ابن صفی فکشن سے زیادہ حقیقت سے قریب نظر آتے ہیں : احمد صفی

ابن صفی فکشن سے زیادہ حقیقت سے قریب نظر آتے ہیں : احمد صفی

ابن صفی کے صاحبزادے احمد صفی کا خصوصی انٹرویو
انٹرویو نگار: علیزے نجف

خوبیاں بھی وراثت کی صورت منتقل ہوتی ہیں جس طرح کہ مادی اشیا منتقل ہوتی ہیں، ساتھ میں یہ بھی سچ ہے کہ ہر انسان کی اپنی ایک انفرادی شخصیت بھی ہوتی ہے جس کی تشکیل وہ از خود کرتا ہے، وہیں کچھ شخصیات اپنے آباء کا مستند حوالہ رکھتی ہیں, ان کی انفرادیت اس میں کہیں ضم ہو کر رہ جاتی ہے۔ میں نے یہ بات بطور تمہید کہی ہے جو کہ آخر تک پہنچتے پہنچتے ربط اور معنویت پیدا کر لے گی۔ ہمارے سامنے جب بھی صفی نام آتا ہے تو بلاشبہ ہر کسی کے ذہن میں جاسوسی ادب کے اس بےتاج بادشاہ کا چہرہ بھی ابھر آتا ہے جس نے ہر عمر، ہر مزاج کے لوگوں کو اپنی تخلیقات سے اسیر کر رکھا ہے، دہائیاں گزر جانے کے باوجود یہ طلسم آج بھی قائم ہے، ان کی تخلیقات کو پڑھتے ہوئے بارہا محسوس ہوتا ہے کہ قدرت نے انھیں ایک نہیں کئی دماغوں سے نوازا تھا، ابن صفی کی شخصیت کا گوشہ گوشہ ایک مسلمہ تاریخ ہے جو کہ اس وقت میرا موضوع نہیں، یہاں صفی کے لفظ کا ذکر کرتے ہوئے ان کے صاحبزادے احمد صفی کا ذکر کرنا مقصود ہے جو کہ اپنے والد کے نام سے پہچانے جانے پہ بےپناہ فخر محسوس کرتے ہیں۔
احمد صفی 1961 میں کراچی سندھ میں پیدا ہوئے، ان کے والدین نے ان کا نام اظہار احمد رکھا تھا، اسکول میں داخل ہوتے ہوئے انھوں نے اپنا احمد صفی نام رکھ لیا اس واقعے کا پس منظر کیا ہے اس کا ذکر وہ آگے چل کر خود کریں گے، احمد صفی نے گورنمنٹ اسکول ناظم آباد اور ڈی۔ جے۔ سائنس کالج سے تعلیم حاصل کی، اس کے بعد NED University Karachi سے مکینکل انجنئیرنگ میں پیچلر کی ڈگری لی، اس کے بعد یونی ورسٹی آف کیلیفورنیا اروائن سے ماسٹرز کیا پھر مزید تعلیم کے لیے نیویارک کے رینزیلیٹر پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ چلے گئے، تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک عرصہ وہاں جاب بھی کرتے رہے، مختلف ایجادات پر بیس عدد پیٹنٹ حاصل کیے، 2003 میں پاکستان واپس آگئے، اس وقت لاہور سے ایک بین الاقوامی کمپنی میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ادبی ذوق انھیں وراثت میں ملا ہے انھوں نے نثر و نظم دونوں میں طبع آزمائی کی ہے، غزل کی صنف پہ انھیں کمال حاصل ہے، امریکہ، کینیڈا، پاکستان کے مشاعروں میں یہ شرکت کرتے رہتے ہیں، اتنی سارے خصائص اور معتبر حوالہ رکھنے والی شخصیت کے سامنے میں بہ طور انٹرویو نگار موجود ہوں۔ ذہن میں بہت سارے سوالات اور تجسس کی لہریں اٹھ رہی ہیں۔ یقینا آپ بھی متجسس ہوں گے۔ آئیے ہم ان سے براہ راست اس کے جواب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
علیزے نجف: ابن صفی کے صاحبزادے ہونے کی حیثیت سے آپ کسی کے لیے بھی اجنبی نہیں، اس لیے عام تعارف سے ہٹ کر میرا پہلا سوال یہ ہے کہ آپ کی نظر میں احمد صفی کون ہیں اور وہ کس راستے کے مسافر ہیں؟
احمد صفی: آداب! آپ کے سوال پر مجھے اپنا ہی ایک شعر یاد آ گیا:
کون احمد کس کو پوچھو ہو کرو ہو کس کی بات؟
ذات جس کی آزمائش، جس کا محور امتحاں
زندگی بھر مختلف امتحانات میں پڑتا اور اللہ کی مہربانی سے نکلتا رہا ہوں۔ تعلیم اور پیشے کے لحاظ سے مکینیکل انجنئیر ہوں۔ بیچلرز پاکستان میں موجود این۔ای۔ڈی یونی ورسٹی سے کی اور گریجویٹ اسٹڈیز کے لیے یونی ورسٹی آف کیلیفورنیا اَروائن اور رینزیلئیر پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ نیویارک گیا۔ جنرل الیکٹرک کمپنی کے لیے کام شروع کیا تھا، امریکہ میں رہتے ہوئے بیس عدد پیٹنٹس گیس ٹربائینز سے متعلق مختلف مصنوعات پر حاصل کیے۔ گوگل پر میرا اور جنرل الیکٹرک ایک ساتھ لکھ کر ان کی تفصیل دیکھ سکتے ہیں۔ پاکستان واپس آ کر مختلف انداز میں انڈسٹریز کی مدد کرتا رہا، پھر دس سال قبل پھر جنرل الیکٹرک سے وابستہ ہوا اور اب پاکستان میں رہتے ہوئے ان کے لیے کام کر رہا ہوں۔ یہ ہو گیا ایک رخ، اب زندگی کے دوسرے رخ کی طرف آتے ہیں جو رسی جلنے اور بل نہ نکلنے سے متعلق ہے۔ جو ادبی جراثیم ورثے میں ملے تھے اس نے بچپن میں کہانیاں لکھوائیں جو کاپیوں میں دفن ہو کے رہ گئیں۔ کچھ ابو نے دیکھی تھیں اور ایک پاکستانی جریدے میں اس کا ذکر کیا کہ ’’ایک صاحبزادے لکھتے بھی ہیں دیکھیے ہمیں لفٹ کراتے ہیں کہ نہیں۔‘‘ آج تک سوچ میں ہوں لفٹ کرانے سے کیا مراد تھی۔ ابو کی زندگی ہی میں شاعری بھی شروع ہو چکی تھی مگر ان کو دکھانے کی ہمت کبھی نہ ہوئی۔ کبھی کبھی کسی شعر کی تضمین کرتا تو مسکرا کر دیکھتے تھے شاید اندازہ کر لیا تھا کہ طبیعت موزوں ہو رہی ہے۔ بہرحال ان کے انتقال کے بعد افسانے، کہانیاں، نظمیں، غزلیں وغیرہ مختلف ملکی اور سمندر پار جرائد میں شائع ہوتے رہے اور سن انیس سو نوے سے مشاعروں میں بھی مدعو کیا جا رہا ہوں۔ تو زندگی کا یہ رخ ابھی بھی جاری ہے۔ اب جس راستے پر زندگی لے کر چل رہی ہے چلے جا رہے ہیں۔
علیزے نجف: آپ کی شخصیت سازی میں آپ کے والد نے کیسے اور کس طرح کا کردار ادا کیا، کیا بچپن میں کبھی آپ کو ان سے کوئی شکایت رہی ہے اور کیوں؟
احمد صفی: ابو نے میری ہی کیا کئی نسلوں کی شخصیت سازی کی ہے اور مسلسل کر رہے ہیں۔ یہ ہم سب بہن بھائیوں کی خوش نصیبی ہے کہ ہمیں ان کی صحبت حاصل رہی اور براہ راست نصیحت حاصل کرنے کا موقع ملا۔ اور ان کی رحلت کے بعد ان کی کتابوں کے ذریعے رہبری و رہنمائی کا در کھلا ہوا ہے اور مسلسل سیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔ ابو ہم سب سے بہت بے تکلف تھے اور ہمیں کبھی بھی کوئی بات پوچھنے یا کہنے میں جھجھک محسوس نہیں ہوتی تھی۔ پڑھائی لکھائی کے معاملے میں بھی کسی قسم کا جبر یا سختی نہیں کرتے تھے۔ ان کے مطابق بعض والدین اپنے بچوں کو شدت سے انسان بنانا چاہتے ہیں اور نتیجہ دہری شخصیتوں کی صورت میں نکلتا ہے، یعنی باہر کچھ اور گھر میں کچھ۔۔ الحمدللہ ہمارے گھرانے میں یہ مسئلہ نہ ہماری نسل میں رہا نہ بعد کی نسلوں میں۔ ابو سے کسی بھی معاملے میں کبھی شکایت نہیں رہی، سوائے اس کے کہ نیا ناول اشاعت کی تاریخ سے پہلے پڑھنے کو نہیں دیتے تھے۔ رات بارہ بجے تک انتظار کر کے ہم گھر کے بچے تاریخ لگنے کے بعد ہی پڑھ پاتے تھے۔ یہ دراصل اصول پسندی کا سبق بھی تھا۔
علیزے نجف: جب لوگ آپ سے احمد صفی کے بجائے ابن صفی کے بیٹے ہونے کی حیثیت سے ملتے ہیں تو آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟ کیا کبھی آپ کے اندر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مجھے میری خدمات کے تحت بھی جانا پہچانا جائے؟
احمد صفی: ابو یعنی ابن صفی کا فرزند ہونا تو بے حد فخر کی بات ہے، ہم سب بہن بھائیوں کے لیے۔ بے حد خوشی ہوتی ہے جب اتنی محبت ابو کے تعلق سے ہمیں ملتی ہے۔ ان کے سب پرستاروں کو ہم اپنے توسیعی خاندان کا حصہ مانتے ہیں اور اتنا بڑا خاندان شاید ہی کسی ادیب کو میسر آیا ہو۔ ہاں یہ بات قدرتی ہے کہ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے اس کے کاموں سے پہچانا جائے۔ اکثر مشاعروں میں میری ولدیت بتا کر تعارف کرایا جاتا ہے تو پہلے ہی تالیاں پٹ جاتی ہیں اور پھر اس بات کا شبہ ہوتا رہتا ہے کہ کلام پر نہیں بلکہ نسبت پر داد مل رہی ہے، ایک مشاعرے میں ناظمہء مشاعرہ کے تعارف کے بعد فی البدیہہ یہ شعر کہا تھا:
ہم تو یہ سمجھتے تھے بہت علم پڑھے ہیں
ہم اپنی لیاقت ہی سے دنیا میں بڑھے ہیں
میلے میں جو دنیا کے پکارا گیا ہم کو
معلوم ہوا باپ کے کاندھوں پہ چڑھے ہیں
وہ ناظمہ شرمندہ ہوئیں مگر سامعین نے مصرعے اٹھا لیے اور نتیجۃً اگلے ایک مشاعرے میں ایک مشہور ناظم نے یوں تعارف کرایا کہ پہلے آپ اشعار سن لیں، مکمل تعارف بعد میں۔ وہاں محسوس ہوا کہ داد خالصتاً کلام ہی کو مل رہی ہے بہرحال، میں نے بہت سے مشاہیر کی اولادوں سے گفتگو میں یہی نتیجہ اخذ کیا کہ سب کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ یہ برگد تلے کے پودے ہیں۔
علیزے نجف: آپ خود بھی ایک ادیب و شاعر ہیں، آپ کے لکھنے کا آغاز کہاں سے ہوا؟ آپ کے والد ابن صفی نے آپ کو قلم سے نبردآزما ہونے کے کیا کوئی خاص گُر سکھائے تھے؟
احمد صفی: میں لکھتا ضرور ہوں مگر اپنے تئیں کبھی شاعر ادیب ہونے کا دعویٰ نہیں کیا کرتا. یہ مرتبے تو قارئین ہی عطا کیا کرتے ہیں۔ میں نے بچپن ہی میں کہانیاں لکھنی شروع کر دی تھیں لیکن کبھی انھیں اس قابل نہیں سمجھا کہ کسی رسالے میں بھجواتا اور نہ ہی ابو کو کہیں چھپوانے کو دیں۔ ابو نے میری کچھ کاپیاں دیکھی تھیں، جن سے انھیں اندازہ تھا کہ میں لکھتا ہوں۔ 1973 میں ایک میگزین، ماہنامہ دھنک کے انٹرویو میں جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ کے بچے بھی آپ کی کتابیں پڑھتے ہیں؟ تو انھوں نے جواب دیا تھا، ’’کچھ پڑھتے ہیں، کچھ نہیں، ایک ہمارے صاحبزادے احمد صفی صاحب تو خود کہانیاں بھی لکھتے ہیں۔‘‘
ابو نے مجھے کیا، اپنے سب پڑھنے والوں کو لکھنے کے خاص گُر سکھائے تھے۔ بہت سے ایمان دار مصنفین و ادبی اشخاص کھل کر اس بات کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے ناموں سے سب پرستاران ابن صفی واقف ہیں۔ ہاں یہ کہوں گا کہ قلم سے نبرد ازما نہیں ہوا جاتا بلکہ قلم کی مدد سے ہم سب زندگی سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں میرے ماسٹرز مکینیکل انجنئیرنگ کے مقالے کا انتساب کچھ یوں تھا:
’’میری والدہ سلمیٰ اسرار کے نام جنھوں نے مجھے قلم پکڑنا سکھایا اور میرے والد اسرار احمد کے نام جنھوں نے مجھے اسے استعمال کرنا سکھایا‘‘
اور یہی حقیقت ہے کہ دیگر لکھاریوں کی طرح میں نے بھی ان سے اکتسابِ فن ضرور کیا ہے، گو سرّی ادب میرا میدان نہیں رہا۔
علیزے نجف: لکھنے و پڑھنے کے علاوہ آپ کے کیا مشاغل ہیں، وقت گزاری کے لیے کیا کرنا پسند کرتے ہیں؟
احمد صفی: کارہائے جہاں ایسے دراز ہوئے ہیں کہ اب لکھنا پڑھنا بہ قدرِ مشغلہ ہی رہ گیا ہے جو، اگر فارغ اوقات میسر آئیں تو، اختیار کر لیتا ہوں۔ میں کُل وقتی طور پر ایک بین ااقوامی ادارے کے لیے کام کرتا ہوں اور لاہور ہی سے ان کے مشرق وسطیٰ کے کاروبار میں معاونت کرتا ہوں۔ یوں سمجھ لیں عرب امارات، عمان اور قطر میں بجلی کی فراہمی میں انگلی کٹانے بھر میرا بھی کچھ حصہ ہے۔ میں گھر سے کام کرتا ہوں۔ اور جب آپ گھر سے کام کرتے ہیں تو آپ گھر نہیں جا پاتے۔ ع رہتا ہے کم بخت یہ دفتر کھلا۔ (مسکراہٹ)
اس مصروفیت کا شاخسانہ یہ کہ نہ ادبی محافل میں شریک ہو پاتا ہوں نہ لوگوں سے مل پاتا ہوں۔ بس تھوڑا بہت جو وقت ملتا ہے اسی میں کچھ پڑھنے لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ موسیقی کا سننے کی حد تک شوق ہے سو کوشش کر کے ساتھ ساتھ سنتا رہتا ہوں۔ اس کے علاوہ میری کوشش ہوتی ہے کہ فارغ وقت کا زیادہ حصہ اپنے گھر والوں کے ساتھ خرچ ہو۔ جن کی معاونت اور محبت سے یہ کاروبارِ حیات جاری و،ساری ہے۔ یہ سب نہ ہوں تو انسان دیوانہ ہی نہ ہو جائے۔
علیزے نجف: کہتے ہیں خوبیاں جینز میں سرایت کرجاتی ہیں، اس معنی میں اپنے خاندان کے کس فرد کو آپ ابن صفی کی قلمی وراثت کا امین سمجھتے ہیں؟ آپ کے بھائی بہن کے بچوں میں سے کون قلم سے جڑا ہوا ہے؟
احمد صفی: جب لکھنے پڑھنے کی صلاحیتوں کا ذکر ہو تو پوچھنے والے کی عمومی امید یہی ہوتی ہے کہ اولادوں میں سب کے سب لکھاری ہی ہوں گے حالانکہ میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں:
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشے خدائے بخشندہ
تو اسی وجہ سے گھر میں سب ہی لکھاری نہیں ہیں۔ ہمارے بھائی بہنوں میں سب سے بڑی بہن نزہت افروز نے کراچی یونی ورسٹی سے بی.اے میں ٹاپ کیا تھا اور گولڈ میڈلسٹ تھیں۔ ان کا موضوع سیاسیات تھا اور بہت خوب لکھتی تھیں۔ مگر انھوں نے سنجیدگی سے اس طرف توجہ نہیں دی۔ ان کے نام کا فائدہ اٹھا کر ایک صاحبہ نے @این صفی کے نام سے ناول لکھے اور لوگ سمجھتے رہے کہ نزہت باجی ہی لکھ رہی ہیں۔ ان کی بٹیا نادیہ نے بھی بزنس ایڈمنسٹریشن میں گولڈ میڈل لیا. وہ اپنی ذہانت کو فیملی اور اپنے آئی ٹی سے متعلق کام میں استعمال کر رہی ہے۔ میرے خیال میں وہ ایک کاٹ دار مزاح نگار بن سکتی ہے۔ بیٹا علی بھی مصروفِ آئی ٹی ہوا۔
بڑے بھائی ڈاکٹر ایثار احمد مرحوم میں نثر و شعر نگاری کی صلاحیت تھی۔ وہ اٹلی میں روزنامہ جنگ کے نامہ نگارِ خصوصی تھے۔ ان کا ایک شعر دیکھیے:
ایسے کبھی نہ دیکھے ہوں گے کبھی طبیب
رکھیں جو ہاتھ دل پر دردِ جگر کہیں !!!!
وہ اپنے پیشے کی مناسبت سے طبیب تخلص کرتے تھے۔ ان کے بچوں میں بٹیا یسریٰ نے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا ہے اور ان میں لکھنے کا ملکہ ہے۔ مگر ہم سب کی طرح چھپوانے سے زیادہ تحریریں چُھپاتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ کبھی نہ کبھی منظر عام پر آئیں گی۔ ان کا بیٹا سعد صفی بھی ماس میڈیا میں صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہا ہے۔ اس کے کیے ہوئے انٹرویوز بہت دل چسپ ہوتے ہیں۔ عدیل میاں ڈاکٹر بن رہے ہیں اور ایک مخفی شخصیت ہیں۔
برادرم ابرار احمد یعنی ہمارے بھیا ویسے تو انجنئیر ہیں مگر شاعری اور مصوری خوب کرتے ہیں۔ ان کا شعر دیکھیے:
ملاح موم کے ہیں کڑی دھوپ کا سفر
کشتی کو ناخدا کے سہارے نہ چھوڑیے
بھیا میرین انجنئیر رہ چکے ہیں، لہٰذا ان کے یہاں سمندر، طوفان، جہاز اور ملاح جیسے استعارات استعمال ہوتے ہیں۔ بھیا بھی سنجیدگی سے اس طرف نہیں آئے ورنہ اپنا نام ضرور بناتے۔ ان کے سب بچے باصلاحیت ہیں. اپنی اپنی فیلڈ کے علاوہ لکھنے لکھانے او ،آرٹس میں بھی۔ بچیاں تو لکھتی بھی ہیں مگر اب ان کی زبان انگریزی ہے جس میں وہ انعامات حاصل کرتی رہتی ہیں۔
بہن ثروت میں بھی طنز و مزاح کے جراثیم موجود ہیں. کاش وہ لکھتیں تو خاصے کی چیز ہوتی۔ ان کے ذہین بچے شیما، ثمرہ اور عثمان بھی اپنی اپنی فیلڈ میں امتیازی کام کر رہے ہیں۔ شیما بچپن میں انگریزی شاعری کرتی تھیں، مجھے یقین ہے اب بھی وقت ملتا ہوگا تو کچھ نہ کچھ لکھتی ہوں گی۔
میرے بچے لکھتے ہیں مگر مجھے کم کم دکھاتے ہیں. شاید یہ بھی کوئی جینیاتی مسئلہ ہی ہو۔ ایمی انگریزی میں لکھتی ہیں. اپنے موضوع نفسیات میں گولڈ میڈلسٹ ہیں اور مختلف انسانی حقوق کی تحریکوں میں معاون ہیں۔ اثمر صاحب باقاعدہ ایکٹیوسٹ ہیں اور مصوری، شاعری اور گلوکاری سب میں اپنے جوہر دکھاتے رہتے ہیں۔
افتخار اور محسنہ دونوں اچھا ذوق رکھتے ہیں مگر لکھتے لکھاتے نہیں۔ افتخار کے بچے حمزہ اور طلحہ بھی قابل ہیں۔ طلحہ اپنی انجنئیرنگ کے ساتھ موسیقی میں بھی درک رکھتے ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے کہ خانوادہء ابن صفی کے بارے میں یہ تفصیل ظاہر کر سکا۔ اس کے لیے آپ کا شکر گزار ہوں. 
علیزے نجف: اردو جاسوسی ادب پہ آپ کی گہری نگاہ ہے. ایک جاسوسی ادیب دوسرے ادیبوں سے کس طرح مختلف ہوتا ہے؟ کیا اس کے لیے کسی خاص صلاحیت اور خاص زاویۂ فکر کی ضرورت ہوتی ہے؟
احمد صفی: ابھی کچھ عرصہ پہلے ابن صفی کے ایک پرپوتے میکائیل اصغر نے جن کی عمر اس وقت 9 سال تھی ایک بہت گہرا سوال کیا اور اسی میں آپ کے سوال کا جواب بھی مضمر ہے۔ میکائیل کا سوال ملک کی ایک انٹیلی جنس ایجنسی کا ابن صفی سے مدد لینے کے بارے میں تھا۔ اس آرگنائزیشن کے ابتدائی دنوں میں ابو کو تفتیش کے فن پر اظہار خیال کی دعوت دی گئی تھی۔ میکائیل کا سوال تھا کہ ایجنسیز کو ایک کہانی کار سے کیا مدد مل سکتی ہے۔
یہ وہ بنیادی سوال ہے جو اس خاص صلاحیت اور خاص زاویۂ فکر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ آج کل مغربی ممالک میں خصوصی محکمے ہوتے ہیں، جن میں ماہرین نفسیات اور کرمنالوجسٹ بھرتی کیے جاتے ہیں. وہ مجرموں کے عادات و اطوار اور جرم کے طریقۂ کار اور دیگر معاملات دیکھ کر ان کے اگلے اقدام کا اندازہ کرتے ہیں۔ اس طرح مجرم اگلی واردات سے قبل ہی دھرے جاتے ہیں۔ اب مجرموں کے ذہن میں اتر کر اس طرح اندازہ لگانے کی صلاحیت کسی کہانی کار کو میسر آ جائے تو پھر ابن صفی جیسا فن کار سامنے آتا ہے۔ ان کے پلاٹوں کی بنت میں یہ عنصر ضروری تھا۔ اس لیے وہ فکشن سے زیادہ حقیقت سے قریب نظر آتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اور دفاعی اداروں کے تجزیہ کار ان سے لطف بھی اٹھاتے ہیں اور ان سے مدد بھی لیتے ہیں۔ جاسوسی ادب تخلیق کرنے کے لیے یہ عنصر لازمی درکار ہے، ورنہ کہانیاں تو کوئی بھی لکھ لیتا ہے۔ آپ کو مغربی کرداروں شرلک ہومز، مس مارپل، ہرکیول پوائرو اور دیگر میں یہی خصوصیات ملیں گی. اسی لیے آرتھر کونن ڈوئل، اگاتھا کرسٹی، ٹام کلانسی اور جان گریشم وغیرہ بھی اپنے ہم عصر مصنفین میں نمایاں ہی نظر آتے ہیں۔
علیزے نجف: ابن صفی کو جاسوسی ادب کا بےتاج بادشاہ کہا جاتا ہے، جاسوسی ادیب چھوٹے سے چھوٹے نکات پہ گہری نظر رکھتے ہیں. کیا بچپن میں کبھی ایسا ہوا کہ آپ کے بہن بھائی میں سے کسی نے کسی معاملے میں اصل بات چھپا کر غلط پلاٹنگ کرنے کی کوشش کی ہو اور انھوں نے ایک لمحے میں اسے بھانپ لیا ہو؟
احمد صفی: ابو واقعی جزئیات پر ایسی ہی گہری نظر رکھتے تھے جیسے مغربی کلاسیکی جاسوسی ادب میں شرلک ہومز یا یوں کہیے اس کا خالق کونن ڈوئیل رکھتے تھے۔ ایسے واقعات تو بہت ہوں گے جن میں وہ بہت کچھ بھانپ کر بھی طرح دے جاتے ہوں گے۔ کبھی کبھی حیران بھی کر دیتے تھے. کچھ ظاہر کر کے آخر میں ہم سب کو حیران بھی کر دیتے تھے۔ اور ہم کہتے رہ جاتے تھے کہ ابو کو تو پہلے سے اندازہ تھا۔ ایک چھوٹا سا واقعہ جو میں پہلے بھی کہیں بیان کر چکا ہوں اسی امر کی نشان دہی کرتا دکھائی دیتا ہے۔
ابو کے بٹوے پر ہم بھائیوں کی نظر رہا کرتی تھی جس میں ان کی تمباکو، کتھا، چونا اور چھالیہ وغیرہ رہا کرتا تھا۔ اس میں چھالیہ ہماری پسندیدہ چیز تھی مگر اس کے کھانے کی ممانعت بھی تھی۔ ایک روز دوپہر میں ابو قیلولہ کرتے ہوئے اونگھ رہے تھے، مجھے بلایا اور کہا کہ پیٹھ تو دبا دو۔ وہ ایک کروٹ لیٹے تھے میں نے ان کے پیچھے بیٹھ کر دونوں ہاتھوں سے دبانا شروع کیا۔ اسی دوران میری نظر بٹوے کی ڈوری پر پڑی جو تکیے کے نیچے سے جھانک رہی تھی۔ سوچا چھالیہ پہ ہاتھ صاف کیا جائے۔ ابو گہری اونگھ میں تھے۔ میں نے دائیں ہاتھ کی جگہ اپنا دایاں پیر استعمال کرنا شروع کیا۔ اور فارغ ہاتھ سے آہستہ آہستہ بٹوہ کھینچ نکالا۔ اس میں دونوں طرف ڈوری ہوتی ہے جسے کھینچنے سے بٹوہ کھل جاتا ہے۔ میں نے ابو کو دباتے دباتے، ایک طرف کی ڈوری کو دانت میں دبایا اور دوسری طرف کی ڈوری کو ہاتھ سے کھینچا۔ بٹوہ کھل گیا۔ اب اسے بستر پر گرا کر فارغ ہاتھ سے چھالیہ چرا کر منہہ میں ڈالی۔ اور پھر اٹھا کر دوسری طرف کی ڈوری کو منہہ میں دبایا ہی تھا کہ آنکھ بند کیے کیے ابو کی آواز گونجی، ”اِجّی، دونوں ہاتھ سے بٹوہ بند کرو۔۔۔ ورنہ ساری تمباکو چھالیہ مکس ہو جاتی ہے۔" اووووپس۔۔۔ جان ہی تو نکل گئی، ابو کو ساری واردات کا مکمل علم تھا اور طریقۂ واردات بھی آنکھ بند کیے کیے بھانپ گئے تھے۔ ایسے تھے ہمارے ابو۔۔۔بےشک وہ ہمارے باپ تھے!
علیزے نجف: ابن صفی کے ناولوں کے خصائص کی فہرست لمبی ہے اس میں سے ایک خوبی ان کا کمال کا تخیل اور کردار نگاری ہے. ان کی منظر نگاری حقیقت کی تخلیق میں معاون بنی ہے. آپ کے خیال میں ان کی اس تخیل آفرینی اور کردار بینی کو کہاں سے مہمیز ملتی تھی؟
احمد صفی: سب سے پہلی بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ ان کا مشاہدہ بہت زبردست تھا۔ کسی منظر کو دیکھ لیں تو وہ اپنی تمام تر جزئیات کے تحت انہیں یاد رہ جاتا تھا۔ تو ایسے تمام مناظر محض تخیل ہی میں نہیں ان کے اصل مشاہدے اور پھر پردۂ سیمیں پر دیکھے ہوئے یا کتابوں میں پڑھے ہوئے تذکروں کے مرہونِ منت ہوتے تھے۔ ان کا مطالعہ بہت گہرا تھا اور وہ ہر ناول کے لیے گہری تحقیق کیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک ناول میں زنجبار کا سفر دکھایا گیا تھا۔ تو ایک دن شام کو مجھے اور چھوٹے بھائی افتخار کو انگریزی فلم شاؤٹ ایٹ دا ڈیول
Shout at the devil (Roger Moore, LeeMarvin)
دکھانے لے گئے جس میں راجر مور اور لی ماروِن جیسے اداکار شامل تھے۔ یہ فلم زنجبار کے بیک ڈراپ میں بنی تھی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ ہمیں لڑائی مار کُٹائی والی فلم بھی دکھا دیں اور خود اپنے ذہنی نوٹس بھی لے لیں۔
اس کے علاوہ وہ موضوع سے متعلق کتابیں بھی استعمال کرتے تھے اور غیر ملکی سفارتخانوں سے ان مقامات کے بارے میں معلوماتی لٹریچر بھی منگوا لیتے تھے۔
علیزے نجف: آپ نے اپنے والد ابن صفی کو انتہائی قریب سے دیکھا اور سمجھا ہے. آپ نے ان میں ایسی کیا خوبیاں دیکھیں جو کہ ان کی شہرت کا باعث بنیں اور اسے دوسرے ادیبوں میں آپ  شاذ و نادر ہی دیکھتے ہیں؟
احمد صفی: مجھے نہیں سمجھ میں آتا کہ کن خوبیوں کی طرف اشارہ کروں۔ اور وہ بھی ایسی کہ جن کی وجہ سے ان کو شہرت یا ہوں کہیے کہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کے لیے پھر میں علامہ اقبال اسکالر جناب خرم علی شفیق صاحب کا سہارا لوں گا جنھوں نے ابو پر تین کتابیں لکھی ہیں۔ خرم صاحب کا ایک نظریہ ہے کہ ہر دور میں کچھ ادیب ایسے ہوتے ہیں جن کو ہم جمہوری ادیب کہہ سکتے ہیں۔ جمہوری ادیب وہ ہوتا ہے جسے معاشرے کے ہر طبقے میں یکساں مقبولیت حاصل ہو۔ اس کلیہ پر وہ ابن صفی کو جمہوری ادیب قرار دیتے ہیں۔ اس مرتبہ پر پہنچنے کے لیے ادیب اپنی تحریروں کو اپنے پڑھنے والوں کی آرا کو مد نظر رکھ کر سپردِ قلم کرتا ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ ان کی آرا پر چلے بلکہ وہ اپنے خیالات اور نظریات عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے ان تک پہنچائے۔ ان کی سمت درست کرے۔ ابو کے پاس روزانہ کی بنیاد پر درجنوں خطوط آتے تھے۔ وہ تمام خطوط پڑھتے تھے اور سب کا جواب بذاتِ خود دیا کرتے تھے۔ ان کی تحریروں کی مقبولیت کا یہی راز ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر قاری کہہ اٹھتا ہے ع
میں نے جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
خرم صاحب اقبال کی ایک نظم کو ابن صفی پر منطبق کرتے ہیں۔ ضرب کلیم کے باب ادبیات/فنونِ لطیفہ کی اس نظم میں آپ کو ساری ہی خصوصیات نظر آجاتی ہیں:
اس کی نفرت بھي عميق ، اس کي محبت بھي عميق
قہر بھی اس کا ہے اللہ کے بندوں پہ شفيق

پرورش پاتا ہے تقليد کی تاريکی ميں
ہے مگر اس کی طبيعت کا تقاضا تخليق

انجمن ميں بھی ميسر رہی خلوت اس کو
شمع محفل کی طرح سب سے جدا، سب کا رفيق

مثل خورشيد سحر فکر کی تاباني ميں
بات ميں سادہ و آزادہ، معانی ميں دقيق

اس کا انداز نظر اپنے زمانے سے جدا
اس کے احوال سے محرم نہيں پيران طريق
اب جن ادیبوں میں یہ خصوصیات دیکھیں، مشاہدہ کیجے گا ان کی مقبولیت عوام و خواص میں یکساں ہی ہو گی۔
علیزے نجف: آپ نے بارہا یہ بات کہی ہے کہ آپ کے والد اپنے بچوں کے ساتھ دوستوں کی طرح پیش آتے تھے. آج جب کہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے، عمر کے اس حصے میں آپ ان کی کمی کو کس طرح محسوس کرتے ہیں؟
احمد صفی: رب رحمھما کما ربیانی صغیراً۔ یا رب ہمارے والدین پر ایسے ہی رحمت فرما جیسے انھوں نے صغر سِنی میں ہمیں پالا پوسا۔ آمین۔ اس دعا کے بعد کہوں گا کہ واقعی ابو نے ہمیشہ دوستانہ رویہ ہی رکھا اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب جب کہ ہم بھائی بہن خود صاحبانِ اولاد ہیں تو اپنی اولاد کے ساتھ ہمارا رویہ بعینہ ویسے ہی ہے۔ یہ بھی ایک طرح ان کے ہمارے ساتھ ساتھ ہونے کی دلیل ہے۔ ان کی کتاب کھول لیں تو پیش رس سے آخری صفحے تک ان کا لہجہ اور نصیحت نصیب ہو جاتی ہے۔ ان کی کمی شاید اسی لیے اس طرح محسوس نہیں ہوتی۔
ہاں یہ تو ظاہر ہے کہ ماں باپ کی کمی کو کوئی بھی پورا نہیں کر سکتا. اس لیے کبھی ماں کی چھاتی سے لگ کر رونے کا دل کرے یا باپ کے سینے سے لگ کر اس کی چھاؤں میں آجانے کی تڑپ ہو تو بس تڑپ ہی کر رہ جاتے ہیں۔ ابو کا یہ شعر یاد آجاتا ہے:
وہ جس کا سایہ گھنا گھنا ہے
بہت کڑی دھوپ جھیلتا ہے
علیزے نجف: یہ ڈیجیٹل دور ہے، پوری دنیا اسکرین میں پناہ لیتی دکھائی دے رہی ہے، قاری کی تعداد کا گراف نیچے کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے، ایسے میں کیا ابن صفی کے قاریوں کا حلقہ بھی متاثر ہوا ہے؟ اس ڈیجٹل دور کے قاری سے آپ ابن صفی کو کیسے متعارف کروائیں گے؟
احمد صفی: ابن صفی وہ واحد ادیب ہیں جو انٹر نیٹ کی آمد سے پہلے یعنی گوگل کی پیدائش سے پہلے 1997 میں اردو ادیب کے طور پر اپنا ویب پیج رکھتے تھے۔ اس کا ایڈریس
www.ibnesafi.com
ہوتا تھا۔ 2004میں ہیک ہونے کے بعد اسے محمد حنیف صاحب کی مدد سے
IbneSafi.info
پر منتقل کیا گیا اور آج تک سب کو ابو سے متعلق مستند معلومات اسی سائیٹ سے مل سکتی ہیں۔
پھر غیر قانونی پی ڈی ایف کے طوفان سے بھی ابن صفی کی تخلیقات انٹر نیٹ پر پھیلیں۔ ہند و پاک میں ان کے قارئین کی تعداد بڑھتی رہی۔ ابو کے نام پر بہت سے فین پیجیز اور گروپ منظر عام پر آئے اور نوجوان پڑھنے والوں نے ابو کی محبت میں اپنے آپ کو صفیانے کہلانا شروع کر دیا۔ یہ سب ہمارے خاندان ہی کا حصہ ہیں۔
اس کے بعد یہ سوچا گیا کہ قارئین کو غیر معیاری اسکین شدہ ناولوں کے بجائے معیاری اور کمپوزڈ ناولیں آن لائن فراہم کی جائیں۔ ایک معاہدے کے تحت بھائی فصیح الدین اب انھیں اپنی سائیٹ سے پیش کر رہے ہیں:
www.adeeb-online.com
سمعی و بصری میدان بھی کاہے خالی رہنے دیا جائے۔ سب ناولوں کی ڈرامائی آڈیو پیشکش جاری ہے اور اس وقت دنیا بھر میں
Www.Audible.com
پر اور پاکستان میں ٹیلینور کی ایپ پر یہ ناولیں موجود ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے. 
بصری شعبہ میں بھی ایک گروپ کے ساتھ کام ہو رہا ہے اور جلد اس سلسلے میں خوشخبری پرستاروں تک پہنچے گی۔
علیزے نجف: ابن صفی کے بارے میں کچھ ادیبوں نے کہا تھا کہ "اگر ابن صفی جاسوسی ناولوں کے چکر میں نہ پڑتے ‘خالص ادب’ لکھتے تو شاید آج بہت بڑے ادیب ہوتے، منٹو، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی ، خواجہ احمد عباس کی صف میں کھڑے نظر آتے" اس بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
احمد صفی: اس سوال کے جواب میں میں وہی کہنا چاہوں گا جو کہ ابو نے کہا تھا، میں ان کے سوانحی مضمون، "میں نے لکھنا کیسے شروع کیا" سے دہرا دیتا ہوں:
"مجھے اس وقت بہت ہنسی آتی ہے جب آرٹ اور ثقافت کے علمبردار مجھ سے کہتے ہیں کہ میں ادب کی بھی کچھ خدمت کروں. ان کی دانست میں شاید میں جھک مار رہا ہوں۔ حیات و کائنات کا کون سا ایسا مسئلہ ہے جسے میں نے اپنی کسی نہ کسی کتاب میں نہ چھیڑا ہو۔ لیکن میرا طریق کار ہمیشہ عام روش سے الگ تھلگ رہا ہے۔ میں بہت زیادہ اونچی باتوں اور،ایک ہزار کے ایڈیشن تک محدود رہ جانے کا قائل نہیں ہوں۔ میرے احباب کا اعلیٰ و ارفع ادب کتنے ہاتھوں تک پہنچتا ہے اور انفرادی یا اجتماعی زندگی میں کس قسم کا انقلاب لاتا ہے؟
افسانوی ادب خواہ کسی پائے کا ہو مخض ذہنی فرار کا ذریعہ ہوتا ہے۔ کسی نہ کسی معیار کی تفریح فراہم کرنا ہی اس کا مقصد ہوتا ہے۔ جس طرح فٹ بال کا کھلاڑی شطرنج سے نہیں بہل سکتا، اسی طرح ہماری سوسائٹی کے ایک بہت بڑے حصے کے لیے اعلیٰ ترین افسانوی ادب قطعی بے معنی ہے۔ تو پھر میں گنے چنے ڈرائنگ روموں کے لیے کیوں لکھوں؟ میں اسی انداز میں کیوں نہ لکھوں جسے زیادہ پسند کیا جاتا ہے شاید اسی بہانے عوام تک کچھ اونچی و اچھی باتیں بھی پہنچ جائیں-"
علیزے نجف: ابن صفی نے اپنے ناولوں میں جرم اور مجرمانہ ذہنیت کے پیچ و خم کا ذکر کرتے ہوئے قانون کی پاس داری کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، کیا اس سے مجرمانہ ذہن رکھنے والوں کو جرم کرنے کے نئے نئے طریقے نہیں معلوم ہوئے ہوں گے؟ کیوں کہ قاری تو کچھ بھی اخذ کرنے میں آزاد ہوتا ہے؟
احمد صفی: اپنے ایک ٹی.وی انٹرویو میں ابو نے براڈکاسٹروں محترمہ خوشبخت شجاعت اور اطہر شاہ خاں کو پروگرام "آپ جناب" میں ان کے ایسے ہی سوال کا جواب دیا تھا۔ اطہر شاہ خاں صاحب نے کہا کہ فلموں اور جاسوسی ناولوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان سے جرائم کی تحریک بھی ملتی ہے، جس پر ابو نے کہا، "صاحب، میرا تو یہ رویہ نہیں ہے۔ ایک چیز ہوتی ہے ٹریٹمنٹ۔ٹریٹمنٹ میرا ایسا ہوتا ہے کہ پڑھنے والوں کی ہمدردیاں قانون اور قانون کے محافظوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ لہٰذا میرے ناولز سے یا اس قسم کے جاسوسی ناول جو لکھے جاتے ہیں ان سے بگاڑ کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔ سیکھتے ہی ہیں لوگ ان سے۔"
خوشبخت پوچھتی ہیں کہ "جرم کرنے کا طریقہ بھی تو پتہ چلتا ہوگا؟" ابو نے کہا، "نہیں میں بہت محتاط رہتا ہوں اس سلسلے میں کہ میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاتا ہوں-"
https://www.compast.com/ibnesafi/audio/aapjanab.mp3
(انٹرویو آپ جناب… سنیے 3:50 منٹ سے)
اسی طرح خوشبخت صاحبہ نے ریڈیو پروگرام "جہاں کوئی نہ ہو" میں ناولوں کے بارے میں پوچھا کہ "جرم کا بھی پتہ چلتا ہے کہ کس طرح جرم کیا جائے؟" جس پر ابو نے کہا: "جی نہیں، میری کتابوں میں آپ کو جرائم کی ترکیب ہر گز نہیں ملے گی۔۔۔ میں کبھی پلاننگ نہیں کرتا ہوں ترکیبیں نہیں بتاتا ہوں بس ایک جرم ہو گیا اور اسی سلسلے میں چل پڑے سراغرساں ۔۔۔ اور یہ کہ کس کس طرح سے وہ ان تک، مجرموں تک پہنچے بس یہ ہوتا ہے۔ کبھی میں نے اس طرح نہیں کہ جیسے اور باہر سے جو لٹریچر آتا ہے ان کے تراجم ہوتے ہیں مثال کے طور پر کسی بینک پر ڈاکہ ڈالنا ہے۔۔۔ باقاعدہ وہ پورا نقشہ دیتے ہیں۔۔۔ کس کس طرح جانا ہے کیا کرنا ہے۔۔۔اور اگر قریب میں پاور ہاؤز ہے تو کس طرح کرنا ہے کہ اندھیرا ہو جائے اور یہ وہ سب۔۔۔ اس قسم کی چیزیں میں نہیں لکھتا انہیں اوائڈ avoid کرتا ہوں."
http://www.compast.com/ibnesafi/audio/jahanknh.mp3
(انٹرویو جہاں کوئی نہ ہو ۔۔۔ سنیے 16:10 منٹ سے)
ان دونوں لنکس کا اگر کیو آر کوڈ بنا کر ساتھ ہی چھاپ دیں تو لوگ سکین کر کے ابو کی آواز سن سکیں گے۔ یہ بہت مقبول ہو گا. 
علیزے نجف: اسرار ناروی کو ابن صفی نامی فن کار بنانے اور ان کی ذہن سازی کرنے میں کن عوامل نے اہم کردار ادا کیا تھا؟
احمد صفی: ان کی ذہن سازی کا آغاز بچپن سے ہو گیا تھا۔ انھوں نے اپنے سوانحی مضامین "میں نے لکھنا کیسے شروع کیا" اور "بقلم خود" میں اس کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔۔۔ لیکن میں ایک راز کی بات بتاؤں، ان کی ذہن سازی کن عوامل کی مرہونِ منت ہے اگر یہ جاننا ہو تو عمران سیریز کے ناول "ڈاکٹر دعاگو" (انڈین ایڈیشن "گھر کا بھیدی") میں علی عمران کے سوانحی خاکے والا حصہ پڑھیے۔
بچپن سے وہ مطالعے کے شوقین تھے اور والدہ کے ادبی ذوق کے باعث اس راہ پر آئے۔ پھر جو احباب ملے اور تعلیمی اداروں میں جو ماحول ملا، اس نے اس شخصیت سازی کو مہمیز دی۔ ان سب عوامل نے اسرار ناروی نامی اس پودے کی آبیاری کی اور بالآخر وہ ابن صفی جیسی تناور شخصیت بن کر مقبول ہوا۔
علیزے نجف: ابن صفی کو ہم بہت شوق سے پڑھتے ہیں، خود ابن صفی کسے شوق سے پڑھتے تھے اور خود آپ ابن صفی کے علاوہ کسے باقاعدہ پڑھتے ہیں؟
احمد صفی: ابو بہت کثیر المطالعہ شخصیت تھے۔ اردو نثر میں تقریباً سب مصنفین کو پڑھتے تھے۔ شاعری میں ان کے پسندیدہ شاعر میرا جی تھے۔ فیض احمد فیض، جوش، جعفر طاہر اور جمیل الدین عالی کے بارے میں اپنے کرداروں سے تعریفی کلمات کہلوائے ہیں۔
انگریزی ادب میں بھی بہت دل چسپی رکھتے تھے۔ سِرِّی اور قانونی ادب میں ارل اسٹینلے گارڈنر، آرتھر کونن ڈوئل، اگاتھا کرسٹی، جیمز ہیڈلے چیز، السٹئیر مکلین اورلوئیس لاایمور تھے۔ آخری ناول ان کے سرہانے لاایمور کی Rivers West تھی۔
دیگر مصنفین میں ہیرلڈ روبنس کو اس کے پلاٹ کے ٹریٹمنٹ کی وجہ سے خصوصاً پسند کرتے تھے۔
ابو جو ناول پڑھتے تھے اس کے بعد میرے حصے میں آتا تھا اور بعض دفعہ میں کوئی کتاب لاتا تو مجھ سے پہلے ہی لے لیتے تھے کہ ان کے بقول وہ تیز پڑھتے تھے اور مجھے دیر لگتی تھی۔ بہرحال انھیں جو مصنفین پسند تھے وہی مجھے بھی پسند رہے اور ان کی وفات کے بعد بھی کئی نئے آنے والوں نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔ فہرست اردو اور انگریزی دونوں کی طویل ہے اور جگہ کم پڑ جانے کا اندیشہ ہے۔
علیزے نجف: ریسرچ کے میدان میں ابن صفی کو موضوع بنانے میں پروفیسر خالد جاوید صاحب نے اہم کردار ادا کیا ہے، ہندستان میں کئی طلبہ نے ابن صفی کی شخصیت و فن پہ ایم.فل و پی.ایچ.ڈی کے مقالے لکھے ہیں. پاکستان میں اس حوالے سے اب تک کیا ایسا کوئی سنجیدہ کام ہوا ہے؟
احمد صفی: بےشک ہندستان میں ابن صفی کی مقبولیت پہ کوئی شک نہیں کیا جا سکتا، خالد جاوید صاحب کی اس ضمن میں کی گئی کوششیں قابل ذکر ہیں. کئی مقالے ان کے زیر نگرانی لکھے گئے ہیں، رہی بات پاکستان کی تو ہاں پاکستان میں بھی ابن صفی کی شخصیات اور ان کی خدمات پہ ایم.فل اور پی.ایچ.ڈی کے متعدد تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں، خورشید احمد وٹو نے ‘ابن صفی کی خدمات’ کے موضوع پہ علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی اسلام آباد سے ایم.فل کا مقالہ لکھا، محمد یاسین نے The representation of European society in the selected novels of Ibn-E – Safi کے عنوان پہ جامعہ کراچی سے ایم.فل انگریزی کا مقالہ لکھا، عبد الحق نے ڈی.فل کے لیے لکھے گئے اپنے تحقیقی مقالے ‘پاکستان میں اردو ناول’ کے تحت ابن صفی کے ناولوں پہ بحث کی ہے، اس کے علاوہ قدیر احمد، گلشن نسیم وغیرہ نے بھی اپنے تحقیقی مقالوں میں ابن صفی کی ناول نگاری و اسالیب پہ قابل مطالعہ تحقیق کی ہے۔ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔
علیزے نجف: ابن صفی ایک زود نویس قلم کار رہے ہیں، زود نویسی کو بعض لوگ پسند نہیں کرتے، آپ کو کیا لگتا ہے زود نویسی سے معیار متاثر ہوتا ہے یا یہ زود نویسی کچھ خاص لوگوں کو ہی راس آتے ہیں؟
احمد صفی: زود نویسی کی دو وجوہات ہوتی ہیں۔ ایک وجہ یہ کہ تخلیقی صلاحیتیں بے پناہ ہو جائیں اور زمین سے پھوٹنے والے چشمے کی طرح پانی ابل ابل کر دھرتی کو سیراب کرنے لگے۔ اور دوسری یہ کہ ایک کے بعد ایک تخلیق سامنے لائی جائے اور اس کے مالی فوائد حاصل کیے جائیں۔ ابو بہرحال پہلی کٹیگری میں آتے ہیں۔ اس کا طبی ثبوت یہ ہے کہ ڈاکٹروں اور ماہرین نفسیات کے مطابق ان کی سن انیس سو ساٹھ میں شروع ہونے والی بیماری شیزوفرینیا یا بائی پولر ڈزیز کی وجہ ان کی زود نویسی اور کثیرنویسی ہی تھی۔ لیکن اس میں ان کا معیار گر نہیں رہا تھا بلکہ بڑھ ہی رہا تھا۔ تین سال بعد جب لکھنا شروع کیا تو ڈاکٹرز کی ہدایت پر ہاتھ ہلکا رکھا۔ لیکن ان کی مقبولیت میں آخری ناول تک کمی نہ ہوئی۔ ہر ہر ناول کے کئی کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔
میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ اللہ کی دین ہے۔ یہ صلاحیت زورِ بازو سے نہیں حاصل کی جا سکتی۔
علیزے نجف: آپ خود ایک ادیب ہیں، آپ اس وقت اردو ادب کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ کیا یہ زندگی آموزی کے عناصر سے قریب تر ہے یا منتشر ذہنوں کا آمیزہ ہے؟
احمد صفی: بھئی میں نہ کوئی نقاد ہوں اور نہ ہی اس قسم کی کسی رائے دہی کے لائق اسناد کا مالک۔ ایک قاری ہوں اور ارد گرد کے عوامل سے متاثر ہو کر لکھتا ہوں۔ میرے نزدیک زندگی آمیز ہونا ادب کے لیے زیادہ ضروری ہے، زندگی آموز وہ از خود ہو جاتا ہے۔ ادب اگر حقیقت سے قریب نہ ہو تو محض فینٹیسی بن کر رہ جاتا ہے جس کا دیرپا اثر نہیں ہوتا۔ حقیقت سے ماخوذ ادب زندگی کی سمت درست کرتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ تخلیقات میں مقصدیت کوٹ کوٹ کر بھری جائے اور مواعظ کے پیوند زبردستی تحاریر میں ٹانکے جائیں۔ البتہ اس بات کا خیال رکھ لینے میں حرج نہیں کہ بنیادی سبق مثبت ہو۔ جیسے کسی جاسوسی ناول میں قانون اور انصاف کی بالا دستی نظر آئے اور باطل کے مقابلے میں حق کی جیت ہو یا کم از کم اس سے غلط اور صحیح کا احساس پیدا ہو۔ جو مصنفین اس راہ پر گامزن ہیں وہ مقبول بھی نظر آئیں گے اور کامیاب بھی۔
علیزے نجف: جاتے جاتے آپ ابن صفی کے پرستاروں سے کیا کچھ کہنا چاہیں گے؟
احمد صفی: ابن صفی کے سب پرستار کو ہم ابن صفی کے سب اہلِ خانہ، اپنے خاندان کا حصہ مانتے ہیں۔ جتنی محبت اور دعائیں ہم سب کو ملتی ہیں ان کا شمار اور شکریہ ممکن نہیں. اتنا بڑا خاندان شاید ہی کسی ادیب کو میسر آیا ہو۔ سبھی پرستاران کے لیے دل سے دعائیں۔ سب ابو کے مشن یعنی قانون کے احترام کو اپنی نظروں میں رکھیں اور ابو کو اور ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ بے حد محبت!!!
***
آپ علیزے نجف کا لیا گیا یہ انٹرویو بھی ملاحظہ فرمائیں: تربیت درست نہ ہو تو شخصیت وجود میں نہیں آسکتی: ڈاکٹر اسلم پرویز
***

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے