اظہار خضر
اولڈ سیٹی کورٹ
نزد اوما پیٹرول پمپ،پٹنہ۔800007
موبائل۔ 9771954313
اردو کی خودنوشت سوانح عمریوں میں مولانا ابوالکلام آزادؒ کے ”تذکرہ“ کا ایک مقام و مرتبہ ہے۔ محمد عبدالشاہد خاں شروانی (اور ینٹلسٹ، لٹن لائبریری، مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ) مولانائے موصوف کے مجموعہ مکاتیب ”کاروان خیال“ کے مقدمہ میں اس کی شان نزول پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
۱۔ ”مولانا کی عمر قمری حساب سے پورے ساٹھ ٦٠ کی ہے۔ ١٣٠٥ ہجری میں مکہ معظّمہ میں ولادت باسعادت ہوئی۔”غبار خاطر“ اور ”کاروان خیال“ ١٣٦٥ ہجری میں شائع ہوئیں…….. پورے تیس ٣٠ سال قبل جبکہ آفتاب عمر نصف النہار پر پہونچا ہو ا تھا، مولانا کی خودنوشت سوانح عمر ی ١٣٣٥ ہجری میں ”تذکرہ“ کے نام سے شائع ہو ئی تھی۔ مرزا فضل الدین احمد صاحب کے اصرار سے مولا نے اپنے بزرگوں کے حالات لکھے تھے۔ اصرار شدید پر کچھ اپنا حال بھی لکھنا پڑا۔“
۲۔ ”بڑے لوگوں میں ایسے خوش نصیب کم ہوتے ہیں جن کی سوانح عمریاں ان کی زندگی میں مرتب ہو جائیں۔ اس معاملہ میں مولانا خوش نصیب ہیں۔“
یہ وہی فضل الدین احمد ہیں جو ”تذکرہ“ کے مرتب ہیں اور جن کے شب و روز مولانا کی صحبت میں گزرے۔ انھوں نے بھی ”تذکرہ“ کے مقدمہ میں ان باتوں کی خبر دی ہے۔ مولانائے موصوف نے اس کے حصہ اول میں اپنے خاندان اور دیگر بزرگان سلف کے احوال قلم بند کیے جو قریب پانچ سو ٥٠٠ صفحات پر پھیل گئے۔ احوال بزرگان سلف کا اختتامی مرحلہ جب مولانائے موصوف کے والد بزرگوار کے بیان پر تکمیل کو پہنچا تو فضل الدین احمد صاحب کے صبر کا پیمانہ چھلک آیا کیونکہ وہ تو چاہتے تھے کہ مولانا اپنے حالات قلم بند کریں۔ اصرار شدید پیہم کے بعد مولانا نے چند صفحات ۱؎ پر مشتمل اپنے ذاتی حالات لکھ کر فضل الدین احمد صاحب کے پاس بھیجوادیے۔
اپنے ذاتی حالات و کو ائف کو پردۂ اخفا میں رکھنے کا مولانا کا یہ ذہنی رویہ فضل الدین احمد صاحب کو ہرگز قابل قبول نہ تھا لہٰذا انھوں نے یہ تہیہ کیا کہ بقیہ حالات وہ خود قلم بند کریں گے۔ اس مقصد کی خاطر انھوں نے ایک سوالنا مہ تیار کیا جو پندرہ سوالات پر مشتمل تھا۔ کسی طور پر وہ اس سوالنامہ کے جوابات مولانا سے لکھوانے میں کامیاب ہوئے۔ چنانچہ فضل الدین احمد صاحب مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ میں نے حتی المقدور اس بات کو ملحوظ رکھنے کی کوشش کی کہ جوابات کی شکل میں لکھی گئیں مولانا کی تحریروں کو بجنسہ درج کردوں لیکن چونکہ شرح و بسط کے ساتھ حالات و واقعات زندگی کو رقم کرنے میں مولانا کی یہ تحریریں ناکافی تھیں اور یہی وجہ ہے کہ داستان حیات کے سلسلہ کلام کو مزید دراز کرنے کی ذمہ داری انھوں نے اپنے سرلے لی۔ لیکن افسوس کہ ان کی یہ کاوش منظر عام پر نہ آسکی اور اس طرح مولانا کے مفصل حالات زندگی صفحۂ قرطاس پر آتے آتے رہ گئے۔ اس سلسلے میں مالک رام صاحب ر قم طر از ہیں:
”یہ سارا مسودہ دوسرے حصے میں شائع کرنے والے تھے۔ لیکن حالات نے کچھ ایسی صورت اختیار کرلی کہ وہ مولانا کی رہائی سے پہلے ہی کلکتہ چھوڑ کر پنجاب چلے آئے۔ ١٩٢١ء میں وہ لد ھیانہ میونسپل کمیٹی میں سکتّز کے عہدے پر فائز تھے، جب ترک موالات کی تحریک نے زور پکڑا تو وہ بھی ملازمت ترک کرکے اپنے وطن چلے گئے۔ جہاں غالباً ١٩٢٢ء میں ان کا اچانک انتقال ہو گیا۔ مولانا آزاد نے اپنی زندگی میں بقیہ مسودہ حاصل کرنے کی بہت کوشش کی تھی۔ خاص آدمی تک مرزا صاحب کے مکان پر بھیجا، ان کے لواحقین اور پس ماندگان نے اس کے کھوج نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن بے سود، یہ دستیاب نہ ہوا۔“
(بہ حوالہ”تذکرہ“ مرتبہ: مالک رام)
حالانکہ ”تذکرہ“ کے ابتدائی صفحات میں مولانا نے تشخص کی برتری اور اہمیت و انفرادیت کے ضمن میں جس فکر انگیز خیال کا اظہار کیا ہے اس سے ان کی دقیق نظری اور فکر و نظر کی آفاقیت پر ایمان لانا پڑتا ہے۔ ان کے اس خیال سے اس بات پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ شخصی اور انفرادی صلا حیتیں ہی وہ بنیاد ہے جس پر کسی غیر معمولی شخصیت کے جوہر ذاتی کی عمارت کی تشکیل و تعمیر کی جاسکتی ہے۔ یعنی زمانہ ساز اور قدآور شخصیتوں کی شناخت ان کے کارہائے نمایاں سے ہی ہوتی ہے۔ اس لیے ایسی شخصیتیں نہ تو دب سکتی ہیں اور نہ ہی دبائی جاسکتی ہیں:
”انسان کے لئے معیار شرف، جوہر ذاتی اور خود حاصل کردہ علم و عمل ہے۔ نہ کہ اسلاف کی روایات پارینہ اور نسب فروشی کا غرور باطل۔ ہم کو ایسا ہونا چاہیے کہ ہماری نسبت سے ہمارے خاندان کو لوگ پہچانیں نہ یہ کہ اپنی عزت کے لئے خاندان کے شرف پارینہ کے محتاج ہوں۔ ارباب ہمت نے ہمیشہ اپنی راہ خود نکالی ہے اور اپنی عظمت و رفعت کی تعمیر صرف اس سامان سے کی ہے جو خود ان کا بنا یا ہوا تھا۔“
یہ ہے شخصی بر تری اور انفرادی خصوصیتوں کا ایک آفاقی اور ہمہ گیر نظر یہ جو مولانائے موصوف کے پیش نظر تھا۔ چنانچہ زیر نظر اقتباس مولانا کے فکر ی رجحان کی ایک عملی شکل ہے جو خود ان کی شخصیت کا پرتو نظر آتا ہے کیونکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ مولانا کی نسبت سے ان کے خاندان کی پہچان ہے نہ کہ ان کے خاندان کی نسبت سے مولانا کی شناخت ہے۔ اس کے باوجود مولانا نے اپنے سوانحی حالات نیز اپنی قاموسی شخصیت کو اجاگر کرنے سے پہلو تہی کی اور اس عمل کو ”تمسخرانگیز“ کہہ کر ٹال دیا۔ حالانکہ زمانہ مولاناؔ کے مہتم بالشان کارناموں کے سامنے کل بھی سر نگوں تھا اور آج بھی سر نگوں ہے۔ لہٰذا اگر وہ اپنے تجربات و حوادث کی مزید دستاویز کی ضیا باری اپنی نوک قلم سے کر دیتے تو بہ قول فضل الدین احمد صاحب اردو لٹریچر میں ایک اضافہ ہوتا۔ اور ہم جیسے تشنگان علم و ادب کی پیاس بھی بجھ جاتی۔ لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے ”تذکرہ“ کی اشاعت اس وقت ہوئی جب مولانا کا آفتاب عمر نصف النہار پر تھا۔
