے دوبدو گفتگو بھی ہوئی ہے اور ٹیلیفون پر بھی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ میں اپنی رائے کا بلاجھجک اظہار کرتا رہتا ہوں جسے وہ بڑی خموشی سے سنتے ہیں۔ مجھے ان کے ناولوں اور شاعری سے زیادہ ان کے افسانے پسند ہیں کہ ان کے افسانوں میں مشرقی اور مغربی طرز معاشرت و معیشت پر بڑی بے باکانہ مگر نہایت فن کارانہ گفتگو کی گئی ہے۔ ان کے افسانچے بھی اس فن پر ان کے عبور کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ سرور غزالی ایک فن کار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑا دل بھی رکھتے ہیں جو اپنی کمیوں کو سننے اور برداشت کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے۔ ویسے وہ بے حد مخلص اور منکسر المزاج ہیں۔ غالباً اسی لیے میری باتیں خموشی سے سن لیتے ہیں اور یہ میرے خیال میں انسان کو بڑا بنانے والی خوبی ہے۔ جو فن کار کو بھی بڑا بناتی ہے۔ سرور غزالی کے سفر ناموں کے مجموعہ کا نام بے حد معنی خیز ہے: ”سفر ہے شرط“ آتش کی غزل کے ایک مصرعے کا تین لفظ ایک جہانِ معنی رکھتا ہے۔ یہ سفر کے لیے اکساتا بھی ہے، اس کی خصوصیتوں سے واقف کراتا ہے اور اس کی حصولیابیوں پر بھی روشنی ڈالتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ کامیابیوں سے ہم کنار صرف وہی ہوتے ہیں جو سفر پر کمر بستہ ہوتے ہیں۔ جو سفر کے لیے تیار ہی نہیں ان کے استقبال کے لیے بھی کوئی سامنے نہیں آتا ہے۔ اس میں یہ درس بھی پوشیدہ ہے کہ سفر کے بغیر کامیابی ممکن نہیں ہے۔ موتیوں کے حصول کے لیے دریا میں اُترنا شرط ہے۔ کنارے پر بیٹھ کر لہریں گننے سے موتیاں حاصل نہیں ہوتیں۔
”سفر ہے شرط“ میں آپ کو مختلف قسم کے اسفار کی تفصیل ملے گی۔ کچھ تو ایسے اسفار ہیں جو ادبی مجالس میں شرکت کی غرض سے کیے گئے ہیں، ان میں ان مقامات کے ادیبوں، فنکاروں اور وہاں کی ادبی مصروفیات سے روشناس کرایا گیا ہے۔ بنگلہ دیش کے سفر کی نوعیت ایسی ہی ہے، نیز اس میں پرانی یادوں کے کھنڈر کی تلاش اور تڑپ کی بھی جھلکیاں ملتی ہیں۔ پاکستان کے مختلف شہروں کے اسفار بچپن کے کھلنڈر پن کی تصویر کشی کرتے نظر آتے ہیں نیز وہاں کی معاشرتی اور معاشی و سماجی صورت حال پر بھی اچھی نگاہ ڈالی جاتی ہے۔ یورپ اور خلیجی ممالک کے اسفار کی نوعیت جداگانہ ہے۔
سرور غزالی کو تاریخ بیان کرنے اور جغرافیائی معلومات مہیا کرانے کی مہارت حاصل ہے۔ ختم سفر کے بعد آپ محسوس کریں گے کہ آپ سیر و تفریح کے علاوہ معلومات کی ایک وسیع دُنیا سمیٹ کر واپس لوٹے ہیں۔ طرز معاشرت، تہذیب و ثقافت، اقتصادیات، سماجیات کے تعلق سے آپ کی ذہنی وسعت اور کشادگی فکر و خیال کو اپنے اندر اترتا ہوا محسوس کرائے گا۔ ”سیرو فی الارض“ کی حقیقتوں سے بھی پردہ اُٹھتا ہوا نظر آئے گا۔ انسان کو اپنی اور اپنے خالق کی تلاش اور پہچان کی راہیں صاف صاف دکھتی نظر آئیں گی۔ غور و فکر کی مختلف منازل سے گذارتے ہوئے یہ اسفار زندگی کے حقائق سے پردہ اُٹھاتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ان کا مطالعہ محض وقت گذاری کی نیت سے نہ کرتے ہوئے اس کے بطون میں اُترتے اور بین السطور جھانکنے کی غرض بھی ہونی چاہئے۔
سرور غزالی کا انداز بیان بے حد دل کش اور دل چسپ ہے۔ ان کے اسفار کے مطالعہ کے دوران آپ کو فکشن کا سرور اور انشائیہ کی ترنگ کا احساس تو ہوگا ہی ساتھ ہی ساتھ ڈراما کی کیفیت اور افسانوں کا لطف بھی محسوس ہوگا۔بوجھل بینی کا احساس نہیں ہوگا۔ اختتام سفر پر آپ ذہنی کشادگی، وسعت قلبی اور روحانی سکون اور معلومات کے خزانوں سے بیش قیمتی موتی چن کر خود نکلتا ہوا محسوس کریں گے۔
کسی شاعرکا ایک شعر ہے ؎
مزہ برسات کا چاہو تو ان آنکھوں میں آبیٹھو
سیاہی ہے، سفیدی ہے، شفق ہے ابرباراں ہے
”سفر ہے شرط“ کا مطالعہ صحراؤں میں کھلے ہوئے گلزار کی سیر کا مزہ دے گا۔ معلومات کا خزانہ انڈیلتا ہواخوابیدہ احساس کو بیدار کرتے ہوئے فکر و شعور کی نئی راہ پر لے چلے گا، نیز نئی منزلوں کی تلاش پر کمر بستہ ہونے کی ترغیب دے گا۔
ادبی دُنیا میں عام سفر ناموں کی راہ سے الگ ہٹ کر لگائی گئی اس راہ کی دستک دیر تک اور دور تک سنائی دے گی۔ میں سرور غزالی کو ان کی اس خوب صورت کاوش پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں اور سفرناموں کی پرانی انجمن میں ایک نئی شمع کا استقبال کرتا ہوں۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:کتاب : تماشائے اہل کرم (سفرنامہ)