’ظفر کمالی: شخصیت اور فنی جہتیں‘ : ایک مثالی کتاب

’ظفر کمالی: شخصیت اور فنی جہتیں‘ : ایک مثالی کتاب

محمد ولی اللہ قادری
گورنمنٹ انٹر کالج ضلع اسکول، چھپرا ( بہار)
Email : mdwaliullahquadari@gmail.com
Mobile & WhatsApp: 9852234311

معاصرین کے مابین ادبی رقابت کی مثال اردو زبان و ادب میں آسانی سے مل جاتی ہے۔ البتہ معاصرانہ رفاقت کا نمونہ خال خال نظر آتا ہے۔ عہد حاضر میں تو معاصرانہ رفاقت کی مثال تلاشنا عقل مندی نہیں۔ اس کے باوجود عہد حاضر میں ظفر کمالی اور صفدر امام قادری کی ادبی رفاقت کو مثالی اور قاضی عبد الودو اور کلیم الدین احمد کی رفاقت کا عکس ثانی قرار دیا جائے تو ذرہ برابر مبالغہ نہیں ہوگا۔ جس طرح کلیم الدین احمد نے معاصر کا قاضی عبد الودو نمبر شائع کیا تھا اسی طرح ’ظفر کمالی: شخصیت اور فنی جہتیں‘ جیسی معتبر اور ضخیم کتاب مرتب فرما کر اور کلیم الدین احمد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صفدر امام قادری نے اردو زبان کے قارئین کی خدمت میں ایک شان دار تحفہ پیش کیا ہے۔ یہ کتاب من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو کا مصداق ہرگز نہیں ہے بلکہ ایک ادبی فریضہ ادا کیا گیا ہے، جیسا کہ صفدر امام قادری نے عرض مرتب میں لکھا ہے :
’’ظفر کمالی پر یہ مجموعۂ مضامین حقیقت میں اُن سے ہماری جو درینہ محبت ہے، اس کے اظہار کا بھی ایک موقع ہے۔ شہرت اور ناموری سے کوسوںدور رہنے والے اور ادبی بھیڑ تماشے سے پناہ مانگنے والے آدمی کے قدموں میں آ کر عزّت اور نام وری لوٹ رہی ہے۔ یہ اب سب دیکھ رہے ہیں۔ اب سے تیس پینتیس برس پہلے ادبی کاوشوں کے ابتدائی دور میں ہمارے ذہن میں ظفر کمالی کی ابھرنے والی ادبی اور علمی شخصیت کے مستقبل کا جو نقشہ بننا تیار ہوا تھا، اسے پیشین گوئی تو نہیں کہا جا سکتا مگر دل میں کہیں نہ کہیں یہ بات تھی کہ وہ کئی پہلوؤں سے بساطِ اردو ادب پر ایک نہ ایک دن نمایاں ہوں گے۔ ان کے مطالعے، ریاضت، انہماک اور ذہانت نے ہمارے زمانے میں ایک ایسا بُت قایم کر دیا ہے جس کی کوئی دوسری مثال آسانی سے نہیں مل سکتی۔‘‘ ص۔ ۵۱
صفدر امام قادری اپنے مذکورہ نظریہ میں منفرد نہیں بلکہ مرتب کی رائے کو جناب عامر سبحانی چیف سکریٹری حکومت بہار، پٹنہ کی رائے سے تقویت مل رہی ہے. جناب عامر سبحانی فرماتے ہیں:
’’ساہتیہ اکادمی ایوارڈ برائے ادبِ اطفال اِن کو دے کر اس ایوارڈ کی عزّت افزائی ہوئی۔ حالاں کہ ظفر بھائی نے ادب کے ہر میدان کی مشق کی ہے اور کئی جہتوں سے اُن کو ایوارڈ دیا جانا چاہیے لیکن آج اس ناقدری کے دور میں ایک جہت سے بھی ایوارڈ مل جانا بہت بڑی بات ہے۔‘‘ ص۔ ۱۷
ظفر کمالی کی فنی جہات کے سلسلے میں صفدر امام قادری نے جو نظریات بالخصوص نثر کے حوالے سے پیش کیا ہے وہ اس قدر مستحکم ہے کہ عصبیت پسند ناقد ہی اس سے انکار کر سکتا ہے۔ مشہور فکشن نگار اور ناقد پروفیسر غضنفر علی نے دل لگی بات لکھی ہے، موصوف لکھتے ہیں:
