(طارق چھتاری کی منتخب تحریریں)
انتخاب و ترتیب : احسن ایوبی
قیمت : 230
صفحات : 172
سنہ اشاعت : 2023ء
ناشر : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، انصاری روڈ، دریا گنج، نئی دہلی۔ 110002
مبصر : محمد اشرف یاسین، E-224 تیسری منزل، شاہین باغ، ابو الفضل انکلیو، جامعہ نگر اوکھلا، نئی دہلی 25
8750835700
پروفیسر طارق چھتاری(پیدائش 1954) کا نام اُردو کی ادبی دنیا یا فکشن کے میدان میں بہت معروف اور نمایاں ہے۔ گریجویشن کے دوران ان کے افسانوں کی کشش نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا۔ دراصل ڈاکٹر احمد علی جوہر کی کتاب "طارق چھتاری، فکر و فن" چھتاری صاحب سے میرے متعارف ہونے کا سبب بنی۔
اسی کے مطالعے کے بعد سے ہی میں نے طارق چھتاری کو پڑھنا شروع کیا تھا۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ مارچ 2021ء میں پہلی مرتبہ علی گڑھ میں طارق چھتاری صاحب سے ملاقات بھی ہوئی اور انھوں نے بڑے ہی خلوص سے اپنا افسانوی مجموعہ "باغ کا دروازہ" مجھے عنایت کیا۔ عموماً ہندستانی جامعات سے وابستہ فکشن نگاروں کو میں نے تنقیدی میدان میں کم ہی سرگرم پایا، چاہے وہ پروفیسر معین الدین جینا بڑے ہوں، طارق چھتاری ہوں یا پھر خالد جاوید، ہاں پروفیسر انیس اشفاق کا معاملہ ذرا مختلف ہے کیوں کہ انھوں نے "دکھیارے"(2014)، "خواب سراب"(2017)، "پری ناز اور پرندے"(2018) اور "ہیچ" (2024) جیسے اپنے چار ناول تواتر کے ساتھ ہم اُردو قارئین کی خدمت میں پیش کیے ہیں۔ ان ناولوں کے علاوہ بھی انھوں نے مزید پانچ تنقیدی کتابیں لکھی ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ طارق چھتاری کے افسانے تو کئی ہیں، لیکن "جدید افسانہ اُردو-ہندی"(1992) کے بعد ان کی اب تک کوئی تنقیدی کتاب منظرِ عام پر نہیں آسکی؟ حالانکہ ایسا بھی نہیں ہے انھوں نے تنقیدی مضامین نہیں لکھے ہیں۔ ادبی رسائل و جرائد کے قارئین اس بات سے بہ خوبی واقف ہیں کہ پروفیسر طارق چھتاری نے کئی بہترین تنقیدی مقالات قلم بند کیے ہیں۔ اثبات کے شمارہ نمبر 34 میں ان کا ایک مضمون "خالد جاوید کا ‘نعمت خانہ’" مجھے پڑھنے کو ملا تھا۔ جو اس کتاب میں بھی شامل ہے۔ مذکورہ بالا سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے جب میں نے "اُردو دنیا" (دسمبر 2023) میں شائع شدہ پروفیسر طارق چھتاری کا عبدالمنان صمدی کو دیا گیا انٹرویو پڑھا تو مجھے علم ہوا کہ آل انڈیا ریڈیو، (گورکھپور اور دہلی) سے طویل وابستگی(نو سال) نے انھیں تنقیدی انہماک سے دور کردیا تھا۔ غیاث الرحمٰن سید کی کتاب "اس شہر میں"(2023) کے مطالعے سے پروفیسر طارق چھتاری کی زمانہ طالب علمی اور ملازمت کے نشیب و فراز پر بھی روشنی پڑتی ہے، کیونکہ یہ دونوں اچھے دوست ہیں اور یہ دونوں ہی ایک ساتھ گورکھپور میں آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہوئے تھے۔
زیرِ تبصرہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہیں۔ "عرضِ مرتب" کے عنوان سے ساڑھے پانچ صفحے میں احسن ایوبی نے اپنے معروضات پیش کیے ہیں۔ اس کے بعد دس مضامین ہیں۔ ان میں سے تین مضامین مجھے بہت پسند آئے۔ "منٹو کی کہانیاں: تخلیقی قوت کا توانا اظہار"، "آج کی اُردو کہانی: زبان اور ساخت"، "نئی کہانی آندولن اور کملیشور کا فن"، منٹو کی تخلیقات سے پروفیسر طارق چھتاری نے جو نتیجہ اَخذ کیا ہے وہ میرے لیے انکشافی نوعیت کا ہے۔ کیوں کہ جواہر لال نہرو یونی ورسٹی میں منٹو خصوصی مطالعہ کے دوران منٹو اور ان کے فن پر لکھی گئی درجنوں کتابیں پڑھنے کے باوجود بھی مجھے اس طرح کی باتیں کہیں نہیں ملیں۔ جن سے ہندی زبان و ادب میں منٹو کے اثرات تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔
"یہ منٹو کا ہنر ہے کہ اس نے ایک گالی کو عمل یعنی Act میں تبدیل کر کے جسم عطا کر دیا اور اس طرح سوگندھی نے غائبانہ ہی سہی، ایک انوکھے انداز میں سیٹھ سے انتقام لے لیا۔ ایک بے بس اور لا چار طوائف نے اپنی ہتک کا نرالے ڈھنگ سے بدلہ لیا۔ عورت کی نفسیات کے اس پہلو تک رسائی منٹو ہی کا حصہ ہے۔ اس سے قبل اردو میں اس انداز کے اختتام والے افسانے نہیں لکھے گئے تھے۔ اردو ہی کیا بلکہ ‘ہندی نئی کہانی آندولن’ کے چند اہم کہانی کاروں پر بھی منٹو کے اثرات قبول کرنے کا شبہ ہوتا ہے۔ کملیشور کا ‘مانس کا دریا’ پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اس کی زبان، اسلوب، جزئیات، فضا اور کردار کی نفسیات منٹو کے افسانوں سے کافی مماثلت رکھتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ کملیشور نے شعوری یا لاشعوری طور پر منٹو کا اثر قبول کیا۔" (صفحہ نمبر 29)
"آج کی اُردو کہانی: زبان اور ساخت" نامی مضمون بہت عمدہ ہے۔ جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس میں سریندر پرکاش(1930-2002) کے نمائندہ افسانوں "بجوکا" اور "بازگوئی" سے مثالیں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ممبئی کے مشہور افسانہ نگار سلام بن رزاق کے افسانے "انجام کار"، شوکت حیات(1950-2021) کے افسانے" سرخ اپارٹمنٹ"، شموئل احمد(1943-2022) کے افسانہ "چھگمانس" اور پیغام آفاقی(1956-2016) کے مجموعے "مافیا" وغیرہ سے اقتباسات پیش کرکے نئے افسانوں کی تفہیم کے کچھ اہم اور کلیدی ٹولس کی طرف ہماری رہ نمائی کی ہے۔ افسوس کہ حالیہ دنوں میں سلام بن رزاق(1941-2024) بھی جنت مکانی ہوگئے۔ میرے پسندیدہ افسانہ نگار سریندر پرکاش کے نمائندہ افسانہ "باز گوئی" پر شمس الرحمٰن فاروقی کی مقدماتی گفتگو "تازہ گوئی" کے بعد اب تک مجھے سب سے اچھی تنقیدی تحریر محمد حنیف خان کی "تلقارمس کی شناخت کا مسئلہ" (مشمولہ "تعبیر و تقلیب"2021) لگی۔ یاد رہے کہ "تلقارمس" باز گوئی کا ہی ایک بنیادی کردار ہے۔
کتاب کا دوسرا حصہ تجزیوں پر مشتمل ہے۔ جس میں کل پانچ افسانوں کے تجزیے ہیں۔ طارق چھتاری نے اپنے ایک تنقیدی مضمون میں سریندر پرکاش کے دو مشہور افسانوں کو موضوعِ گفتگو بنایا ہے۔ شاید تکرار سے بچنا ہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ انھوں نے سریندر پرکاش کا ایک تیسرا افسانہ "رونے کی آواز" کو اپنے تجزیے کے لیے منتخب کیا ہے۔ اس حصے میں خالدہ حسین، زاہدہ حنا، سلام بن رزاق اور شموئل احمد کے بھی ایک ایک افسانوں کا تجزیہ شامل ہے۔
کتاب کے تیسرے حصہ میں چار تبصرے شامل ہیں۔ چوتھا تبصرہ بہ عنوان "ہم ادب کیوں پڑھتے ہیں؟" بہت ہی عمدہ ہے۔ جو نہ صرف اس حصے کا بلکہ پوری کتاب کا ماحصل قرار دیا جاسکتا ہے۔ محض ساڑھے چار صفحے پر مبنی اس تبصرہ کو ادب کے قارئین کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ لیکن تربیت یافتہ قارئین اس سے مستثنیٰ قرار دیے جاسکتے ہیں۔
صحیح معنوں میں "باغ کا دوسرا دروازہ"، طارق چھتاری کی تنقیدی بصیرت کا آئینہ ہے اور سچ بات تو یہ ہے کہ مجھ جیسے بہت سارے اُردو قارئین کو اسی کتاب کے ذریعے سے علم ہوا کہ طارق چھتاری کی فکشن کے ساتھ اُردو اور ہندی کی تقابلی تنقید پر بھی گرفت بہت اچھی ہے۔ پریم چند، منٹو، بیدی، کرشن چندر، سید محمد اشرف، خالد جاوید، خالدہ حسین، زاہدہ حنا، سلام بن رزاق، شموئل احمد، سریندر پرکاش اور کملیشور پر ان کی تنقیدی و تجزیاتی گفتگو کئی نئے زاویوں کو اُجاگر کرتی ہے۔ زاہدہ حنا اور جیلانی بانو وغیرہ کی شمولیت سے اس کتاب کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اس سے ہمیں طارق چھتاری کی تانیثی تنقید کا بھی علم ہوتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ فاضل مرتب کتاب کی نفاست پر تھوڑی اور توجہ صرف کردیتے تو کتاب کا حسن مزید نکھر سکتا تھا۔ مجھے قوی امید ہے کہ اس کتاب کو بھی ان کی سابقہ کتابوں کی طرح ضرور پذیرائی ملے گی۔ جناب احسن ایوبی، شعبۂ اردو علی گڑھ، مسلم یونی ورسٹی میں استاد (گیسٹ فیکلٹی) ہمارے شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے طارق چھتاری کے مختلف تنقیدی مضامین کو منتشر اوراق پارینہ ہونے سے بچا کر ہم اردو قارئین کے سامنے پیش کر دیا.
***
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش:زاہد علی خان اثر کی انشائیہ نگاری
کتاب: باغ کا دوسرا دروازہ
شیئر کیجیے