یعنی زندگی کی تیس ٣٠ بہاریں دیکھ کر موسم حیات کی اگلی منزل میں قدم رکھنے والے تھے۔ ممکن ہے کہ مولانا کے ذہن میں یہ خیال ہو کہ جب آفتاب عمر نصف النہار سے گزر کر جبین افق پر پھیلتی شفق کی لالی میں غروب ہونے کے قریب آجائے تو لیل و نہار کی گرد شوں کو شفق کی قدم بوسی کی اجازت دی جائے۔ لیکن ان کے مداحوں کو اتنی قوت صبر کہاں کہ مشرق سے مغرب تک طلوع و غروب کے سفر کا انتظار کرتے۔ لہٰذا بہتر یہی سمجھا کہ مولانا کی علمی، ادبی اور سیاسی سر گرمیاں اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہیں اور ان سے نکلتی ہوئی شعاعیں بساط عالم کو منور کر رہی ہیں، اس لیے ان منور کرتی ہوئی شعاعوں کو ہی سفر حیات کا ماحصل سمجھ کر ان پر لفظوں کی چادر اوڑھادی جائے۔ حالانکہ یہ آفتاب تازہ ابھی پیکر جلال کی صورت میں آسمان علم و دانش پر چمک رہا تھا۔ اس لیے یہ قرین قیاس ہے کہ مولانا جیسی عبقری شخصیت کی نگاہوں کے سامنے یہ فلسفہ ضرور پیش نظر رہا ہوگا کہ زوال آفتاب اس کی حیات تازہ کا تازیانہ نہیں بلکہ حیات کی تازہ کاریوں کا شادیانہ ہے۔ اور یہی وہ منزل ہے جب جلال و جمال کی صورت گری ہوتی نظر آتی ہے۔ یہ فکر و شعور کی ایک انتہائی بالیدہ منزل ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ”تذکرہ“ کے آخری صفحات جو ان کے حالات زندگی پر مشتمل ہیں ان کی عالمانہ شخصیت کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔ غور فرمائیے کہ تیس ٣٠ برس کی عمر میں لکھی گئی ان تحریروں کاجب یہ حال ہے تو اس وقت کیا صورت ہوتی جب حیات، افکار و خیالات اور تشخص کی انتہائی سطح پر پہنچ کر ایک زمانہ ساز ذات کی صورت میں اپنی شناخت بنا چکی تھی۔
لکھی جائیں گی کتاب دل کی تفسیریں بہت
ہوں گی اے خواب جوانی تیری تعبیریں بہت
اپنے حالات نہ رقم کرنے کے سلسلے میں مولانا کے اس گریزانہ ذہنی رویہ کو میں ان کی کسر نفسی پر محمول کرتا ہوں۔ البتہ اتنی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ مولانا کے نزدیک اپنے بزرگان سلف کے کار ناموں کو اجاگر کرنا مقدم تھا سو انھوں نے کیا۔ بہ قول فضل الدین احمد صاحب بزرگوں کے بیان میں جتنا طول پکڑتا جارہا تھا میرے صبر کا پیمانہ چھلکتا جارہا تھا۔ میں بار بار اختصار پر زور دیتا رہتا تھا لیکن انھوں نے لکھا کہ:
”میری طبیعت میں رکاوٹ پیدا نہ کرو۔ جو کچھ بے اختیار قلم سے نکل جاتا ہے بھیج دیتا ہوں۔ جمع کرتے جاؤ ہر حال میں فائدہ ہوگا“
مطلب یہ کہ اس بات سے حتی الا مکان بچنے کی کوشش کی جارہی تھی کہ مولانا کی یہ سوانح عمری حسبی و نسبی بن کر نہ رہ جائے۔ چنانچہ ”تذکرہ“ کا پہلا حصہ جو سر اسر مولانا کی تصنیف ہے واقعتا حسبی و نسبی بن کر رہ گیا۔ ہر چند کہ اس حصہ میں انھوں نے اپنے خاندان کے جن بزرگوں کے حالات قلم بند کیے ہیں وہ معلومات اور علم و دانش کا ایک بیش بہا خزانہ ہے۔
٭٭٭
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: ’ظفر کمالی: شخصیت اور فنی جہتیں‘ : ایک مثالی کتاب