’’اچانک صفدر امام قادری کا ایک جملہ میرے ذہن میں گونج اٹھا، جو انھوں نے میرے اس سوال کہ اردو تنقید و تحقیق میں اس وقت سب سے اچھی نثر کون لکھ رہا ہے، کے جواب میں برسوں پہلے دیا تھا کہ سب سے اچھی اور معیاری نثر ظفر کمالی لکھ رہے ہیں۔
میری طرح صفدر کی رائے سے آپ کو بھی اتفاق کرنا پڑے گا کہ صفدر امام قادری ادب میں کسی کے ساتھ بھی دوستی یا دشمنی نہیں نبھاتے۔ نارنگ ہوں یا فاروقی یا ان کے محسن و مربی وہاب اشرفی، وہ کسی کو نہیں بخشتے تو ایسا بے باک اور نڈر آدمی اس شخص کو بھلا کیسے بخش دیتا جو اتفاق سے اس کا کمپیٹیٹر بھی رہا ہو۔ جب ایسا بے لاگ نقاد اپنے کمپیٹیٹر کی تعریف کرے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ شخص کتنا زور دار اور کمال کا آدمی ہوگا۔‘‘ ص۔ ۹۹۔۹۸
ظفر کمالی: شخصیت اور فنی جہتیں در اصل بزم صدف انٹرنیشنل کی جانب سے ظفر کمالی کی خدمت میں نایاب تحفہ ہے۔ ظفر کمالی کی شخصیت اور خدمات کے اعتراف میں بزم صدف نے ۲۰؍ نومبر ۲۰۲۲ ء کو شان دار سے می نار کیا۔ پھر سال بھر کے اندر ہی سے می نار کے مقالات کو ادبی دنیا میں پیش کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بزم صدف انٹرنیشنل ایوارڈ سے بھی انھیں نواز کر بزمِ صدف نے ہماری خوشی دو بالا کر دی۔ کتاب میں چند مقالات پہلے کے بھی ہیں لیکن اُن کی اہمیت و افادیت مسلم ہے۔ کتاب کی ترتیب درج ذیل لحاظ سے کی گئی ہے۔ ابتدائیہ، کلیدی خطبہ، شخصیت، تحقیق، رباعی گوئی، ظرافت، نظموں کے تجزیے، ادب اطفال اور شعری تاثرات۔ ابتدائیہ میں جناب عامر سبحانی کا خطبہ بھی شامل ہے جسے سے می نار کے افتتاح کے موقع پر دیا گیا تھا۔ اس خطبے سے جہاں ظفر کمالی کی شخصیت پر روشنی پڑتی ہے، وہیں عامر سبحانی کے ذوق مطالعہ کا ثبوت فراہم ہو جاتا ہے۔ وقت کی کمی کی شکایت اور مصروفیات کا عذر کرنے والے افراد کے لیے عامر سبحانی کا خطبہ عبرت کا درس دے رہا ہے۔ علاوہ ازیں ظفر کمالی نے جو خطبہ سے می نار میں دیا تھا اس کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ابتدائیہ میں صفدر امام قادری کا ایک مضمون بھی شامل ہے۔ یہ مضمون ظفر کمالی کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کے اعلان کے فوراً بعد لکھا گیا ہے. اس میں ظفر کمالی کی چالیس سالہ خدمات کا اجمالی خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں ایک جگہ ہماری نظر رک گئی ’’جو مشہور لوگ ہیں، ان کے پاس خدا کے فضل سے خانہ علم خالی ہے‘‘ کسی شخص کے عیوب کے لیے فضل خدا کو سبب قرار دینا درست نہیں، اس طرح کاجملہ لکھنے سے احتراز ضروری ہے۔ کلیدی خطبہ ’ظفر کمالی کا تخلیقی جہاں‘ امتیاز وحید نے لکھا ہے جس میں انھوں نے ظفر کمالی کی شخصیت اور فن پر اچھی خاصی محنت کی اور ان کی جملہ خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ پتا نہیں کیوں ان کی مذہبی شاعری اور غزل گوئی کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا ہے۔ بہر کیف کلیدی خطبہ کے بعد شخصیت کے متعلق گیارہ مضامین شامل ہیں۔ ان میں ظفر کمالی کی خود نوشت ’آمد نامہ‘ کے عنوان سے ہے جس میں ظفر کمالی نے اپنے اور خاندان کے متعلق تفصیل سے اطلاعات دی ہیں۔ تعلیم و تربیت کے علاوہ اپنے مزاج کی روا داری کو پیش کیا ہے۔ اپنی خود نوشت میں بتایا ہے کہ اُن کے دادا خواجہ سراے چھپرا سے ہجرت کر کے رانی پور سیوان بسے۔ یہ جملہ پڑھنے کے بعد مرتب صفدر امام قادری اور ظفر کمالی کی رفاقت کا ایک راز اور کھل گیا کہ صفدر امام قادری کے اجداد بھی کریم چک چھپرا سے ہجرت کر کے بتیا تشریف لے گئے۔ گویا کہ دونوں بزرگوں کی دوستی کا ایک سبب ہم وطنی بھی ہو سکتا ہے۔ ظفر کمالی نے خود نوشت میں مذہبی لحاظ سے روادار ہونے کا دعویٰ کیا اور ان کے اس دعوے پر دو چار شخصیات نے آمنا صدقنا بھی کہا ہے۔ معمولات عمل کے لحاظ سے درست ہے لیکن فکری اعتبارسے اس میں پوری صداقت نہیں ہے۔ پہلے ظفر کمالی کا دعویٰ ملاحظہ کریں:
’’ہمارے یہاں بیشتر علما کا المیہ یہ ہے کہ ایک طرف وہ اتحادِ بین المسلمین کا نعرہ لگاتے ہیں دوسری جانب مسلکی اختلاف کو ہوا بھی دیتے ہیں اور وہ مسائل جو خواص کے درمیان رہنے چاہیے انھیں عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ میرے خیال میں علماے کرام کو اپنے اپنے مسلک پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دوسرے فرقوں کے ساتھ ایک نقطۂ اتّصال تلاش کرنا ہی ہوگا۔ میں خود کو نہ دیوبندی سمجھتا ہوں اور نہ بریلوی بلکہ اپنے کو صرف حنفی کہتا ہوں اور اختلافی اور فروعی موضوعات پر خموشی کو ترجیح دیتا ہوں۔ مذہبی مباحثے کے معاملے میں اکبر الہٰ آبادی کے اس شعر پر عمل کرتا ہوں:
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں‘‘ ص ۹۴۔۹۳
پیش نظر اقتباس میں مسلکی اختلاف کا پورا پورا ذمہ دار علما کو دینا میرے خیال میں درست نہیں لگتا اس لیے کہ میرا محتاط نظریہ ہی نہیں بلکہ تجربہ ہے کہ مسلکی شدت جس قدر ادبا و شعرا کے اندر ہے وہ علما کے اندر نہیں۔ یہ دیگر بات ہے کہ معاشی لحاظ سے کمزور طبقہ کا عیب سب کو ہی نظر آتا ہے جہاں تک ظفر کمالی کے مسلکی نظریے کی بات ہے تو میرے خیال سے ان کے اندر شدت پسندی تو نہیں لیکن دیوبندی مسلک سے متاثر ہی نہیں مرعوب پایا، کیوں کہ ان کی پوری شاعری میں پیر و مرید کی اصلاح کی کوشش تو بہ طور طنز نظر آتی ہے البتہ تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کی نہیں۔ اسی طرح پروفیسر ناز قادری مرحوم کا نعتیہ مجموعہ ’سلسبیل نور‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے ظفر کمالی نے واضح کر دیا ہے کہ ان کا مسلکی نظریہ کیا ہے؟ کیوں کہ نعت کے جن اشعار میں پروفیسر ناز قادری مرحوم نے توحید کا نظریہ پیش کیا ہے، ان اشعار میں ظفر کمالی کو شرک کی بو نظر آتی ہے۔ یہاں مثال دینے کی قطعی گنجائش نہیں ہے۔ مجموعی طور پر ظفر کمالی صاحب کی خود نوشت قابل مطالعہ اور محققین کے لیے بنیادی مآخذ ہے۔ خود نوشت کے بعد غضنفر کا لکھا خاکہ جس کا عنوان ’مرکزی افق پر حاشیائی شفق کی شعاعیں‘ ہے۔ اس خاکے میں غضنفر صاحب نے ظفر کمالی کی شخصیت کے بارے میں ایک ایک بات صحیح لکھی ہے۔ ظفر کمالی کی مہمان نوازی کی جن خوبیوں کا ذکر فرمایا ہے، اس کا گواہ راقم الحروف بھی ہے۔ قطب الدین اشرف کا مضمون ’میں تم کو کیسے بھول جاؤں؟‘ بہت مزے دار ہے۔ اس مضمون میں ظفر کمالی کے شب و روز کا خاکہ سامنے آ جا رہا ہے۔ عہد حاضر میں ظفر کمالی جیسا دوستی نبھانے والا کم نظر آتا ہے۔ دوستوں کے احسانات کا اعتراف کرنے والا قطب الدین اشرف جیسا اردو دنیا میں خال خال نظر آتا ہے۔ ظفر کمالی کی گم نامی اور گوشہ گیری مشہور ہے لیکن ظفر کمالی گدری کے لعل کیسے ہیں اور ان کی پہچان کہاں تک ہے اس کا حال خورشید احمد خاں نے اپنے مضمون میں پیش کر دیا ہے۔ موصوف لکھتے ہیں:
’’کمالی صاحب یوں تو گمنامی کی زندگی گزارتے ہیں مگر اس گمنامی کے گوشے سے گوہر تلاش کرنے والے تلاش کر ہی لیتے ہیں۔ ایک وقت کی بات ہے جب کاظمی صاحب سارن کمشنری کے D.I.G تھے، جن کے ماتحت تینوں ضلعوں چھپرہ، سیوان اور گوپال گنج کے S.P ہوا کرتے تھے اور وہ (کاظمی صاحب) اردو ادب کے شیدائی اور اہلِ علم کے قدردان تھے لہٰذا وہ کمالی صاحب سے گوپال گنج اور سیوان میں ہمیشہ محبت سے ملتے رہے۔ ایک مرتبہ کمالی صاحب نے بڑی ہی دھیمی آواز میں کہا کہ دیکھیے اردو ادب کہاں کہاں کس کس سے ملاقات کراتا ہے۔‘‘ ص۔۱۳۰
معصوم عزیز کاظمی اور ظفر کمالی کے تعلقات کا پتا مذکورہ بالا اقتباس سے ہو رہا ہے۔ دونوں کی ایک ملاقات کی روداد نادر رضوی نے ڈرامائی انداز میں پیش کیا ہے۔ راقم مولانا سراج نادر رضوی کی شاعری کا قائل تھا لیکن کتاب میں شامل مضمون ’ڈاکٹر ظفر کمالی:ایک مخلص انسان‘ پڑھ کر نادر رضوی کی نثر نگاری کا بھی قائل ہو گیا۔
زیادہ تر شخصیات کا حال یہ ہوتا ہے کہ احباب اور معتقدین و تلامذہ کے مابین عظیم ہوتے ہیں لیکن گھر اور گاؤں میں کچھ وقعت نہیں، اس سلسلے میں ظفر کمالی مستثنٰی ہیں۔ اس بات کی گواہی جاوید اقبال کے مضمون سے مل جا رہی ہے کہ ظفر کمالی کی شخصیت ہر جگہ مسلم ہے۔ جاوید اقبال نے اپنے بھائی کے سلسلے میں جس حقیقت کا مظاہرہ کیا ہے وہ بہت خوب ہے۔ علم الانساب کے حوالے سے معلومات ہوں یا بھائیوں کی تعلیم و تربیت کا خیال یہ سب باتیں اب کہاں دیکھنے کو ملتی ہیں؟ جاوید اقبال نے ظفر کمالی کے سلسلے میں ایک ایسی اطلاع دی ہے جو عموماً احباب کے ذریعے ملتی ہے، جیسا کہ جاوید اقبال رقم طراز ہیں:
’’انھیں مشہور فلموں کو دیکھنے کا بھی شوق تھا۔ مجھے یاد ہے کہ بھائی جان نو عمر اداکاروں میں عامر خان کو بہت پسند کیا کرتے تھے اور ۱۹۹۲ء میں رانی پور میں ہم لوگ اپنے نئے گھر میں منتقل ہوئے تو اس وقت ان کے بڑے بیٹے اور میرے بھتیجے احمد نوید کی ولادت ہونے والی تھی۔ اس وقت انھوں نے اپنے کمرے میں عامر خان کی ایک تصویر بھی لگائی تھی۔ پتا نہیں یہ ان کی ذاتی پسند کا معاملہ تھا یا بھابھی جان کی فرمایش تھی۔ بڑوں سے سنا ہے کہ ایّام حمل کے دوران کسی خوبصورت تصویر کو غور سے دیکھا جائے تو ہونے والا بچّہ بھی خوبصورت ہوتا ہے۔ مجھ سے بڑے بھائی جناب اختر جمال عرف بادل نے ۱۹۸۶ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور گھومنے (دنیا دیکھنے) کی غرض سے پٹنہ گئے تو بھائی جان نے انھیں پٹنہ کی خوب سیر کرائی۔ بادل بھائی بچپن سے فلموں کے بڑے شوقین رہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ چھوٹے بھائی جان پٹنہ کی سیر کراتے ہوئے انھیں گاندھی میدان لے گئے اور وہاں کے تین مشہور سنیما ہال کو دکھایا۔ بادل بھائی فلم ’محبت‘ دیکھنا چاہتے تھے مگر ہمت نہیں کر سکے اور چھوٹے بھائی جان کے ساتھ پوسٹر دیکھ کر ہی انھیں مایوس واپس ہونا پڑا۔‘‘ ص۔۱۴۱
پیش نظر اقتباس کو مذہب کا ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے دیکھا تو یہ بات ضرور کھٹکی کہ ’بڑوں سے سنا ہے کہ ایام حمل کے دوران کسی خوبصورت تصویر کو غور سے دیکھا جائے تو ہونے والا بچہ بھی خوبصورت ہوتا ہے‘۔ یہ بات قطعی درست نہیں ہے کیوں کہ تصویر کو بار بار دیکھنا بھی درست نہیں ہے اور حدیث کی روشنی میں برکت کے ختم ہونے کا سبب ہے۔ ہاں اگر صاحب جمال بزرگ کی زیارت کی جائے تو اس بزرگ کی زیارت کی برکت سے ہونے والا بچہ صاحب جمال ہو سکتا ہے۔ رہی فلمی ذوق کی باتیں تو اس پر تبصرہ عہد حاضر کا تقاضا نہیں لیکن ظفر کمالی جیسی مذہبی صفت شخصیت کے لیے قابلِ غور تو ضرور ہے۔
امتیاز سرمد اور انوار الحسن کے مضمون میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ظفر کمالی اپنے طلبہ پر بے پناہ شفقت فرماتے ہیں اور والد معنوی کا حق ادا کرنے میں بھی بے مثال ہیں۔ ظفر کمالی کے سلسلے میں ان کے احباب یہاں تک کہ ان کے برادر عزیز جاوید اقبال کا بھی ماننا ہے کہ ظفر کمالی کو سیر و سیاحت سے خاص دل چسپی نہیں ہے، لیکن تسلیم عارف نے اپنے مضمون ظفر کمالی کے ساتھ اپنے سفر کی روداد کو اس طرح سے پیش کیا ہے کہ ظفر کمالی کی ایک دوسری شخصیت سامنے آجاتی ہے۔ تسلیم عارف نے یہ بھی بتایا کہ کہ ظفر کمالی نے سفر میں بھی اپنی ظرافت نگاری کا جلوہ اس طرح بکھیرا کہ سفر کی صعوبتوں کا اندازہ بھی نہیں ہوا۔ تسلیم عارف کا مضمون پڑھ کر دل سے داد و تحسین کے الفاظ زبان سے نکلتے ہیں۔ شخصیت کے باب میں شگفتہ ناز نے ظفر کمالی کی خود نوشت کا بہترین تجزیہ کیا ہے جب کہ اظہار خضر کا تاثراتی مضمون بھی قابل مطالعہ ہے۔ پوری کتاب کے مطالعہ کے دوران شخصیت والا باب ہمیں سب سے زیادہ متاثر کر گیا۔
تحقیق کے باب میں آٹھ مضامین شامل ہیں جن میں صفدر امام قادری کے دو مضامین شامل ہیں۔ اُنھوں نے ظفر کمالی کی دونوں تحقیقی کتابیں ’متعلقات احمد جمال پاشا‘ اور’تحقیقی تبصرے‘ کا بھر پور تجزیہ اور تنقیدی مطالعہ پیش کیا ہے۔ پہلا مضمون پچیس صفحات پر مشتمل ہے جب کہ دوسرا تیس صفحات کا احاطہ کرتا ہے۔ طوالت کے باوجود دونوں مضامین علمی و فکری فیضان سے مالا مال ہے۔ ’متعلقات احمد جمال پاشا‘ کا اسلوبیاتی منظر نامہ علی رفاد فتیحی نے پیش کیا ہے۔ یہ مضمون بہت عمدہ ہے۔ یوسف ناظم کا مضمون بھی موضوع سے انصاف کر رہا ہے۔ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، محمد ذاکر حسین اور افشاں بانو کے مضامین ظفر کمالی کی کتاب تحقیقی تبصرے کے جائزے پر مشتمل ہیں۔ ہر ایک مضمون قابل مطالعہ ہے. تحقیق کے باب میں راقم الحروف کا مضمون تحقیقی تبصرے کے حوالے سے شامل ہے۔ راقم اس کے لیے مرتب کا خصوصی شکریہ ادا کرتا ہے کہ بزرگوں اور ناقدین میں شامل کر لیا ہے۔
ظفر کمالی کی رباعی گوئی کے حوالے سے بھی آٹھ مضامین ہیں۔ قاسم فریدی، نوشاد احمد کریمی اور صفدر امام قادری نے ’رباعیات ظفر‘ کے حوالے سے اپنے اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔ ’خاک جستجو‘ کا تجزیہ ظفر امام قادری نے پیش کیا ہے، ظفر کمالی کی رباعی گوئی کا اجمالی مطالعہ جہاں گیر انس نے پیش کیا ہے۔ سوغات اور شخصی رباعی کے سلسلے میں شگفتہ ناز، ظفر امام اور محمد ذاکر حسین کے مقالے ہیں. جملہ مقالوں سے ظفر کمالی کی شخصی رباعیات کے اختصاصات و امتیازات روز روشن کی طرح عیاں ہو جا رہے ہیں۔
ناقدین کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ ظفر کمالی کی خدمات میں سب سے اہم ظرافت نگاری ہے. اسی سبب ظرافت نگاری کے باب میں گیارہ مضامین ہیں۔ اس باب کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں عالم دین، صحافی، شاعر، محقق اور ناقد سبھی شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے مضامین شامل ہیں. نیز مرحومین، بزرگ اور نئی نسل کے قلم کاروں کی شمولیت اس باب کی اہمیت و افادیت کو دو بالا کر رہی ہے. مزے کی بات یہ ہے کہ یہاں بھی مرتب کا مضمون سب سے زیادہ طویل ہے۔ طوالت کے باوجود یہ مضمون دل چسپ ہے اور اکتاہٹ نہیں ہوتی۔ ظفر کمالی کی ظرافت نگاری کی انفرادیت کو متعدد حوالوں سے مزین کرتے ہوئے مرتب نے ایک سے ایک نکتہ واضح کیا ہے. مرتب نے حسب معمول دو ٹوک نظریہ پیش کیا ہے۔ ایک مقام پر صفدر امام قادری رقم طراز ہیں:
’’ظفر کمالی کثیر الجہات مصنف ہیں اور تنقید و تحقیق اور رباعی گوئی کے ساتھ ظرافت کے میدان میں بھی مستقلاً تصنیفات پیش کرتے آ رہے ہیں۔ بعض نقّادوں نے ظفر کمالی کی مجموعی خدمات کا احاطہ کرتے ہوئے اُن کی بنیادی حیثیت کے فیصلے کے مرحلے میں ظرافت ہی کو اوّلیت دی ہے۔ ظرافت سے اُن کا واسطہ مختلف فیہ ہے۔ اُنھوں نے خاکے بھی لکھے، ظرافت کے حوالے سے اچھی خاصی مقدار میں اُن کی تنقیدی و تحقیقی تحریریں بھی منظرِ عام پر آئیں مگر جس چیز نے اُنھیں طنز و ظرافت کے مرکزی منبر پر پُر وقار انداز سے متمکن کیا، وہ اُن کی ظریفانہ شاعری کے سوا کوئی دوسری شَے نہیں‘‘ ص۔۳۹۸
صفدر امام قادری کے علاوہ سید شاہ ہلال احمد قادری (ظفر کمالی کی ظرافت چند اشارے)، منظر اعجاز (ظفر کمالی کا کمال "ظرافت نامہ")، مشتاق احمد نوری (ظفر کمالی کا ظرافتی کمال)، ریحان غنی (ظفر کمالی اور ان کی ظرافتی شاعری)، عطا عابدی (ظفر کمالی کی ظرافت نگاری: چند پہلو)، ہمایوں اشرف (ظرافت نامہ ایک مختصر جائزہ)، عبد الوہاب قاسمی (ظفر کمالی کی ظرافت: اختصاصی پہلو )، محمد عارف اقبال (طنز و مزاح کا باکمال شاعر)، محمد شوکت علی (ظفر کمالی کی چند اہم نظمیں) اور شاذیہ حسن (ظفر کمالی کی ظرافت کے چند پہلو) جیسے با وقار حضرات کے مضامین کی شمولیت اس بات کا غماز ہے کہ ظفر کمالی کی ظرافت کا کمال ہر ایک شعبہ سے وابستہ حضرات کے نزدیک مسلم ہے. عناوین میں الفاظ کی یکسانیت یہاں ضرور نظر آ رہی ہے، البتہ مکررات کے عیوب سے یہ باب ہی نہیں پوری کتاب پاک و صاف ہے۔
نظموں کے تجزیہ کے تحت چار نظموں کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے. ناہید پروین نے ظفر کمالی کی نظم ’آدھار کارڈ‘ کا بہترین جائزہ لیا ہے۔ فرحت صغیر نے خوشامد کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ محمد شہزاد نے ظفر کمالی کی نظم ’تانیثیت کی حمایت میں‘ اور محمد ابو رافع نے نظم ’عرب کی کمائی‘ کا بہترین تجزیہ پیش کیا ہے. اس باب کے جملہ قلم کار کا تعلق نو وارد قلم کاروں سے ہے. اس باب کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر نئی نسل کی تربیت مناسب ہو جائے تو اردو کا رونا رونے والے افراد کی زبان بند ہو جائے گی۔’ادب اطفال‘ کے تحت تین مقالے موجود ہیں، ان میں پہلا منی بھوشن کمار کا ہے۔ انھوں نے ادب اطفال کے حوالے سے ظفر کمالی کی تینوں کتابیں ’بچوں کا باغ‘، ’چہکاریں‘ اور ’حوصلوں کی اڑان‘ کا تجزیہ عالمانہ و فاضلانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ نازیہ تبسم نے ظفر کمالی کی کتاب ’بچوں کا باغ‘ کو ادب اطفال کی ایک اہم اور معیاری کتاب تسلیم کیا ہے۔ ’حوصلوں کی اڑان‘ ظفر کمالی کی وہ کتاب ہے جس پر اُنھیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ براے ادب اطفال تفویض ہوا ہے. اس کتاب پر غالباً پہلا تبصرہ محمد مرجان علی نے کیا تھا، محمد مرجان علی کے تبصرہ مکمل ہونے کے بعد ہی متذکرہ ایوارڈ کا اعلان ہوا تھا، اسی تبصرے کو حذف و اضافہ کے ساتھ یہاں پیش کیا گیا ہے. یہ تبصرہ جامع اور بھرپور ہے. اس تبصرے کا ایک اقتباس حاضر کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے تاکہ مبصر کی تبصرہ نگاری کے فن کی مشاقی کا اندازہ ہو سکے، موصوف لکھتے ہیں:
’’حوصلوں کی اُڑان‘‘ کے اندر ذہن و فکر کے سلسلے سے ایک مکمّل دنیا آباد ہے۔ بڑوں کی شاعری کے لیے جو عام طور سے لفظی اور ذہنی تیاری کی جاتی ہے، وہی خیال اُنھوں نے بچوں کی نظم کے لیے بھی استعمال کیا ہے تاکہ بچوں کے ذہن و فکر میں ترقی ہو۔ جہاں یہ مجموعہ بچوں کے لیے تفریحی نظمیہ مواد فراہم کرتا ہے، وہیں اس میں ایک جہان معنی بھی پوشیدہ ہے جو بچوں کی ذہنی فکر اور توانائی کا موثر ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ کتاب کے سرنامے میں ہی ایک معنی پوشیدہ ہے جو ایک فلسفہ اور مُثبت سوچ کو ظاہر کرتا ہے اور ہمارے حوصلے اور فکری بلندی کی باتیں کرتا ہے، جو یہ بھی بتاتا ہے کہ اڑان پنکھوں سے نہیں بلکہ حوصلوں سے ہوتی ہے. اسی لیے یہ سرنامہ ہی بچوں کے دل میں جوش پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔‘‘ ص۔۵۰۹
شعری تاثرات میں افضل اٹکھمبوی مرحوم، زاہد سیوانی، التفات امجدی، شکیل سہسرامی، گلفام صدیقی اور امان ذخیروی نے متعدد اصناف شاعری کے توسط سے ظفر کمالی شخصیت اور خدمات کا اعتراف کیا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ظفر کمالی: شخصیت اور فنی جہتیں ایک مثالی کتاب ہے۔ اس کے باوجود ایک لحاظ سے تشنگی کا احساس ہوتا ہے کہ ظفر کمالی کی غزل گوئی پر تفصیلی مطالعہ تو دور ایک مختصر مضمون بھی شامل نہیں ہے۔ اسی طرح ظفر کمالی کی مذہبی شاعری پر ایک دو مضمون کی کمی کا احساس ہو رہا ہے۔ ان کی پہلی کتاب ’مکاتیب ریاضیہ‘ کا صحیح تعارف بھی سامنے نہیں آسکا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مرتب کتاب نے کمی کے لیے معذرت کر لی ہے اور یہ بھروسا دلایا کہ ظفر کمالی پر دوسری کتاب آنے والی ہے۔ امید ہے کہ اس کتاب میں یہ خامیاں دور ہو سکیں، اس طرح کی مثالی کتاب کی اشاعت کے لیے راقم الحروف ڈاکٹر ظفر کمالی اور پروفیسر صفدر امام قادری کو صمیم قلب سے مبارکباد پیش کرتا ہے اور نیک خواہشات بھی.
کتاب کا نام: ’ظفر کمالی: شخصیت اور فنّی جہتیں‘ مرتب: صفدر امام قادری
صفحات: ۵۲۸
سالِ اشاعت: ۲۰۲۳ء
قیمت: ۶۵۰
ناشر: عرشیہ پبلی کیشنز، نئی دہلی
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:صفدر امام قادری کے لیے ظفر کمالی کی ‘سوغات`

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے