محمد مرجان علی
ری سرچ اسکالر، شعبۂ اردو جے پرکاش یو نی ورسٹی، چھپرا (بہار)
Email Id: mdmarjanali07@gmail.com
زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے مختلف افراد کامیابی کی منزلوں تک پہنچتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ کامیابی کی دشوار گزار راہوں پر چلتے ہوئے ہمارے ساتھ والدین اور دیگر احباب کی دعائیں، محبتیں اور شفقتیں سایۂ رحمت بنتی ہیں۔ ان کا کردارہمارے وجود کو نکھارنے میں کافی اہم ہوتا ہے لیکن ہماری شخصیت اور کردار کی تعمیر و تشکیل میں ایک اور کردار لازم ہوتا ہے جو اپنے علم، حکمت، تدبر اور تربیت سے ذرّے کو آفتاب بنانے کا ہنر رکھتا ہے۔ یہ اہم کردار کوئی اور نہیں بلکہ ایک لائق استاد کا کردار ہے۔ ایک اچھا استاد جب کسی طالبِ علم کی شخصیت اور صلاحیت کو سنوارتا ہے، دوسرے کسی بھی فرد سے اس کی برابری ممکن نہیں۔ والدین کی دعاؤں کی وجہ سے یہ خوش بختی میرے نصیب میں آئی کہ مجھے بھی ایک ایسا استاد خدا نے عطا کیا جو اپنے آپ میں تعلیم و تربیت کی چلتی پھرتی درس گاہ سے کم نہیں اور وہ شخصیت استادِ گرامی پروفیسر صفدر امام قادری کی ذاتِ اقدس ہے۔
بی۔اے۔ اردو آنرس میں داخلے کے بعد انفرادی طور پر میں خود کو اکیلا اور بے بس محسوس کرنے لگا تھا۔ ایک تو یہ فکر مجھے کھائے جا رہی تھی کہ مجھے اردو کون پڑھائے گا؟ ساتھ ہی یہ بھی اندیشہ دل میں گھر کر رہا تھا کہ اِس مضمون سے میں اپنا کیریر کیسے بنا پاؤں گا۔ اسی کش مکش میں مبتلا تھا کہ ایک دن میری ملاقات مفتی ولی اللہ قادری صاحب (استاد، ضلع اسکول، چھپرا) سے ہوئی۔ مجھے پتا تھا کہ انھوں نے بھی اردو مضمون سے تعلیم مکمل کی ہے اور عالمِ دین ہونے کے علاوہ پڑھنے لکھنے کی اچھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لیے میں نے اس سلسلے میں ان سے رہ نمائی کی گزارش کی۔ اُنھوں نے مجھ سے شفقت بھرے لہجے میں فرمایا:
’’آپ میرے ہم راہ پٹنہ چلیے۔ وہاں میرے استاد صفدر امام قادری مقابلہ جاتی امتحانات، نیٹ، جے۔ آر۔ایف۔ اور سول سروسز وغیرہ کی تیّاری کراتے ہیں، آپ کو بھی وہیں پڑھنا ہے۔ ‘‘
پروفیسر صفدر امام قادری کا نام میرے لیے کوئی نیا نہیں تھا۔ اِس سے قبل ان کو اپنے شہر کی ایک ادبی تقریب میں سُننے کا اتفاق ہو چکا تھا، جس کی وجہ سے میں اُن سے بہت متاثر بھی تھا۔ ان کی ایک خاص عادت ہے کہ وہ جس شہر میں ادبی تقریب یا کسی دوسرے مقصد سے سفر کریں گے تووہاں کے مقامی طلبہ سے ملاقات اور گفت و شنید کو ترجیح دیں گے۔ وہ طلبہ کے کیریر، ان کے مسائل، تعلیمی امداد وغیرہ سے متعلق تبادلۂ خیال کریں گے، جس سے طلبہ میں تعلیمی بیداری اور پڑھنے کا جوش و جذبہ پیدا ہو۔ اسی وجہ سے میں پہلی ملاقات میں ہی ان سے کافی متاثر تھا اور میں کیا عام طور پر کوئی بھی طالبِ علم ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مفتی ولی اللہ قادری کی اس بات سے مجھے دہری خوشی ہوئی اوران کے ہم راہ میں پٹنہ پہنچا۔
پٹنہ میں اشوک راج پتھ میں این۔ آئی۔ ٹی۔ موڑ نامی ایک مشہور جگہ ہے اور استادِ محترم صفدرامام قادری یہیں ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ ’ابو پلازا‘ کے ۲۰۲؍نمبر فلیٹ میں رہتے ہیں۔ میں پہلے بھی پٹنہ آ چکا تھا اور یہاں کے مختلف مقامات سے واقف تھا لیکن یہ علاقہ میرے لیے نیا تھا۔ ہم لوگ شام کے تقریباً ۴؍ بجے وہاں پہنچے۔ سر کالج سے فوراً تشریف لائے تھے۔ جب میں وہاں پہنچا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا یہ گھر ہے یا کتب خانہ۔ چاروں طرف کتابوں کا انبار لگاہوا تھا۔ اگر چہ میرا تعلق ایسے گھرانے سے ہے جہاں تعلیم کا رواج ہے اور بچپن سے کتابوں کی بہتات دیکھی ہے لیکن یہ تو کوئی اور ہی جگہ تھی۔ میں نے اس سے پہلے کسی کے ذاتی مکان میں اتنی کتابیں کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ مجھے اس وقت محسوس ہوا کہ پٹنہ کے کسی چھوٹے اردو کتب خانے سے دس گنا زیادہ کتابیں یہاں موجود ہیں۔ گھر کے ہرکونے سے کتابیں جھانک جھانک کر جیسے مجھے اپنے پاس بلا رہی ہوں۔ علیک سلیک کے بعد سر نے مفتی ولی اللہ قادری سے میرے متعلق دریافت فرمایا: ’’اِن کو کرنا کیا ہے؟‘‘ مفتی ولی اللہ قادری نے ان کو بے ساختہ جواب دیا: ’’یہ تو استاد کو ہی طَے کرنا ہے کہ اُس کے بچے کیا کریں۔ میں مرجان کو آپ کے سپرد کرتا ہوں۔ اب آپ طَے کریں اِسے کرنا کیا ہے۔‘‘
یہ کام کرکے مفتی ولی اللہ قادری نے میری ذات پر وہ احسان کیا جس کا بدلہ شاید میں کبھی ادا نہ کر پاؤں۔ان کے اس جملے پر قربان جاؤں کہ یہ وہ جملہ تھا جس نے میری تعلیمی زندگی میں ایک انقلاب برپا کردیا اور مجھے ایک ایسے استاد کی سرپرستی میں ڈال دیا جس سے استفادہ کرنے کے لیے ایک عالم ترستا ہے۔ صفدر سر نے اس موقعے پر میری اردو تعلیم کے بارے میں مجھ سے چند بالکل بنیادی نوعیّت کے سوال کیے جن کا آسانی کے ساتھ میں نے جواب دے دیا۔ سر نے فرمایا: ’’یہ تو اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں پاس ہوگیا۔‘‘ یہ کہنے کو تو ایک چھوٹی سی بات تھی لیکن اِس جملے نے میرے اندر نیا ولولہ اور حوصلہ پیدا کیا۔ یہ بات میرے ذہن کے بند دروازوں کو کھولنے کے لیے کافی تھا۔ حالاں کہ یہ میرے لیے خوشی کی بات تھی لیکن مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ اپنی تعلیم سے متعلق چند بنیادی سوالوں کے جواب دے کر بھی کیا میں نے کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دے دیا؟ بالکل نہیں! اب مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ صفدر سرکا ایک خاص انداز ہے جس سے وہ اپنے طالبِ علموں کی حوصلہ افزائی فرماتے ہیں اور ان کے دل میں گھر کی ہوئی جھجک اور ڈر کو ختم کرتے ہیں۔ یہ استادِ محترم صفدر امام قادری سے پہلی ملاقات کا مختصر قصّہ ہے۔ رُخصت ہوتے ہوئے انھوں نے فرمایا: ’’صبح سے آؤ۔ بسم اللہ کرتے ہیں. نیٹ کی تیّاری میں لگ جاؤ۔ یہ سننا تھا کہ میری باچھیں کھِل گئیں، کیوں کہ حقیقت میں سول سروسز کی تیّاری کے رستے پر میں نہیں جانا چاہتا تھا، نہ ہی مجھے اس طرف جانے کی کبھی رغبت پیدا ہوئی۔ صبح جب میں کلاس میں پہنچا تو کلاس میں سر کے طالبِ علموں سے ملاقات ہوئی۔ مَیں اس ماحول کے لیے بالکل نیا تھا اور اس وقت کم گوئی بھی میری عادت ہوا کرتی تھی۔ پہلے دن کلاس کے بعد سر نے پوچھا: ’’رہنے کا کیا انتظام کیاہے؟ میں نے کہا: ’’ایک دوست کے کمرے پر ٹھہرا ہوں۔‘‘ سر نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’کیا وہیں رہوگے یا اپنا رہنا سہنا الگ کروگے؟ کیوں کہ تعلیم کے لیے کسی دوست کے کمرے پر رہنا، وہ بھی ایسا دوست جو آپ کے میدان کا نہ ہو، یہ آپ کی تعلیمی زندگی کے لیے مناسب نہیں۔‘‘ اس کے بعد انھوں نے اپنے ایک طالب علم کے ساتھ روانہ کرکے اسے حکم دیا: ’’مرجان کو روم دلوا دو آج اور اِسی وقت۔‘‘ یہ کہہ کر سر کالج نکل گئے۔
ابھی ہم رمنا روڈ پہنچ کر روم تلاش کر رہے تھے تب تک سر کا فون آ گیا یہ پوچھنے کے لیے کہ روم ملا یا نہیں۔ اپنے طلبہ کی خبر گیری سر کی خاص صفت ہے۔ ایک ادنا طالبِ علم جو ایک اجنبی شہر میں آیا، پہلی ہی ملاقات میں اس کے لیے اتنی فکر پیدا ہو چکی ہے، یہ جان کر مجھے کافی اچھا لگا۔ پہلے دن کی کلاس اور روم کا مسئلہ حل ہوتے ہوتے مجھے یہ احساس ہو چکا تھا کہ صفدر سر صرف کتابی تعلیم نہیں دیتے بلکہ زندگی کے بہت سارے اُصول بھی کلاس کے دوران آپ کے ذہن میں پیوست کر دیتے ہیں، جس سے آپ نہ صرف اپنے کورس میں کامیاب ہونے کی راہ پر چلتے ہیں بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر اور ہر شعبے میں کامیاب ہوتے چلے جاتے ہیں۔
طلبہ کے لیے جتنا انصاف پسند ہم نے صفدر سر کو دیکھا، اتنا کسی کو نہ پایا۔ سات آٹھ بجے صبح سے ہی سر کلاس لینا شروع کرتے ہیں اورکالج جانے کے وقت تک بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں بالکل حیرت انگیز بات ہے کیوں کہ عموماً اِس وقت اسکول کالج سے منسلک اساتذہ اپنے گھریلو کاموں میں اِس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ پڑھانا تو دور رہا، وہ ملنا بھی گوارا نہیں کرتے. مگر پورے سال صفدر سر کا یہ وقت پڑھنے پڑھانے میں گزرتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ وقت انھوں نے اپنے طلبہ کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ کبھی کوئی طالب علم بھولے سے کلاس کے وقت فون کر دیتا ہے تو سر طنز کرتے ہوئے مزاحیہ لہجے میں فرماتے ہیں: ’’فاروقی جیسے بڑے معیار کے لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ اِس وقت صفدر کو فون نہیں کرنا ہے کیوں کہ وہ اِس وقت بچّوں کو پڑھاتے ہیں۔ اِس درمیان سر کا موبائل سائلنٹ یا وائبریشن موڈ پر ہوتا ہے کہ کوئی ایسا فون نہ آ جائے جس سے یہاں صبح اُٹھ کر آئے ہوئے بچوں کا وقت بغیر پڑھے ضایع ہوجائے اور ان کی قربانی کا زیاں ہو۔ عام طور پر تعلیم کے حوالے سے سر تذکرہ کرتے ہوئے میدانِ حشر کو یاد کرتے ہوئے اس بات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ اپنے طلبہ کے معاملے میں میدانِ حشر رُسوا نہیں ہوں گے۔ اپنے طلبہ کے لیے یہ رویہ رکھنے والے استاد کی دنیا آخر کیوں نہ قائل ہو۔ ہم طلبہ کے لیے سب سے خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ اپنے عہد کے معتبر ناقد کے طور پر شناخت قائم کرنے والی شخصیت ہمیں استاد کے طور پر ملی۔ سر اگر صرف شاعر ہوتے تو ہو سکتا تھا، صرف شاعری کی طرف اپنی توجّہ مرکوز رکھتے۔ اگر افسانہ نگار ہوتے تو افسانے کی حدودِ اربعہ سمجھاتے مگر وہ تو ہر فن مولا شخصیت کے مالک ہیں۔وہ کلاس میں پڑھاتے ہوئے بہ یک وقت فکشن، شاعری، تنقید، غیر افسانوی نثر وغیرہ کے ماہر کی حیثیت سے طلبہ سے محوِ گفتگو ہوتے ہیں۔ اُن کی تدریس کا انداز قدرے مختلف ہے۔ اوّل تو یہ کہ وہ گریجویشن، پی۔ جی۔ اور پی ایچ۔ ڈی یا اِس سے بھی زیادہ ڈگری پانے والے طالبِ علموں کو ایک ساتھ پڑھا سکتے ہیں جس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہم ایک ساتھ اپنے سینیر اور جونیر دونوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ جس سے ہم کنوئیں کے مینڈک بننے سے بچ جاتے ہیں اور علم کا گھمنڈ سر نہیں چڑھ پاتا۔ کلاس کے دوران سوال و جواب کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ جو طالبِ علم سر کی تدریس سے واقف نہیں ہوں گے، اُنھیں یہ ضرور لگے گا کہ ایک ساتھ گریجویشن سے پی ایچ۔ ڈی تک کے طلبہ کو کیسے سنبھالا جا سکتا ہے؟ مگر سر کلاس کے دوران سوال و جواب میں پہلے چھوٹی کلاس کے بچّوں سے سوال کرتے ہیں، پھر ترتیب سے بڑوں کی طرف بڑھتے ہیں۔ اِس سے چھوٹے طلبہ اپنا احتساب کر لیتے ہیں کہ مجھے کیا معلوم ہے اور کیا نہیں۔ اِس کے ساتھ بڑے طلبہ بھی اپنا موازنہ کر لیتے ہیں کہ میں اِن چھوٹوں سے کتنا آگے ہوں یا مجھے اور کتنا سیکھنے کی ضرورت ہے۔ دوسری بات یہ کہ سر کو ایک ساتھ کئی موضوعات کو پڑھانے کا سلیقہ بھی آتا ہے۔ اگر وہ تنقید پڑھائیں تو اُس میں شاعری کا کیا کام ہے اور اگر شاعری پڑھا ئیں تو اُس میں تنقیدی خیالات کیسے اُبھاریں، اِن سب باتوں کووہ یکجا کرکے یوں پیش کرتے ہیں کہ ان کے طالبِ علم نہ صرف اپنے مقابلہ جاتی امتحانات کی بہ حسن و خوبی تیاری کرلیتے ہیں بلکہ اُن کا تنقیدی شعور بھی پختہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ سر اکثر یہ فرماتے ہیں:
’’ مقابلہ جاتی امتحان تو ایک دن میں کامیاب ہونے والی چیز ہے۔ امتحان دیجیے اور پاس ہو جائیے۔ پھر ملازمت بھی کہیں نہ کہیں مل ہی جائے گی مگر اُس کے بعد کا کیا؟ آپ بچّوں کو کیسے پڑھائیے گا؟ آپ میں اگر تنقیدی صلاحیت نہیں تو پھر وہی رٹنے اور آبا و اجداد سے چلے آرہے نوٹس سے کام چلانا پڑے گا۔ آپ کوئی Concept نہیں سمجھ پائیں گے اور نہ ہی اپنے طلبہ کو کچھ سِکھا پائیں گے۔ اِسی وجہ سے آپ صرف امتحان میں کامیابی کی غرض سے شعر و ادب کو مت پڑھیے بلکہ اُس عہد کے دوسرے شاعروں کا بھی مطالعہ کیجیے اور اس پر اپنے ذاتی خیالات پیش کیجیے۔ ناول یا افسانہ سب کے ساتھ ایک طرح کا انصاف کیجیے۔ روایتی موضوعات کو اپنی تنقید کا حصّہ نہیں بنائیے۔‘‘
اردو زبان کی تاریخ پڑھاتے ہوئے سر ہم طلبہ سے تمام ماہرینِ لسانیات کے اقوال کو پیشِ نظر رکھ کر جواب طلب کر رہے تھے اور یہ بتا رہے تھے کہ کیا ضروری ہے کہ مسعود حسین خاں اور دیگر ماہرینِ لسانیات کا ہی نظریہ مستند ہو؟ کہیں اِس کلاس سے کوئی ایسا بچہ نکل آئے جو اپنا ایک الگ نظریہ پیش کر دے۔ یقینا ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ کوئی طالبِ علم اپنے نظریات سے بڑے بڑے ماہرین کے اقوال کومسترد کر سکے مگر استادِ محترم کی یہ امتیازی خوبی ہے کہ وہ اپنے طلبہ میں اعتماد پیدا کرتے ہیں کہ وہ بھی ایک دن بڑے محقق اور نقّاد بن سکتے ہیں۔ سر نہیں چاہتے کہ اُن کا کوئی شاگرد کنوئیں کا مینڈک بن کر رہ جائے، وہ کسی ایک صنف میں ہی الجھ کر نہ رہ جائے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ کچھ سیکھنے کی غرض سے اگر طالبِ علم ان کے ساتھ ہے تو اُس کو تمام اصناف سے کماحقہٗ روشناس کرا یا جائے۔ سے می نار میں پیپر لکھنے کی غرض سے اگر طلبہ کو موضوع دینا ہوتا ہے تو سر کے ذہن سے یہ بات بھی محو نہیں ہوتی کہ گذشتہ سے می نار میں جس طالبِ علم کو افسانے کا موضوع دیا گیا تھا تو اِس بار اُسے شاعری کے تعلق سے طبع آزمائی کرنے کا موقع دیا جائے اور اگر کسی کو تنقیدکا جائزہ لینے کو کہا گیا تھا تو اس مرتبہ وہ کسی دوسرے حوالے سے مقالہ لکھے۔ ابھی کچھ وقت سے میری ایک عادت بن گئی تھی کہ سے می نار میں کسی بھی ادیب پر لکھتے ہوئے ادبِ اطفال کے سلسلے سے اس کے کام کو موضوع کے طور پر منتخب کر لیتا تھا۔ یہاں تک کہ چند دنوں قبل ساحرلدھیانوی سے متعلق بھی بچوں کی ہی شاعری کا جائزہ میں نے لیا مگر سر نے بہت ہی سختی سے سمجھایا کہ تم الگ الگ موضوعات پر بھی ضرور لکھا کرو تاکہ لوگ یہ نہ سمجھ لیں کہ اِس کو ادبِ اطفال کے علاوہ کوئی اور موضوع سمجھ میں نہیں آتا۔ چھوٹے بچوں کی تربیت کے وقت جو انداز اختیار کیا جاتا ہے، کبھی کبھی سر بھی ایسا ہی انداز اپنے طلبہ کو سمجھاتے ہوئے اپناتے ہیں۔
استادِ محترم اپنے طلبہ کو صرف امتحان پاس کرانے کی غرض سے نہیں پڑھاتے بلکہ اُنھیں ایک مکمل ادیب اور استاد بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ ہر وقت اپنے طلبہ کی تنقیدی صلاحیت کو اُبھارنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ادبی شعور بیدار کرنے کے جو بھی اسباب اور ساز و سامان ہوسکتے ہیں، وہ اپنے طالبِ علموں کو اس کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔ پٹنہ شہر میں کوئی بھی ادبی پروگرام ہو، وہاں اگر صفدر سرکو مدعو نہیں بھی کیا جاتا اور انھیں معلوم ہو کہ یہاں کچھ معروف ادبی شخصیات تشریف لانے والی ہیں، جس سے ان کے طلبہ کو کچھ فائدہ ہوگا تو وہاں سر نہ صرف طلبہ کو جانے کا حکم دیتے ہیں بلکہ کبھی خود بھی وہاں ان کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔ ڈراما ہو یا مشاعرہ یا پھر موسیقی یا رقص کا ہی کوئی پروگرام کیوں نہ ہو؛ سب میں سر نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ پٹنہ میں موجود سبھی طلبہ کو بھی جہاں تک ممکن ہو، ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ اگر کوئی شاگرد اپنی ذاتی مصروفیات کی وجہ سے کسی پروگرام میں سر کے کہنے کے باوجود شریک نہیں ہو سکا تو پھر اُس کی خیر نہیں۔ اوّلاً تو اُس سے باز پرس کی جائے گی پھر حالات کو سمجھ کر اسے ڈانٹ پلائی جائے گی اور سمجھایا جائے گا: ’’آپ پٹنہ میں کیوں ہیں اور آپ کا پہلا فریضہ کیا ہونا چاہیے؟ اگر کوئی بچہ اپنے گھریلو معاملات میں ضرورت سے زیادہ الجھا رہتا ہے تو سر نہ صرف اُس بچے پر خفا ہوتے ہیں بلکہ اُس کے گارجین کو بھی سمجھاتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر سدھار کی گنجایش نہیں دکھائی دیتی تو پھر استادِ محترم خاموشی سے اُس بچے سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ وہ اپنا ضروری کام بھی آگے پیچھے کرکے بچوں کی تربیت کے لیے وقت نکالتے ہیں۔ مجھے بارہا یہ دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے کہ سر اپنا کام چھوڑ کر کسی طالبِ علم کے مضمون کی اصلاح میں مصروف ہیں۔
میری ادبی تربیت میں سر کا بہت بڑا رول ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں کوئی نہ کوئی ایسا استاد ضرور مِل جاتا ہے جو آپ کی تربیت کرتے ہوئے بڑی سے بڑی ملازمت کی منزل تک پہنچا دے مگر حضرتِ صفدر امام قادری ایسے اساتذہ کی قبیل سے تعلّق رکھتے ہیں جو اپنے طلبہ کو لکھنے کے لیے خصوصی توجّہ دلاتے ہیں۔ میں بھی اُن خوش نصیب شاگردوں میں ہوں جنھیں استادِ محترم سے لکھنے کی ترغیب ملی۔ جب میں سر کے پاس نِیٹ امتحان کی تیّاری کی غرض سے پہنچا تو کچھ دنوں کے بعد سر نے ارشاد فرمایا:
’’میری ایک کتاب ’جانے پہچانے لوگ‘ اشاعت کے مرحلے میں ہے۔ اُس پر کچھ لکھ دو۔ اس کو میں اپنی کتاب میں شامل کر لوں گا۔‘‘
میرے لیے یہ بالکل نئی بات تھی اور شاید پوری اردو دنیا کے لیے یہ نئی بات رہی ہوگی کہ اردو کا ایک بڑا لکھنے والا اپنے ایک ایسے شاگرد سے کچھ لکھنے کے لیے کہہ رہا ہے جو مضامین لکھنے کے ’ابجد‘ سے بھی واقف نہیں۔ اُس وقت شمس الرحمان فارقی صاحب، شمیم حنفی اور گوپی چندنارنگ جیسی شخصیات بھی بہ قیدِ حیات تھیں۔ سر اگر چاہتے تو وہ لوگ بھی اس کتاب کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور لکھ دیتے مگر اُنھوں نے صرف میرا حوصلہ بڑھانے کے لیے مجھ سے کچھ لکھوانا چاہا۔ اس وقت مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ سر کہنا کیا چاہتے ہیں اور مجھے کرنا کیا ہے۔ کتاب شائع ہو گئی، اس کے بعد بھی سر نے کئی مرتبہ مجھے اس کتاب پر لکھنے کی فرمایش کی اوریہ اصرار کرتے رہے:
’’مرجان میرے پاس بہت سارے شاگرد آتے ہیں جن میں کھچڑی بھی ہیں اور بریانی بھی۔ تم کو طَے کرنا ہے کہ دال چاول کی طرح جنرل بن کر رہنا پسند کروگے یا بریانی بن کر کچھ احترام کی منزل بھی پاؤگے۔‘‘
یہ کہہ کر سرنے اپنی ایک کتاب ’مشاہدات‘ میرے حوالے کی اور اُس پر تبصرہ لکھنے کاحکم صادر فرمایا۔ میں نے اس پر سر سے سوال کیا: ’’سر تبصرہ کیسے کیا جاتا ہے، مجھے معلوم ہی نہیں۔‘‘ تو سر نے اپنے تبصروں کا مجموعہ ’نئی پرانی کتابیں‘ بہ طورِ سبق مجھے عطا کی اور فرمایا: ’’اِس کو پڑھو اور تبصرہ لکھنا شروع کرو‘‘ میں نے اُس کتاب کو پڑھ کر اُس پر کچھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں لکھ کر علی الصباح استادِ محترم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سر اپنی مسند پر پہلے سے تشریف فرما تھے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے، نظریں نیچی کیے ہوئے سر کی خدمتِ اقدس میں اسے پیش کیا اور کہا: ’’سر کچھ لکھ کر لائے ہیں۔‘‘ سر نے اُس ایک صفحہ کو پڑھ کر خوشی کا اظہار کیا اور حوصلہ بڑھانے والے انداز میں فرمایا:
’’ یہ تو ’اے ون‘ ہے، آگے ایسے ہی بڑھاتے جاؤ۔‘‘
اِس ایک لفظ سے میرے اندر حوصلے اور طاقت کا ایک سمندر پھوٹ پڑا اور اسی طرح دھیرے دھیرے میرا پہلا تبصرہ مکمل ہوا اور جس دن یہ تبصرہ مکمل ہوا، اُسی دن سر نے اُس کی اصلاح کرکے اخبارات میں اشاعت کے لیے بھیج دیا۔ یہ سب کچھ میرے لیے بالکل نیا تجربہ تھا بلکہ میں توحیرت میں تھا کہ کیا واقعی یہ سب میرے ساتھ ہو رہا ہے؟ آخر سر کو اتنی فکر کیوں ہے؟حالاں کہ مجھے اس بات کا علم تھا کہ میں نے مضمون لکھنے میں جس قدر محنت درکار تھی، اتنی نہیں کی۔ اُس سے زیادہ محنت تو استادِ محترم کو اصلاح اور اشاعت کے لیے صَرف کرنی پڑی۔ حالاں کہ سر کا یہ انداز صرف میرے لیے ہی خاص نہیں تھا، وہ ہر شاگرد کی اسی طرح یکساں تربیت کرتے ہیں۔ سبھی کو لکھنے پر ابھارتے ہیں۔ سب کی اصلاح کی ذمہ داری بھی خود ہی اُٹھاتے ہیں۔کسی مضمون کو لکھنے سے متعلق جو کتابیں اُن کی ذاتی لائبریری میں دستیاب ہوتی ہیں، اُنھیں طلبہ کو بے جھجک دے دیتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر خدا بخش لائبریری اور گورنمنٹ اردو لائبریری سے بھی استفادہ کرنے کے لیے روانہ کرتے ہیں۔ وہ ادیبوں کی فوج کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کی شاگردی میں نہ صرف آپ ملازمت کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں بلکہ آپ ایک معتبر ادیب، شاعر، نثر نگار جو آپ کی پسند یا صلاحیت کا میدان ہو، وہ بن سکتے ہیں۔ سر اپنے طلبہ کو اشاروں اشاروں میں اور کبھی کبھی سب کے سامنے سمجھاتے ہیں:
’’آپ کو اگر مجھ سے صرف ایک چیز سیکھنی ہو تو آپ مجھ سے لکھنا سیکھ جائیے۔ کیوں کہ دنیا میں نصاب پڑھانے والے اور پھر ملازمت کی منزل تک پہنچانے والے اساتذہ بہت سارے مِل جائیں گے مگر آپ کو لکھنے کا سلیقہ سکھانے والا شاید ہی ملے۔‘‘
اگر آپ اردو لکھنے پڑھنے سے تھوڑی بھی دل چسپی رکھتے ہیں تو آپ اِس بات کی گہرائی کابہ خوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔(جاری۔۔۔)
***
صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش :’ظفر کمالی: شخصیت اور فنی جہتیں‘ : ایک مثالی کتاب